ہر بات غزل میں تو کہی جا نہیں سکتی -- برائے اصلاح

ہر بات غزل میں تو کہی جا نہیں سکتی
ہر آرزو لفظوں کی شکل پا نہیں سکتی

ہر پوچھنے والے کو میں کیا حال بتاوں
سب کو تری تصویر تو دکهلا نہیں سکتی

مل جائے کسی طور تیری دید کا موقع
باتوں سے اب اس دل کو میں بہلا نہیں سکتی
 
ہر بات غزل میں تو کہی جا نہیں سکتی​
ہر آرزو لفظوں کی شکل پا نہیں سکتی​

ہر پوچھنے والے کو میں کیا حال بتاوں​
سب کو تری تصویر تو دکهلا نہیں سکتی​

مل جائے کسی طور تیری دید کا موقع​
باتوں سے فقط دل کو میں بہلا نہیں سکتی​

واہ واہ جی بہت خوب، آخری مصرع بس بحر سے باہر تھا جی، میرے خیال سے:)
 

الف عین

لائبریرین
وہ مصرع بحر میں تو درست تھا، بس ’اب‘ زائد تھا، اصلاح میں فقط کا استعمال اچھا لگ رہا ہے۔
لیکن ’شکل‘ میں کاف پر زبر نظم وہو رہا ہے، درست تلفظ میں ک پر جزم ہے۔ اس کا کچھ سوچو، میں بھی سوچتا ہوں۔ اور کسی اصلاح کی ضرورت نہیں۔
 
وہ مصرع بحر میں تو درست تھا، بس ’اب‘ زائد تھا، اصلاح میں فقط کا استعمال اچھا لگ رہا ہے۔
لیکن ’شکل‘ میں کاف پر زبر نظم وہو رہا ہے، درست تلفظ میں ک پر جزم ہے۔ اس کا کچھ سوچو، میں بھی سوچتا ہوں۔ اور کسی اصلاح کی ضرورت نہیں۔
اُستاد محترم
ہر آرزو لفظوں کی قبا، پا نہیں سکتی
کیسا رہے گا
گویا کہ ہر آرزو لفظوں کا لباس نہیں پہن سکتی؟
 
وہ مصرع بحر میں تو درست تھا، بس ’اب‘ زائد تھا، اصلاح میں فقط کا استعمال اچھا لگ رہا ہے۔
لیکن ’شکل‘ میں کاف پر زبر نظم وہو رہا ہے، درست تلفظ میں ک پر جزم ہے۔ اس کا کچھ سوچو، میں بھی سوچتا ہوں۔ اور کسی اصلاح کی ضرورت نہیں۔

بہت شکریہ! میں نے شکل جزم کے ساته ہی سوچ کر لکها ہے. وزن سے خارج ہے کیا جذم کے ساته؟
 
Top