ہم رہے یا نہ رہے راہ دکھا دی ہم نے

اساتذہ کرام، جناب الف عین اور جناب محمد یعقوب آسی سے اصلاح کی درخواست ۔

دیگر احباب بھی پسند فرما کے شکریہ کا موقع دیں :p:D:p:grin::grin:


بر سرِ شہرِ خموشاں، کی منادی
ہم رہے یا نہ رہے راہ دکھا دی ہم نے

جب سُنا بندِ قفس نغمہِ شادی ہم نے
جو پَروں پر تھی جمی گرد اُڑا دی ہم نے

آگ ظلمت کے نقیبوں کو کو لگا دی ہم نے
شمع امید کی ہر سمت جلادی ہم نے

جھانکنا ہوگا ہمیں اپنے گریبانوں میں
خیروشر میں تھی جو تفریق مٹا دی ہم نے

خوفِ انکار تھا یا جراتِ اظہار نہ تھی
الغرض کچھ بھی تھا، یہ عمر گنوا دی ہم نے

گل بداماں نہ سہی خار بداماں تو نہیں
زندگی بھر نہ کیا کام فسادی ہم نے

جانتے تھے کہ نہ آؤ گے مگر اے ہمدم
ہو کہ بے چین کئی بار صدا دی ہم نے

ان کو شک تھا کہ بدل جائیں گے ہم جیتے جی
آج یہ آخری کشتی بھی جلادی ہم نے

بزم میں وہ نہ سہی، اپنا فسانہ کہہ کر
چار لوگوں میں تو اک بات سُنا دی ہم نے​
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ کہیں دو لختی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ جیسے
جھانکنا ہوگا ہمیں اپنے گریبانوں میں
خیروشر میں تھی جو تفریق مٹا دی ہم نے
ان کو شک تھا کہ بدل جائیں گے ہم جیتے جی
آج یہ آخری کشتی بھی جلادی ہم نے
موخر الذکر کا دوسرا مصرع بہت عمدہ ہے، گرہ اس درجے کی نہیں لگ سکی۔
خوفِ انکار تھا یا جراتِ اظہار نہ تھی
الغرض کچھ بھی تھا، یہ عمر گنوا دی ہم نے
دوسرا مصرع بہتری کا طلب گار ہے۔ مطلب واضح ہونے کے لئے ’جو یہ عمر۔۔۔‘ ہونا بہتر ہے۔
 
اساتذہ کرام، جناب الف عین اور جناب محمد یعقوب آسی سے اصلاح کی درخواست ۔

دیگر احباب بھی پسند فرما کے شکریہ کا موقع دیں :p:D:p:grin::grin:


بر سرِ شہرِ خموشاں، کی منادی
ہم رہے یا نہ رہے راہ دکھا دی ہم نے

جب سُنا بندِ قفس نغمہِ شادی ہم نے
جو پَروں پر تھی جمی گرد اُڑا دی ہم نے

آگ ظلمت کے نقیبوں کو کو لگا دی ہم نے
شمع امید کی ہر سمت جلادی ہم نے

جھانکنا ہوگا ہمیں اپنے گریبانوں میں
خیروشر میں تھی جو تفریق مٹا دی ہم نے

خوفِ انکار تھا یا جراتِ اظہار نہ تھی
الغرض کچھ بھی تھا، یہ عمر گنوا دی ہم نے

گل بداماں نہ سہی خار بداماں تو نہیں
زندگی بھر نہ کیا کام فسادی ہم نے

جانتے تھے کہ نہ آؤ گے مگر اے ہمدم
ہو کہ بے چین کئی بار صدا دی ہم نے

ان کو شک تھا کہ بدل جائیں گے ہم جیتے جی
آج یہ آخری کشتی بھی جلادی ہم نے

بزم میں وہ نہ سہی، اپنا فسانہ کہہ کر
چار لوگوں میں تو اک بات سُنا دی ہم نے​

معذرت خواہ ہوں۔ مصرع سازی اور شاعری میں فرق ہوتا ہے۔
 
یہاں پچھلے کچھ دن سے اردو محفل فورم کا ایڈیٹر بہت سُست چل رہا ہے۔
کام چلانے کو یہ طریقہ نکالا کہ "ٹائپ اردو" میں لکھ لیا اور یہاں کاپی پیسٹ کر دیا۔
ایسی رکاوٹوں سے، اور کچھ ہو نہ ہو، توجہ ضرور منتشر ہو جاتی ہے۔
 
بر سرِ شہرِ خموشاں، کی منادی (ہم نے)
ہم رہے یا نہ رہے راہ دکھا دی ہم نے
عجیب الجھاؤ کی کیفیت ہے۔ قبرستان میں منادی کر دی؟ "ہم رہے یا نہ رہے" یعنی خود مر کر دوسروں کو بتایا کہ تم سب کو بھی مرنا ہے؟ یہی مضمون اگر آسان پیرائے میں لایا جائے تو کہیں بہتر انداز میں آ سکتا ہے۔ ہاں اگر صاحبِ کلام کے ہاں الفاظ کی کوئی جدید تر معنویت رہی ہو تو وہ جانیں۔ یہ فقیر تو روایت کا دل دادہ ہے۔
 
جب سُنا بندِ قفس نغمہِ شادی ہم نے
جو پَروں پر تھی جمی گرد اُڑا دی ہم نے

پہلے مصرعے میں یا تو کچھ کہنا رہ یا پھر معانی میں مغالطہ ہے۔ مجھ پر اس کا مفہوم نہیں کھلا۔ مفروضہ یہ ہے کہ ہم قفس میں قید تھے کہ خوشی کا نغمہ سنا۔ تو پروں کی گرد جھاڑ دی (پرواز کی تیاری)؟ مگر میں خود اس مفہوم کو بھی مکمل نہیں پاتا۔
بندِ قفس کا معنی قفس میں بند ہونا درست نہیں۔ شاعر جانے۔
 
آخری تدوین:
اچھی غزل ہے۔ کہیں دو لختی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ جیسے
جھانکنا ہوگا ہمیں اپنے گریبانوں میں
خیروشر میں تھی جو تفریق مٹا دی ہم نے
ان کو شک تھا کہ بدل جائیں گے ہم جیتے جی
آج یہ آخری کشتی بھی جلادی ہم نے
موخر الذکر کا دوسرا مصرع بہت عمدہ ہے، گرہ اس درجے کی نہیں لگ سکی۔
خوفِ انکار تھا یا جراتِ اظہار نہ تھی
الغرض کچھ بھی تھا، یہ عمر گنوا دی ہم نے
دوسرا مصرع بہتری کا طلب گار ہے۔ مطلب واضح ہونے کے لئے ’جو یہ عمر۔۔۔‘ ہونا بہتر ہے۔

بہت شکریہ استادِ محترم

آپ کی حوصلہ آفزائی دلی خوشی کا باعث ہے ۔ اصلاح کے لیے جن امور کی طرف نشاندہی فرمائی ہے ، میں کوشش کرتا ہوں ان میں بہتری لائی جاسکے۔

آپ کی عنائت پر ممنون
 
معذرت خواہ ہوں۔ مصرع سازی اور شاعری میں فرق ہوتا ہے۔

استادِ محترم ، فرق تو اصلاح اور تنقید میں بھی ہوتا ہے اور شائد اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ بقول پیرذادہ صاحب، اصلاح کے لیے استادی اور تنقید کے لیے بد مزاجی سے کام چلایا جا سکتا ہے ۔

آپ ہمارے بزرگ ہیں آپ کو معذرت کی ضرورت نہیں ۔ زحمت کے لیے میری معذرت قبول فرمائیں۔

وسلام۔۔
 
استادِ محترم ، فرق تو اصلاح اور تنقید میں بھی ہوتا ہے اور شائد اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ بقول پیرذادہ صاحب، اصلاح کے لیے استادی اور تنقید کے لیے بد مزاجی سے کام چلایا جا سکتا ہے ۔

آپ ہمارے بزرگ ہیں آپ کو معذرت کی ضرورت نہیں ۔ زحمت کے لیے میری معذرت قبول فرمائیں۔

وسلام۔۔
میں پیرزادہ صاحب سے شناسا نہیں۔ تاہم میرے حساب سے بدمزاجی کی گنجائش نہیں بنتی، ہاں! بگاڑنا ہو تو اور بات ہے۔
 
آگ ظلمت کے نقیبوں کو کو لگا دی ہم نے
شمع امید کی ہر سمت جلادی ہم نے

شعر اچھا بن سکتا ہے، پہلا مصرع نیا کہنا ہو گا۔ ظلمت کے نقیب کون ہیں؟

اصل میں ایک تازہ رویہ جدیدیت نام کا آیا ہے اس میں لفظیات اور معانی کے روایتی رشتوں کی چنداں پروا نہیں کرتے، میرے جیسے رسمِ کہن کے عادی لوگ نئے رشتوں کو پہنچ نہیں پاتے۔
 
جھانکنا ہوگا ہمیں اپنے گریبانوں میں
خیروشر میں تھی جو تفریق مٹا دی ہم نے

نسبتاً بہتر اظہار ہے۔ تاہم اس کو نکھارئیے۔ شعر کا منصر صرف مفہوم بیان کرنا نہیں، بلکہ اس کو جمالیاتی سطح پر محسوس کرانا بھی ہے۔ جمالیات پر اس فقیر کی طویل گفتگو کسی اور دھاگے میں موجود ہے۔
 
خوفِ انکار تھا یا جراتِ اظہار نہ تھی
الغرض کچھ بھی تھا، یہ عمر گنوا دی ہم نے
اس پر اعجاز عبید صاحب نے بہت عمدہ بات کی ہے۔ اس پر کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اصلاحی نظر اساتذہ کی ۔۔ بحثیت قاری ۔۔۔ مجھے کچھ جگہوں پر تخیل کی پرواز بہت عمدہ لگی ہے
جب سُنا بندِ قفس نغمہِ شادی ہم نے
جو پَروں پر تھی جمی گرد اُڑا دی ہم نے
یہ شعر بہت اچھا لگا ہے
آگ ظلمت کے نقیبوں کو کو لگا دی ہم نے
شمع امید کی ہر سمت جلادی ہم نے

جھانکنا ہوگا ہمیں اپنے گریبانوں میں
خیروشر میں تھی جو تفریق مٹا دی ہم نے

ان کو شک تھا کہ بدل جائیں گے ہم جیتے جی
آج یہ آخری کشتی بھی جلادی ہم نے

زبردست ۔۔اس شعر کے لیے تالیاں ۔۔

آپ کے اشعار مجھے اچھے لگتے ہیں ۔۔
 
ماشا اللہ نذیر بھائی ۔۔۔ کیا خوب مرصع غزل ہے۔
ہر ایک شعر رواں اور خوب ہے۔
بس ایک اشکال ہے ۔ آپ نے کہا کہ:
جھانکنا ہوگا ہمیں اپنے گریبانوں میں
خیروشر میں تھی جو تفریق مٹا دی ہم نے
میرے خیال میں خیر اور شر کے درمیان تفریق بھلائی تو جا سکتی ہے مٹائی نہیں جا سکتی۔ کہ یہی کائناتی سچ ہے۔ یہ تفریق تو ہمیشہ رہے گی کہ اس پر ہی حق اور نا حق کا فیصلہ ہوگا !
ایک عمدہ غزل کے لیئے دلی داد قبول فرمائیں۔ :)
 
بہت خوب غزل کہی داد قبول فرمائیے یوں تو سارے اشعار اچھے ہیں ۔۔۔۔یہ اشعار بالخصوص پسند آئے
جھانکنا ہوگا ہمیں اپنے گریبانوں میں
خیروشر میں تھی جو تفریق مٹا دی ہم نے
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا۔۔۔والا مضمون اس شعر میں پا کر اچھا محسوس ہوا۔۔
جانتے تھے کہ نہ آؤ گے مگر اے ہمدم
ہو کہ بے چین کئی بار صدا دی ہم نے
کیا کہنے بہت خوبصورت کہا۔
 
گل بداماں نہ سہی خار بداماں تو نہیں
زندگی بھر نہ کیا کام فسادی ہم نے

فسادی کام نہیں ہوتا، فسادی شخص ہوتا ہے۔ پہلے مصرعے میں کم از کم تقاضا یہ ہے کہ خار بداماں بھی تو نہیں۔ ویسے خاربداماں ہونا بھی دوسروں کے لئے ضروری نہیں، پر خود اپنے لئے تکلیف دہ امر ہے۔
 
جانتے تھے کہ نہ آؤ گے مگر اے ہمدم
ہو کہ بے چین کئی بار صدا دی ہم نے

"ہو کے بے چین" ۔۔۔ "کہ" اور "کے" کے معانی اور محل استعمال پر مختلف مواقع پر مکرر بات ہوتی رہی ہے۔
 
ان کو شک تھا کہ بدل جائیں گے ہم جیتے جی
آج یہ آخری کشتی بھی جلادی ہم نے

یہ محل کشتیاں جلانے کا ہے؟ اور کس حوالے سے؟۔ "جیتے جی بدل جانا" میرے لئے غیرمانوس ہے۔ واللہ اعلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بزم میں وہ نہ سہی، اپنا فسانہ کہہ کر
چار لوگوں میں تو اک بات سُنا دی ہم نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجموعی طور پر لگتا ہے کہ غزل پر محنت نہیں کی گئی۔ نہ زبان و بیان کو چنداں اہمیت دی گئی ہے۔ کلامِ منظوم اور شعر کے درجے میں بہر حال فرق ہوتا ہے۔
 

شزہ مغل

محفلین
اساتذہ کرام، جناب الف عین اور جناب محمد یعقوب آسی سے اصلاح کی درخواست ۔

دیگر احباب بھی پسند فرما کے شکریہ کا موقع دیں :p:D:p:grin::grin:


بر سرِ شہرِ خموشاں، کی منادی
ہم رہے یا نہ رہے راہ دکھا دی ہم نے

جب سُنا بندِ قفس نغمہِ شادی ہم نے
جو پَروں پر تھی جمی گرد اُڑا دی ہم نے

آگ ظلمت کے نقیبوں کو کو لگا دی ہم نے
شمع امید کی ہر سمت جلادی ہم نے

جھانکنا ہوگا ہمیں اپنے گریبانوں میں
خیروشر میں تھی جو تفریق مٹا دی ہم نے

خوفِ انکار تھا یا جراتِ اظہار نہ تھی
الغرض کچھ بھی تھا، یہ عمر گنوا دی ہم نے

گل بداماں نہ سہی خار بداماں تو نہیں
زندگی بھر نہ کیا کام فسادی ہم نے

جانتے تھے کہ نہ آؤ گے مگر اے ہمدم
ہو کہ بے چین کئی بار صدا دی ہم نے

ان کو شک تھا کہ بدل جائیں گے ہم جیتے جی
آج یہ آخری کشتی بھی جلادی ہم نے

بزم میں وہ نہ سہی، اپنا فسانہ کہہ کر
چار لوگوں میں تو اک بات سُنا دی ہم نے​
بہت عمدہ

پہلے شعر کی سمجھ نہیں آئی۔ یا تو پہلا مصرعہ ادھورا ہے یا مجھے محسوس ہو رہا ہے۔
باقی بہت اچھی غزل
 
Top