اب عشق عداوت سے جدا ہو کے رہے گا
یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا

معذرت خواہ ہوں، آپ کا مصرع مجھ پر کھلا نہیں۔
اب عشق عداوت سے جدا ہو کے رہے گا؟

یہ بات کسی کہانی کے پس منظر میں ہوسکتی ہے کہ اپنی محبت کو پانے کی خاطر عاشق اپنی دشمنی فراموش کر دے۔
میرے لئے یہ اہم ہے کہ اگر استاد محترم پر مصرع کھلا نہیں تو عوام پر کیا کھلے گا!! اور جو شعر ایسا غیر واضح ہو اسے کالعدم ہی کر دینا چاہئے۔ :) تو میری طرف سے یہ کالعدم ہے۔

ایسے نہ کہئے حضرت! میرا "مزاجِ فکر" خاصا پرانا ہے اور کلاسیک سے متاثر ہے۔ "فکرِ جدید" نے بہت سے نئے راستے بنائے ہیں، میں ان سے شناسا نہیں تو بھی میں ان کے وجود کا انکار تو نہیں کر سکتا۔ اپنے شعر کو آج کے دور کے دوستوں کے سامنے پیش کریں۔
اب اس بارے میں محمد اسامہ سَرسَری کی خدمت میں یہ شعر پیش کر کے ان سے رائے لیتے ہیں۔ :)
 
بے ربط سہی حرف ِ سخن ، اُس کی عطا ہے
یہ قرض ِ محبت ہے ، ادا ہو کے رہے گا
عمدہ ہے۔ "حرف و سخن" کو بھی دیکھ لیجئے، ممکن ہے نکھار آ جائے۔
بہت شکریہ جناب محمد یعقوب آسی صاحب ! ۔ خوش ہوں کہ مصرع آپ کو ٹھیک لگا ۔ میں نے حرف و سخن اور شعر و سخن دونوں پر نظر ڈالی تھی ۔ لیکن ان دونوں صورتوً ں میں " حرف ادا ہوکے رہے گا " کی رعایت چلی جاتی ہے جبکہ میں اس رعایت کو برقرار رکھنا چاہتی تھی اس لئے اپنے مصرع میں صیغہء واحد ہی کو اختیار کیا ۔
 
بہت شکریہ جناب محمد یعقوب آسی صاحب ! ۔ خوش ہوں کہ مصرع آپ کو ٹھیک لگا ۔ میں نے حرف و سخن اور شعر و سخن دونوں پر نظر ڈالی تھی ۔ لیکن ان دونوں صورتوً ں میں " حرف ادا ہوکے رہے گا " کی رعایت چلی جاتی ہے جبکہ میں اس رعایت کو برقرار رکھنا چاہتی تھی اس لئے اپنے مصرع میں صیغہء واحد ہی کو اختیار کیا ۔
متفق! آپ کے مصرعے میں "رعایت" بہت عمدہ آئی ہے۔ حرف، سخن، قرض؛ سب ادا کرنے کے ہوتے ہیں۔
اپنے ادبی سفر کے بارے میں بھی کچھ بتائیے گا، کہ سنگِ راہ کہاں کہاں سنگِ میل بنے۔
 
ساختیات کا فرق تو سمجھ رہا ہوں لیکن آہ میری غباوت! ان دونوں میں معانی ومفاہیم کا فرق ابھی تک نہ سمجھ پایا۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ "معنی" حاصل جملہ کو ہی کہیں گے؟؟
گستاخی معاف! ایک درسی طریقہ ہے جس میں اصطلاحات، ان کی عبارت، ان کی تعریف اور ایک اصطلاح کا دوسری الگ یا مختلف ہونا وغیرہ ہے۔ جیسے آپ نے معانی اور مفہوم کا ذکر کیا۔ عملی اور اطلاقی سطح پر اتنے باریک فرق نہیں دیکھے جاتے؛ وہاں معانی اور مفاہیم (لفظ کے ہوں، جملے کے ہوں، پورے پیراگراف کے ہوں، پورے مضمون کے ہوں یا پوری کتاب کے ہوں) استفادہ کرنے کو ہوتے ہیں۔ موشگافیوں کا بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
:)


شاید ان کا آخری ہو یہ ستم
ہر ستم یہ سوچ کر ہم سہہ گئے


سوچ یہ بھی ہے نرالی آپ کی
اس ستم نے آنکھ کے نل کھولے سب
ہوئی جن سے توقع، خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہء تیغِ ستم نکلے

یہ پرسنلی ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ :)
 
استعمال اور مقام کا تعلق تو لفظ سے ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔آپ کے اس جملے سے ذہن میں بلاغت کی وہ باتیں گھوم گئیں جن میں الفاظ کے محل استعمال سے معانی میں پیدا ہونے والا فرق بیان کیا گیا تھا۔۔۔۔۔لیکن ”نہ“ اور ”نا“ کے استعمال سے معنی میں کیا فرق پڑتا ہے یہ سمجھ میں نہ آیا۔ دراصل میں یہی نکتہ سمجھنا چاہتا ہوں۔
آسان تر الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ "نہ" کسی فعل یا اسم کے "نہ ہونے" پر دلالت یا تقاضا کرتا ہے (بات وہی ہے کہ مفہوم جملے کی بنیاد پر ہو گا): نہ دیکھا نہ سنا؛ نہ ادھر نہ ادھر؛ یوں نہ کہئے جناب؛ میں نہ دیکھ سکا؛ وغیرہ۔ "نا" عام طور پر صفت کے "نہ ہونے" پر دلالت کرتا ہے۔ مثالیں پہلے آ چکیں۔
ایک اصولی بات کہ یہاں فزکس کیمسٹری اور میتھ والا حساب نہیں ہوا کرتا۔ لسانیات انسانی فطرت اور رویوں میں سے ایک چیز ہے، اس میں موقع بہ موقع کوئی لچک بھی آ سکتی ہے، کہیں مطالب کا رخ بدل سکتا ہے، کہیں جمالیات اور معنی آفرینی اپنا رنگ دکھا سکتی ہے۔ آپ کا سوال بہت زیادہ حتمیت کا متقاضی ہے۔
 
آپ کا سوال بہت زیادہ حتمیت کا متقاضی ہے۔

ایک مثال لیجئے۔ میں اپنے مخاطب سے کہتا ہوں:
۔1۔ بیٹھ، بیٹھ جا، بیٹھو، بیٹھئے، بیٹھ جائیے، تشریف رکھئے، تشریف فرمائیے۔
۔2۔ آگئے ہو؟، آ گیا تو؟، تو آپ آ گئے، آپ تشریف لائے، آپ تشریف لے آئے۔
اب ان میں کچھ نہ کچھ تبدیل تو ہوا ہے، مگر کیا!؟ معانی؟ یا مطالب؟ آپ معانی یا مطالب یا مفاہیم کے درمیان خطِ امتیاز کہاں کھینچیں گے؟
۔۔۔ وہی خطِ امتیاز آپ کے سوال کا جواب ہو گا۔

خوش رہئے۔
 
اب اس بارے میں محمد اسامہ سَرسَری کی خدمت میں یہ شعر پیش کر کے ان سے رائے لیتے ہیں۔ :)
آپ نے اپنے شعر:
اب عشق عداوت سے جدا ہو کے رہے گا
یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا
کا جو مطلب تحریر کیا ہے:
یہ بات کسی کہانی کے پس منظر میں ہوسکتی ہے کہ اپنی محبت کو پانے کی خاطر عاشق اپنی دشمنی فراموش کر دے۔
یہ مطلب شعر خود نہیں بتا رہا ، بلکہ اس کے شاعر کو ہر ہر قاری کے پاس جاکر الگ الگ سب کو یہ مطلب بتانا پڑے گا ، یہی وجہ ہے کہ استاد محترم نے مصرع نہ کھلنے کی بات کی ہے۔ :)
 
یہ مطلب شعر خود نہیں بتا رہا ، بلکہ اس کے شاعر کو ہر ہر قاری کے پاس جاکر الگ الگ سب کو یہ مطلب بتانا پڑے گا ، یہی وجہ ہے کہ استاد محترم نے مصرع نہ کھلنے کی بات کی ہے۔
جی بہتر- اسی لئے میں فوراً سمجھ گیا تھا کہ اگر استاد محترم پر بات نہیں کھلی تو عوام پر کیسے کھلے گی، اور انہی کی ہدایت پر آپ سے رابطہ کر لیا :)
 

اکمل زیدی

محفلین
جی بہتر- اسی لئے میں فوراً سمجھ گیا تھا کہ اگر استاد محترم پر بات نہیں کھلی تو عوام پر کیسے کھلے گی، اور انہی کی ہدایت پر آپ سے رابطہ کر لیا :)

ایک تھوڑا سا اختلاف ..گر برا نہ لگے ...آپ کا مصرع ویسے تھا عوام کے لئے ہی اور جیسے کے آپ نے خود کہا تھا کے "یہ بات کسی کہانی کے پس منظر میں ہوسکتی ہے کہ اپنی محبت کو پانے کی خاطر عاشق اپنی دشمنی فراموش کر دے۔" تو یہ تو ہوگئی نہ عوامی بات ...اور جب بات فلمی کہانی ہو تو کیس اور پکّا ...ہوجاتا ہے ...تو استاد آپ کو عوام سے اوپر اٹھانا چاہ رہے ہیں دراصل ....جیسے غالب اور اقبال کو پڑھ کر سمجھنے والا قاری پھر عوامی قاری نہیں رہ جاتا ....اب آپ اپنا پیمانہ استاد پر کھلنے والا بنا رہے ہوں تو پھر ...شعر ..عوامی کہاں سے رہے گا ....

لئیق ..بھائی آپ سے اب اتنی تو چلتی ہے اسی ...لئے کہ دی ورنہ میری کیا مجال کے میں اساتذہ کے سامنے لب کشائی کروں ...
 
ایک تھوڑا سا اختلاف ..گر برا نہ لگے ...آپ کا مصرع ویسے تھا عوام کے لئے ہی اور جیسے کے آپ نے خود کہا تھا کے "یہ بات کسی کہانی کے پس منظر میں ہوسکتی ہے کہ اپنی محبت کو پانے کی خاطر عاشق اپنی دشمنی فراموش کر دے۔" تو یہ تو ہوگئی نہ عوامی بات ...اور جب بات فلمی کہانی ہو تو کیس اور پکّا ...ہوجاتا ہے ...تو استاد آپ کو عوام سے اوپر اٹھانا چاہ رہے ہیں دراصل ....جیسے غالب اور اقبال کو پڑھ کر سمجھنے والا قاری پھر عوامی قاری نہیں رہ جاتا ....اب آپ اپنا پیمانہ استاد پر کھلنے والا بنا رہے ہوں تو پھر ...شعر ..عوامی کہاں سے رہے گا ....

لئیق ..بھائی آپ سے اب اتنی تو چلتی ہے اسی ...لئے کہ دی ورنہ میری کیا مجال کے میں اساتذہ کے سامنے لب کشائی کروں ...
آپ نے بہت اچھی بات کہی، برے لگنے والی کوئی بات نہیں تھی۔ اور میں طالب علم ہوں الحمدللہ :)
 

اکمل زیدی

محفلین
ایک مشہور مصرع پیش ہے، سنا ہے کہ اس پر گرہ لگانا بہت آسان ہے اور اس پربہت دلچسپ گرہیں باندھی جاسکتی ہیں۔

ع -
بھروسہ غالبا خود پر زیادہ کر لیا ہے​
ادب دوست فاروق احمد بھٹی نوشین فاطمہ عبدالحق ہما حمید ناز
ایک مشہور مصرع پیش ہے، سنا ہے کہ اس پر گرہ لگانا بہت آسان ہے اور اس پربہت دلچسپ گرہیں باندھی جاسکتی ہیں۔

ع -
بھروسہ غالبا خود پر زیادہ کر لیا ہے​
ادب دوست فاروق احمد بھٹی نوشین فاطمہ عبدالحق ہما حمید ناز

بھروسہ غالبا خود پر زیادہ کر لیا ہے
دل اور دماغ کو آمادہ کر لیا ہے
 

الشفاء

لائبریرین
ایک بے ساختہ سا مصرع یہیں محفل پر ہو گیا تھا جس کے بعد چند اشعار بھی ہو گئے۔ لیکن اس خاص مصرع کے لئے مصرع اولٰی نہیں ملا۔۔۔ اب اس دھاگے سے امید بندھی ہے کہ احباب شائد پوری غزل ہی بنا دیں۔۔۔:)

مصرع ہے : کیا خوب ہیں جو لفظ پروئے جناب نے۔۔۔
 
Top