"ہم" کی ادبی حیثیت

السلام علیکم
ادب کی باریکیوں سے واقفیت رکھنے والے احباب سے درخواست ہے۔ کہ وہ بتائیں "میں" کی جگہ "ہم" لفظ کے استعمال کی ادبی حیثیت کیا ہے۔
"ہم" عام طور پر جمع کےلئیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً ، "ہم" نے سیر پر جانے کا ارادہ کیا۔
اس جملے میں متعدد لوگوں کے سیر پر جانے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے۔
لیکن کوئی ایسا بھی ہوتا ہے۔ جو اپنے انفرادی کام کو "ہم" سے بتاتا ہے، جیسا کہ بادشاہوں وغیرہ کے جملے ۔ "ہم" خوش ہوئے۔ وغیرہ
اب اس مغالطے والے انداز بیان کی ادبی پیمانے پر کیا حیثیت ہے؟
کیا "میں" کا استعمال غیر ادبی یا کمتر درجہ کا ادب ہے "ہم" کے مقابلہ میں یا پھر "ہم" کا استعمال، مجہول، مغالطہ آمیز، یا پھر کچھ اور ہے۔؟
امید ہے آپ حضرات میرے مدعا کو سمجھ کر اسکے مطابق جواب مع کچھ حوالہ جات کے عنایت فرمانے کی مہربانی کریں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عام طور پر 'میں' کی جگہ 'ہم' اناپرستی سے بچنے کیلیے استعمال کیا جاتا ہے، اور تھوڑا سا 'غیر ادبی' بھی سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اگر کوئی بہت زیادہ میں استمعال کرے تو کہا جاتا ہے کہ کیا 'میں میں' کر رہا ہے۔

اور اسکے بر عکس، اپنی شان بیان کرنے کیلیے بھی استعمال ہوتا ہے، یہ قرآنی انداز ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ اپنے آپ کیلیے صیغۂ واحد کی جگہ صیغۂ جمع استعمال کیا ہے، مذکورہ آیات کے حوالے آپ کو ڈھونڈنے سے مل جائیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
وارث بھائی دنیاوی بادشاہ اپنے لیے ہم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہ (اللہ) تو بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہے۔
 
جزاک اللہ
قراٰنی اسلوب سے قطع نظر اردو ادب میں اسکا استعمال، بہت سمجھا جاتا ہے یا کمتر ، اگر کچھ اس کے متعلق نمایاں ادبی شخصیتوں کی آراء تک راہ نمائی فرماسکیں تو بہت اچھا ہوگا۔ بزعم خود اپنی ذات میں خود کو انجمن جاننے والوں کا اسکا استعمال بہتر ادبی لفظ کے سہارےکرنے پر مصر ہونا نے بہت پریشان کررکھا ہے۔ اور اپنا یہ حال کہ ادب کس پاجامے کا نام یہی نہیں جانتے۔ صرف اتنا سمجھتا ہے جو بات آسانی اور اچھے طریقہ سے سمجھ میں آجائے یا سمجھا دی جائے وہی ادب ہے۔
 
آفاق بھائی آپ سے ادب کی انوکھی تعریف سن رہا ہوں ورنہ ابھی تک میری محدود علم میں یہ بات تھی کہ ادب معاشرے کا آئینہ دار ہے۔ اسی لئے عموماً فکشن کو ادب کہنے میں لوگوں کو تامل ہوتا ہے جبکہ سماجی مسائل، معاملات، رواج اور وسائل کا احاطہ کرنے والے نظم اور نثر ادب کہلاتے آئے ہیں۔ ادب کا مزاج وقت اور جگہ کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ رہا سوال ہم اور میں کا تو وارث بھائی نے اس کے حوالے سے ایک فقرے میں سیر حاصل بات کہہ دی ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی اپنی اپنی رائے ہے کچھ اسے صحیح قرار دیں گے کچھ غلط پر کس کو صحیح تسلیم کریں اور کس کو غلط اس بات کا تعین کون کرے؟ میرے نزدیک جس معاشرے میں واحد کے لئے بھی ہم بولنے کا اسلوب رائج رہا ہے وہاں کے لئے وہی فصیح ہے خواہ اس کے اسباب کچھ بھی ہوں۔ مثلاً لکھنؤ کی نوابی اردو میں یہ چیز پوری شدت سے پائی جاتی تھی۔ اور نوابوں کی زبان اور اسلوب کا مخرج طوائفوں کے کوٹھے تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ حضرات اپنی ساری ادب و ثقافت وہیں سے مستعار لتے تھے۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے خیال میں یہ تہذیبی مسئلہ ہے۔ یعنی بعض تہذیبوں میں ہم بولا جاتا ہے اور بعض میں "میں"۔ جیسے کسی نے غالب سے پوچھا تھا کہ لکھنو میں میرا جوتا بولا جاتا ہے اور دہلی میں میری جوتی تو صحیح کیا ہے۔ غالب نے کہا جب آپ لکھنو میں ہوں تو صحیح میرا جوتا ہے اور دہلی میں ہوں تو صحیح میری جوتی۔ دراصل ہر زبان اپنے مقام کے لحاظ سے اپنا لہجہ اور اندازِ بیان بدلتی ہے۔ اس لئے میرے خیال میں یہ ایک تہذیبی تنوع کا حسن ہے اس کا ادب سے تعلق نہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
میرے خیال میں یہ تہذیبی مسئلہ ہے۔ یعنی بعض تہذیبوں میں ہم بولا جاتا ہے اور بعض میں "میں"۔ جیسے کسی نے غالب سے پوچھا تھا کہ لکھنو میں میرا جوتا بولا جاتا ہے اور دہلی میں میری جوتی تو صحیح کیا ہے۔ غالب نے کہا جب آپ لکھنو میں ہوں تو صحیح میرا جوتا ہے اور دہلی میں ہوں تو صحیح میری جوتی۔ دراصل ہر زبان اپنے مقام کے لحاظ سے اپنا لہجہ اور اندازِ بیان بدلتی ہے۔ اس لئے میرے خیال میں یہ ایک تہذیبی تنوع کا حسن ہے اس کا ادب سے تعلق نہیں۔

بجا فرمایا ۔ دونوں طرح کا استعمال درست ہے۔ ادبی تحریر میں واحد متکلم کے لئے “ہم“ کا استعمال مخصوص سیاق و سباق اور پس منظر کے حوالے سے کیا جاسکتا ہے۔
 
Top