مکمل گُل رُخے (افسانہ) ۔ احمد ندیم قاسمی

فرخ منظور

لائبریرین
گُل رخے (افسانہ)
(تحریر: احمد ندیم قاسمی)

میں اس قسم کی ہنگامی رقّت کا عادی ہوچکا ہوں۔ کسی کو روتا دیکھ کر، خصوصاً مرد کو اور پھر اتنے تنومند اور وجیہہ مرد کو روتا دیکھ کر دُکھ ضرور ہوتا ہے،مگر اب میں اس بے قراری کے مظاہرے کا اہل نہیں رہا جو ایسے موقعوں پر غیر ڈاکٹر لوگوں سے سرزد ہوجاتی ہے۔
’’باری سے آئو خان !‘‘ میں نے نرمی سے کہا۔’’بنچ پر بیٹھ جائو اور باری سے آئو۔‘‘
اب اس کے آنسوئوں نے اس کی مونچھوں اور ڈاڑھی تک کو بھگودیا تھا۔ اس کی ناک سُرخ ہوگئی اور گردن کی رگیں اُبھر آئی تھیں ’’تم باری بولتا ہے ڈاگدار صاحب اور اُدھر ہمارا بیٹی مرتا ہے، ہمارا بیٹی کے پسلی میں دَرد ہے۔ اِدھر بھی درد ہے اُدھر بھی درد ہے۔ہمارا بیٹی روتا ہے، ہمارا بیٹی کھانستا ہے تو چیختا ہے۔ ہمارا بیٹی جوان ہے۔‘‘
اس آخری فقرے پر میں چونکا۔ خان کی بیٹی کو نمونیہ ہوگیا ہے اور شاید ڈبل نمونیہ ہے۔ لیکن مجھے یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ اُس کی بیٹی جوان بھی ہے۔ میں پٹھانوں کی عزت کرتا ہوں، اس لیے کہ وہ غیور، بہادر اور سچے ہیں۔ مگر آخر اتنی شدید سچائی بھی کیا کہ بیٹی کے سن و سال تک کا اشتہار دے دیا جائے مجھے افسوس ہوا کہ ادھیڑ عمر کے اس تنومند وجیہہ پٹھان کی ذہنیت اتنی پست ہے کہ وہ مجھے اپنی بیٹی کی جوانی کا لالچ دیتا ہے اور میرے متعلق اسے یقین ہے کہ میں یہ اطلاع پاتے ہی ہتھیارڈال دوں گا اور اس کی بیٹی کے پاس بھاگا جائوں گا۔’’نہیں!‘‘ میں نے اپنی آواز میں ذرا سی گرج پیدا کرنے کی کوشش کی۔’’ابھی ٹھہرو۔ باری سے آئو۔‘‘
میں نے ایک مریض کو قریب آنے کا اشارہ کیا، مگر خان نے دولمبے ڈگ بھرے اور اُٹھتے ہوئے مریض کو ایک ایسا ٹہو کا دیا کہ وہ پھر سے یوں بنچ پر بیٹھ گیا جیسے کبھی اٹھا ہی نہیں تھا۔ اب کے خان کی آواز میں غصہ بھی تھا۔ ’’ہم کہتا ہے ہمارا بیٹی مرتا ہے، تم کہتا ہے باری سے آئو۔ اچّھا منصف ڈاگدار ہے!‘‘ پھر وہ فریاد کرنے لگا۔’’ہم تم کو دعا دے گا، ہم تمھارا نوکری کرے گا۔ ہم تمھارا لکڑی چیرے گا۔ ہمارا بیٹی کو بچائو، ہمارا بیٹی جوان ہے۔‘‘
میں ذرا سا متاثر ہونے لگا تھا کہ خان نے پھر اپنی بیٹی کی جوانی کا مژدہ سنایا۔ میں نے اس کی طرف غصے سے دیکھا مگر اس کے چہرے پر سوائے لوٹ کے اور کچھ نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں بڑا گہرا دُکھ تھا اور اس کے ہونٹوںکے گوشے ٹھوڑی کی طرف خم کھا کر اس کے چہرے کو مجسم پکار بنارہے تھے۔ میں نے سٹیتھوسکوپ اٹھائی اور دوسرے مریضوں سے معذرت کرکے خان سے کہا۔’’چلو خان، آئو!‘‘
خان مجھے دُعائیں دینے لگا۔ ’’سچا مسلمان ڈاگدار ہے۔ خدا بڑا بڑا دولت دے، خدا لمبا لمبا موٹردے، خدا اچھا اچھا بچہ دے۔ خدا…‘‘ سڑک پر جاکر میں نے خان سے پوچھا۔’’تانگا لے لیں؟‘‘
خان بولا۔’’نہیں نہیں ڈاگدار صاحب! ہم تمھارا ہمسایہ ہے۔ ہمارا تمھارے پر حق ہے۔ ادھر ایک منٹ میں جاتا ہے۔ خدا تمھارا بلا کرے گا ڈاگدار صاحب ہمارا بیٹی کو بچائو۔ ہمارا بیٹی جوان ہے۔‘‘
مجھے خان کی اس مکّرر یاد دہانی سے بڑی کوفت ہوئی مگر اب وہ میرے آگے لمبے لمبے ڈگ بھرتا جارہا تھا۔ اس کی گردن پر گرتے ہوئے پٹے سنہرے تھے جن میں کہیں کہیں کوئی سفید بال جھلک جاتا تھا۔ لمبے کرتے کے کالر پر تیل کی چکنائی اور میل کا ایک اور کالر چڑھ گیا تھا جو دھوپ میں چمک چمک جاتا تھا۔ اس کے ہاتھوں کی موٹی انگلیاں بھینچی ہوئی تھیں اور وہ کچھ یوں چل رہا تھا جیسے بس نہیں چل رہا ورنہ ایک ہی ڈگ میں گلی طے کر جاتا۔ میں اس کے پیچھے بھاگنے اور چلنے کے درمیان کی کسی کیفیت میں ہانپتا آرہا تھا۔
’’ادھر کو ہے‘‘ وہ ایک اور گلی میں مڑگیا اور پھر ایک گندی نالی پر سے پھاند کر رُک گیا اور پلٹ کر بولا۔’’کُود جائے گا ڈاگدار صاحب؟۔‘‘
میں فوراً کود آیا ورنہ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں جواب دینے کے لیے رکتا تو وہ مجھے ایک بچے کی طرح بغل میں اُٹھاکر نالی کے اس پار لے جاتا۔ نالی پار کرتے ہی وہ پھر تیز تیز چلنے لگا اور آخر ایک کالی بھُجنگ کوٹھڑی کے سامنے رُکا۔’’یہ ہمارا ڈیرہ ہے۔ ہمارا بیٹی اندر ہے۔‘‘
پھر وہ اندر جاتے ہوئے پکارا۔ ’’گُل رُخے!‘‘
اندر گل رُخ نے کراہ کراہ کر کوئی بات کی مگر باپ بیٹی پشتو میں بول رہے تھے اس لیے میں بہت کم سمجھ پایا۔ یہ کوٹھڑی لکڑیوں کی ایک بہت بڑی ٹال کے احاطے میں تھی۔ اس قسم کی کوٹھڑیوں کی قطار دُور تک چلی گئی تھی۔ باہر چند بچے کھیل رہے تھے۔ شام قریب تھی اس لیے تقریباً ہر کوٹھڑی کے دروازے میں سے دُھواں نکل رہا تھا۔ خان کی کوٹھڑی کے دروازے میں بھی اچانک گاڑھے دھوئیں کا ایک طوفان اُمڈ پڑا۔ میں دھوئیں سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹا تو خان باہر آیا اور بولا’’ اندر کیوں نہیں آتا ڈاگدار صاحب، اندر آئو نا‘‘ اور میں ناک پر رومال پھیلا کر اندر چلا گیا، بلکہ دھوئیں کے سیلاب میں اتر گیا۔
خان نے محسوس کرلیا تھا کہ میں دھوئیں سے گھبرارہا ہوں۔اس لیے اُس نے دھوئواں چھوڑتی لکڑیوں میںکچھ اس زور سے پھونکیں مارنا شروع کیں کہ معلوم ہوتا تھا دھونکنی چل رہی ہے۔ میں آگ کی سیدھ میں آہستہ آہستہ

آگے بڑھا۔ آنکھوں سے پانی بہنے لگا تھا اور دَم گھٹ رہا تھا۔ پھر ایک دم آگ بہت زور سے بھڑک اُٹھی اور کمرا روشن ہوگیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے روشنی سے ڈر کر سارا دھوأں دروازے کے پاس جاکر ڈھیر ہوگیا ہے۔ کوٹھڑی میں کوئی کھاٹ نہیں تھی۔آگ کی پرلی طرف میلے کچیلے گودڑوں کی ایک ڈھیری سی رکھی تھی اور خان اسی کے پاس کھڑا ہاتھ مل رہا تھا۔ اِدھر کو ہے ڈاگدار صاحب!‘‘ اس نے کہا اور پھر گودڑوں سے مخاطب ہوا’’ ڈاگدار صاحب آگیا گُل رُخے! ڈاگدار صاحب بڑا اچھا آدمی ہے۔ بڑا مسلمان آدمی ہے۔ یہ تم کو ٹھیک کردے گا۔ یہ تم کو انار کا دانہ بنادے گا۔‘‘
مجھے اب تک گُل رُخ کا چہرہ نظر نہیں آیا تھا۔ مگر اس کی کراہوں کے رُک جانے سے میں نے یہ اندازہ ضرور لگالیا تھا کہ اُس نے مجھے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ لیا ہے اور وہ مارے حیا کے ضبط کیے بیٹھی ہے۔دراصل اس کے چہرے کو شعلوں نے چھپا رکھا تھا کیونکہ جب میں خان کے قریب آیا تو گودڑوں میں حرکت ہوئی اور گُل رُخ نے ٹانگیں پھیلا دیں۔ اس نے گردن تک لحاف اوڑھ رکھا تھا اور ماتھے پر سُرخ رنگ کے کپڑے کی پٹّی باندھ رکھی تھی۔ میں اس کے قریب زمین پر بیٹھ گیااور بالکل ڈاکٹروں کے سے پیشہ ورانہ انداز میں بولا۔’’سو یہ ہے گل رُخ!‘‘

گل رُخ چھت کو دیکھتی رہی اور آنکھیں جھپکتی رہی۔ اس کے تیوروں سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اس نے درد کی ٹیسوں پر بے پناہ ضبط کررکھا ہے۔ اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور معلوم ہوتا تھا اُمڈے ہوئے آنسوئوں کو پونچھنے کے لیے انھیں ابھی ابھی جلدی سے ملا گیا ہے، ان آنکھوں میں آگ کے شعلوں کا ننھا سا عکس ناچ رہا تھا۔ اتنی سیاہ آنکھوں میں یہ چمک بالکل اس چراغ کی سی لگتی تھی جو گھپ اندھیری رات میں کہیں دُور ٹمٹما رہا ہو اور ان آنکھوں کے اِرد گرد لمبی خمیدہ پلکوں نے کچھ ایسی گھنی قطار باندھ رکھی تھی اور ان آنکھوں کی پہرہ داری کے منصب پر یہ کچھ ایسی مغرور معلوم ہورہی تھیں کہ گُل رُخ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے پہلے ذرا سا سوچنا پڑتا تھا۔ بھویں اتنی لمبی تھیں کہ اس کی مینڈھیوں میں گم ہوئی جارہی تھیں۔ سونے کے سے رنگ پران کی سیاہی یوں اُبھر آئی تھی کہ معلوم ہوتا تھا بناوٹی ہیں اور آنکھوں کے تناسب کے مطابق کتر کرچپکا دی گئی ہیں۔ اس کی ناک کی اتار میں ایک تدریجی اٹھان تھی اور نتھنوں کے ذرا سے اُبھار میں جذبات سمٹے بیٹھے تھے۔ درد پر ضبط کرنے کے باعث اس کے نتھنے پھڑک پھڑک جاتے تھے اور چہرے کا سونا چمک اُٹھتا تھا۔ مصنوعی حدتک گلابی ہونٹ نیم وا تھے اس لیے ان کے بیرونی خطوط بہت واضح ہورہے تھے۔ اُوپر کا ہونٹ اس کمان کا سا تھا۔جسے قدیم یونانی سنگ تراش کیوپڈکے ہاتھ میں دکھاتے تھے اور نچلا ہونٹ ایک قوس سی معلوم ہورہا تھا۔ صرف وسط میں آکر وہ بہت خفیف ساخم کھا گیا تھا۔ دونوں ہونٹوں کے گوشے کہاں ملتے تھے، اس کا مجھے علم نہیں ہوسکا۔ کیونکہ دونوں قوسیں دونوں طرف کہیں گہرائیوں میں چلی گئی تھیں اور

ایک گوشے کے کنارے کاتل جیسے اس گہرائی میں مستقل جھانک رہا تھا۔ نیم وا ہونٹوں کے درمیان ذرا ذرا دکھائی دیتے ہوئے بہت سفید دانتوں میں بھی آگ کے شعلے ناچ رہے تھے۔ اس کی ٹھوڑی کو گودڑ کے ایک حِصّے نے چھپالیا تھا اور کانوں کو ایک میلی سُرخ چادر نے جس کے کنارے کے ساتھ ساتھ اس کی کنپٹیوں سے اُوپر کی باریک باریک گندھی ہوئی مینڈھیوں کا ایک حصہ نظر آرہا تھا۔ یہ سب کچھ میں نے ایک نظر میں اور ایک پل میں دیکھ لیا اور بعد میں جب میں نے سوچا کہ ایک ہی پل میں اس کے چہرے کی ایک ایک تفصیل کو کس طرح اپنے ذہن میں محفوظ کرلیا، آخر مجھے اس کی کنپٹیوں کے نیچے والے سنہرے روئیں کیسے دکھائی دے گئے اور اس کے ایک گال پر کا وہ سوئی کی نوک کا سا سُرخ نشان کیسے یاد رہ گیا جو شاید مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوا تھا۔ بہرحال میں نے گل رُخ کو ایک نظر دیکھا اور پھر خان کی طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہوں۔ ’’تم ٹھیک کہتے تھے خان! تمھاری بیٹی صحیح معنوں میں جوان ہے۔‘‘
خان مجھے اپنی طرف متوجہ پاکر میرے پاس بیٹھ گیا اور پھر رقت بھرے انداز میں بولا۔’’ہم کیا کرے ڈاگدار صاحب! ہم مرد ہو کر روتا ہے، ہم کو بڑا شرم لگتا ہے پر ہمارا بیٹی ہمارا خزانہ ہے…یہ مرگیا تو ہم مرجائے گا۔ اس کو کوئی ایسا دوائی دو کہ بس یوں…‘‘اور اس نے ایک نہایت زوردار چٹکی بجائی…’’یوں درد چلا جائے۔ ہم تمھارا نوکری کرے گا۔ ہم تمھارا بچّوں کو دُعا دے گا۔‘‘
میں نے خان کے ایک کندھے کو تھپکا اور پھر دوسری نظر گل رُخ پر ڈالی مگر میری آنکھیں فوراً جھپک گئیں، وہ میری طرف دیکھ رہی تھی اور ان آنکھوں میں کتنی وسعت اور کتنی گہرائی تھی۔ میرا ذہن اتنے مکمل حسن کو گرفت میں لانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہا تھا۔ سواسے اس بے کار کی ریاضت سے بچانے کے لیے میں نے گُل رُخ سے پوچھا کس قسم کا درد ہے گل رُخ؟ ایک جگہ پر کچو کا سا محسوس ہوتا ہے یا یہ دَرد کافی حِصے پر پھیلا ہوا ہے؟‘‘
خان کی آواز ایک دم کرخت ہوگئی۔’’اُور کیا پُوچھتا ہے، ادھر ہم سے پوچھو نا!‘‘
میں نے ناگواری سے کہا۔’’تم مجھے یہاں اس لیے لائے ہونا کہ میں مریضہ کو دیکھوں؟‘‘
’’دیکھ تو لیا۔‘‘ اس نے کہا۔’’اب دوسرا باتیں ہم سے پوچھو!‘‘
میں خود تو پریشان ہو ہی رہا تھا، انتقاماً میں نے اسے بھی پریشان کرنا چاہا۔’’میں گل رُخ کی نبض دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ بولا۔ ’’نبض نہیں دیکھے گا۔ تم غیر محرم ہے۔ ہم زنانہ لوگ کا نبض نہیں دکھاتا ہے۔ ہم پٹھان ہے۔‘‘
میں غصے سے اُٹھا اور تیزی سے قدم اٹھاتا باہر آگیا۔ خان میرے پیچھے بھاگا اور اندر سے گل رُخ کی لمبی لمبی کراہوں کی آواز آنے لگی۔
’’کِدر کو جاتا ہے ڈاگدار صاحب؟‘‘ خان کا لہجہ پھر نرم ہوگیا۔’’نراضی مت کرو نا۔ ادھر ہمارے وطن میں لڑکی کانبض نہیں دکھاتا ہے۔ ہم تم کو بتاتا ہے گل رُخے کے ادھر کو بھی درد ہے۔ اُدھر کو بھی درد ہے۔ بڑا کافر بخارہے۔ زبان سُوکھ جاتا ہے۔ کھانستا ہے تو چیختا ہے۔ رات کو کھانسا تو بے ہوشی ہوگیا۔ دیکھو ڈاگدار صاحب! ہمارا بڑا نقصان ہوجائے گا۔ ہمارا بیٹی جوان ہے۔‘‘
میں نے تنگ آکر کہا۔ ’’خان! دیکھو، ڈاکٹر اگر مریض کی نبض نہ دیکھے، یہ آلہ لگا کر درد والی جگہ نہ دیکھے۔ اس کی زبان نہ دیکھے، اس کے ناخنوں کا رنگ نہ دیکھے اور خود مریض سے اس کی بیماری کا حال نہ سنے تو وہ علاج خاک کرے گا۔ اگر یہ ساری باتیں تمہی کو بتانی تھیں تو پھر مجھے یہاں کیوں لائے۔‘‘
’’اہو ڈاگدار صاحب!‘‘خان ان الفاظ کو کچھ یوں کھینچ کر بولا جیسے اسے میری سادگی پر رحم آگیا ہے۔ ’’ہم تم کو یہ دکھانے لایا کہ ہمارا بیٹی جوان ہے!‘‘
میں چکرارکر رہ گیا۔ میرے دل میں اُبال سا اُٹھا کہ خان سے اس تکرار کی وجہ پوچھوں اور اسے یہ بھی بتا دوں کہ اس کی بیٹی واقعی جوان ہے اور ناقا بلِ یقین حدتک حسین بھی ہے اور وہ ان میلے کچیلے گودڑوں میں لپٹی ہوئی یوں نظر آتی ہے جیسے کوڑے پر گلاپ کا پھول پڑا ہو۔ لیکن آخر ان سب باتوں سے مجھے کیا لینا ہے!
خان نے مجھے حیران دیکھ کر پوچھا۔’’سمجھا؟‘‘
’’سمجھ گیا۔‘‘ میں نے کہا۔
اور خان کو میں نے پہلی بار مسکراتے دیکھا۔ لیکن گل رُخ کی کراہوں کی آواز سُن کر اُس کی مسکراہٹ مرجھاگئی اور وہ لپک کر دروازے تک گیا۔ پشتو میں اس نے گل رُخ سے کچھ کہا اور میرے پاس آکر گُل رُخ کے درد، بخار اور بیقراری کا سارا قصہ دوبارہ کہہ سنایا۔ مَیں نے اسے تسلی دی اور بتایا کہ پنسلین کے چند انجکشنوں سے گل رُخ تندرست ہوجائے گی۔ ’’سوئی لگے گا؟‘‘اس نے آنکھیں پھاڑ کر مجھ سے پوچھا۔’’نہیں ڈاگدار صاحب! سوئی نہیں لگائو۔ گولی دو۔ شربت دو،…سوئی بڑا کافر چیز ہے۔ سوئی تو ہم بھی نہیں لگوائے گا۔
گل رُخے کیسے لگوائے گا؟‘‘
اب یہ نئی مشکل پیدا ہوگئی تھی اور ادھر شام ہونے کو آئی تھی اور مطب میں مریضوں کا ایک ہجوم میرا منتظر تھا۔ میں نے خان کو یقین دلانے کے لیے خلافِ عادت قسمیں کھائیں کہ گل رُخ صرف اسی طرح تندرست ہوسکتی ہے۔ پھر اسے چند واقعات سنائے کہ کس طرح نمونیہ کے وہ مریض جو یہ انجکشن نہ لگواسکے، مرگئے۔ ساتھ ہی میں نے اسے یہ بھی سمجھایا کہ ڈاکٹروں اور حکیموں کے معاملے میں محرم اور غیر محرم کی قید اڑا دینی چاہیے ’’اور اگر تم یہ سب باتیں نہیں مانتے‘‘ میں نے اسے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی’’ تو پھر اپنی گل رُخ کے کفن اور قبر کا ابھی سے انتظام کرلو۔ اس حالت میں تو شاید وہ آدھی رات تک بھی مشکل ہی سے جی سکے۔‘‘
خان نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبا کر یوں ایک دم پُھوٹ پُھوٹ کر رودیا کہ باوجود ڈاکٹر ہونے کے مجھ سے ضبط نہ ہوسکا۔ میں نے فوراً بیگ کھولا۔ دوا تیار کرکے سرنج میں بھری اور دروازے کی طرف بڑھا۔ مگر خان اسی طرح روتا ہوا راستہ روک کر دروازے میں کھڑا ہوگیا اور آہستہ سے بولا۔’’سوئی کو چھپالو ڈاگدار صاحب! گل رُخے دیکھے گا تو روئے گا۔‘‘
مَیں نے سرنج چھپالی تو وہ بولا۔’’ہم کو بتادو ہم لگادے گا۔‘‘
مَیں نے اسے پھر سمجھانا شروع کیا کہ کوئی دوسرا آدمی یہ کام کرے گا تو سوئی کے ٹوٹنے اور غلط انجکشن لگنے سے مریض کے مرجانے تک کا خطرہ ہوتا ہے۔
وہ دروازے میں سے بادِلِ ناخواستہ ہٹ گیا اور بڑے پیارسے بیٹی کو پکارا’’گل رُخے۔‘‘
گل رُخ کی کراہیں ایک دم رک گئیں۔
خان بولا۔’’ڈاگدار صاحب تم کو ایک دوائی دے گا۔ دوائی ذرا سا کاٹتا ہے پر یہ اِن شاء اللہ بیماری کو بھی کاٹتا ہے۔ میرا بیٹی ٹھیک ہوجائے گا۔ہم اپنا بیٹی کے لیے ریشم کا شلوار لائے گا۔ شیشے والی چوڑی لائے گا۔ جلیبی کھلائے گا۔‘‘ پھر اُس نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔
گل رُخ نے دیوار کی طرف کروٹ بدل لی تھی اور اس کی موٹی سی چوٹی فرش پر بچھے ہوئے گودڑ پر ناگن کی طرح لہرائی ہوئی پڑی تھی۔ خان نے ایک لمبا ڈگ بھرا اور چوٹی کو گودڑ میں کچھ اس تیزی سے چھپا دیا جیسے اس چوٹی کہ وجہ سے ساری گل رُخ ننگی ہورہی ہے۔ پھر اس نے ہونٹوں سے پچ پچ کی آواز نکا لتے ہوئے گل رُخ کے سَر پر ہاتھ پھیرا اورمیری طرف دیکھا۔
’’بازو پر سے کپڑا ہٹا دو۔‘‘ میں نے کہا۔’’یہاں سے۔‘‘
خان کسی سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر کچھ اس انداز سے جیسے وہ بالکل بے بس کردیا گیا ہے۔ اس نے اپنے سَر کو دو تین بارجھٹکا اور گل رُخ کی کھلی آستین اُوپر چڑھا دی مگر فوراً اس کے سارے بازو پر گودڑ پھیلادیا۔ صرف وہی ذرا ساحصہ ننگا رکھا جس کی طرف مَیں نے اشارہ کیا تھا۔ اس کو بیٹی کے معاملے میں اس حدتک محتاط دیکھ کر میں نے اس کا دل رکھنے کے لیے کہا۔ ’’دیکھوخان!میں گل رُخ کو ہاتھ نہیں لگائوں گا۔ تم اس کا بازو اچھی طرح تھامے رکھو۔ گل رُخ کو سمجھا دو کہ وہ بازو نہ ہلائے ورنہ گڑبڑ ہوجائے گی۔‘‘
خان نے پشتو میں گل رُخ کو سمجھایا اور میری طرف بڑے درد مندانہ انداز میں دیکھا۔ مجھے بازو کی طرف جُھکتا دیکھ کر اس نے گل رُخ سے کہا۔’’دوا کاٹے گا گل رُخے خبردار!‘‘
میں نے تیزی سے سوئی کو گل رُخ کے بازو کے سونے میں اتار دیا۔ وہ سر سے پائوں تک لرزگئی مگر اُف تک نہ کی۔ خان نے اپنے نچلے ہونٹ کو بڑے زور سے دانتوں میں دبا لیا۔ میں نے جلدی سے دوا گزار دی اور پھر خان کو سوئی کے پاس انگلی سے دبائو ڈالنے کو کہا اور سوئی کھینچ لی۔ روئی کا ذرا سا ٹکڑا دے کر میں نے اسے ہدایت کی کہ انجکشن کی جگہ کو ذرا سا مل دے۔ میں واپس چلا تو خان بولا۔’’اب پھر کب لگے گاڈاگدارصاحب…؟‘‘
’’کل صبح کو۔‘‘ میں نے کہا۔’’تمھارے آنے کی ضرورت نہیں۔ میں خود آجائوں گا۔‘‘
خان نے دعائوں کا تانتا باندھ دیا اور دروازے پر سے ایک بڑا زور دار’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر اندر چلا گیا۔
میں نے مسلسل تین روز گل رُخ کو پنسلین کے باقاعدہ انجکشن دیے اور وہ صحت یاب ہوگئی۔ میرے جاتے ہی وہ خود ہی آستین چڑھا لیتی، مسکراتی۔ انجکشن لے کر آستین گراتی اور کروٹ بدل لیتی اور خان باہر آکر مجھے ہزار ہزار دعائیں دیتا اور کہتا۔’’خدانے بچایا، ڈاگدار صاحب نے بچایا۔ بڑا مہربانی کیا۔ ہمارا بیٹی جوان تھا نا۔ مرجاتا تو ہم بھی مرجاتا۔‘‘
انجکشن کے آخری روز میں نے خان کو کھانسی کی چند گولیاں دیں اور کہا کہ وہ دو روز بعد مطب میں آکر مجھے گل رُخ کی کیفیت بتا جائے۔ اگر اس کی کھانسی ان گولیوں سے نہ رُکی تو دوا بدل دی جائے گی۔ اس روز میں نے خان سے یہ بھی کہہ دیا کہ میں انجکشنوں اور دوائوں کی قیمت نہیں لوں گا۔
’’وہ تو ہم کو پہلے خبرتھا۔‘‘ وہ فوراً بولا۔ تمھارا شرافت تمھارا ماتھے میں چمکتا ہے۔‘‘
اس روز میںنے گل رُخ سے بھی ایک بات کرنے کی جرأت کرلی۔ ’’اچھا بھئی گل رُخ!‘‘ میں نے کہا۔’’خدا نے تمھیں صحت بخشی۔ اب چند روز آرام کرنا۔ اچھا…!‘‘
گل رُخ دیوار سے لگ کر بیٹھی تھی۔ میری یہ بات سُن کر اس کا چہرہ اچانک گلابی ہوگیا۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور وہ مسکرادی۔ نہایت دھیمی آواز میں بولی۔’’خدا تم کو خوش رکھے۔‘‘
دو روز بعد شام کو جب میں مطب کو بند کرنے کی تیاری کررہا تھا تو خان اندر آیا اور بڑے تپاک سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتے ہوئے بولا۔’’کھانسی بھی چلا گیا ڈاگدار صاحب۔ گل رُخے چلتا پھرتا ہے۔ اچھا سوتا ہے۔ بڑا خوش ہے۔‘‘
میں نے کہا’’خدا کا شکر ہے!‘‘
خان بولا۔’’تم نے بڑا مہربانی کیا ڈاگدار صاحب! تم نے ہم کو خرید لیا۔ ہمارا بیٹی کو اچھا کردیا۔ ہمارا بیٹی مرتا تو ہم بھی مرجاتا…ہمارا بیٹی جوان ہے۔‘‘
آج میں ضبط نہ کرسکا۔ فوراً پوچھا۔ ’’خان! یہ بتائو، آخر تم بار بار مجھے یہ کیوں بتاتے ہو کہ تمھاری بیٹی جوان ہے۔‘‘
’’اوہو ڈاگدار صاحب!‘‘ خان ان الفاظ کو کچھ یوں کھینچ کر بولا جیسے اسے میری سادگی پر رحم آگیا ہے۔’’تم نہیں جانتا۔ تم تو بالکل بچہ ہے۔ تم نے ہمارا گل رُخے کو بچایا۔ تم نے ہمارا ایک ہزار روپیہ بچایا۔‘‘
’’میں یہ بھی نہیں سمجھا۔‘‘ میں نے چکراکر کہا۔
’’دیکھو۔‘‘خان مُسکراکر بولا۔’’ہمارابیٹی بڑا اچھا جوان ہے نا۔ ہم کو گل رُخے کی شادی کا پانچ سو ملتا ہے۔ ہم ایک ہزار سے کم نہیں لے گا۔ تم نے ہمارا ایک ہزار روپیہ بچایا۔
تم بڑا سچا مسلمان ہے ڈاگدار صاحب!‘‘
 
Top