ہم کو نسبت نہیں ہے میر سے کیا؟

آصف شفیع

محفلین
ایک غزل احباب کی خدمت میں:
نکل آئے ہو تم شریر سے کیا؟
بحث کرتے ہو پھر ضمیر سے کیا؟
ناقدان سخن خفا کیوں ہیں؟
ہم کو نسبت نہیں ہے میر سے کیا؟
سانپ نفرت کا ڈس چکا سب کو
لگے بیٹھے ہو اب لکیر سے کیا؟
جو بھی دینا ہے، دان کر ڈالو
پوچھتے ہو بھلا فقیر سے کیا؟
اپنا ترکش ہٹا کے کہتے ہیں
جان جاتی ہے ایک تیر سے کیا؟
ہاں، میاں جاؤ، راہ لو اپنی
تم کو لینا ہے اس حقیر سے کیا؟
ہم تو اپنے جنوں ہی میں گم ہیں
ہم کو رانجھا سے کیا ہے؟ ھیر سے کیا؟
بہتے رہتے ہیں رات دن آصف
تیری آنکھوں سے سرخ نیر سے کیا
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے آصف۔ لیکن مقطع میں نیر‘ بمعنی آنسو استعمال ہوا ہے، جب کہ یہ صرف پانی ہوتا ہے۔ اور نہر کہا تو جا سکتا ہے، لیکن یہاں جمع کا صیغہ ہے، وہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ’نیر سا کیا‘ درست ہوتا ہے۔
 

آصف شفیع

محفلین
مجھے بھی اس پر ڈاؤٹ تھا۔ اس لیے آپ لوگوں کی راءیے لے رہا ہوں۔ لیکن کسی شاعر نے "نیر بہائے" استعمال کیا ہے ۔ مشہور شعر ہے۔ دوستوں کی رائے درکار ہے۔
 

آصف شفیع

محفلین
خون کے آنسو روئے
ندیوں نیر بہائے

کچھ اس طرح سے لوگوں نے استعمال کیا ہے۔ لیکن مجھے ابھی تک اس کے استعمال سے متعلق کوئی مستند شعر نہہں ملا۔ نیر پانی کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے۔ لیکن کیا س کی جمع ہو سکتی ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
نہیں، اس کی جمع نہیں ہو سکتی۔ ویسے لوگ ’پانیوں‘ بھی استعمال کرتے ہیں، لیکن ’نیروں‘ کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔
 
Top