گورِ غریباں کا پرنس - ممتاز جونپوری - 1902ء

کاشفی

محفلین
گورِ غریباں کا پرنس
(ممتاز جونپوری - 1902ء)
کل سو گیا میں فکرِ عذاب و ثواب میں
ویرانہ ایک مجھ کو نظر آیا خواب میں
گو دیکھنے میں تھا وہ بیاباں ہولناک
تھیں بستیاں زمیں کے نیچے ہجاب میں
مٹی کے پُتلے، خاک کی بالیں پہ سر دھرے
لیٹے تھے مُنہ چھپائے ردائے تراب میں
یوں سنگ ریزے خاک پہ تھے منتشر تمام
جیسے ہوں داغِ غم، دلِ خانہ خراب میں
سر دُھن رہے تھے آکے بگولے مزار پر
اُٹھ اُٹھ کے گرد بیٹھتی تھی اضطراب میں
طائر بھی اس جگہ پہ بسیرا نہ لیتے تھے
وحشتِ مکیں تھی خانہء بوم و غراب میں
حسرت برس رہی تھی غریبوں کی قبر پر
چلّاتی تھی زمیں کہ میں ہوں عذاب میں
ملتا نہ تھا کوئی کہ جو پوچھیں یہاں کا حال
حیران میں کھڑا تھا عجب پیچ و تاب میں
ناگاہ اک جوان مجھے آگیا نظر
دنیا سے اُٹھ گیا تھا جو عہدِ شباب میں
صورت اُداس، خاک میں زُلفیں اٹی ہوئی
چہرہ نہفتہ، گرد کی ہلکی نقاب میں
پوچھا یہ میں نے کچھ تو بتا اپنی سرگزشت
کیوں دیکھتا ہوں تجھ کو میں اس انقلاب میں
غربال تیرا مصحف رُخ ہوگیا تمام
کیڑے یہ کیسے لگ گئے ساری کتاب میں
مٹی میں مل کے دانت ترے ہوگئے خراب
افسوس فرق آگیا موتی کی آب میں
کچھ آبدیدہ ہو کے جو میں نے کیا سوال
مغموم دل سے اُس نے کہا یہ جواب میں
اک وہ تھا کہ زینتِ بزم طرب تھے ہم
رندوں کے جمگٹے تھے ہماری جناب میں
ساقی بریز بادہ و ساغر بگروش آرا
دن رات کا یہ ورد تھا عہدِ شباب میں
آئی کبھی نہ نیند فسانہ سُنے بغیر
پلتی تھی روح نغمہء چنگ و رباب میں
قبلہ تھا یا کہ کعبہء حاجت تھا میکدہ
تھی بہتی پھرتی کشتیِ ایمان، شراب میں
تہ کر کے رکھ دیا تھا مصلٰے کو طاق پر
ہنستے تھے سُن کے فرقِ عذاب و ثواب میں
ناصح کے وعظ و پند پہ کرتے تھے مضحکہ
دیکھا کبھی نہ، کیا ہے خدا کی کتاب میں
افسوس آج ہم ہیں اکیلے تہِ مزار
سب چھوٹ گئے جو یار تھے ویرِ خراب میں
اب یہ اندھیری قبر ہے اور ہم اسیرِ غم
کیا پوچھتے ہو روح ہے کیسے عذاب میں
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ کاشفی بھائی۔

محمد وارث بھائی کیا یہ غزل نہیں ہے، جو آپ نے اسے نظم کہا؟

شکریہ شمشاد بھائی، یہ اپنی ہیت میں تو غزل کی طرح ہے یعنی ہر شعر میں قافیہ ردیف چل رہا ہے لیکن یہ غزل ہے نہیں، غزل کیلیے ضروری ہے کہ اسکا ہر شعر اپنی جگہ پر مکمل ہو اور مکمل مفہوم دے رہا ہوں لیکن ان اشعار میں تسلسل ہے، ایک ہی بات آگے بڑھائی جا رہی ہے اور اسی لیے یہ نظم ہے۔ اور پھر یہ کہ شاعر نے اسے عنوان بھی دیا ہے، غزل کا عام طور پر عنوان نہیں ہوتا۔
 
Top