کیا کیجئے بیاں عَالمِ غربت کا جو غم ہے
ہر نقش وطن کا وِرقِ دل پہ رقم ہے
احباب وعزا کی جدائی کا الم ہے
حاضر ہوں جو مجلس میں تو مولا کا کرم ہے
تحریر پہ قدرت ہے نہ قابو میں زباں ہے
خود وہ ہی مدد کرتے ہیں یہ جن کا بیاں ہے
عمر گزراں بڑھنے لگی، گُھٹنے لگا دم
بجھنے کو ہے جب آگ تو شعلے ہوئے برہم
اسبابِ طرب جمع ہوئے اور بڑھا غم
ہے اپنی ہنسی اپنے ہی حالات کا ماتم
کچھ تیز حرارت سی شب و روز ہے دل میں
بالوں میں جمی برف تو اب سوز ہے دل میں
ہم کون ہیں؟ ہم کیا ہیں؟ کہاں کے ہیں؟ کہاں ہیں؟
سو، نام و نشاں رکھ کے بھی بے نام و نشاں ہیں
ہم برگِ خزاں دیدہ ہیں یا ریگِ رواں ہیں
اِک گُم شدہ تہذیب کے اب مرثیہ خواں ہیں
اِس بے خبری پر کوئی مغموم نہیں ہے
ہم کیا تھے، نئی نسل کو معلوم نہیں ہے