ٹائپنگ مکمل ہجرت

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیا کیجئے بیاں عَالمِ غربت کا جو غم ہے
ہر نقش وطن کا وِرقِ دل پہ رقم ہے
احباب وعزا کی جدائی کا الم ہے
حاضر ہوں جو مجلس میں تو مولا کا کرم ہے
تحریر پہ قدرت ہے نہ قابو میں زباں ہے
خود وہ ہی مدد کرتے ہیں یہ جن کا بیاں ہے

عمر گزراں بڑھنے لگی، گُھٹنے لگا دم
بجھنے کو ہے جب آگ تو شعلے ہوئے برہم
اسبابِ طرب جمع ہوئے اور بڑھا غم
ہے اپنی ہنسی اپنے ہی حالات کا ماتم
کچھ تیز حرارت سی شب و روز ہے دل میں
بالوں میں جمی برف تو اب سوز ہے دل میں

ہم کون ہیں؟ ہم کیا ہیں؟ کہاں کے ہیں؟ کہاں ہیں؟
سو، نام و نشاں رکھ کے بھی بے نام و نشاں ہیں
ہم برگِ خزاں دیدہ ہیں یا ریگِ رواں ہیں
اِک گُم شدہ تہذیب کے اب مرثیہ خواں ہیں
اِس بے خبری پر کوئی مغموم نہیں ہے
ہم کیا تھے، نئی نسل کو معلوم نہیں ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اِک اور وطن بھی تھا ذرا یاد نہیں ہے
بُت خانے کا عَالم بخدا یاد نہیں ہے
وہ شان سے جینے کی ادا یاد نہیں ہے
جو چُھٹ گئی وہ آب و ہوا یاد نہیں ہے
امروز کا ہے نشہ، غمِ دوش کسے ہے
اُس جنتِ گُم گشتہ کا اب ہوش کسے ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گم ہو گئی اِک نسل اسی جہدِ بقا میں
آنکھیں کھلیں بچوں کی نئی آب و ہوا میں
دیکھا ہی نہیں حسن کا وہ رنگ فضا میں
صُبحیں ہیں جدا، مختلف انداز کی شامیں
طعنے جو دیئے وقت نے تو سہہ نہ سکیں گے
پوچھے گی جو تاریخ تو کچھ کہہ نہ سکیں گے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کچھ لوگ ہیں آثارِ سلف دیکھنے والے
ہر بات پہ دیتے ہیں جو ماضی کے حوالے
خاطر میں جو لاتے تھے کلیسا نہ شوالے
گم ہیں سرِ محفل نہ جوابے نہ سوالے
بچے بھی تو اندازِ بیاں بھول رہے ہیں
سب بھول کے اب اپنی زباں بھول رہے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس رنج میں ہے کتنی تپش کیسے بتاؤں
جو آبلے سینے میں ہیں وہ کس کو دکھاؤں
بھولے ہوئے خوابوں کو کسے یاد دلاؤں
خود جلتا ہوں احباب کے دل تو نہ جلاؤں
اظہارِ تپ و سوز کے کرتا ہوں ارادے
شاید کوئی آواز میں آواز ملا دے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اک آگ کی مانند ہے یہ یاد وطن بھی
آنسو بھی ہیں آنکھوں میں تو سینے میں جلن بھی
شعلے کی طرح منہ سے نکلتا ہے سخن بھی
لفظوں میں وہ حدت ہے کہ جل جائے دہن بھی
اشعار میں بھی دُودِ فغاں آنے لگا ہے
ہر سانس کے ہمراہ دھواں آنے لگا ہے
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ کوچہ و بازار، وہ گلیاں، وہ فضائیں
چھوٹوں کے سلام اور بزرگوں کی دعائیں
وہ دھوپ کی شدت کبھی وہ سرد ہوائیں
وہ آندھیاں تاریک ، وہ گھنگھور گھٹائیں
موسم کے وہ نغمات کہاں ساز کہاں ہیں
غربت میں سبھی کچھ ہے وہ انداز کہاں ہے
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کھولی تھی جہاں آنکھ وہ گھر ڈھونڈ رہا ہوں
جو اپنے تھے وہ بام وہ در ڈھونڈ رہا ہوں
جو چُھٹ گئی وہ راہ گزر ڈھونڈ رہا ہوں
امکاں نہیں ملنے کا مگر ڈھونڈ رہا ہوں
تبدیلی حالات پہ دل زیر و زبر ہے
جو اپنا تھا کل تک وہی اب غیر کا گھر ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جس شہر میں تھی اکبرِ اعظم کی جلالت
تھی شرق سے تا غرب کبھی کبھی جس کی حکومت
عرفی و نظیری نے جہاں پائی تھی عزت
ہے دفن جہاں شاہِ جہاں بندہ الفت
اک نقش حسیں کھینچ کے عالم کی جبیں پر
رکھا ہے محبت نے جہاں تاج زمیں پر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ میر تقی میر کا سینچا ہوا گلشن
جو غالب مغفور کا تھا مولد و مسکن
اشعار کا گہوارہ ، غزل گوئی کا مامن
حکمت کا جو سرمایہ تھا صناعی کا مخزن
جس شہر کے ذرّات ستاروں سے بڑے تھے
جو راہ میں کنکر تھے وہ موتی سے جڑے تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کس طرح بسر ہوتےتھے ایّام جوانی
لکھیے تو فسانہ ہے جو کہیے تو کہانی
رفتار حسینوں کی تھی جمنا کی روانی
خود بادہ صفت اپنی صراحی کا تھا پانی
وہ دور نظر آتا ہے اب خواب کی صورت
جب پانی بھی پیتے تھے مئے ناب کی صورت
 

جاسمن

لائبریرین
خود جلتا ہوں احباب کے دل تو نہ جلادے...‎;(‎
شاید کوئی آواز میں آواز ملا دے میری آواز بھی شامل هے.‏‎
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُس شہر میں تھے گورِ غریباں بھی منّور
مدفون تھے جس میں اَدب و علم کے جوہر
جانباز و دلیر اور شجاعانِ دلاور
آرام سے اُس خاک میں سوتے ہیں برابر
قبریں بھی عزیزوں کی مزاراب وجد بھی
محبوبوں کے مدفن بھی رفیقوں کی لحد بھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیا کہیے کہ کیوں دشت میں گھر چھوڑ کے نکلے
ہر عشرت و آرام سے منہ موڑ کے نکلے
اپنے در و دیوار سے سر پھوڑ کے نکلے
صدیوں کے جو رشتے تھے انہیں توڑ کے نکلے
یہ بات نہیں ہے کہ ہمیں جان کا ڈر تھا
قرآن کا پاس تو ایمان کا ڈر تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گھر بار کو چھوڑا، در و دیوار کو چھوڑا
صدیوں کے بنائے ہوئے آثار کو چھوڑا
جو پیار تھا اُس شہر سے اُس پیار کو چھوڑا
پتھر کیا دل، کوچہ دلدار کو چھوڑا
اصنامِ دل آرام کے محور سے نکل آئے
قرآن حمائل کیا اور گھر سے نکل آئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آواز دی ذرّوں نے کہ رُک جاؤ نہ جاؤ
اِس ربطِ قدیمی کو نہ ٹھکراؤ نہ جاؤ
بھڑکے ہوئے جذبات کو ٹھہراؤ نہ جاؤ
اپنے دلِ نافہم کو سمجھاؤ نہ جاؤ
پھر ایسے سخن گو نہ سخن سنج ملیں گے
نکلو گے وطن سے تو بڑے رنج ملیں گے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بُلبل نے پکارا، مرے نغمات تو سُن لو
پھولوں نے کہا، ہم سے ذرا بات تو سُن لو
بھولی ہوئی برسوں کی حکایات تو سُن لو
ہنگامہ امکان و محالات تو سُن لو
گھر چھوڑ کے نادیدہ بلاؤں میں گھرو گے
اس باغ سے نکلو گے تو آوارہ پھرو گے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اک سمت سے آباء کے مزاروں نے پکارا
اک سمت سے پریوں کی قطاروں نے پکارا
محبوبوں کے خاموش اشاروں نے پکارا
لَب کھول کے جمنا کے کناروں نے پکارا
سب کی یہ صدا تھی ہمیں کیوں چھوڑ رہے ہو
دیکھو تو ہمیں، کس لیے منہ موڑ رہے ہو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آوازوں کے طوفان میں ڈوبی تھی سماعت
کچھ بھی نہیں آتا تھا سمجھ میں بصراحت
کچھ لہجے تصنع کے تھے کچھ میں تھی محبت
کچھ دیر کو طاری رہا اک عالمِ حیرت
ایّامِ گزشتہ کے حَوالے بھی بہت تھے
دشمن بھی تھے اور چاہنے والے بھی بہت تھے
 
Top