ہم رہے یا نہ رہے راہ دکھا دی ہم نے

انٹرنیٹ کے حوالے سے میری رائے ہے کہ یہ گفتگو اور تعلقات کا ایک کمزور زریعہ(Weak medium)ہے جس میں آپ کو بہت جلد یہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ جس سے آپ کی گفتگو ہو رہی ہے ، آپ اس کی شخصیت سے اس طور واقف بھی ہیں ؟ جتنا عام زندگی میں ہم اپنے ملنے جھلنے والوں سے ہوتے ہیں ۔
 
یعنی میں اپنے پڑوسی سے ایک زمانے سے واقف ہوں ۔ دن میں ایک دو بار بلمشافہ ملاقات بھی ہوتی ہے مزاج سے بھی آشنا ہوں ، قد کاٹھ بھی جانتاہوں اسکے فہم و دانش ( intellect) کا بھی اندازہ ہے لہذا جب میری اپنے پڑوسی سے بات ہوگی تو میں اسکی ذہنی سطح
Intellectual level
کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کی بات کو سمجھوں گا بھی اور اپنی بات بھی اسی معیار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرونگا۔ یہی وہ تمام چیزیں ہیں جو کم از کم انٹر نیٹ پر میسر نہیں
 
لہذا ہم چند بنیادی تصورات کے زیرِ اثر لوگوں سے گفتگو اور معاملات طے کرتے ہیں ۔ یعنی انٹر نیٹ پراگر کسی کو منصبِ استادی پر فائز کیا جائے توہم یہ از خود تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہمارا سامنا ایسے رویے سے ہوگا جو عام زندگی میں اساتذہ کا ہوتا ہے
 
اسی طرح تلامذہ کے حوالے سے بھی "اساتذہ" کے ذہن میں ایک خاص نقشہ پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے ۔ پھر اپنے اپنے اسی تصوراتی خاکے میں رنگ بھرنے کی کوشش میں مصروف ہر دو طبقہ کے افراد تعلقات کا سفر طے کرنا شروع کریتے ہیں
 
کچھ اساتذہ اپنے حلیمانہ مزاج کی موافقت سے ، اصلاح اور حوصلہ افزائی سے کام لیتے ہوئے تلامذہ کے نزدیک ہو جاتے ہیں ۔ اس مزاج کو پیش آنے والی مشکلات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کا "تصوراتی نقشہء تلامذہ"اس وقت چکناچور ہو جاتا ہے جب ان کا تصوراتی "باادب شاگرد" اچانک "بے تکلف دوست" کی طرح برتاؤ کرنا شروع کر دیتا ہے۔
 
مقابلے میں وہ "اساتذہ" جو عواملِ بیرونی یا طبعی میلان اور ذہنی ساخت کی بنیاد پر"شاگردوں" کی تضحیک، ہتک اور بعض اوقات گالیوں تک پر اتر آتے ہیں ، ان کی مشکلات بھی عجیب ہوتی ہیں یعنی وہ تو اپنے تئیں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ گویا گاؤں میں کسی نیم کے درخت کے نیچے اونچی چارپائی پر بیٹھے ، ہاتھ میں چھڑی، سرپہ پگڑی، ٹانگ پر ٹانگ رکھے سامنے دری پر بیٹھے بچوں سے خطاب فرما رہے ہیں ۔ کبھی کسی ایک کو مرغا بنایا دوسرے کو پاؤں دابنے مجبور کیا تیسرے کے سر پر چھڑی سے ضرب لگائی ، کسی پر جملہ کسا ، کسی پر لطیفہ کہا ۔ ان کی نظر میں سب بچوں کی ذہنی سطح ایک جیسی ہی ہوتی ہے
 
جبکہ دوسری طرف معاملہ بلکل مختلف ہوتا ہے میاں "شاگرد" جو پہلے ہی آزاد خیال واقع ہوئے تھے اوپر سے علم کی فراوانی نے انہیں اور بھی استاد سے بے نیاز کر دیا تھا ۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے بہت سی اخلاقی بندشوں سے آزاد تھے ناواقفیت کا پردہ اور بیچ میں پڑ گیا ، لیجیے صاحب ھتے سے اکھڑ گئے، کیسی تعظیم ، کہاں کا استاد، کون سی روائت ، نتیجہ یہ نکلا کہ استاد سے ہی تو تو میں میں شروع ہوگئی۔
 
اصولی طور سے یہ دونوں رویے انتہائی نا مناسب ہیں ہر دو طبقے کے افراد کو سمجھنا چاہیئے کہ بہرحال وہ ایک دوسرے سے مکمل طور سے واقف نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ دوسرا فریق ان کی توقعات کے مطابق ہی ثابت ہو۔
 
"شاگردوں" کے طبقے کو یہ بات سمجھنا چاہیئے کہ اگرانہوں نے یہ طوقِ شاگردی اپنی منکسرالمزاجی یا کسی روائت کی پاسداری میں اپنے گلے ڈالا ہے تو اس روائت کا حصہ یہ بھی ہے کہ " خطائے بزرگاں گرفتن خطا است" لہذا اگر "استاد" کی نظر آپ کے کسی حساس اور لطیف پہلو پر نہیں پڑتی تو اس بات پر "استادِ محترم" کی پکڑ نہ کی جائے اور نہ ہی ان کی حسِ لطافت کو حدفِ تنقید بنایا جائے بلکہ " خطائے بزرگاں۔۔۔۔۔" سمجھ کر آگے بڑھ جانا چائیے
 
دوسری طرف اساتذہ کے طبقے کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ منصبِ استادی کی روایائت کو پائمال نہ ہونے دیں بلکہ تلامذہِ جدیدہ کیلئے دل کی راہیں کشادہ کریں ۔ اور جماعتِ تلامذہ کی اس متغیرالحال کیفیت کو سمجھتے ہوئے نیم کے درخت والے تصورات سے باہر آجائیں اور اس "اخلاقی شاگردی" کے دائرے میں موجود تمام افراد کو یکساں بے توقیر سمجھنے کی غلطی نہ کریں معاملہ "الاعتدال في مراتب الرجال" کے اعتبار سے رکھیں ۔ اگر انٹر نیٹ کی دیوارِ ناواقفیت درمیاں میں حائل ہے تو کوئی ایسا طریقہ متشکل کریں جو ہر خاص و عام کے لیے قابلِ قبول ہو اور ان کی عزتِ نفس نقصان سے محفوظ رہے ۔
 
اپنی ان گزارشات کے سلسلے میں ، مجھے امید ہے کہ آپ میری ان گزارشات کو نظر انداز نہیں کریں گے ۔ اس سلسلے میں ، میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں کہ مجھے اس پر مزید گفتگو سے بچائے، اور میرے ظرف کو مزید نہ آزمائے۔

ع۔
گرمیِ فریاد سے ہے خاک آئینہ صفات
اب برابر کا ہی سمجھے آئینہ خانہ مجھے۔۔۔


وسلام۔۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ان کے گنے چنے مراسلوں سے یہی لگتا ہے کہ یہ عرفان صدیقی صاحب شاید وارد ہی آسمان پہ تھوکنے کے لیے ہوے تھے اور اپنے ہی رخِ بےادب پر اپنا ہی لعبِ ملامت لے کر کسی کونے میں جا چھپے ہیں۔ یا کوئی پرانا پاپی نام بدل کر اپنی اوقات دکھا رہا ہے

تمام محفلین خصوصاً اہلِ ادب جانتے ہیں کہ اساتذہ کی قدروقیمت کیا ہے۔ اس لیے اصلاحِ سخن میں حاضر لوگوں نے کبھی اساتذہ کی نقد و نظر اور کڑوی تنقید پر بھی۔ ایسی گھٹیا گفتگو نہیں کی وہ بھی بغیر کسی دلیل کے

جن کو جوہری کی تراش خراش پسند نہیں انہیں اساتذہ کو زحمت ہی نہیں دینی چاہیے۔ یہ ایک سادہ سا اصول ہے۔ وہ اپنے خول میں خوش رہیں جو لوگ اپنا کلام اصلاح کے لیے پیش کرتے ہیں اور مخصوص اساتذہ کو مخاطب کرتے ہیں ان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ اساتذہ کو ہی سکھانا شروع کر دیں کہ کیسے تنقید اور اصلاح کی جاتی ہے۔ اور وہ بھی ان اساتذہ کو جنہیں جمعہ جمعہ چار دن نہیں ہوئے بلکہ ان کے بال سفید ہوگئے ان عرق ریزیوں میں۔۔۔ ایک آدمی جب مفت کی شاگردی اختیار کر کے کسی کو استاد تسلیم کرلے تو اسے استادوں کے ساتھ استادی نہیں کرنی ہوتی بلکہ سننا سمجھنا ہوتا ہے۔۔۔ ۔ ۔ یا حیرت۔ اللہ ہی ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین

استادِ محترم محمد یعقوب آسی صاحب آپ اس نوارد کی گھٹیا باتوں پر نالاں نہ ہوئیے گا تاکہ ہم جیسے مبتدیوں کی حق تلفی نہ ہو جائے۔ بہت نوازش
 
آخری تدوین:
استادِ محترم محمد یعقوب آسی صاحب آپ اس نوارد کی گھٹیا باتوں پر نالاں نہ ہوئیے گا تاکہ ہم جیسے مبتدیوں کی حق تلفی نہ ہو جائے۔ بہت نوازش

بہت شکریہ میرے سارے دوستوں کا، اور خاص طور پر جناب ادب دوست کا جنہوں نے بہت متوازن اور مدلل انداز اختیار کیا۔ میں اتنی ساری قدر افزائی پر آپ سب کا ممنون ہوں۔
 
خاصے طویل عرصے سے آپ احباب کے ساتھ ہوں، دھیرے دھیرے مزاج آشنائی کی سی صورت بھی (نامکمل ہی سہی) بن گئی ہے۔ ادھر میرے ساتھ مسئلہ یہ ہوا کہ تھوڑا بہت ہی سہی، جوں جوں میں ذرہ ذرہ جانتا گیا، مجھے پتہ چلتا گیا کہ "میاں! تم کچھ بھی نہیں جانتے"۔ فن پاروں پر بات کرتے ہوئے (آپ بھی گواہ ہیں کہ) میں فنکار کو صرف اس حد تک یاد رکھتا ہوں کہ میرے علم کے مطابق اس کا فنی سفر کتنا ہے اور عمومی منظرنامے میں مجھے وہ خود سے آگے نظر آتا ہے یا پیچھے۔ کچھ مثالیں بھی پیش کر دوں کہ مجھے بات کرنا آسان ہو جائے گا۔

۔1۔ زبان و ادب کی باریکیوں کے حوالے سے جناب اعجاز عبید صاحب کا کہا میں نے کبھی نہیں ٹالا اور نہ کبھی ان سے بحث کی ہے۔ انہوں نے جہاں میری کسی رائے کو صاد کیا میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اعتماد بخشا ہے۔

۔2۔ فارسی شعر فہمی اور فارسی ادب سے لگاؤ میں محمد وارث صاحب کی خدمات کا کھلے دل سے قائل ہوں۔ جناب حسان خان کا کہا ترکی اور فارسی دونوں حوالوں سے میرے لئے معتبر رہا ہے۔

۔3۔ سیکھنے کے عمل میں جناب اظہر نذیر اور جناب راجا صاحب کی رفتار دیکھ کر مجھے بہت زیادہ خوشی ہوا کرتی ہے۔

۔4۔ کتنے ہی اور شعبے ہیں! کتنے ہی اور دوست ہیں، جن سے میں نے (عمر اور سفر سے قطع نظر) کچھ نہ کچھ کیا بہت کچھ سیکھا ہے۔ میرے ہر دوست میں کوئی نہ کوئی ایسا وصف ضرور ہے جو اسے دوسرے دوستوں سے ممتاز کرتا ہے۔ میں کیا اور میری "عطا کی ہوئی" سند کیا۔

۔5۔ یہ ضرور ہے کہ میری ترجیحات ہیں۔ اول اسلام، پھر پاکستان، پھر جو کچھ بھی ہو۔ اور میں نے اپنی ترجیحات کا ہمیشہ برملا اظہار بھی کیا ہے۔ تاہم کوشش کی ہے کہ میرا لہجہ تلخ نہ ہونے پائے۔ کہ تلخی اور تضحیک کا عنصر میری اچھی بات کو بھی ضائع کر دے گا۔

ایسے میں اگر کہیں کوئی ایک شخص لاعلمی کی وجہ سے یا اپنے مزاج کے لاابالی پن کی وجہ سے کوئی بات کہہ بھی گیا ہے تو میں اس لکیر کو کب تک پیٹتا رہوں گا۔ یہ ضرور ہے کہ جس جھاڑی کے خاروں کی وجہ سے ایک بار جلن پیدا ہو، بار بار اس سے الجھنا اچھا نہیں لگتا۔ آپ کے دوست "محمد عمران صددیقی" صاحب بھی خوش رہیں۔

فقیر کی کٹیا ایک بار آباد ہو جائے تو آباد ہی رہتی ہے، اجڑنا محلوں اور درباروں کا نصیب ہو تو ہو۔
 
جن کو جوہری کی تراش خراش پسند نہیں انہیں اساتذہ کو زحمت ہی نہیں دینی چاہیے۔ یہ ایک سادہ سا اصول ہے۔ وہ اپنے خول میں خوش رہیں جو لوگ اپنا کلام اصلاح کے لیے پیش کرتے ہیں اور مخصوص اساتذہ کو مخاطب کرتے ہیں ان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ اساتذہ کو ہی سکھانا شروع کر دیں کہ کیسے تنقید اور اصلاح کی جاتی ہے

ایک آدمی جب مفت کی شاگردی اختیار کر کے کسی کو استاد تسلیم کرلے تو اسے استادوں کے ساتھ استادی نہیں کرنی ہوتی بلکہ سننا سمجھنا ہوتا ہے۔۔۔ ۔ ۔ یا حیرت

ابن رضا بھائی، ضروری نہیں کہ بات تلخی سے ہی کی جائے، میری آپ سے گزارش ہے کہ میرے تمام مراسلے جو اس پوسٹ میں ہیں ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں، یہ بھی غور فرما لیں کہ میں نے کس بات کا جواب دیا ہے اور یہ بھی دیکھ لیں کہ کس بات پر پسندیدگی مارک کی ہے اور کس بات پر کوئی مارک نہیں دیا ۔
میری آپ سے ایک مرتبہ پھر گزارش ہے کہ عمران صدیقی صاحب کی باتوں کی وجہ سے غیض میں آکر مجھ سے وہ باتیں منسوب کرنا جو مجھ سے سرزرد نہیں ہوئی ہیں ایک وقتی اور جذباتی بیان تو ہو سکتا ہے مگر میری از سرِ نو گزارش ہے کہ میرے مراسلے اطمینان سے پڑھ لیں اور اسکے جواب میں جو جناب @محمدیعقوب آسی صاحب نے فرمایا ہے اسے بھی دیکھ لیں ۔

نوازش
 

ابن رضا

لائبریرین
ابن رضا بھائی، ضروری نہیں کہ بات تلخی سے ہی کی جائے، میری آپ سے گزارش ہے کہ میرے تمام مراسلے جو اس پوسٹ میں ہیں ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں، یہ بھی غور فرما لیں کہ میں نے کس بات کا جواب دیا ہے اور یہ بھی دیکھ لیں کہ کس بات پر پسندیدگی مارک کی ہے اور کس بات پر کوئی مارک نہیں دیا ۔
میری آپ سے ایک مرتبہ پھر گزارش ہے کہ عمران صدیقی صاحب کی باتوں کی وجہ سے غیض میں آکر مجھ سے وہ باتیں منسوب کرنا جو مجھ سے سرزرد نہیں ہوئی ہیں ایک وقتی اور جذباتی بیان تو ہو سکتا ہے مگر میری از سرِ نو گزارش ہے کہ میرے مراسلے اطمینان سے پڑھ لیں اور اسکے جواب میں جو جناب @محمدیعقوب آسی صاحب نے فرمایا ہے اسے بھی دیکھ لیں ۔

نوازش

قبلہ یہ بے ساختہ ردِ عمل اور لہجے کی تلخی صرف اس نوارد کے لیے ہے۔
تاہم نزیر بھائی جہاں تک بات استادوں کو سکھانے کی ہے کہ انہیں کیا طرزِعمل اختیار کرنا چاہیے کیا نہیں یہ انتخاب اساتذہ کا ہے ہم جیسے مبتدیوں کا نہیں۔ میرا نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی کو استاد مان لیں تو پھر حیل و حجت اور قیل و قال کی کوئی جگہ نہیں پھر صرف تسلیم و رضا ہے۔ ورنہ ہمیں ان سے دور رہنا چاہیے۔ میرا یہ پیغام صرف آپ کے لیے نہیں بلکہ اپنے سمیت ان تمام مبتدیوں کے لیے ہے جو کسی کو بھی استاد منتخب کر کے خود کو نقدونظر کے لیے پیش کرتے ہیں۔ میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو آپ سے معذرت کرتا ہوں۔ سلامت رہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ناچیز آپ کی ادب دوستی کا قائل ہے اور آپ کا قاری ہے
 
آخری تدوین:

شزہ مغل

محفلین
ظاہر سی بات ہے جب کوئی انسان کسی موضوع پر تیسری سطح سے گفتگو کا خواہاں ہو تو یہ مسئلہ آپ سے آپ ختم ہو جاتا ہے کہ وہ شخص کسی طور جانب داری کا مظاہرہ کرے یا کوئی ایسی رائے قائم کرے جو انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کر سکے کیوں کہ ایسی صورت میں رائے کے تار و پود آپ سے آپ ڈھیلے پڑ جائیں گے اور یہ رائے ہوا میں تحلیل ہو جائے گی
بھیا میرے تو سر کے اوپر سے گزر رہی ہیں آپ کی باتیں پھر بھی دیکھیں اتنے غور سے سن رہی ہوں
:daydreaming:
 

شزہ مغل

محفلین
یعنی میں اپنے پڑوسی سے ایک زمانے سے واقف ہوں ۔ دن میں ایک دو بار بلمشافہ ملاقات بھی ہوتی ہے مزاج سے بھی آشنا ہوں ، قد کاٹھ بھی جانتاہوں اسکے فہم و دانش ( intellect) کا بھی اندازہ ہے لہذا جب میری اپنے پڑوسی سے بات ہوگی تو میں اسکی ذہنی سطح
Intellectual level
کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کی بات کو سمجھوں گا بھی اور اپنی بات بھی اسی معیار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرونگا۔ یہی وہ تمام چیزیں ہیں جو کم از کم انٹر نیٹ پر میسر نہیں
ہااااںںں۔۔۔
یہ باتیں سمجھ آ گئی ہیں۔
اسی طرح آسان باتین کیا کریں ناںں بھیا:angel:1
 
Top