ہفتۂ شعر و ادب - نظمیں

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم،

اردو محفل کی چوتھی سالگرہ کے سلسلے میں ہفتۂ شعر و ادب کے تحت اس تھریڈ میں کچھ نظمیں پوسٹ کرنے کا ارادہ ہے، امید اور کوشش تو یہی ہے کہ یہاں وہ نظمیں پوسٹ ہو جو اس سے پہلے ویب پر نہ ہوں، بہرحال اس سلسلے میں آپ کا تعاون رہا تو یقیناً یہ سلسلہ کامیاب رہے گا :)
 

محمد وارث

لائبریرین
علی بابا کی مجبوری - جبار جمیل

"علی بابا کی مجبوری"

(جبّار جمیل)

فَرِج
رنگیں ٹی وی
ایک عدد واشنگ مشین
ٹیپ ریکارڈر اور وی سی آر
ہیرو ہونڈا نہ سہی، لُونا سہی
ننگے بھوکے رشتہ داروں سے پرے
پاش کالونی میں ایک اچھا سا بنگلہ
چمچماتی ساڑیاں، بیوی کی خاطر
اور کچھ گہنے بھی
بچوں کے لیے
دم بخود کر دینے والے
جاپانی کھلونے
گلف کی ایک اور ٹرپ بے حد ضروری ہو گئی ہے

بے چارہ بدبخت علی بابا
جیسے تیسے
حرص و ہوس کے غار میں
داخل تو ہو گیا ہے
لیکن باہر آئے کیسے
کھل جا سم سم کہنا بھول گیا ہے


----------
ماخذ: "بیسویں صدی کی اردو شاعری" مرتبہ اوصاف احمد
 

محمد وارث

لائبریرین
ہم عصروں کے لیے ایک نظم - بشر نواز

"ہم عصروں کے لیے ایک نظم"

(بشر نواز)

بے ضرّر نظمیں لکھو، سکوں سے جیو
جو بھی ہے، ٹھیک ہے
جو نہیں، وہ بھی سب ٹھیک ہو جائے گا
ایک منتر سے ہر درد کھو جائے گا
آنکھ سے سچ کا کانٹا نکالو
کھٹکتا ہے یہ، چین سے سونے نہیں دیتا
سچ بری چیز ہے اس سے بچتے رہو
وقت کا جامِ صحت پیو یا قصیدہ کہو
غیر موجود سوئی سے موجود کا چاک دامن سیو
بے ضرّر نظمیں لکھو، سکوں سے جیو

لفظ رنگیں پرندے ہیں پالو انہیں
اوب جاؤ تو پیلی فضا میں اڑا لو انہیں
بے ضرّر نظمیں لکھو، سکوں سے جیو

زندگی سے الجھ کر کسے کیا ملا
سچ کے پیچھے بھٹکنے سے کیا فائدہ
اس سے ہوتا نہیں ہے ادب کا بھلا
بے ضرّر نظمیں لکھو
سکوں سے جیو

----------
ماخذ: "بیسویں صدی کی اردو شاعری" مرتبہ اوصاف احمد
 

محمد وارث

لائبریرین
جست - خورشید رضوی

"جست"

(خورشید رضوی)

مرا حال یہ تھا
زمستاں میں جب برف زاروں میں چلتے ہوئے
گُرسِنہ بھیڑیوں کی قطاریں گزرتیں
تو میں کپکپاتا
یہ جی چاہتا، عرصۂ زیست کو چھوڑ کر
کوہساروں کے اُس پار ڈیرہ لگا لوں
اِدھر میرے جاتے ہی برفیں پگھل جائیں
گُرگانِ بے مہر میرے نقوشِ قدم سونگھ کر مجھ تک آنے نہ پائیں

مگر اب تو جیسے
مری روح میں کوئی چیتا سا انگڑائیاں لے رہا ہے
یہ جی چاہتا ہے
کہ گُرگ آشتی کی سبھا جب لگے
میں بھی تصویر جیسی کُھلی آنکھ لے کر
---- جو ہر گز جھپکتی نہ ہو ----
غار کے وسط میں آن بیٹھوں
اور اُن میں سے جس جس کی آنکھیں جھپکتی چلی جائیں
وہ لحظہ لحظہ مرا رزق ہو
میں اُسے پارہ پارہ کروں

------
ماخذ: "1977ء کی بہترین نظمیں" مرتبہ انور سدید
 

محمد وارث

لائبریرین
نورِ حق - اثر صہبائی

"نورِ حق"

(اثر صہبائی)

وقت کے پردۂ تاریک پہ لکھّا میں نے
"گلشنِ زیست کی ہے شاہد و مینا سے بہار"
چند لمحوں کے لیے روشن و تاباں رہ کر
مٹ گئے دیکھتے ہی دیکھتے یہ نقش و نگار
آہ، کس چیز کو اس دارِ فنا میں ہے قرار

وقت کے پردۂ تاریک پہ لکھّا میں نے
"مقصدِ زیست ہے تکمیلِ ہنر، عظمت و نام"
نور افشاں رہے کچھ دیر یہ الفاظ، مگر
ہو گئے پردۂ تاریک میں رُوپوش تمام
آہ، ہر نقشِ درخشاں کا یہی ہے انجام

وقت کے پردۂ تاریک پہ لکھّا میں نے
"حق ہی وہ نور ہے جو تا بہ ابد ہے روشن"
کانپتے کانپتے کافور ہوئی ظلمتِ وقت
حق ہی حق محفلِ امکاں میں رہا جلوہ فگن
ہے فنا کے لیے پیغامِ فنا حق کی کرن

-----
ماخذ: "نذرِ رحمٰن"، مجلسِ نذرِ رحمٰن، لاہور 1966ء
 

محمد وارث

لائبریرین
شہر کے لوگ - تبسم کاشمیری

"شہر کے لوگ"

(تبسّم کاشمیری)

اپنے اپنے عکس میں
پھنسے ہوئے کھڑے ہیں سب
سوچتے ہیں کیا کریں
ہزیمتوں کے درمیاں
ندامتوں کا زخم ہے
شکست کا ملال ہے
پر شکستہ، جاں بلب
اپنی اپنی ذات کی طناب میں کسے ہوئے
اپنی اپنی قبر کے
عذاب میں پھنسے ہوئے
نہ کوئی جائے رفت ہے
کوئی جائے ماند ہے
کریں بھی ہم تو کیا کریں
اپنے اپنے عکس کے عذاب ناتمام ہیں

-----
ماخذ: "ادبیات" ش 17، 1991ء
 

شاہ حسین

محفلین
مظہر امام

رات دن کا قص۔ّہ


ایک پہچانا ہوا انجان شہر
رات کے کالے بدن پر برص کے اُجلے چراغ
آدمی کی کھال میں چیتے کی روح
جسم کے مرگھٹ پہ سانولی چتا جلتی ہوئی
نک چڑھی بیوی کی صورت
زندگی !
 

شاہ حسین

محفلین
پرکاش پنڈت

سنگریزہ


لوگ کہتے ہیں
بڑے پیار سے سمجھاتے ہیں
سنگریزہ ہے جسے تونے گہر مان لیا

لوگ کہتے ہیں بڑے پیار سے سمجھاتے ہیں
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
مجھ کو تسلیم بصد عجز و نیاز !
مجھ کو تسلیم گُہر ہے نہ وہ ہیرا موتی
سنگریزہ ہی سہی

کیسے جیتے ہیں وہ لوگ
کہ جن کے پاس
سنگریزہ بھی نہیں ہے کوٕئی
 

شاہ حسین

محفلین
راجندر ناتھ رہیر

گفتگو



کرتا ہوں ٹیلیفون اس نمبر پہ میں
اس کو بس انگیج ہی پاتا ہوں میں
مصروف ہی پاتا ہوں میں‌
پوچھتا ہوں تب میں ارباب ٹیلیفون سے
کیوں کوئی پتّہ اُدھر ہلتا نہیں
کیوًں مرے دل کا کنول کھلتا نہیں
کیوں فلاں بجز مجھے ملتا نہیں
اُس طرف سے تب یہ ملتا ہے جواب
یہ تو نمبر آپ ہی کا ہے جناب
دوسروں سے بات بے شک کیجئے
خود سے ملنے کی نہ کوشش کیجئے
آدمی خود سے مخاطب ہو سکے
آج کی مصروف دنیا میں کہاں ممکن ہے یہ !
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم اور ہوا

گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا
میری بھی تقدیر رہا ہے
تم نے بھی دُنیا دیکھی ہے
پھر بھی جب ہم ملتے ہیں
بچوں جیسی معصومی سے باتیں کرتے ہیں
تم کہتی ہو
آج سے پہلے تیرے جیسا کوئی نہیں تھا
میں کہتا ہوں
میں نے تجھ کو ہر چہرے میں تلاش کیا ہے
تم کہتی ہو
میرا دل دوشیزہ دھرتی جیسا ہے
میں کہتا ہو ں
میں اس دوشیزہ دھرتی کی پہلی بارش ہوں
لیکن ہم پہ ہوا ہنستی ہے
پیار سے آکے لپٹ جاتی ہے
اور کہتی ہے
میں بھی پہلی بار چلی ہوں۔

شہزاد احمد
 

محمداحمد

لائبریرین
آٹوگراف

کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے
کتابچے لئے ہُوئے
کھڑی ہیں منتظر ۔۔۔ حسین لڑکیاں!
ڈھلکتے آنچلوں سے بے خبر، حسین لڑکیاں
مہیب پھاٹکوں کے ڈولتے کواڑ چیخ اُٹھے
اُبل پڑے اُلجھتے بازؤں ، چٹختی پسلیوں کے پُر ہراس قافلے
گرے، بڑھے، مڑے بھنور ہجوم کے
کھڑی ہیں یہ بھی، راستے پہ ، اک طرف،
بیاضِ آرزو بکف
نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں
لرز رہا ہے دم بہ دم
کمان ابرواں کا خم
کوئی جب ایک ناز ِ بے نیاز سے
کتابچوں پہ کھینچتا چلا گیا
حروفِ کج تراش کی لکیر سی
تو تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی
کسی عظیم شخصیت کی تمکنت
حنائی انگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی
تو زر نگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز نبض رُک گئی!
وہ "باؤلر" ایک ماہ وشوں کے جمگھٹوں میں گھر گیا
وہ صفحۂ بیاض پر بصد غرور کلکِ گوہریں پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وِکٹ گری

میں اجنبی، میں بے نشاں
میں پا بہ گل!
نہ رفعتِ مقام ہے، نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل، یہ لوحِ دل
نہ اس پہ کوئی نقش ہے، نہ اس پہ کوئی نام ہے۔

مجید امجد
 

محمداحمد

لائبریرین
نا معلوم

مُرہ خانوں میں رکھے لاشوں پر
پرچیاں چسپاں کرنے والو
پرچیوں پر لفظ نامعلوم کیوں لکھتے ہو تم
کیوں چھپاتے ہو سبھی سے
یہ غریب لوگ ہیں
بھوک کے مارے ہوئے ہیں
سردیوں کی راتوں میں
[font="urdu_emad_nastaliq"]برہنہ[/font] جسموں کو یہ
ڈھانپتے ہیں آگ سے
اور اپنے حصّے کے
مخملیں کمبل تمام
دان کر جاتے ہیں یہ
بادشاہِ وقت کو
نیند سے جگائے کون
محل میں لٹکی ہوئی
زنجیر کو ہلائے کون
کوئی ہو مردِ خدا جو
بادشاہِ وقت کو
بات یہ بتائے کہ
یہ غریب لوگ ہیں
بھوک کے مارے ہوئے
ان کی یہی پہچان ہے
یہ دان دیتے ہیں
بادشاہِ وقت کو
اک اٹوٹ رشتہ ہے
بادشاہِ وقت کا
اس حسین کمبل سے
اور یہ جلتے بدن
پہچان پاکستان کی
مت لکھ لاشوں پہ ان کے
لفظ نا معلوم تم

قیصر وجدی

 

الف عین

لائبریرین
اس کا دل تو اچھا دل تھا​

فہمیدہ ریاض

ایک ہے ایسی لڑکی جس سے تم نے ہنس کر بات نہ کی
کبھی نہ دیکھا اس کی آنکھوں میں چمکے کیسے موتی
کبھی نہ سوچا تم نے ایسی باتیں وہ کیوں کہتی ہے
کبھی نہ سمجھا ملتے ہو تو گھبراتی کیوں رہتی ہے
کیسے اس رخسار کی رنگت سرسوں جیسی زرد ہوئی
جب تک ملی نہیں تھی تم سے، وہ ایسی تنہا تو نہ تھی
مل کر آنکھ بہانے سے وہ کب تک آنسو روکے گی
اس کے ہونٹوں کی لرزش بھی تم نے کبھی نہیں دیکھی
کسی ایسی سنسان سڑک پر اسے اکیلا چھوڑ دیا
اس کا دل تو اچھا دل تھا، جس کو تم نے توڑ دیا
وہ کچھ نادم، وہ کچھ حیراں، رستہ ڈھونڈھا کرتی تھی
ڈھلتی دھوپ میں اپنا بے کل سایہ دیکھ کے ہنستی تھی
آخر سورج ڈوب گیا اور راہ میں اس کو شام ہوئی
 

محمد وارث

لائبریرین
سر زمینِ عرب - احمد ندیم قاسمی

"سر زمینِ عرب"

(احمد ندیم قاسمی)

سر زمینِ عرب
تیری پیغمبرانہ فضاؤں میں
صدیوں کے بعد
اک نیا رقصِ ابلیس ہونے لگا ہے
مگر اس کا مفہوم ماضی سے کچھ مختلف بھی نہیں ہے
کہ اب بھی ترے ریگزاروں میں فرزند تیرے
سلگتی ہوئی ریت پر
جس طرح مکی کے دانے
بھڑکتی ہوئی آگ کی آنچ پر
تلملاتے ہیں، اور پھر تڑپتے ہیں، اور پھر چٹختے ہیں
آخر میں خاموش ہونے کے بعد
ان کے چہروں کے فق اور ویران اوراق پر
ایک تحریر ابھرتی ہے
ہم کو یہ انجام تو صدیوں پہلے سے معلوم تھا

-------
ماخذ: "ادبیات" ش 17، 1991ء
 

محمد وارث

لائبریرین
زنجیر - ذکی آذر

"زنجیر"

(ذکی آذر)

خوابوں سے زنجیر نہ ٹوٹے
کس نے کہا؟
خوابوں نے زنجیر تو کیا، زنداں توڑا
خوابوں نے صدیوں کا ٹوٹا
ریزہ ریزہ
بکھرا بکھرا
شیشہ جوڑا

خواب وہ جادو
جس نے جادو کے
ہر وار کو روکا
جادو کی دیوار کو توڑا
شہزادی آزاد ہوئی

خوابوں سے زنجیر نہ ٹوٹے
کس نے کہا؟


-------
ماخذ: "ادبیات" ش 17، 1991ء
 

کاشفی

محفلین
روپ - فراق گورکھپوری

روپ
(فراق گورکھپوری)

ساغر کفِ دست میں، صراحی بہ بغل
کاندھے پر گیسوؤں کے کالے بادل

یہ مدھ بھری آنکھ، یہ نگاہیں چنچل
ہے پیکرِ نازنین کہ حافظ کی غزل!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوشبو سے مشام آنکھوں کے بس جاتے ہیں
غنچے سے فضاؤں کے بکس جاتے ہیں

جھکتی ہے تری آنکھ سرِ خلوتِ ناز
یا کامنی کے پھول برس جاتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جوڑے میں سیاہ رات کنڈلی مارے
ماتھے کے عرق میں جھلملاتے تارے

عارض میں سحر کے چھلکے چھلکے ساغر
تھوڑی میں قمر کے جگمگاتے تارے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پنڈلی میں لہکتا ہوا جیسے کوندا
ٹخنے ہیں کہ پر تولے عطارد ہے کھڑا

ہے پاؤں کہ ٹہری ہوئی بجلی میں ہے لوچ
تلوے ہیں کہ سیماب میں سورج کی ضیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گنگا اشان، یہ چمکتے بجرے
ناؤں میں سوار مہ جبینوں کے پرے

سنگم میں لگا کے غوطہ اٹھا ہے کہ کون
موجوں کے بھنور سے جیسے زہرہ ابھرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوکے کی سہانی آنچ، مکھڑا روشن
ہے گھر کی لکشمی پکاتی بھوجن

دیتے ہیں کرچھلی کے چلنے کا پتہ
سیتا کی رسوئی کے کھنکتے برتن
 

شاہ حسین

محفلین
فتنئہ خانقاہ

اک دن جو بہر فاتحہ اک بنتِ مہر و ماہ
پہنچی نظر جھکائے ہوئے سوئے خانقاہ
زُہاد نے اٹھائی جھجکتے ہوئے نگاہ
ہونٹوں میں دب کے ٹوٹ گئی ضرب لااِلہ​

برپا ضمیر زہد میں کہرام ہو گیا
ایماں ، دلوں میں لرزہ بہ اندام ہو گیا​

یوں آئی ہر نگاہ سے آواز الاماں
جیسے کوئی پہاڑ پہ آندھی میں دے آذاں
دھڑکے وہ دل کہ روح سے اُٹھنے لگا دھواں
ہلنے لگیں شیوخ کے سینوں پہ داڑھیاں​

پرتو فگن جو جلوہ جانانہ ہو گیا
ہر مرغِ خلد حُسن کا پروانہ ہوگیا​

اُس آفتِ زمانہ کی سرشاریاں ، نہ پوچھ
نکھرے ہوئے شباب کی بیداریاں ، نہ پوچھ
رخ پر ہوائے شام کی گلباریاں نہ پوچھ
کاکل کی ہر قدم پہ فسوں کاریاں نہ پوچھ​

عالم تھا وہ خرام میں اس گلغدار کا
گویا نزول رحمتِ پروردگار کا​

گردن کے لوچ میں ، خم چوگاں لئے ہوئے
چوگاں کے خم میں گوئے دل و جاں لئے ہوئے
رخ پر لٹوں کا ابر پریشاں لئے ہوئے
کافر گھٹا کی چھاؤں میں قرآن لئے ہوئے​

آہستہ چل رہی تھی عقیدت کی راہ سے
یا لو نکل رہی تھی دِل خانقاہ سے​

آنکھوں میں آگ ، عشوہ آہن گداز
لہریں ہر ایک سانس میں سیلاب ناز کی
لپٹیں ہوا کے دوش پہ زلفِ دراز کی
آئنے میں دمک ، رخ آئنہ ساز کی​

آغوش مہر و ماہ میں گویا پلی ہوئی
سانچے میں آدمی کے گلابی ڈھلی ہوئی​

ساؤن کا ابر ، کاکل شگبوں کے دام میں
موجیں شراب سرخ کی آنکھوں کے جام میں
رنگ طلوع صبح ، رخِ لالہ فام میں
چلتا ہوا شباب کا جادو خرام میں​

انساں تو کیا ، یہ بات پری کو ملی نہیں
ایسی تو چال کبکِ دری کو ملی نہیں​

ڈوبی ہوئی تھی جنبش مژگاں شباب میں
یا دل دھڑک رہا ہے محبّت کا خواب میں
چہرے پہ تھا عرق ، کہ نمی تھی گلاب میں
یا اوس موتیے پہ شبِ ماہتاب میں​

آنکھوں میں کہہ رہی تھیں یہ موجیں خمار کی
یوں بھیگتیں ہیں چاندنی راتیں بہار کی​

ہاتھ اُس نے فاتحہ کو اُٹھائے جو ناز سے
آنچل ڈھلک کے رہ گیا زُلفِ دراز سے
جادو ٹپک پڑا نگہِ دل نواز سے
دل دہل گئے جمال کی شانِ نیاز سے​

پڑھتے ہی فاتحہ جو وہ اک سمت پھر گئی
اِک پیر کے تو ہاتھ سے تسبیح گر گئی​

فارغ ہوئی ہوا دعا سے جو وہ مشعل حرم
کانپا لبوں پہ سازِ عقیدت کا زیر و بم
ہونے لگی روانہ بہ اندازِ موج یَم
انگڑائی آچلی تو بہکنے لگے قدم​

انگڑائی فرطِ شرم سے یوں ٹوٹنے لگی
گویا صنم کدے میں کرن پھوٹنے لگی​

ہر چہرہ چیخ اُٹھا کہ تیرے ساتھ جائیں گے
اے حُسن تیری راہ میں دھونی رمائیں گے
اب اس جگہ سے اپنا مصلّےٰ اٹھائیں گے
قربان گاہِ کفر پر ایمان چڑھائیں گے​

کھاتے رہے فریب بہت خانقاہ میں
اب سجدہ ریز ہوں گے تری بارگاہ میں​

سورج کی طرح زُہد کا ڈھلنے لگا غرور
پہلوئے عاجزی میں مچلنے لگا غرور
رَہ رَہ کے کروٹیں سی بدلنے لگا غرور
رُخ کی جواں لو سے پگھلنے لگا غرور​

ایماں کی شان حق کے سانچے میں ڈھل گئی
زنجیر زہد سرخ ہوئی اور گل گئی​

پل بھر میں زلف لیلئ تمکین بڑھ گئی
دم بھر میں پارسائی کی بستی اجڑ گئی
جس نے نظر اٹھائی نظر رخ پہ گڑ گئی
گویا ہر اک نگاہ میں زنجیر پڑ گئی​

طوفان آب و رنگ میں زہاد کھو گئے
سارے کبوترانِ حرم ذبح ہو گئے​

زاہد حدود عشقِ خدا سے نکل گئے
انسان کا جمال جو دیکھا پھسل گئے
ٹھنڈے تھے لاکھ حسن کی گرمی سے جل گئے
کرنیں پڑیں تو برف کے تودے پگھل گئے​

القصّہ دین ، کفر کا دیوانہ ہوگیا
کعبہ ذرا سی دیر میں بت خانہ ہوگیا​

حضرتِ جوش ملیح آبادی
 

شاہ حسین

محفلین
تمہارے خط


وہ جو تم نے لکھے تھے کبھی کبھی مجھ کو
میں آج سوچ رہا ہوں انہیں جلا ڈالوں !
بجھا بجھا سا چلا آرہا ہوں آفس سے
دماغ گرم ہے جلتے ہوئے توے کی طرح
نحیف ہاتھوں سے پھر فائلوں کے غاروں میں
اُداس دن کا ہمالہ گرا کے آیا ہوں !
بدن نڈھال ہے اس نوجواں سپاہی سا
کئی مہینوں سے عورت ملی نہ ہو جس کو
گزار جسم کی جنت ملی نہ ہو جسکو
وہ گیت تھا ۔ ندا فاضلی جسے تم نے
کبھی نشستوں میں دیکھا تھا گنگناتے ہوئے
خیال و فکر کی قوس و قزح کھلاتے ہوئے
ہوائے وقت سے اِک بلبلہ سا پھوٹ گیا
غمِ حیات کے پھتّر سے کانچ ٹوٹ گیا
تھکے بدن کو فقط چارپائی بھاتی ہے
بجائے یاد کے اب مجھ کو نیند آتی ہے



ندا فاضلی
 

علی فاروقی

محفلین
ٹھنڈی انگلیاں ،، جوش ملیح آبادی

سرد انگلی اپنے مفلس باپ کی پکڑے ہوے
رو رہا ہے ایک بچہ اک دکاں کے سامنے
اک کھلونے کی طرف انگلی اٹھا کر بار بار
کچھ نہیں کہتا ہے لیکن رو رہا ہے بار بار
باپ کی بجھتی ہوئ آنکھوں میں ہے دنیا سیاہ
رُخ پہ گردِ مفلسی ہے جیبِ خا لی پر نگاہ
باپ کی نمناک آنکھوں میں پئے تکمیل یاس
کیاقیامت ہے پسر کے آنسّوں کا انعکاس
دل ہوا جاتا ہے بچے کے بلکنے سے فگار
کہہ رہا ہے زیرِ لب فریاد اے پروردگار
واہ کیا تقدیر ہے اس بندہء معصوم کی
ہو چلی ہیں انگلیاں ٹھنڈی میرے معصوم کی
 
Top