طارق شاہ
محفلین
![](/mehfil/proxy.php?image=https%3A%2F%2Fs17.postimg.org%2Fw0rryje5n%2Fmuzaffar_warsi.jpg&hash=2df003df5d4adf771b32d6f53bea32eb)
غزل
ہاتھ اِنصاف کے چوروں کا بھی کیا میں کاٹُوں
جُرم قانوُن کرے، اور سزا میں کاٹُوں
دُودھ کی نہر ، شہنشاہ محل میں لے جائے !
تیشۂ خُوں سے پہاڑوں کا گَلا میں کاٹُوں
تیرے ہاتھوں میں ہے تلوار، مِرے پاس قَلَم
بول! سر ظُلم کا ، تُو کاٹے گا یا میں کاٹُوں
اب تو بندے بھی، خُدا بندوں کی تقدِیر لکھیں
دے وہ طاقت مجھے، اُن سب کا لِکھا میں کاٹُوں
پاؤں ہوتے ہوئے ، کب تک چلوں بیساکھیوں پر
کب تلک، دوسروں کا بویا ہُوا ، میں کاٹُوں
کُھلے ماحول پہ وہ حَبس کو معموُر کرے
سانس کی دھار سے زنجیرِ ہَوا، میں کاٹُوں
چھاؤں تو ، اُس کو مظفؔر نہیں اچھّی لگتی !
کہتا مجھ سے ہے کہ، یہ پیڑ گھنا میں کاٹُوں
مظؔفر وارثی