ہم نکلے سدھر جانے۔(ایک مزاحیہ اور دلچسپ کہانی)

ہم نکلے ’’سُدھر‘‘جانے
کھڑے کھڑے ہمیں اپنے پاؤں ٹن بھرکے لگنے لگے، مگر ’’پی۔ون‘‘ تھی کہ آکر ہی نہیں دے رہی تھی۔
ان بسوں کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہوتا ہے، ’’پی۔ ون‘‘ کا انتظار کرو تو ’’پی۔ تھری‘‘ آتی دکھائی دیتی ہے اور ’’پی۔ تھری‘‘ کا انتظار کرو تو ’’پی۔ون‘‘ آتی نظر آتی ہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے، ہمیں ’’عائشہ منزل‘‘ جانا تھا، ’’پی۔ تھری‘‘ کا انتظار کر رہے تھے، تین ’’پی ونیں‘‘ گزر گئیں، پھر جاکر ’’پی۔ تھری صاحبہ‘‘ تشریف لائیں۔
اور آج جب کہ ہم ’’پی۔ ون‘‘ کی زیارت کو ترس رہے تھے دو ’’پی۔ تھریاں‘‘ گزرگئی تھیں،
ہمیں شدید غصہ آنے لگا۔(نہ جانے کس پر؟)
حالاں کہ اس وقت ہم بڑے اہتمام سے سدھرجانے کے لیے نکلے تھے۔
جی جناب…! صحیح پڑھا آپ نے… ہم اس وقت ’’صدر‘‘ جانے کے لیے نہیں، بل کہ ’’سُدھر‘‘ جانے کے لیے نکلے تھے۔
دراصل کل جب ہم نے اپنے ایک شناسا سے اپنی عادتوں کے مسلسل بگڑتے چلے جانے کی بات کی تو انھوں نے ہمیں ایک مخلصانہ مشورہ دیا کہ ہم بہادرآباد میں ایک بزرگ کے بیان میں جاکر شریک ہوا کریں، پھر انھوں نے ہمارے سامنے ان بزرگ اور ان کے بیان کی تعریف کے وہ پل باندھے کہ ہم سے رہا نہ گیا۔
’’کس دن ہوتا ہے ان کا بیان؟‘‘ ہم نے بڑی بے تابی سے پوچھا تھا۔ساتھ ساتھ ہم چنے بھی کھارہے تھے۔
’’منگل کے دن۔‘‘
’’کتنے بجے ہوتا ہے؟‘‘ ہم نے ایک عدد چنا ہاتھ سے منہ کی جانب اچھال کر اسے ہونٹوں سے ’’کیچ‘‘ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’نو بجے شروع ہوجاتا ہے، پھر ختم ہوتے ہوتے کبھی ساڑھے دس بجتے ہیں تو کبھی گیارہ۔‘‘
’’ہوں…!!‘‘ ہم نے عزمِ مصمم کرکے نیچے دیکھتے ہوئے اثبات میں اپنا سر ہلادیا۔
’’اس منگل کو تو میرا جانا مشکل ہے، البتہ اگلے منگل کو جائوں گا، تم بھی ساتھ چلے چلنا میرے۔‘‘ انھوں نے کہا، مگر ہم نے جواباً عرض کیا:
’’میں تو اسی منگل کو چلا جائوں گا۔‘‘ ہم نے دونوں ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا، کیوں کہ چنے ختم ہوچکے تھے۔
چناں چہ آج ہم پوری تیاری کے ساتھ ’’سدھر‘‘ جانے کی نیت سے پورے آٹھ بجے بس اسٹاپ پر کھڑے ’’پی۔ ون‘‘ کا انتظار کر رہے تھے۔
’’بھائی صاحب…!‘‘ ہم نے اپنے برابر کھڑے ایک صاحب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
’’ارے آپ…!‘‘ وہ دیکھتے ہی جیسے پہچان گئے۔
’’جی کیا مطلب؟‘‘ ہم حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے، کیوں کہ ہم نے تو ویسے ہی کچھ پوچھنے کے لیے انھیں مخاطب کیا تھا، اب ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ ہمیں پہچان جائیں گے۔
’’آپ سر رفیق کے بیٹے ہیں نا؟‘‘ انھوں نے مسکراتے ہوئے اپنے ذہن پر ہلکا سا زور دیتے ہوئے پوچھا۔
’’جج… جی… م… مگر… آپ کون…؟‘‘ ہم ساتھ ساتھ بسوں کی طرف بھی دیکھتے جارہے تھے کہ کہیں ایک اجنبی شناسا کے عوض ہم اپنی مطلوبہ بس سے محروم نہ جائیں۔
’’آپ کے والد صاحب ہمارے ٹیچر ہیں۔‘‘ انھوں نے بتایا۔
’’بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر!‘‘ ہم نے آتی ہوئی گاڑی کی جانب دیکھتے ہوئے ’’سَرسَری‘‘ انداز میں ان سے کہا۔
’’آپ کچھ پوچھ رہے تھے۔‘‘ اس نے ہمیں اچانک یاد دلایا۔
’’ہاں … جی… وہ … ہم پوچھ رہے تھے کہ کیا یہاں سے ’’پی۔ ون‘‘ گزرتی ہے؟‘‘
’’جی ہاں، پی ون گزرتی ہے یہاں سے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد وہ صاحب کہنے لگے:
’’یہ لو جی، آگئی آپ کی ’’پی۔ ون‘‘۔‘‘ اس نے ہمیں مسکراتے ہوئے بتایا۔
ہمیں ہنسی آگئی، ابھی تو ہم نے اس پر سفر بھی شروع نہیں کیا اور یہ حضرت اسے ہماری ’’پی۔ون‘‘ بتارہے ہیں۔
اور پھر ہمارے سُدھرنے کے امکانات قریب آنے لگے، یعنی وہ بس ہمارے نزدیک آئی، ہم بسم اللہ پڑھ کر اس میں سوار ہوگئے، ابھی ہم سواری کی دعا پڑھ ہی رہے تھے کہ پیچھے سے آواز آئی:
’’ایک بات سنتے جائیں۔‘‘
ہم نے پیچھے مڑ کر باہر کی جانب دیکھا تو ہمارے ابو کے شاگرد ہونے کا دعویٰ کرنے والے حضرت بس کے ساتھ ساتھ ہی چلتے ہوئے آرہے تھے۔
’’جی فرمائیے؟‘‘ ہم نے بس کا ڈنڈا پکڑے قدرے جھک کر پوچھا۔
’’سر رفیق صاحب کو میرا سلام دیجیے گا۔‘‘ انھوں نے چلتے چلتے کہا۔
’’جی ٹھیک ہے، ان شاء اللہ۔‘‘ ہم نے کہا۔ جھکے رہنے کی وجہ سے ہم کافی مشقت میں آگئے تھے، ابھی ہم سیدھے ہونے ہی لگے تھے کہ وہ صاحب بس کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے پھر بولے:
’’سر رفیق سے کہیے گا کہ دانش آج رات دس بجے آپ کو فون کرے گا ٹیوشن کے سلسلے میں۔‘‘
’’جی ٹھیک ہے۔‘‘ ہم نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
ہمیں اب بس ڈرائیور پر غصہ آنے لگا تھا۔ اللہ کا بندہ اتنی سست رفتاری سے چلارہا تھا کہ وہ دانش صاحب بس کے ساتھ ساتھ بڑے آرام سے ابھی تک دوڑتے ہوئے آرہے تھے اور ہمیں مسکراتے ہوئے دیکھے جارہے تھے۔
خیر… اللہ اللہ کرکے بس کی رفتار ہلکی سی تیز ہوئی اور دانش صاحب نے رک جانے میں عافیت جانی۔ ہم ایک خالی سیٹ پر جابیٹھے۔
بس چلتے چلتے اور ہم بس میں ہلتے ہلتے لسبیلہ تک پہنچ گئے، لسبیلہ پہنچ کر بس رک گئی۔
چوں کہ یہ رک جانا معمول کے مطابق تھا ، اس لیے مسافر حضرات اپنی اپنی سوچوں میں ہی مگن رہے۔
مگر پھر اچانک ہم نے محسوس کیا کہ مسافروں میں بے چینی پھیل رہی ہے۔
’’ٹھک ٹھک…!‘‘ ہمارے آگے والے نے اپنی انگوٹھی کو بس کی چھت پر بجایا۔
’’دھب دھب…!‘‘ ہمارے پیچھے والے نے اپنے ہاتھ سے کھڑکی کے اوپر والے حصے کو پیٹا۔
پھر تو سبھی شروع ہوگئے، ہم نے حیرت سے ڈرائیور کی جانب نظر دوڑائی تو حیرت دوگنی تگنی ہوگئی، ڈرائیور کی سیٹ خالی تھی، ہم نے باہر کی جانب دیکھا تو ہماری حیرت چوگنی پنج گنی ہوگئی، ڈرائیور صاحب فٹ پاتھ پر اکڑوں بیٹھے بڑے انہماک سے اخبار پڑھ رہے تھے۔
’’دھڑ…دھڑ…ڑڑ!‘‘ اس بار ہماری طرف والی کھڑکی بجی تھی، کسی اور نے نہیں، بل کہ بے اختیار ہمارے ہاتھوں نے ہی بجائی تھی۔
لیکن پھر اچانک ہمیں خیال آیا کہ ہم تو سدھرنے کے لیے نکلے ہیں، ہوسکتا ہے یہ اللہ میاں کی طرف سے ہمارے لیے آزمائش کی گھڑیاں ہوں۔
یہ سوچتے ہی ہم نے ٹھان لی کہ چاہے کچھ ہوجائے ہم صبر کے دامن کو ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیں گے۔
مگر صبر کا دامن تقریباً سات یا آٹھ منٹ تک ہمارے ہاتھ میں رہا، پھر ہمارا پیمانۂ صبر لب ریز ہونے لگا، بل کہ چھلکنے لگا اور اتنا چھلکا کہ ہم اچھل کر بس سے باہر آگئے۔
اور سیدھے ڈرائیور صاحب کے سامنے جاکر رکے، اب ہمارے اور ڈرائیور کے درمیان صرف ایک چیز تھی، ایک عدد اخبار، جس میں روزانہ کی وارداتیں لکھی ہوتی ہیں۔
شاید کل کے اخبار میں ایک اور واردات کا اضافہ ہوجائے جو عن قریب ہمارے اور اس اخبار کے دوسری طرف بیٹھے ڈرائیور صاحب کے درمیان وقوع پذیر ہونے ہی والی تھی۔
ہم غصے سے کانپنے کے قریب قریب والی کیفیت میں تھے، جب کہ ڈرائیور صاحب اس قدر پُرسکون نظر آرہے تھے کہ اگر ہم کسی ملک کے صحافی ہوتے تو اپنے ملک کے اخبار میں ایک مضمون چھپواتے جس کا نام ہوتا: ’’پاکستان کے پُرسکون لوگ‘‘ اور سب سے پہلے اس ڈرائیور کا نام بمع اس کے آٹوگراف کے لگواتے۔
اچانک ہمارے دل میں وہی خیال آیا کہ ہم تو سدھرنے کے لیے نکلے ہیں، اس ڈرائیور سے جھگڑا ہمارے سدھرنے میں بہت بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے، تو تکار کے بعد دھول دھپے میں اگر ہم اسے زخمی کریں گے تو ہمیں بھی بجائے بیان میں شرکت کرنے کے کسی قریبی ہسپتال جانا پڑے گا اور یوں ہم بیان سے محروم ہوجائیں گے اور اگر بیان نہ سنیں گے تو سدھریں گے کیسے؟
اس سوچ کے ساتھ ہی کسی روبوٹ کی طرح ہم وہاں سے پلٹے اور سیدھے ایک رکشے والے کے پاس جاکر بریک لگائی۔
رکشے والے سے معاملہ طے کرکے ہم رکشے میں بیٹھے ، رکشا اسٹارٹ ہوا اور جوں ہی تھوڑا آگے بڑھا، ہمیں وہی بس اسٹارٹ ہوتی نظر آئی جس سے ہم اتر کر آرہے تھے اور یہی نہیں ، بل کہ تھوڑی دیر بعد بے اختیار ہمارے منہ سے نکلا:
’’دھت تیرے کی…!!‘‘ہمارا نیچے والا ہونٹ اوپر کے دانتوں کے نیچے دبتا چلا جارہا تھا، کیوں کہ اب وہ بس آگے آگے اپنی مخصوص رفتار سے جارہی تھی اور ہمارا رکشا اس کے پیچھے نہ چاہتے ہوئے بھی اسی کی رفتار کے مطابق چل رہا تھا۔
کیوں کہ یہ سڑک تنگ تھی، تقریباً چار یا پانچ کلومیٹر تک بدستور تنگ ہی چل رہی ہے۔
اس پوری سڑک پر ہمارا رکشا اس بس کے ساتھ ساتھ رہا، بہرحال اللہ اللہ کر کے ٹھیک نو بجے ہم اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئے، مگر یہ کیا! مسجد تو بالکل خالی تھی۔
یہ منظر دیکھ کر ہمارا ماتھا ٹھنکا اور ہمارے ذہن میں ان شناسا صاحب کے یہ الفاظ گھومنے لگے:
’’ماشاء اﷲ! ان کے بیان میں اتنا مجمع ہوتا ہے کہ مسجد کے باہر پارکنگ کے لیے جگہ تنگ پڑجاتی ہے۔‘‘
خیر ہم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک صاحب مسجد میں پونچھا لگا رہے تھے، جب کہ ان کے علاوہ مسجد میں صرف ہم تھے۔
’’السلام علیکم!‘‘ ہم نے ان صاحب کے قریب پہنچ کر انھیں سلام کیا تو وہ رک کر ہماری طرف متوجہ ہوئے:
’’وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ و برکاتہ!‘‘ انھوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ ہمارے سلام کا مکمل جواب دیا اور پھر پوچھنے لگے:
’’جی فرمائیے۔‘‘
’’جج … جی … وہ … بب … بیان…‘‘ ہمارے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا۔
’’کون سا بیان؟ ‘‘ انھوں نے آنکھیں پٹ پٹائیں۔
’’وہ جو نو بجے بیان ہوتا ہے یہاں۔‘‘
’’نو بجے…؟‘‘ انھوں نے حیرت سے کہا۔
’’اوہ… اچھا…مگر بھائی صاحب! وہ تو رات کے نو بجے ہوتا ہے۔‘‘ انھوں نے سب کچھ سمجھ جانے والے انداز میں کہا۔
’’دھت تیرے کی…!‘‘ کہہ کر ہم نے ایک لمبی سانس لی۔
مگر پھر دل میں سوچا کہ یہ بھی ایک آزمائش ہے، ہمیں اگر سدھرنا ہے تو اپنے عزم پر جمنا ہوگا، ہم نے جی کڑا کر کے کہا:
’’ٹھیک ہے… کوئی بات نہیں… میں آج ویسے بھی فارغ ہوں… رات تک اس مسجد میں قرآن کی تلاوت اور دوسرے اعمال وغیرہ کرلوں گا۔‘‘
ہم سمجھے وہ ہمیں روکنے کی کوشش کریں گے، مگر وہ تو ہمیں دیکھ کر مسلسل مسکراتے جارہے تھے۔
’’آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟‘‘ ہم نے بھنویں سکیڑیں۔
’’بہتر ہے آپ گھر چلے جائیں۔‘‘ انھوں نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا۔
ہم انھیں گھورنے لگے اور دل ہی دل میں کہنے لگے کہ یہ بھی ہمارے لیے آزمائش بن رہا ہے، مگر ہم بھی کم زور نہیں ہیں۔
’’کیوں بھئی! میرے رات تک مسجد میں ٹھہرنے سے آپ کو کیا تکلیف ہے؟‘‘ ہمارے لہجے میں ہلکی سی تلخی آگئی تھی۔
’’بھائی صاحب! بیان رات کو نو بجے تو ہوتا ہے، مگر منگل کے دن ہوتا ہے اور آج تو پیر ہے۔‘‘ انھوں نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہیں… ں… ں…! دھت تیرے کی…!!‘‘ ہم نے پیشانی پر ہاتھ مار کر کہا، ہمارا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔
:):):):p :):):)
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب داستان لکھی ہے محترم سرسری بھائی
اللہ تعالی آپ کے لیئے آسانیاں پیدا فرمائے آمین
 
بہت خوب داستان لکھی ہے محترم سرسری بھائی
اللہ تعالی آپ کے لیئے آسانیاں پیدا فرمائے آمین
ایک سال پہلے میں نے اپنے شمارے میں شائع کرنے کے لیے یہ مزاحیہ تحریر لکھی تھی، اب سوچا یہاں پیش کردوں۔
پسند کرنے کے شکریہ جناب۔:)
 
Top