گنجے گراں مایہ۔۔۔ڈاکٹر محمد یونس بٹ

ماہی احمد

لائبریرین
گنجے گراں مایہ

ڈاکٹر محمد یونس بٹ

وہ ادب کے ”گنجے گراں مایہ“ میں سے ہے۔ اس کا سر ”اوپر“ سے خالی ہے، حالانکہ ہمارے ہاں شعراء کا ”اندر“ سے خالی ہوتا ہے۔ اس کے پاس سنوارنے کو ”بال“ نہیں تو کیا ہوا، دھونے کو ”منہ“ تو بہت ہے۔ بات بات پر لطیفہ سناتا ہے، جس دن محفل میں سنجیدہ ہو، دوستوں کو اس کی ”صحت“ کی فکر ہونے لگتی ہے۔ لطیفہ سنانے سے پہلے ہی سننے والوں کو ہنسا لے گا کہ ”بعد میں پتہ نہیں کوئی ہنسے یا نہ ہنسے“، چپ رہنا اس کے لئے مشکل ہے حالانکہ یہ تو اتنا آسان ہے کہ ”اس کے لئے زبان تک نہیں ہلانا پڑتی“۔ امجد اسلام امجد بات کر رہا ہو تو کسی کا ”لحاظ“ نہیں کرتا، جب لحاظ کر رہا ہو تو ”بات“ نہیں کرتا۔ اس لئے اگر آپ سے بات نہ کرے تو سمجھ لیں آپ کا ”لحاظ کر رہا ہے“۔ بُرے کی بات سن لیتا ہے، مگر”بُری“ بات نہیں سنتا۔ اگر بُری بات سننا چاہے تو ”بولنے“ لگتا ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں بھی اس کے موسلا دھار بولنے کی وجہ سے استاد اسے ”اٹھا“ کر سٹیج پر بٹھا دیتا۔ اب اتنا بڑا ہو گیا ہے مگر تقریبات میں آج بھی اسے ”اٹھا کر سٹیج پر بٹھا دیتے ہیں“۔ اس کے بارے میں وہ لوگ بھی اچھی رائے رکھتے ہیں جو اسے ایک بار بھی نہیں ملے، شاید اچھی رائے کی وجہ بھی ”یہی“ ہو۔
باتوں باتوں میں خوبصورت عورتوں کو شیشے میں اتار لیتا ہے، مگر خود ان کی موجودگی میں زیادہ سے زیادہ ”جرابیں“ ہی اتار سکتا ہے۔ عورتوں کو ملنے سے پہلے جہاں ”دوسرے“ بال، ٹائیاں اور چشمے ٹھیک کر رہے ہوتے ہیں یہ ”نیّت“ ٹھیک کر رہا ہوتا ہے۔ اس نے جو چاہا وہ حاصل کیا، بلکہ جو حاصل کیا وہی چاہا۔
امجد ہر کام میں اپنے بہن بھائیوں میں اوّل رہا۔ وہ تو پیدا ہونے کے معاملے میں بھی اوّل آیا۔ اس کا گھرانہ ایسا مذہبی کہ خواتین اردو شعروں سے بھی ”پردہ“ کرتیں۔ مگر اس نے اسی کو ذریعۂ عزت بنایا، جسے غالب نے بھی ذریعۂ اظہار ہی بنایا تھا۔ سارے کام اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ اس نے تو شادی بھی اپنی مرضی سے کی۔ حالانکہ ہمارے ہاں بندے کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا موقع اس وقت ملتا ہے ”جب وہ اپنی اولاد کی شادی کرتا ہے“۔ ویسے ہمارے ہاں شادی کے بعد مرد خود کو اور عورت اپنی قمیضوں کو ”تنگ“ محسوس کرتی ہیں، مگر امجد شادی شدہ ہو کر بھی گھر میں زیادہ رہتا ہے، جس سے یہی لگتا ہے کہ اسے ”شادی شدہ“ عورتیں بہت پسند ہیں۔
پہلے لمبریٹا سکوٹر پر سوار پِھرا کرتا تھا جس پر سفر کرنا دراصل پیدل چلنے والوں کی ”حوصلہ افزائی“ کرنا ہی ہوتا تھا۔ وہ اور اس کا ”جڑواں“ دوست عطاءالحق قاسمی جہاں کوئی بارات دیکھتے اس میں شامل ہو جاتے، جس سے کسی اور کو کوئی فرق پڑتا نہ پڑتا، ”بارات کے ساتھ آنے والے بھانڈوں کی آمدنی آدھی رہ جاتی“۔ یہ دونوں دولھے کے پاس جا کر اسے کہتے ”اچھا موقع ہے اب بھی انکار کر دو“۔ مگر امجد کی شادی ہوئی تو عطاء نے کہا ”اچھا موقع ہے چُپ کر کے بیٹھے رہو“ اگرچہ اب دونوں عمر کے اس حصے میں ہیں ”جہاں بُری بات بُری لگنے لگتی ہے“، مگر اب بھی جہاں یہ اکٹھے ہوں وہاں لوگ ”اکٹھے“ ہونا شروع ہو جاتے ہیں، وہ باتیں کرتے ہیں کہ سننے والا ٹین ایجر ہو ”تو اسے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرنا پڑتی ہیں“۔
اخبار پڑھتا نہیں دیکھتا ہے اور لوگوں کو دیکھتا نہیں پڑھتا ہے۔ ایک ہی ملاقات میں اس قدر بے تکلف ہو جاتا ہے کہ دوسرا گھبرانے لگتا ہے کہ کہیں ”قرض ہی نہ مانگ لے“۔ دوسروں کی باتیں اس توجہ اور پیار سے سنتا ہے، جیسے بچوں کی سن رہا ہو، ”سمجھتا بھی یہی ہے“۔ کرکٹ پسند ہے، بہت اچھی باؤلنگ کراتا ہے، ”جو مخالف ٹیم کے لئے بہت اچھی ہوتی ہے“۔ محنت سے نہیں گھبراتا، بندہ اسے کنگھی کرتا دیکھ لے تو اسے اس بات کا ”یقین“ ہو جاتا ہے۔
ہمیشہ آٹو گراف بک پر لکھتا ہے ”جو کچھ بھی ہے محبت کا پھیلاؤ ہے“ اگر آٹو گراف لینے والی خاتون امید سے نہ ہو پھر بھی یہی لکھتا ہے۔ اس کا پسندیدہ رنگ بلیو ہے، یہ رنگ ہمیں بھی پسند ہے بشرطیکہ فلم کا ہو۔
کھانا اس وقت ختم کرتا ہے ”جب کھانا ختم ہو جائے“۔ اسے علم ہوتا ہے کہ لاہور میں ”اچھا کھانا“ کہاں ملتا ہے اور لوگ اس کے ”علم“ سے استفادہ کرتے ہیں۔ اسی لئے ”جب کوئی نیا ریستوران کُھلتا ہے تو ”وہ اسے بتا کر سمجھتے ہیں آدھے شہر کو بتا دیا۔ اسے کِھلا کر بھی یہ سمجھتے ہیں“۔ پیٹ بھر کر کھائے نہ کھائے ”پلیٹ بھر کر“ ضرور کھائے گا۔
امجد اسلام امجد پہلے ”مختصر“ تخلص کرتا تھا اور جب کسی مشاعرے میں پڑھتا، مختصر مختصر کی آوازیں آتیں۔ اب تو وہ امجد ہو گیا ہے۔ شاعری اور ڈرامے نے اسے عزت نہیں دی، اس نے انہیں ”عزت“ دی ہے۔ اس کے اس قدر دوست ہیں کہ اسے پتا نہیں کون کون اس کا دوست ہے۔ دوستوں کی اس کے بارے میں بھی ”یہی رائے ہے“۔
امجد ہر لحاظ سے ایک مکمل انسان ہے، یعنی اس میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں ”جو انسان کو فرشتہ بننے سے روکے ہوئے ہیں“۔​
 

جیہ

لائبریرین
پتا نہیں کیوں مجھے ڈاکٹر صاحب کی تحریریں پسند نہیں. لفاظی. لفظی تحریف کے سوا کچھ نہیں ہوتا تحریر میں
 

آبی ٹوکول

محفلین
جیہ سسٹر یہ لفاظی کی تو سمجھ آگئی کہ محض لفاظی سے ہی کام لیتے ہیں موصوف مگر یہ لفظی تحریف سے کیا مراد ہے آپکی ؟؟؟ کیا مسروقہ الفاظ استعمال کرتے ہیں ردوبدل کے ساتھ ؟؟
 

جیہ

لائبریرین
جیہ سسٹر یہ لفاظی کی تو سمجھ آگئی کہ محض لفاظی سے ہی کام لیتے ہیں موصوف مگر یہ لفظی تحریف سے کیا مراد ہے آپکی ؟؟؟ کیا مسروقہ الفاظ استعمال کرتے ہیں ردوبدل کے ساتھ ؟؟
گنج گراں مایہ سے گنجے گراں مایہ بنانا لفظی تحریف ہے
 
گنج گراں مایہ سے گنجے گراں مایہ بنانا لفظی تحریف ہے
اگر مزاح نگار یہ بھی نہ کرے تو پھر یہی کر سکتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں باندھ کر دریا میں پھینک دیں اور اسے کہیں کہ تیر کر دکھا اور سکوتِ لالہ و گل سے مزاح پیدا کر :)
 
یہ وصف حد سے زیادہ ہے ان کے ہاں ضرورت سے زیادہ
اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اندازجو انہوں نے کافی زیادہ اپنایا ہوا ہے وہ انکے ٹی وی ڈراموں وغیرہ میں نظر آتا ہے۔۔۔بالکل بچوں کے لیول کا مزاح ہے اور اب اس کی تقلید میں بلبے اور ڈگڈگی نامی پروگرامز مزاح کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے ہیں۔۔۔ذہانت نام تھا جسکا ،گئی روتی ہوئی بٹ سے
 

جیہ

لائبریرین
اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اندازجو انہوں نے کافی زیادہ اپنایا ہوا ہے وہ انکے ٹی وی ڈراموں وغیرہ میں نظر آتا ہے۔۔۔ بالکل بچوں کے لیول کا مزاح ہے اور اب اس کی تقلید میں بلبے اور ڈگڈگی نامی پروگرامز مزاح کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے ہیں۔۔۔ ذہانت نام تھا جسکا ،گئی روتی ہوئی بٹ سے
متفق
اسی وجہ سے تو مجھے نہیں پسند
 
Top