ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا - صدر بش کا پچھتاوا

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام، 2 دسمبر 2008

امریکی صدر جارج بش نے کہا ہے کہ بطور امریکی صدر انہیں اس بات کا سب سے زیادہ پچھتاوا ہے کہ عراقی صدر صدام حسین کے وسیع تباہی کے ہتھیاروں کے بارے میں ان کے جاسوسی ادارے ناکام رہے۔
اپنے اقتدار کے خاتمے سے پچاس روز قبل ایک طویل انٹرویو میں صدر بش نے کہا کہ کاش ان کے جاسوسی اداروں کی اطلاعات مختلف ہوتیں۔

تاہم صدر بش نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا کہ اگر انہیں معلوم ہو جاتا کہ عراق کے پاس کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں کا ذخیرہ نہیں ہے تو کیا پھر بھی دو ہزار تین میں وہ عراق پر حملہ کرتے۔


مزید پڑھیں۔۔

اسی بارے میں:

Bush calls flawed Iraq intelligence biggest regret
 

الف نظامی

لائبریرین
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

مسلمان میڈیا اس پر کیا ردعمل ظاہر کرتا ہے ، اس سے ہمارے ذرائع ابلاغ والوں کی بصیرت و بصارت کا کچھ اندازہ ہوسکے گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
signal to noise ratio!
پروپگنڈا تو ہے ہی شور ، جو زیادہ شور مچا لے وہ سچا۔
Weapon of mass destruction تو ملے نہیں لیکن پروپگنڈا کے زور پر عراق دا بیڑا غرق کردتا۔
ہمارے میڈیا والے بھی ذرا پروپگنڈا کے اصول پڑھ لیں۔
 

ساجداقبال

محفلین
عجیب بے شرم شخص ہے ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ وہائٹ ہاؤس سے نکلتے وقت ان کا سر اونچا ہوگا۔ ایویں ہی ہم مغربی لیڈروں کی اعلٰی ظرفیاں پڑھتے رہتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

بی بی سی اردو پر جس انٹرويو کا حوالہ ديا گيا ہے وہ آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہیں۔

http://abcnews.go.com/video/playerIndex?id=6379043

ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے اينٹلی جينس کی ناکامی محض امريکی اداروں تک محدود نہيں تھی بلکہ حقيقت يہ ہے کہ اس ايشو کے حوالے سے رپورٹنگ ميں امريکہ سميت بہت سے ديگر ممالک کے اداروں نے مساوی کردار ادا کيا تھا۔

صدر بش اپنے انٹرويو میں ان عوامل اور محرکات کا ذکر کر رہے تھے جو عراق پر کاروائ کے فيصلے کے ضمن ميں زير بحث تھے۔ ڈبليو – ايم – ڈی پر انٹيلی جينس رپورٹ فيصلہ سازی کے عمل کا اہم حصہ تھی۔ اگر يہ رپورٹ مختلف ہوتی تو اس کے نتيجے ميں سرکاری اور غير سرکاری سطح پر بحث بھی مختلف ہوتی۔ اس وقت حکومتی سطح پر کيے جانے والے فيصلے ڈبلیو – ايم – ڈی کی موجودگی کی صورت ميں ممکنہ خطرات کی روشنی ميں کيے گئے تھے۔ ليکن يہ حقيقت بہرحال اٹل ہے کہ صدام حکومت اس خطے اور عراقی عوام کے ليے ايک مستقل خطرہ تھی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

آبی ٹوکول

محفلین
عبیر ابو ذری سے معذرت کہ ساتھ ۔ ۔
ہوا بُش جو پشیماں تو اس میں ہے حقیقت
پڑتے نہیں یوں سب کو چھترات مسلسل
 

خاور بلال

محفلین
بی بی سی اردو پر جس انٹرويو کا حوالہ ديا گيا ہے وہ آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہیں۔

http://abcnews.go.com/video/playerindex?id=6379043

ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے اينٹلی جينس کی ناکامی محض امريکی اداروں تک محدود نہيں تھی بلکہ حقيقت يہ ہے کہ اس ايشو کے حوالے سے رپورٹنگ ميں امريکہ سميت بہت سے ديگر ممالک کے اداروں نے مساوی کردار ادا کيا تھا۔

صدر بش اپنے انٹرويو میں ان عوامل اور محرکات کا ذکر کر رہے تھے جو عراق پر کاروائ کے فيصلے کے ضمن ميں زير بحث تھے۔ ڈبليو – ايم – ڈی پر انٹيلی جينس رپورٹ فيصلہ سازی کے عمل کا اہم حصہ تھی۔ اگر يہ رپورٹ مختلف ہوتی تو اس کے نتيجے ميں سرکاری اور غير سرکاری سطح پر بحث بھی مختلف ہوتی۔ اس وقت حکومتی سطح پر کيے جانے والے فيصلے ڈبلیو – ايم – ڈی کی موجودگی کی صورت ميں ممکنہ خطرات کی روشنی ميں کيے گئے تھے۔ ليکن يہ حقيقت بہرحال اٹل ہے کہ صدام حکومت اس خطے اور عراقی عوام کے ليے ايک مستقل خطرہ تھی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov

ارے صاحب شرمندہ کیوں ہوتے ہیں۔ غلط انٹیلیجنس ہی تھی نا۔۔۔تو ہوجاتی ہے غلطی کیا ہوا۔ کوئی غلطی امریکہ نے آج تک ایسی کی ہے جو ضائع گئی ہو؟ نہیں! ۔۔۔ ہر غلطی سے ہی کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا اور یہ خوش آئند بات ہے۔ یاد ہے ایک دفعہ غلطی سے ایٹم بم استعمال ہوگیا تھا، لیکن یقین کریں اس سے سیکھا اور طے کیا کہ آئیندہ انسانوں کو ایٹم بم سے نہیں مارنا ہے۔ تو سیکھنے کا عمل ہے آہستہ آہستہ ہی سب آئے گا۔ شرمندگی کاہے کو ہے؟
 
Top