عالمی اردو کانفرنس۔ کراچی میں دنیا کا سب سے بڑا ادبی میلہ
عطاء محمد تبسم نومبر 23, 2018
کراچی میں آج کل ادب اور ادیبوں کا بہت بڑا جھمگٹاہے۔ شہر کے وسط میں آرٹس کونسل کی گیلری، لان، آڈیٹوریم میں، ادیب ، شاعر، افسانہ نگار، تنقید کرنے والے، لکھنے والے اور ادب کے شائیقین پڑھنے والے سب اپنے اپنے پسند کے لکھاریوں کو قریب سے دیکھنے، انھیں سننے اور ان کے ساتھ سیلفی بنواتے نظر آتے ہیں۔
کراچی میں ہونیوالی یہ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس ہے، دس سال جانے کیسے گزر گئے، ادیب، شاعر، صحافی، مصور، فن کار کا یہ میلہ ہرسال سجتا رہا، سجانے والے محمد احمد شاہ اور آرٹس کونسل آف پاکستان ہے۔اردو کانفرنس میں ایک سوگواری کی لہر بھی تھی، کانفرنس کے افتتاح سے ایک رات قبل ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض اس دار فانی سے رخصت ہوئی۔
افتتاحی اجلاس میں اپنی تقریروں میں کئی ایک نے ان کا ذکر کیا، سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے بھی انھیں ایک سیاسی ایکٹیویسٹ کے طور پر خراج عقیدت پیش کیا، ان کی خدمات کو سراہا،اور محمد احمد شاہ کو ان کی یاد میں ایک ریفرینس منعقد کرنے کی تاکید کی۔انھوں نے ملک کے دیگر شہروں اور دنیا کے کئی ممالک سے مندو بین کی شرکت پر خوشی کا اظہار کیا۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب ہر لحاظ سے پرشکوہ تھیں۔ شاندار انتظامات اور مہمانوں کی بہت زیادہ حاضری سے بھی کانفرنس میں ایک گرم جوشی کا ماحول تھا۔
مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ انجینئر ہیں، اس لیے ادب سے دور ہی رہے ہیں،کبھی تقریر میں کوئی شعر پڑھنا ہو تو لکھ لیتا ہوں، لیکن اکثر شعر پڑھتے ہوئے غلطی ہوجاتی ہے۔ اور آج تو یہاں اتنے اہل علم بھی موجود ہیں، اس لیے ڈر رہا ہوں کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ انھوں نے اردو کو کسی ایک طبقے کی بولی سے منسوب کرنے پر تنقید کی اور کہا کہ یہ سب کی زبان ہے، اردو زبان ایک دوسرے کو قریب لانے کے لیے پل کا کردار ادا کرتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی محبتیں بانٹنے والا شہر ہے اور یہاں پاکستان سمیت دنیا بھر کی ادبی شخصیات کا بڑی تعداد میں آنا خوش آئند ہے۔
اسٹیج پر اسد محمد خاں، بھارت سے آئے شمیم حنفی، منتنصر حسین تارڑ، مسعود اشعر، چینی ادیب ٹینگ مینگ شنگ، افتخار عارف، رضا علی عابدی، پیرزادہ قاسم ، زاہدہ حنا، امینہ سید، اعجاز احمدفاروقی، طلعت حسین موجود تھے۔محمد احمد شاہ کی تقریر عالمی اردو کانفرنس کے سفر کی داستان تھی، جس میں ان نازک لمحوں کا بھی ذکر تھا، جب کراچی میں لسانی سیاست عروج پر تھی اور آرٹس کونسل کی ان سرگرمیوں کو بھی خطرات لاحق تھے۔شمیم حنفی، ناصر عباس نیئر کی تقریر اور ہما میر کی کمپیئرینگ کے ساتھ پہلا اجلاس ختم ہوا تو حاضرین کی ایک بڑی تعداد ہال سے باہر بڑی اسکرین پر بھی کاروائی دیکھنے میں مصروف نظر آئی، شرکاءکی بڑی تعداد کی وجہ سے کانفرنس ہال کی تنگی داماں کی شکایت بہت سے افراد کو تھی۔
دوسری جانب اردو کانفرنس کے شرکاءکا کہنا تھا کہ زبان کی ترویج کے لیے ایسی کانفرنس کا انعقاد ایک کے بجائے کم از کم سال میں تین سے چار مرتبہ ہونا چاہیے۔ کراچی میں ہونے والا سال کا سب سے بڑا ادبی میلہ کہلاتا ہے جس کی شہرت کی بازگشت عالمی طور پر سنائی دیتی ہے۔ کانفرنس کے دوسرے سیشن میں،، جون ایلیا۔ ایک ہی شخص تھا جہاں میں کیا ،، پر خصوصی سیشن ہوا جس میں جون کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔اس سیشن میں انیق احمد کی کمپیئرینگ نے لطف دیا، یوں بھی وہ جون ایلیاءکے مداح اور عشاق میں شمار ہوتے ہیں۔ ممتاز ادیب انور مقصود نے حسب سابق مرحومین غالب، احمد فراز، اقبال کے دوسری دنیا سے آئے خطوط کا ذکر کیا اور جون ایلیا کا خط بھی سنایااور شرکا سے خوب داد وصول کی۔
آرٹس کونسل کے زیر اہتمام عالمی اردو کانفرنس 25 نومبر تک جاری رہے گی۔ دنیا کے کئی ممالک سے فلسفی، محققین، ادیب اور شاعروں نے اس کانفرنس میں شرکت نے جہاں اس کی حسن اور اہمیت اور وقار میں اضافہ کیا ہے۔ وہاں کراچی کو بھی دنیا اردو میں ایک امتیاز بخشا ہے۔
اردو کانفرنس ایک اور خاص بات نئی کتابوں کی رونمائی ہے، آج کانفرنس کی شام کی اجلاس میں تعبیر غالب( نیر مسعود) پر شمیم حنفی، نجم الحسن رضوی کی کتاب مٹی کا درخت پر مرزا حامد حسین، ایوب خاور کی سینوفی اور دیگر نظموں پر حارث خلیق، مجھے یاد کرنا (تہمینہ راﺅ) پر باصر کاظمی اور یاسمین حمید کی کتاب ہم دو زمانوں میں پیدا ہوئے پر مبین مرزا گفتگو کریں گے۔ اس تقریب کی نظامت ممتاز شاعرہ ناصرہ زبیری کریں گی۔