ساغر صدیقی ہم فقیروں سے گفتگو کر لو

آبِ انگور سے وضو کر لو
دوستو! بیعتِ سبو کر لو

گُر بتا دیں گے بادشاہی کے
ہم فقیروں سے گفتگو کر لو

ان سے ملنا کوئی محال نہیں
ان سے ملنے کی آرزو کر لو

دو قدم رائیگاں ہوئے تو کیا
دو قدم اور جستجو کر لو

جشنِ رازِ حیات میں ساغرؔ
چار دن تم بھی ہاؤ ہُو کر لو



ساغرؔ صدیقی
 

محمداحمد

لائبریرین
دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے آج سے پہلے تک صرف یہی شعر سنا تھا اور وہ بھی الٹا۔ :)

یہ شعر زیادہ مقبول ہے۔

ہم فقیروں سے دوستی کر لو
گُر سکھا دیں گے بادشاہی کا

:)

ویسے شاعر تو قافیہ ردیف کا پابند ہوگا۔ ورنہ زیادہ اچھا شعر یہی لگ رہا ہے۔ :)
 
یہ شعر زیادہ مقبول ہے۔

ہم فقیروں سے دوستی کر لو
گُر سکھا دیں گے بادشاہی کا

:)

ویسے شاعر تو قافیہ ردیف کا پابند ہوگا۔ ورنہ زیادہ اچھا شعر یہی لگ رہا ہے۔ :)
جی، دراصل شاعر جلد باز فقیر ہے، جو صرف گفتگو میں ہی گُر بتا دیتا ہے۔
تبدیلی کرنے والے نے تھوڑا مشکل کر دیا ہے گُر سیکھنا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
جی، دراصل شاعر جلد باز فقیر ہے، جو صرف گفتگو میں ہی گُر بتا دیتا ہے۔
تبدیلی کرنے والے نے تھوڑا مشکل کر دیا ہے گُر سیکھنا۔ :)

دراصل شاعر یہ گُر کی بات جانتا ہے کہ اصل بادشاہی، بادشاہی نہیں فقیری ہے۔ ممکن ہے کہ شاعر بھی یہ گُر چار پل کی گفتگو میں نہیں دینا چاہ رہا ہو اور دوستی کا ہی متمنی ہو لیکن ہائے رے قافیے کی مجبوری کہ اُسے دوستی کے لئے بھی گفتگو کا سہارا لینا پڑا۔

جہاں قافیہ ردیف شاعر سے بہت اچھے اچھے خیالات رقم کروا دیتے ہیں وہیں کبھی کبھی یہ بندشیں بہت اچھے خیالات کی کتربیونت کرکے اُن کے حُسن کو گہنا بھی دیتی ہیں۔
 
Top