گفتگوئے شہ ﷺ ابرار بہت کافی ہے -- حافظ مظہر الدین مظہر

الف نظامی

لائبریرین
حافظ مظہر الدین مظہر کی لکھی ہوئی نعت پیشِ خدمت ہے۔
گفتگوئے شہ ابرار ﷺ

گفتگوئے شہ ﷺ ابرار بہت کافی ہے
ہو محبت تو یہ گفتار بہت کافی ہے

یادِ محبوبﷺ میں جو گزرے وہ لمحہ ہے بہت
اس قدر عالم انوار بہت کافی ہے

مدح سرکار ﷺ میں یہ کیف، یہ مستی ،یہ سرور
میری کیفیتِ سرشاربہت کافی ہے

للہ الحمد کہ ہم سوختہ جانوں کیلیے
شاہﷺ کا سایہ دیوار بہت کافی ہے

کاش اک اشک بھی ہو جائے قبولِ شہﷺ دیں
ایک بھی گوھرِ شہوار بہت کافی ہے

نصرتِ اہل ہمم کی نہیں حاجت مجھ کو
مددِ احمدِمختار ﷺ بہت کافی ہے

بے ادب ! دیکھ نہ یوں روضے کی جالی سے لپٹ
کم نظر! بوسہ دیوار بہت کافی ہے

روبرو رہتے ہیں انوارِ مدینہ مظہر
حسرتِ جلوہ دیدار بہت کافی ہے

از حافظ مظہر الدین مظہر
 

الف نظامی

لائبریرین
میں خستہ دل کہاں درِ خیرا لبشر کہاں
پہنچی ہے اضطراب میں میری نظر کہاں

قاصد کہاں سفیر کہاں نامہ بر کہاں
لیکن وہ میرے حال سے ہیں بے خبر کہاں

آسودہِ جمال ہے میری نظر کہاں
دیکھی ہے میں نے طیبہ کی شام و سحر کہاں

میر عرب! عجم میں سکونِ نظر کہاں
یہ تو میرے فراق کی منزل ہے گھر کہاں

دل ہے کہاں خیال کہاں ہے نظر کہاں
دیوانہِ رسول کو اتنی خبر کہاں

اہلِ خرد ہیں میرے شریکِ سفر کہاں
یہ راہِ مصطفی ہے یہاں حیلہ گر کہاں

اب اہلِ دل کہاں کوئی اہلِ نظر کہاں
لے جاوں اب میں اپنی متاعِ ہنر کہاں

آقا نظر کہ عشق کا خانہ خراب ہے
اب سوزِ دل کہاں ہے گدازِ جگر کہاں

معراج ہے نصیب کہاں میرے عشق کو
ہے ان کے آستان پہ ابھی میرا سر کہاں

طیبہ پہنچ کے ہم بھی سنیں گے صدائے دل
دل نغمہ بار ہوگا سرِ رہگذر کہاں

وارفتگی میں شوقِ زیارت تو ہے مگر
شائستہِ جمال ہے میری نظر کہاں

اے کم سواد! عشق ترا ناتمام ہے
اے دل! ہے دور روضہ خیرا لبشر کہاں

اے دستگیر دستِ کرم کو دراز کر
یوں ہوگی میری عمر محبت بسر کہاں

یہ وقت مانگنے کا ہے دستِ طلب اٹھا
ناداں ہے بند بابِ قبول و اثر کہاں

کیف آفریں ہے ہجر بھی ان کا وصال بھی
یہ کلفتیں گراں ہیں مرے ذوق پر کہاں

ہیں بے پناہ وسعتیں عشقِ رسول کی
میرا جہاں حلقہ شام و سحر کہاں

میرے لیے ہے مدینے کا در کھلا ہوا
ہے ناقبول میری دعائے سحر کہاں

میں عازمِ حرم تجھے آوارگی نصیب
تو میرا ساتھ دئے گی نسیمِ سحر کہاں

ہر لمحہ جاں نواز ہے راہِ رسول کا
عشقِ نبی میں ہو تو سفر ہے سفر کہاں

ہم نے سنا ہے قصہ طور و کلیم بھی
شاہِ امم کی سیر کا عالم مگر کہاں

اک بھید ہے حقیقتِ معراجِ مصطفی
اسرارِ لامکاں کی کسی کو خبر کہاں

چل دوں سوئے مدینہ مگر پا شکستہ ہوں
اڑ جاوں سوئے طیبہ مگر بال و پر کہاں

شمس و قمر تو کعبہِ قلب ونظر نہیں
ذرے ہیں ان کی راہ کے شمس و قمر کہاں

پیشِ حضور درد کا اظہار کر سکوں
میرا یہ دل کہاں ہے یہ میرا جگر کہاں

شہرِ نبی میں بکھرے مضامین پڑھ سکوں
اتنا بلند میرا مذاقِ سخن کہاں

ان کا جمال غیرتِ صد جبرئیل ہے
ان کا جمال مثلِ جمالِ بشر کہاں

گبھرا نہ میری نظمِ مرصع ہے گر طویل
افسانہ ان کے حسن کا ہے مختصر کہاں

رنگِ غزل بھی ہے مرے اس رنگِ نعت میں
محدود ہے جمالِ شہ بحر و بر کہاں

مظہر یہ نعتِ خواجہ عالم کا فیض ہے
ورنہ مرے کلام میں تھا یہ اثر کہاں

از حافظ مظہر الدین مظہر
 

الف نظامی

لائبریرین
دوستو ، پسندیدگی کا شکریہ ۔
برسبیل تذکرہ ، آزادی کشمیر کے حوالے سے یہ نظم
"میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے ایک دن" بھی حافظ مظہر الدین مظہر نے لکھی ہے۔
حسان العصر حافظ مظہر الدین مظہر کا مزید نعتیہ کلام یہاں ملاحظہ ہو:
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=1186
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ
عشق و جذب و مستی سے سرشار ہدیہ عقیدت
بہت شکریہ شراکت پر محترم الف بھائی
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت کلام ہے۔ آپ آواز نہ دیتے تو یوں ہی محروم رہتا میں اسقدر خوبصورت نعت سے بہرہ مند ہونے سے۔ جزاک اللہ
 

مہ جبین

محفلین
بہت شاندار ، جاندار اور زبردست کلام ہے

اتنی روانی اور اثر پذیری ہے ماشاءاللہ

عشقِ حقیقی کی خوشبو سے مہکتا ہوا بہترین کلام پیش کرنے پر

جزاک اللہ خیرا الف نظامی بھائی

اللہ آپ کو عشقِ حقیقی کی دولتوں سے مالامال فرمائے آمین
 
Top