ٹائپنگ مکمل ہجرت

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس عالمِ حیرت سے عقیدت نے نکالا
ہر بات کو رد کر کے ہر آواز کو ٹالا
لغزش جو ارادوں میں ہوئی اُس کو سنبھالا
ہر گرد سے آئینہ خاطر کو اُجالا
یہ سوچ کے پرواہ نہ کی رنج و بلا کی
ہجرت بھی تو سنت ہے رسولِ دوسرا کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ کون؟ جو دنیا میں تھا پیمبرِ آخر
ہر شئے کو بنایا گیا جس ذات کی خاطر
جو خلقتِ کونین کا تھا شاہد و ناظر
وہ حامد و محمود و نذیر اور مبشر
لایا تھا زمانے میں جو پیغام خدا کا
بندوں کے لیے آخری انعام خدا کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تھا غارِ حرا جس کی تجّلی سے منّور
وہ گلشنِ توحید کا شاداب گل تر
بچپن سے چلا تھا جو رہ صدق و صفا پر
جب حکمِ خدا اُس کو ملا، چھوڑ دیا گھر
انداز بدلنا تھا جو دنیائے دنی کا
امت کو دیا درس غریب الوطنی کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ سرور و سالار رسولانِ زمانہ
ہر ایک نفس جس کا تھا وحدت کا ترانہ
مجموعہ انوارِ خدا جس کا گھرانہ
سینے میں تھا اسرارِ الٰہی کا خزانہ
کس کے لیے یہ منصبِ عالی نسبی تھا
واللہ وہی ہاشمی و مطلبی تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ صابر و صادق وہ امیں نورِ مجسم
قطرات عرق جس کے تھے انوار کی شبنم
والّیل قسم کھاتی تھی وہ گیسوئے پُرخم
والشمس فدا دیکھ کے رخسار کا عالم
خود رہگزرِ پا ہو یہ جنّت کی تمنّا
طوبٰی کو رہی سایہ قامت کی تمنّا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سر تا بقدم وہ ہمہ وحدت ہمہ اسلام
جبریل نے بھی صلّ علی پڑھ کے لیا نام
وہ شانِ خلیلی تھی کہ بت لرزہ بر اندام
کعبے نے جسے دیکھ کے خود باندھا تھا احرام
اُس ذاتِ پاک میں اک نور کا عالم نظر آیا
دیکھا اُسے قرآن مجسم نظر آیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر بات تھی آئینہ آیاتِ الٰہی
ہر سانس میں تھی کفر و ضلالت کی تباہی
قلبِ بشریت کی جو دھونا تھی سیاہی
مہر و مہ و انجم نے بھی دی اُس کی گواہی
تابع تھے کواکب بھی جو اُس پاک نظر کے
ٹکڑے کئے انگشتِ شہادت سے قمر کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ شا ہِ اُمم، فخرِ بشر، نورِ مجسم
تھی جس کے تصرف میں شہنشاہی عالم
تبلیغ میں توحید کی مصروف تھا ہر دَم
کفار نے ہر گام پہ ایذائیں دیں پیہم
حد کوئی بھی باقی نہ رہی جور و ستم کی
جاں لینے کے خواہاں تھے شہنشاہِ اُمم کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیا کیا نہ سہی سرورِ کونین نے ایذا
مکّے میں جو کافر تھا وہی دشمنِ جاں تھا
معدود تھے احباب تو گنتی کے اعزّا
لے دے کے جو تھا آسرا کوئی تو خدا کا
توحید کے اعلان نے طوفان اٹھایا
تیرہ برس اعدا نے بہر رنگ ستایا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تھے صحن حرم میں ابھی اصنام بہت سے
ناگفتہ تھے اللہ کےپیغام بہت سے
تکمیل طلب دین کے تھے کام بہت سے
ملنے تھے رسالت کے بھی انعام بہت سے
جوہر نہ کھلے تھے ابھی کردار علی کے
پردے ابھی اٹھنے تھے جمال ازلی کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مامور ملائک جو حفاظت کے لئے تھے
سب خدمت سرکار رسالت کے لئے تھے
جبریل نگہباں در دولت کے لئے تھے
پردے بہت ارباب ضلالت کے لئے تھے
ٹھانے ہوئے گو دشمن سرکار تھے کچھ اور
یاں خواب گہ خاص کے اسرار تھے کچھ اور
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جبریل نے آ کر یہ کہا اے شہ والا
مکے سے چلے جائیے ہے حکم خدا کا
محفوظ وہی راستہ ہے صبر و رضا کا
ہو جائے گا خود خاتمہ ہر رنج و بلا کا
تفویض امانت کریں اب حق کے ولی کو
بستر پہ سُلا جائیے بس اپنے علی کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مکے سے نکلنے کی عجب شام تھی وہ بھی
تاریک ہوئی جاتی تھی لَو شمع حرم کی
چھائی تھی ہر اک سمت فضاؤں پہ اُداسی
تعمیر خلیلی کو بھی تھا رنجِ جُدائی
نکلے جو نبی، غم سے نکلنے لگے آنسو
خود چشمہ زمزم سے اُبلنے لگے آنسو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ شام تھی مکے کی، اُدھر صبحِ مدینہ
گہورہ مسرت کا تھا انصار کا سینہ
پھولوں پہ وہ شبنم تھی کہ چہروں کا پسینہ
ہر قلب تھا جذباتِ عقیدت کا خزینہ
گھر سے نکل آیا تھا ہر اک راہ گزر تک
بچھی ہوئی آنکھیں تھیں سبھی حدِ نظر تک
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سرکارِ رسالت کی یہ ہجرت کا تھا منظر
تھا ساٹھ برس بعد مگر عالم دیگر
جب چھوڑ کے طیبہ کو چلے سبطِ پیمبر
اصحاب نے روکا کہ کہاں جاتے ہیں سرور
طیبہ کی سی آسائشِ جاں مل نہ سکے گی
کوفے کی فضاؤں میں اماں مل نہ سکے گی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شبیر نے فرمایا کہ ہے حکم خدا کا
طیبہ سے نکل جائیں تقاضا ہے فضا کا
طوفان سا ہے شام میں اب جَور و جفا کا
رُخ ہم کو بدلنا ہے زمانے کی ہوا کا
اسلام کی آواز ہے، فریاد ہے دیں کی
آیات صدا دیتی ہیں قُرآنِ مُبیں کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُٹھے رہے دیں میں جو قدم رک نہیں سکتے
دل میں لئے اسلام کا غم، رُک نہیں سکتے
باطل سے کبھی حق کی قسم ، رک نہیں سکتے
رُک جائے رَوش دہر کی، ہم رک نہیں سکتے
ہے جان کا غم ہم کو نہ ڈر تشنہ لبی کا
بھولے نہیں فرمان رسول عربی کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
باطل سے کبھی ہم نہ ڈرے تھے نہ ڈریں گے
قُرآن کا جو حکم ہے وہ کام کریں گے
فریاد نہ ہوگی، نہ کبھی آہ کریں گے
اس راہ میں مرنا ہے مقدر تو مریں گے
جاں دے کے زمانے سے مٹانا ہے بدی کو
آغوش میں لینا ہے حیاتِ ابدی کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مکے سے مدینے کو چلے تھے جو پیمبر
موجود نیابت کے لیے تھے وہاں حیدر
شبیر مدینے سے چلے چھوڑ کے جب گھر
چھوڑی تھی نشانی کو وہاں چھوٹی سی دُختر
حیدر تو مدینے میں ملے جا کے نبی سے
صُغرا نہیں مل پائی حسین ابن علی سے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کہتے ہیں کہ صُغرا میں تھی زہرا کی شباہت
شبیر کی نظروں میں تھا انجام شہادت
معلوم تھا ہونی ہے کیا کُوفے میں قیامت
کس طرح سے بے پردہ پھرے گی وہاں عترت
غیرت نے گوارا نہ کیا ابن علی کی
بے پردہ شباہت ہو وہاں بنت نبی کی
 
Top