گھپ اندھیرا اَور جنگل ، مَیں اکیلا ہی چلا

گھپ اندھیرا اور ج۔۔۔ن۔گل ، مَیں اکیلا ہی چلا
ن۔۔۔۔۔ور کی م۔۔۔۔۔دھم ک۔۔۔۔رن کی آس میں چلتا رہا

لوگ کہتے تھے اندھیرے ختم ہوجائیں گے تو
خوش ام۔۔۔۔یدی کا دیا می۔۔رے لئ۔۔ے ج۔۔۔لت۔۔ا رہا

دو پہ۔ر کی رات بیتی تو کہیں رہب۔۔۔۔۔۔۔ر م۔۔۔لا
پھر یہ جانا دائ۔۔۔۔۔۔۔۔روں میں رات بھر چ۔۔۔لتا رہا

آب۔۔۔لہ پا ہُوں ، نمی آنکھوں میں لے کر یاس کی
دل ج۔۔۔۔گر تھ۔۔امے یہ دونوں ہاتھ میں مل۔تا رہ۔۔ا

کب تلک کانٹوں پہ چلنا مجھ پہ فیصل فرض ہے
ل۔۔۔۔۔۔۔۔وگ م۔۔نزل پ۔۔ا گئے م۔۔یرا سفر چ۔۔لتا رہا
 

الف عین

لائبریرین
مجموعی طور پر اچھی ہ۔
لوگ کہتے تھے اندھیرے ختم ہوجائیں گے تو
خوش ام۔۔۔۔یدی کا دیا می۔۔رے لئ۔۔ے ج۔۔۔لت۔۔ا رہا

دو پہ۔ر کی رات بیتی تو کہیں رہب۔۔۔۔۔۔۔ر م۔۔۔لا
پھر یہ جانا دائ۔۔۔۔۔۔۔۔روں میں رات بھر چ۔۔۔لتا رہا

ان دو اشعار میں ’تو‘ کی و طویل کھنچ رہی ہے، جو اچھی نہیں لگ رہی۔ ان کو
تب
میں تبدیل کر دو۔

آب۔۔۔لہ پا ہُوں ، نمی آنکھوں میں لے کر یاس کی
دل ج۔۔۔۔گر تھ۔۔امے یہ دونوں ہاتھ میں مل۔تا رہا
اس میں ’یہ‘ زاد لگ رہا ہے۔ پھر سوچو کیا یہ ممکن ہے کہ دل جگر دونوں تھامیں ہوں ار پھر بھی دونوں ہاتھ مل رہے ہوں۔ کتنے ہاتھ ہیں بھئ؟؟
 

آصف شفیع

محفلین
صوتی اعتبار سے غزل اچھی لگ رہی ہے۔ لیکن الف-عین صاحب نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں وہ بالکل بجا ہیں۔ مفاہیم کے اعتبار سے اکثر اشعار یا تو دو لخت ہیں یا مفہوم واضح نہیں ہو سکا۔دوپہر کی رات؟ پھر رات بیتنے کے بعد رہبر کا ملنا اور اگر رہبر مل گیا تو پھر بھی دائروں میں چلنا۔ ان سب باتوں میں ربط نہیں بن رہا۔دوسرے شعر میں "تو" بہت ہی برا استعمال ہوا ہے۔ " تب" سے بات بھی نہیں بن رہی۔اسی طرح دوسرے شعروں میں بھی اسی طرز کے سقم موجود ہیں۔ مقطع بہر طور اچھا ہے۔ ہم فیصل صاحب سے مزید بہتری کی توقع ضرور رکھیں گے۔
 
گھپ اندھیرا اور ج۔۔۔ن۔گل ، مَیں اکیلا ہی چلا
ن۔۔۔۔۔ور کی م۔۔۔۔۔دھم ک۔۔۔۔رن کی آس میں چلتا رہا

لوگ کہتے تھے اندھیرے ختم ہوجائیں گے سو
خوش ام۔۔۔۔یدی کا دیا می۔۔رے لئ۔۔ے ج۔۔۔لت۔۔ا رہا

آب۔۔۔لہ پا ہُوں ، نمی آنکھوں میں لے کر یاس کی
دل ج۔۔۔۔گر جلتے تھے دونوں ہاتھ میں مل۔تا رہ۔۔ا

کب تلک کانٹوں پہ چلنا مجھ پہ فیصل فرض ہے
ل۔۔۔۔۔۔۔۔وگ م۔۔نزل پ۔۔ا گئے م۔۔یرا سفر چ۔۔لتا رہا

دو پہ۔ر کی رات بیتی تب کوئی رہب۔۔۔۔۔ر م۔۔۔لا
پھر یہ جانا دائ۔۔۔۔۔۔۔۔روں میں رات بھر چ۔۔۔لتا رہا
 
میں کچھ نالائق شاگرد ثابت تو نہیں ہورہا ۔ اصل میں پہلی والی آمد تھی اور یہ مسحوب لہذا آمد میں روانگی کچھ بہتر ہے جبکہ مسحوب میں اثرات سحب واضح ہیں


اساتذہ کی رہ نمائی کے مطابق کچھ تبدیلیاں کی ہیں اگر بہتر ہے تو درست ورنہ پھر سے درستگی کے لئے حاضر ہے
 

ایم اے راجا

محفلین
اچھی غزل ہے، اعجاز صاحب ہی مزید رائے دیں گے، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ کچھ سقم ہے خاص طور پر مندرجہ ذیل اشعار میں،
آب۔۔۔لہ پا ہُوں ، نمی آنکھوں میں لے کر یاس کی
دل ج۔۔۔۔گر جلتے تھے دونوں ہاتھ میں مل۔تا رہ۔۔ا

دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی ہے، پہلے مصرعہ پر غور کریں اور دوسرے کو دیکھیں۔

دو پہ۔ر کی رات بیتی تب کوئی رہب۔۔۔۔۔ر م۔۔۔لا
پھر یہ جانا دائ۔۔۔۔۔۔۔۔روں میں رات بھر چ۔۔۔لتا رہا

تفہیم نہیں ہو رہی، کیا کہنا چاہتے ہیں، دوپہر کی رات؟
 

آصف شفیع

محفلین
گھپ اندھیرا اور ج۔۔۔ن۔گل ، مَیں اکیلا ہی چلا
ن۔۔۔۔۔ور کی م۔۔۔۔۔دھم ک۔۔۔۔رن کی آس میں چلتا رہا

لوگ کہتے تھے اندھیرے ختم ہوجائیں گے سو
خوش ام۔۔۔۔یدی کا دیا می۔۔رے لئ۔۔ے ج۔۔۔لت۔۔ا رہا

آب۔۔۔لہ پا ہُوں ، نمی آنکھوں میں لے کر یاس کی
دل ج۔۔۔۔گر جلتے تھے دونوں ہاتھ میں مل۔تا رہ۔۔ا

کب تلک کانٹوں پہ چلنا مجھ پہ فیصل فرض ہے
ل۔۔۔۔۔۔۔۔وگ م۔۔نزل پ۔۔ا گئے م۔۔یرا سفر چ۔۔لتا رہا


دو پہ۔ر کی رات بیتی تب کوئی رہب۔۔۔۔۔ر م۔۔۔لا
پھر یہ جانا دائ۔۔۔۔۔۔۔۔روں میں رات بھر چ۔۔۔لتا رہا

فیصل صاحب۔ پہلے سے مصرعے کچھ بہتر ہوئے ہیں۔" سو" سے پھلے " ، " ضرور لگائیں تاکہ سو کا ربط دوسرے مصرعے سے بن جائے۔دل جگ والا شعر ٹھیک ہو گیا ہے۔ آخری شعر میں ابھی بات بن نہیں پائی۔
 
یار مجھے یہ سمجھ نہیں اتی کہ ہم لوگ انہی استعاروں میں مقید کیوں رہنا چاہتے ہیں جو پہلوں نے کئے ۔ کچھ نیا کر کے تو دیکھیں اب دو پہر کی رات پر بارہا کہا جارہا ہے اس سلسلے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ رات میں پہر ہوا کرتے ہیں یا نہیں ۔ اگر ہوا کرتے ہیں تو اسے دو پہر کی رات کہنے میں کیا مضائقہ ہے ۔ البتہ دیگر پر ا-ع صاحب کی رائے کا بھی انتظار ہے تاکہ کہیں پہنچ پاؤں ۔

میرے انداز بیاں سے اگر کسی کو بھی کسی قسم کی کوفت ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں ۔ اس سے کسی کی بھی تکریم میں کمی یا اہانت مطلوب نہیں ہے بلکہ ایک نقطہ نظر پیش کیا ہے ۔
 
جمیل نستعلیق میں کاوش

گھپ اندھیرا اور جنگل ، مَیں اکیلا ہی چلا
نور کی مدھم کرن کی آس میں چلتا رہا

لوگ کہتے تھے اندھیرے ختم ہوجائیں گے سو
خوش امیدی کا دیا میرے لئے جلتا رہا

آبلہ پا ہُوں ، نمی آنکھوں میں لے کر یاس کی
دل جگر جلتے تھے دونوں ہاتھ میں ملتا رہا

کب تلک کانٹوں پہ چلنا مجھ پہ فیصل فرض ہے
لوگ منزل پا گئے میرا سفر چلتارہا

دو پہر کی رات بیتی تب کوئی رہبر ملا
پھر یہ جانا دائروں میں رات بھر چلتا رہا
 

مغزل

محفلین
جناب رسید حاضر ہے ، تفصیلی مطالعے کے بعد مقدور بھر ’’ بیان بازی ‘‘ کروں گا۔
 
Top