گستاخان نبی!!

سپینوزا

محفلین
ابوشامل نے کہا:
یہ تھریڈ ان جاہلوں کے لیے جو منصور حلاج کو تو شہید کہتے ہیں لیکن شان رسالت میں اپنی جانوں کو لٹانے والوں کو قاتل۔ بہت اچھے بیٹا! بڑا "نیک" کام کیا تم نے یہ جملہ لکھ کر، منصور حلاج کی روح کو بہت ایصال ثواب کیا تم نے!
اب اس جملے کو پڑھو اور سر دُھنو
عقل اور شرم نہ ہو تو موجیں ہی موجیں !

میں یہاں منصور حلاج کے نام سے رکن ہوں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں منصور حلاج کو شہید سمجھتا ہوں یا اسے ایصالِ ثواب پہنچانا میرا مقصد ہے۔ آپ کے استدلال کے لئے شاید لاطینی (اور اب انگریزی) میں کچھ خاص اصطلاح ہے۔ خیر ذاتی تنقید کا مقصد؟

بات سیدھی سی ہے کہ محمد بن عبداللہ کی شان میں گستاخی کو کیوں علیحدہ درجہ حاصل ہو؟ کیا انہوں نے خود کبھی اس کا بدلہ لیا؟ اور کیوں ہم ان لوگوں کو جو قانون اپنے ہاتھ میں لیکر دوسروں کی تحریر کی بنا پر انہیں قتل کرتے ہیں یا اس کی کوشش کرتے ہیں اتنا اونچا درجہ دیں؟
 

ابوشامل

محفلین
جواب

میرے بھائی! میرے دوست! آپ اپنے ذہن پر اتنا زور نہ دیجیے، جس شخص کی یادداشت اتنی کمزور ہو اسے آرام کا مشورہ دیا جاسکتا ہے سوچنے کا نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ وسلم کی زندگی میں اس شخص کو قتل کرنے کا واقعہ آپ کو یاد نہیں جو نبی کریم کے دربار میں اپنے حق میں فیصلہ نہ ہونے پر مقدمہ حضرت عمر کے سامنے لے آیا تھا تو عمر فاروق نے یہ کہہ کر اس کا سر قلم کردیا تھا کہ مسلمان ہونے کے باوجود جسے نبی کریم کا فیصلہ قبول نہیں اس کی سزا موت ہے۔
دوسری بات قرآن مجید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے پر صحابہ کرام جیسی ہستیوں کو اعمال غارت ہوجانے کی سخت ترین تنبیہ کی گئی ہے جبکہ وہ معیاری ترین مسلمان تھے۔
بھائی آپ چونکہ مسلم معاشرے سے باہر رہتے ہیں اس لیے آپ یہ "درد سر" نہ پالیں، اپنے کام سے کام رکھیں۔ اس طرح کے موضوعات پر اس طرح کے بیانات دے کر آپ خود کو کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کو اپنے اعمال کی کوئی فکر نہیں؟ امید ہے کہ آپ ضرور مسلمان ہوں گے؟ کیوں اپنی زبان کے باعث خود کو آزمائش میں ڈال رہے ہیں اور اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں؟ اگر آپ مسلمان نہیں تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو ہدایت دے اور معاملات کو سمجھنے اور ان پر غور و فکر کرنے کی توفیق دے۔
آپ کے سوالات سن کر اتنا افسوس ہورہا ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا!

والسلام


------

ان شہیدوں کے لیے مجھ ناچیز کا خراج عقیدت

اے راہ رواں! اے راہ وفا! ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں

تم جان پہ اپنی کھیل گئے اور ہم سے ہوئی تاخیر بہت​
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
جنہیں توہین رسالت کے جرم میں قتل کیا گیا
ان بد بختوں کے حالات جنہیں زمانہ نبوت میں گستاخی کی وجہ سے قتل کیا گیا اور بعد میں ساری اُمت اسی طرز عمل پر کار بند رہی۔
1۔ کعب بن اشرف یہودی
2۔ابو رافع یہودی
3 عقبہ بن ابی معیط
4۔خالدبن سفیان الہزلی
5۔ مقیاس بن صبابہ
6۔ ابو عفک
7۔معاویہ بن مغیرہ کو موت کی سزا
8۔بشر نامی منافق
9۔الحویرث بن نقیض
10۔ عبداللہ بن خطل اور اس کی دو مغنہ لڑکیاں
اور اگر اور بھی نام چاھہے تو انشاءاللہ بہت جلد ایک کتاب کو ان لائن کرنے والا ہوں پی ڈی ایف فارم میں ہے
حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
از مولانا محمد منصور احمد
تو پھر اس میں پوری تفصیل دیکھیے


واجدحسین
 

مہوش علی

لائبریرین
واجد،

اگر اسلامی اصطلاحات میں ہی بات کی جائے، تو پھر بھی میں پڑھ چکی ہوں کہ ان معاملات میں فقہاء میں اختلاف ہے۔ (افسوس کہ میرے پاس کتابیں نہیں ہیں جو میں مزید تحقیق کر پاتی۔ یہ چیزیں صرف سرسری طور پر میری نظر سے کتابوں میں گذری ہیں)۔

جماعتِ اسلامی کے نائب گذرے ہیں "جسٹس ملک" صاحب۔ انہوں نے ایک کتاب لکھی تھی "خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ"
اسی کتاب میں انہوں نے ذکر کیا تھا کہ شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والوں کے متعلق فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ فقہا اسے قابلِ سزا جانتے ہیں، کچھ فقہا اس سزا کو صرف مسلم تک محدود کرتے ہیں (یعنی اگر شاتم مسلمان ہے تو اسکو سزا ہے، مگر غیر مسلم ہونے کی صورت میں سزا نہیں)، اور کچھ اسکو کسی بھی قسم کی جسمانی سزا کا موجب نہیں جانتے۔

افسوس کی میری براہ راست گرفت تاریخ کی کتب تک نہیں ہے، ورنہ میں چاہ رہی تھی کہ کعب بن اشرف یہودی وغیرہ کے معاملات کو مکمل اور تفصیلی طور پر پیش کروں۔

وجہ یہ ہے کہ کعب بن اشرف یہودی وغیرہ کو اس لیے نہیں قتل کروایا گیا تھا کہ وہ شاتمِ رسالت تھا، بلکہ اُسکو قتل اس لیے کروایا گیا تھا کیونکہ وہ اسلامی حکومت کے خلاف سازشیں کر رہا تھا۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

خیر اوپر والا مسئلہ فقہاء کے درمیان اختلافی ہے، اور جب تک میری رسائی براہ راست بہت سے چیزوں تک نہ ہو جائے، اور میری تحقیق مکمل نہ ہو جائے، اُس وقت تک کوئی نقطہ نظر قائم نہیں کر سکتی۔

مگر اب آئیے ایک ایسے مسئلے کی طرف جس پر میری تحقیق مکمل ہے اور میں اپنی طرف سے اسکے خلاف احتجاج قلم بند کروا کر اللہ تعالیٰ نے مجھے پر جو فرض عائد کیا ہے، وہ میں پورا کر لوں۔

اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو کیا یہ حق حاصل ہے کہ وہ شاتم رسالت کی آڑ میں ملکی قانون کو ہاتھ میں لیکر کسی کو قتل کر سکیں؟ (جیسا کہ عامر وغیرہ نے کوشش کی ہے؟)

تو بات یہ ہے کہ اس معاملے میں پھر انتہا پسندی یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ ایک دوسرے فتنے کو بہانہ اور آڑ بنا کر اس فتنے سے نظر پھیر لی جاتی ہے۔

اور اس کا آغاز میرے خیال میں آغا خمینی کے اس فتوے سے ہوا کہ سلمان رشدی لندن میں ہے تو بھی اُسے قتل کر دیا جائے۔ مجھے حیرت ہے کہ یہ فتویٰ کیسے دیا جا سکتا ہے جبکہ مسلمان پہلے ہی ان غیر مسلم ریاستوں میں اس معاہدے کے تحت رہ رہے ہیں کہ وہ ملکی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیں گے۔
اور آغا خمینی کے اس فتوے سے زیادہ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ اسلامی دنیا کے کسی کونے سے کسی ملا، کسی مفتی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ کھل کر اس فتوے کے خلاف زبان کھولتا اور اسے حرام بتاتا۔

اسی وجہ سے اب یہ یورپ میں فیشن بنتا جا رہا ہے کہ یہاں کے نوجوان مسلم ان چیزوں کو بنیاد بنا کر یہاں کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے جا رہے ہیں اور عامر وغیرہ کے واقعات اس بات کے گواہ ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
خاور بلال نے کہا:
نبیل نے کہا:
اس نے پھندے سے لٹک کر خود کشی کر لی۔ کسی بھی انویسٹی گیشن سے اس سے برعکس بات ثابت نہیں ہوئی ہے۔

والسلام

نبیل
پہلی بات تو یہ کہ آپ کو یہ بات کہنے کی ضرورت نہ تھی، دوسرے اگر آپ کے پیٹ میں سچ بولنے کا اتنا ہی درد ہورہا تھا تو کم از کم یہ ضرور سوچ لیتے کہ عامر چیمہ کے حوالے سے تمام انویسٹیگیشن ‌رپورٹس انہی کی مرتب کردہ ہیں جو شان رسالت میں گستاخی کو آزادی اظہار سمجھتے ہیں۔ اگر آپ یہ کہیں گے کہ پاکستان کو اس انویسٹیگیشن میں شامل کیا گیا تھا تو سن لیں کہ وہ تو انہوں نے ڈانٹنے کیلئے بلایا تھا۔
میری باجی اس سلسلے میں عامر چیمہ کے گھر گئی تھیں اور ان کے والدین سےملاقات بھی کی‌ سو اطلاع کیلئے عرض ہے کہ عامر کی والدہ نے تابوت کھول کر دیدار کیا تھا اور چہرہ کھول کر دیکھا تھا، چہرے پر سکون تھا اور گلے پر بھی کوئی نشان نہیں تھا البتہ پوسٹ مارٹم کے نشانات جسم پر تھے۔

اگر شان رسالت کی گستاخی کے بعد بھی آپ کا مغربی ذرائع ابلاغ پر اعتماد قائم ہے تو کوئی نئی بات نہیں غلامی تو بڑوں بڑوں کو حلال حرام سمجھا دیتی ہے، نمک حلالی اچھی چیز ہے لیکن اتنی بھی کیا۔

خاور صاحب،
کیا آپکو نہیں لگتا کہ آپکا لہجہ کچھ سخت ہے اور کچھ بے جا طور پر نبیل بھائی پر مغرب کی نمک حلالی کا الزام لگایا جا رہا ہے؟

اگر اہل مغرب کی انویسٹیگیشن پر اعتراض تو ہے، مگر کیا وجہ ہے کہ آپ کو عامر چیمہ کے مغرب پر جانے پر اعتراض نہیں، اور نہ ہی اُس ملک کے قانون کو ہاتھ میں لینے پر اعتراض ہے؟

کیا آپکو صلح حدیبیہ یاد ہے؟

اور اب بتائیں کہ کیونکر ایک مسلم یہ عہد دینے کے دوسرے ملک میں داخل ہو کہ وہ وہاں کے قوانین کی پاسداری کرے گا، مگر پھر وہاں کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا پھرے؟

مجھے عامر چیمہ کے متعلق تو علم نہیں، مگر وہ علماء یقینا علمائے سوء ہیں جو مسلمانوں کو اپنے عہد کے پاس کرنے کی تعلیم دینے کی بجائے ترغیب دیتے ہیں کہ وہ عہد شکنیاں کرتے ہوئے قتل و غارت کر سکتے ہیں اور اس سلسلے میں معصوم بچے، عورتیں اور دیگر شہری مارے بھی جائیں تو کوئی پرواہ نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جیسا میں نے عرض کیا تھا کہ میں اس چیز کے خلاف ہوں کہ علماء جو چیز پیش کر دیں اُسے آنکھیں بند کر کے قبول کر لیا جائے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ ان میں بہت سے علمائے سوء بھی ہیں جو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے چیزوں میں رد وبدل کر کے اپنی معنی پہنا دیتے ہیں۔

کعب بن اشرف کا واقعہ انہی ایک واقعات میں سے مجھے ایک لگتا ہے۔

یہاں مزید پڑھیں

اگرچہ کہ یہ لوگ بھی مذھبی جنونی ہیں اور انہوں نے بھی کوشش کی ہے کہ کعب بن اشرف کو شاتم رسول ثابت کریں، مگر اس کوشش کے ذیل میں وہ کوئی بھی ثبوت فراہم نہیں کر سکے ہیں۔ اور تاریخی واقعات فی الحال مجھے یہ ہی ثابت کر رہے ہیں کعب بن اشرف کو شاتم رسالت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اسلامی ریاست کے خلاف سازشیں کرنے کے الزام میں قتل کروایا گیا تھا۔

اب میں دیگر حضرات کو موقع دیتی ہوں کہ وہ کعب بن اشرف کے معاملے میں اپنی صفائی اور ثبوت پیش فرمائیں، ورنہ یہ فرمائیں کہ ہمارے علماء کیوں یہ بددیانتی کر کے اپنی خواہشات کے مطابق فتنہ انگیزی پھیلا رہے ہیں؟

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

اب غیر مسلموں میں صرف ابو رافع یہودی رہ گیا ہے جسکے واقعات پر تحقیق کرنی ہے۔

جہاں تک مسلم شاتمینِ رسول کا تعلق ہے، تو اس سلسلے میں ایک حدیث ایک غلام عورت کے متعلق سنن ابو داؤد میں میری نظر سے گذری تھی۔ مگر ایک اہلحدیث عالم کی تحریر بھی میری نظر سے گذری تھی جہاں وہ اس حدیث کے راویان پر جرح کر رہے تھے۔ افسوس کہ نیٹ پر ڈھونڈنے سے بھی مجھے یہ تحریر مجھے دوبارہ نہیں مل پا رہی۔
 
یار لوگوں نے اس دھاگے کو میدانِ جنگ بنالیا ہے!
شرارہ شروع کہاں سے ہوا تھا؟

سوچ سمجھ کر لوگوں کو بات کرنی چاہئے تھی!!

اختلاف میں پڑنا تو ہمارا قومی مسئلہ بن چکا ہے!

منصور حلاج!
مجھے معلوم ہے میں اسی دور تک محدود ہوں اگر آپ اوپر میری باتیں پڑھ لیتے تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ میں کیوں محدود ہوں اس زمانے تک!
 
منصور حلاج نے کہا:
راسخ صاحب: آپ نے راجپال اور سلمان رشدی کا ذکر کیا۔ مگر لگتا ہے آپ موجودہ عہد تک ہی محدود ہیں۔ کیا آپ حضرت محمد یا صحابہ کے زمانے سے کچھ مثالیں پیش کریں گے اور ساتھ یہ بھی ان لوگوں کو کیا سزا دی گئی؟ شکریہ۔

ہم اس بحث وتحقیق میں چھ رکن ہیں سب کے سب عربی ہیں لیکن اکثر کو عربی اور انگلش زبان پر عبور ہے
مختلف ابواب وفصول پر مشتمل بحث ہے!
اردو عربی جاننے کی وجہ سے میں نے اس خطے کے گستاخان کی نشاندہی کا کام اپنے ذمہ لیا ہے!!!
اور جب کام مکمل ہوجائے گا اور اس کا ترجمہ بھی ہوجائے گا تو ضرور آپکی آنکھیں ٹھنڈی کردیں گے!
 
منصور حلاج نے کہا:
سارا نے کہا:
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
توہینِ رسالت پر مبنی کتاب لکھنے والے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم
راج پال کو جہنم واصل کرنے والے شہید کی داستانِ حیات۔۔۔
http://www.quran-o-sunnah.com/khas/ghaziilamdeen/001.shtml

راجپال اس پمفلیٹ (کتاب نہیں) کا ناشر تھا مصنف نہیں۔

مصنف کون تھا پھر؟

مہربانی کرکے معلومات مہیا کریں
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
اپ کے لیے عرض ہے کہ اس کتاب کی صفحہ نمبر 130 پڑھ لیں ، کعب بن اشرف اور جتنے بھی نام میں نے دیے ہیں اس کتاب سے لی ہے اور ایڈوب ریڈر کی پیج نمبر 128 سے شروع ہوتے ہیں
حُرمتِ رسُول صلی اللہ علیہ وسلم
مصنف مولانا محمد منصور احمد
خرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم از مولانا محمد منصور احمد
 

مہوش علی

لائبریرین
راسخ،

۔ مجھے احساس ہو رہا ہے کہ ہم آپکا تھریڈ ہائی جیک کر رہے ہیں اور اسکے لیے بہت معذرت۔
اب مجھے کوئی بات کرنی ہو گی تو میں نیا ڈورا شروع کر لوں گی اور یہاں پر صرف وہی گفتگو ہو جسکے لیے آپ نے یہ ڈورا شروع کیا تھا۔

والسلام
 

خاور بلال

محفلین
مہوش علی نے کہا:
خاور صاحب،
کیا آپکو نہیں لگتا کہ آپکا لہجہ کچھ سخت ہے اور کچھ بے جا طور پر نبیل بھائی پر مغرب کی نمک حلالی کا الزام لگایا جا رہا ہے؟
بالکل میں اس بات کو مانتا ہوں کہ میرا لہجہ سخت ہے، لیکن دوسری طرف آپ لوگ بھی تو ایک نازک مسلئے میں ایمپائرنگ کے فرائض انجام دینا چاہ رہے ہیں۔ نان کوالیفائڈ ایمپائرز تو ایک طرف اسلام کو تو کسی کوالیفائڈ ایمپائر کی ضرورت نہیں ، اسلام کو کسی وکیل استغاثہ کی بھی ضرورت نہیں، جس کو ماننا ہے مانے جس کو نہیں ماننا وہ نہ مانے۔ آخر معذرتوں کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایک پٹاخہ پھٹا اور چلے مغرب سے اس کی معذرت کرنے کہ صاحب ہم تو امن پسند لوگ ہیں۔

مہوش علی نے کہا:
غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو کیا یہ حق حاصل ہے کہ وہ شاتم رسالت کی آڑ میں ملکی قانون کو ہاتھ میں لیکر کسی کو قتل کر سکیں؟ (جیسا کہ عامر وغیرہ نے کوشش کی ہے؟)

مغرب کا قانون تو کائنات کے سب سے بڑے انسان کی تحقیر جائز سمجھتا ہے۔۔۔۔اسی مغرب کے قانون کی پاسداری میں آپ لوگ مراسلے لکھنے بیٹھ گئے۔ لگتا ہے ١١ستمبر کے بعد اچانک دنیا کے مظلوموں کو امن کا ہیضہ پھوٹ پڑا ہے اور معذرتوں کی الٹیاں ہیں کہ رکنے میں نہیں آرہیں۔امن کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کو نظر بھی آنا چاہیئے۔ گستاخی رسول اور اس کے رد عمل کا معاملہ بہر حال نازک مسئلہ ہے اس پر گفتگو میں احتیاط ضروری ہے۔دانائوں نے کہا ہے کہ اپنے خیال کو احتیاط سے بروئے کار لائو۔جب تک خیال ذہن میں ہے اس کا کچھ نہیں بگڑالیکن تیر کمان سے نکل گیا تو پھر کچھ نہیں ہوسکے گا۔

مغربی دنیا کوئوں کی طرح متحد ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کوے باطل پہ مجتمع ہیں۔ آپ باطل کے بال کو ہاتھ لگا کر دیکھئے، ساری مغربی دنیا کائیں کائیں کرتی ہوئی آپ کی بوٹیاں نوچنے آجائےگی۔ مگر مسلمان جو حق پر جمع ہونے کے دعویدار ہیں، کوئی ان کے نبی کی بھی اہانت کردے تو خود مسلمانوں کا ایک طبقہ کہہ رہا ہے کہ صاحب جو ہو رہا ہے ہونے دیجئے، شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ ڈال کر بیٹھ جایئے، یہودیوں پر امریکا اور یورپ میں ذراسی نکتہ چینی بھی ہوجاتی ہے تو وہ آسمان سر پر اٹھالیتے ہین۔ اگر ہم اپنے دین اور نبی کریم کا دفاع بھی نہیں کرسکے تو پھر ہم کرہی کیا سکتے ہیں۔؟

ساری دنیا کے ایک ارب تیس کروڑ مسلمان ہیں جوکچھ اور کیا ایک نبی کریم کی ناموس کی حفاظت بھی نہیں کرپارہے ۔ ایسا کیوں ہورہاہے؟ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے ہم سب کے پاس کرنے کیلئے بہت کام ہیں۔ کوئی صحافت میں مصروف، کوئی سیاست میں، کسی کو عہدہ عزیز، کسی کومنصب سے پیار، کسی کو دانشوری سے عشق، کسی کو اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا کا مسئلہ، کسی کومغرب سے بات کرنی ہے، کسی کو یورپ سے چیت فرمانی ہے۔اسلام کی روح ان مسلمانوں کو حیرت سے دیکھ رہی ہے جو اپنی حماقت کے زیر اثر کہتے ہیں کہ مغرب سے مکالمہ ممکن ہے۔

مہوش! خیالات کے طوطے مینائیں اڑانےسے کچھ نہیں ہوتا آپ مغرب کوراضی کرنے کی کتنی کوشش کریں گی، آپ امن پسندی ثابت کرنے کیلئے کتنی بزدلی کا ثبوت دیں گی، آپ تو حق اور باطل کی ملی جلی کھچڑی کھانے پر تیار ہیں لیکن مغرب کو تو آپ کی تہذیب کی ایک ایک علامت سے نفرت ہے۔ ان کے لئے ایک گز کپڑے کا اسکارف بھی قانونی مسئلہ ہے۔ باطل کو حق کے برابر لاکھڑا کرنے کی کوئی گنجائش نہ اسلام میں تھی نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ حق کو باطل سے الگ کردیا گیا ہے۔ اس لئے کہ ایمان ایمان ہے اور کفر کفر ہے۔ حلال، حرام اور مباح کی حدود اسلام میں واضح ہیں آپ مغرب کے سامنے اپنے کس کس عمل کی قابل قبول تشریح بیان کریں گی۔؟ امت مسلمہ کی حالت اس وقت ایک ایسے سپاہی کی ہے جو میدان میں دشمن کے سامنے تنہاکھڑا ہے۔ اس کے پاس نہ تلوار ہے اور نہ اپنا دفاع کرنے کیلئے ڈھال ۔ اس پر آپ کہہ رہی ہیں کہ یہ جو زرہ تم نے پہنی ہوئی ہے اسے بھی اتار دو، کیونکہ دشمن کو اچھی نہیں لگ رہی۔
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر ہے غرض تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ ، یورپ سے در گزر

پورا مغرب رسول اکرم کے خاکے شائع کرے اور اسےcelebrateکرے تو مسلمانوں کا کام اس کے سوا کیا ہے کہ وہ صبر کریں اور قانون کی پاسداری کریں۔ آپ کی اس دانشورانہ سوچ کا مقصد صرف یہ نظر آتا ہے کہ کسی طرح اسلام کو بے چہرہ اور مسلمانوں کو پالتو بنا کر پیش کیا جائے۔اور پھر اس کی مارکیٹنگ بھی کی جائے۔

آپ نے سنا ہوگا گستاخی رسول کا مشہور واقعہ جس میں لاہور کے نوجوان غازی علم دین نے اپنی قوم کی لاج رکھ لی تھی، ورنہ اس وقت بھی عقل کے میدان میں دانشوری کے گھوڑے دوڑانے والے گھپ اندھیرے میں فلسفے کی روشنی میں یہی فرما رہے تھے کہ صاحب وفاداری کا مطاہرہ کریں۔ایک طرف منہ کے شہسواروں کی فوج ظفر موج مسلمانوں کو امن کی افیون کی ٹافیاں بانٹ رہی تھی دوسری طرف علامہ اقبال جب لاہور کے نوجوان شہید غازی علم دین کو لحد میں اتارنے لگے تو ایک تاریخ ساز جملہ کہاں تھا، کہ؛
اسیں گلاں کرتے رہ گئے تے ترکھان دا منڈا بازی لے گیا!
لاہور کے اس نوجوان کی سزا ختم کروانے کے سلسلے میں مسلمانوں کے اکابرین کو اندازہ تھا کہ اقبال واحد شخصیت ہیں جن کی سفارش انگریز سرکار نہیں ٹال سکتی لیکن اس معاملے کی اقبال نے معذرت کرلی اور ایک تاریخ ساز شعر کہا؛
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدرو قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

مجھے یقین ہے کہ مغرب کے کنویں کے مینڈک اب بھی مسلمانوں کو تہذیب، شائستگی، انسانیت، امن اور قانون پر لیکچر پلاتے رہیں گے۔ لیکن اقبال کہہ گئے تھےکہ
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے تو جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی

احترام آدمیت کو ختم کرنے اور تقدیس کی دھجیاں بکھیرنے میں مغرب کا کوئی ثانی نہیں، وہ ہر بار مسلانوں کو ایک نئے طریقے سے زچ کرتے ہیں اور مسلمان ہیں کہ اب کے مارکے دیکھ والی کیفیت ہےاور وہ پھر ایک بار ماردیتا ہے اور پھر یہ کہتے ہیں اب کے مار کے دیکھ۔
باطل پرست خود اعتمادی کی علامت بنے ہوئے ہیں اور جو قیامت تک باقی رہنے والی صداقت کے علمبردار ہیں وہ بغلیں جھانک رہے ہیں۔وہ جن کی میراث غزوہ بدر اور کربلا ہے وہ ذلت کی زندگی پر پوری طرح مطمئن ہیں۔ یاد رکھیں کہ میں اور آپ تو ختم ہوجائیں گے لیکن پائندہ رہنے والی حقیقت اسلام ہی ہے۔ اگر ہم اسلام کی سربلندی کا پرچم نہیں تھامیں گے تو یہ کام اللہ کسی اور سے لے لے گا لیکن اس سورج کو تو اب چڑھنا ہی ہے۔ کسی کے آنکھیں بند کرنے سے اس پر کوئی فرق نہیں آئے گا، آپ اور میں اگر منہ موڑیں گے تو منہ کی کھائیں گے، لیکن یہ چڑھتا سورج ہے آئیے چڑھتے سورج کی پوجا کریں۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
اللہ اکبر کبیرہ جزاک اللہ بہت خوب خاور بلال۔۔۔۔۔



السلام علیکم
واجدحسین
 

خاور بلال

محفلین
محترم راسخ!
امید ہے خیریت سے ہوں گے۔
ذیل میں ایک شہید ناموس رسالت کی تصویر اور تفصیل حاضر ہے۔ نوٹ کرلیں

١٩٣٥ء میں نتھورام نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی، یہ بات گھوڑا گاڑی چلانے والے لیاری، کراچی کے نوجوان غازی عبدالقیوم کو معلوم ہوئی، جس کی ١٠ دن قبل شادی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ غازی عبدالقیوم نے گستاخ رسول نتھورام کو قتل کردیا۔ غازی عبدالقیوم نے پولیس کی گرفت سے بچنے اور فرار ہونے کی کوشش نہ کی۔ سید محمد اسلم باریٹ لا کو عبدالقیوم کی پیروی کی سعادت حاصل ہوئی۔بالآخرانگریز حکومت نے اسے پھانسی کی سزا سنائی۔ ١٩مارچ ١٩٣٥ء کو غازی عبدالقیوم نے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا اور اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
گورے فوجیوں نے خاموشی سے پھانسی دینے کے بعد جب اس کو میوہ شاہ قبرستان لاکر دفن کرنا چاہا تو ہزاروں مسلمان جمع ہوگئے۔ گھبرا کر انگریز فوج نے چاکیواڑہ میں مجمع پر گولی چلادی۔۔۔اور ١٢٢ مسلمانوں کو شہید اور ٢ہزار کو زخمی کردیا۔


سول ہاسپٹل کراچی کے ریکارڈ میں سب سے زیادہ casualtiesاس واقعے کی درج ہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ اس واقعے کے حوالے سے مکمل ریسرچ منظر عام پر لانے کیلئے کام کررہےہیں۔
تفصیلی آرٹیکلز طلب کرنے پر ارسال کردوں گا۔

ghaziqayoomjy9.gif
 

شاکرالقادری

لائبریرین
منصور حلاج نے کہا:
یہ سیرت النبی سے متعلق تھریڈ ہے یا قاتلوں اور بیوقوفوں سے متعلق؟

منصور حلاج نے کہا:
راسخ صاحب: آپ نے راجپال اور سلمان رشدی کا ذکر کیا۔ مگر لگتا ہے آپ موجودہ عہد تک ہی محدود ہیں۔ کیا آپ حضرت محمد یا صحابہ کے زمانے سے کچھ مثالیں پیش کریں گے اور ساتھ یہ بھی ان لوگوں کو کیا سزا دی گئی؟ شکریہ۔
منصور حلاج!
نظریاتی اختلاف سب کو ہوتا ہے لیکں آپ نے آتے ہی جس انداز میں گفتگو فرمائی ہے وہ کسی بھی نظریہ کے حامل شخص کے لیے قابل قبول انداز گفتگو نہیں ہے۔ براہ کرم دوسروں کو مشتعل کرنے کی کوشش نہ کریں
میرا خیال تھا کہ میں
غازی عبدالقیوم شہید
غازی میاں محمد شہید اور
غازی چاچا
جن کا تعلق میرے ضلع سے ہے ان کے بارے میں کچھ لکھوں مندرجہ بالا دو ناموں میں سے اول الذکر دو ایسی ہستیاں ہیں جنہیں ناموس رسالت پر اپنی جانیں نچھاور کرنے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ آخرالذکر تا حال ہم میں زندہ و سلامت موجود ہیں ۔
لیکن آپ کا پیغام پڑھ کر اب میرا ارادہ بدل گیا ہے میں اس کام کو موخر کرتے ہوئے آپ کی فرمائش پوری کروں گا
میں نے اس موضوع پر کامی مواد جمع کیا ہوا ہے اور میرے اس مستقل موضوع کا عنوان ہے
شاتمان رسول ۔۔۔۔۔۔ اور انکا انجام
عہد نبوی میں
میں اپنے اس کام کو مرتب صورت میں پیش کرونگا شاتمان رسول کی فہرست دونگا
ان کی گستاخانہ جسارتوں کا بیان ہو گا
پھر ان کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات ہونگے
اور پھر ان کے عبرت ناک انجام کا ذکر ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فی الحال اتننا لکھنا چاہتا ہوں کہ فتح مکہ کے موقع پر جب عام معافی کا اعلان کیا جارہا تھا ، ابو سفیان کے گھر تک کو دارالامان کا درجہ دیا جا رہا تھا اور دشمنوں کو لاتثریب علیکم الیوم کی نوید سنائی جا رہی تھی ایسے میں گیارہ مردوں اورغالبا چھ عورتوں کے بارے میں یہ حکم دیا گیا کہ یہ لوگ اگر خانہ خدا میں جاکر اپنے آپ کو غلاف کعبہ میں بھی لپیٹ لیں تو بھی ان کو وہیں پر قتل کر دیا جائے جنانچہ ان میں سے کچھ اسی حالت میں حیدر کرار کی شمشیر آبدار سے واصل جہنم بھی ہوئے۔
کیا آپ کو معلوم ہے یہ مرد اور عورتیں کون تھے؟؟
اور ان کا جرم کیا تھا؟؟؟؟
ان کے ناموں کی فہرست اور دیگر تفصیلات تو میں حسب وعدہ بیان کرونگا ہی
سر دست اتنا جان لیجیئے کہ یہ تمام کے تمام گستاخان رسالت تھے ۘ اپنے اشعار میں نبی مکرم کی ہجو کیا کرتے تھے اور نبی اکرم کی اہانت و استہزاء کے مرتکب ہوا کرتے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
براہ کرم بولنے سے پپہلے سو بار تو لا کیجئے
اللہ ہم سب کو ہدایت فرمائے
آمین
 

شاکرالقادری

لائبریرین
خاور بلال نے کہا:
١٩٣٥ء میں نتھورام نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی، یہ بات گھوڑا گاڑی چلانے والے لیاری، کراچی کے نوجوان غازی عبدالقیوم کو معلوم ہوئی، جس کی ١٠ دن قبل شادی ہوئی تھی۔۔۔۔۔


برادر مکرم خاور بلال!
نوجوان غازی علم الدیں شہید کا تعلق ضلع اٹک سے تھا۔
"حضرو" ضلع اتک سے "تربیلا" جانے والی سڑک پر "تربیلا ڈیم" سے پہلے ایک چھوٹی سی بستی ہے "غازی" جو کہ علاقہ "چھچھ ہزارہ" میں شامل ہے غازی علم الدین شہید کا تعلق اسی بستی سے ہے۔ قدیم بندوبست کے مطابق علاقہ چھچھ ہزارہ ضلع اٹک کے علاقہ چھچھ میں شامل تھا لیکن آجکل یہ ضلع ہری پور میں آگیا ہے۔
اس چھوٹی سی بستی میں عبداللہ خان اور جنت بی بی کے گھر اس ماہ تاباں کا طلوع ہوا جس کی روشنی آج بھی ہماری راہیں منور کر رہی ہے نومولود کا نام عبدالقیوم تجویز ہوا اس معصوم نے تنگدستی اور عسرت زدہ ماحول میں آنکھ کھولی۔ چارہی جماعتیں پاس کی تھیں کہ فکر معاش نے سلسلہ تعلیم منقطع کر دیاجوانی میں قدم رکھا تو ماں باپ نے دریائی خانم سے شادی کردی اوریہ نوجوان رزق کی تلاش میں اپنے چچا رحمت اللہ خان کے پاس کراچی چلا گیا اور کھارا دار کے علاقے میں گھوڑا گاڑی چلاکر رزق حالال کمانے لگا۔ غازی جیسے دور افتادہ مقام سے کراچی کی جانب کا یہ سفر دراصل اس خوش نصیبی کی جانب بلاوا تتھا جو رہاں اس کی منتظر تھی ۔ قدرت پٹھان گھرانے کے اس سادہ دل نوجوان کو ایک سعادت عظمی کے لیے متخب کر چکی تھی ۔
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
نبیل بھائی، منصور حلاج اور مہوش بہن خاور بلال اور اس کے لہجے پر میں صرف اتنا کہوں گا کہ جواب جاہلاں خاموشی باشد۔ کچھ لوگ کہ فساد فی سبیل اللہ کا بیج بونے کی کوشش کرتے ہیں

جس شخص کو بات شروع کرنے کے لئے پیٹ میں درد، امن پسندوں کو ہیضہ کی تشبیہات سوجھیں، ان کے بارے صرف اتنا کہوں گا کہ جس نبی ص کا نام بلند کرنے کی کوشش کر رہے ہو، اس کے اسوہ کو کبھی پڑھا، حیات کے حالات جاننے کی کوشش کی؟ یار تم لوگ اتنے گئے گزرے ہو کہ کسی سے بات کرنی ہو تو تم کہہ کر شروع کرتے ہو۔ کیا کوئی خاص تکلیف ہوتی ہے کسی کو عزت سے مخاطب کرتے ہوئے؟

ہم اس بحث وتحقیق میں چھ رکن ہیں سب کے سب عربی ہیں لیکن اکثر کو عربی اور انگلش زبان پر عبور ہے

کیا واقعی آپ عربی النسل ہیں؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
منصور حلاج نے کہا:
بات سیدھی سی ہے کہ محمد بن عبداللہ کی شان میں گستاخی کو کیوں علیحدہ درجہ حاصل ہو؟

: بات سیدھی سی ہے کہ محمد بن عبداللہ کی شان میں گستاخی کو کیوں علیحدہ درجہ حاصل ہو؟

منصور حلاج آپ یہاں پر اپنی پوزیشن واضح کریں کیا آپ ایک مسلم کی حیثیت سے یہاں گفتگو کر رہے ہیں یا کسی اور مذہب کی نمائندگی کیونکہ رسول کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اس طرح سے بغیر کسی پروٹوکول کے لینا مجھے عجیب سا محسوس ہو رہا ہے
اگر آپ مسلم ہیں تو پھر آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے اور اگر آپ کسی غیر مسلم نظریہ کی نمائندگی کر رہے ہیں تو پھر علیحدہ بات ہے ایسی صورت میں بھی آپ سے درخواست ہو گی کہ اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیجئے گا
 
Top