پروف ریڈ اول گذشتہ لکھنؤ

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 356

شہر کی عام ڈومنیوں کی جلد جلد آمدورفت رہتی۔ اور آئے دن وہ طبلہ سارنگی لیے ڈیوڑھی پر کھڑی ہی رہتیں۔ اِس لیے ان کے سیکڑوں طائفے شہر میں موجود تھے۔ ڈومنیوں کا مذاق، جہاں تک مجھے معلوم ہے، نہایت فحش اور بیہودہ ہوا کرتا ہے۔ اور اُن کی صحبت عورتوں پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال سکتی ہے۔ چنانچہ جس طرح مردوں کی بداخلاقی کی باعث رنڈیاں تھیں، عورتوں کا اخلاق بگاڑنے کی باعث ڈومنیاں ہو گئیں۔
لیکن شرفا کے خاندان ڈومنیوں کی صحبت سے بچے ہوئے تھے۔ اور اِس لیے اُن کی عورتیں اس مضرّت سے بچی رہیں جو عمدہ خصائل و اخلاق کا بہترین نمونہ ہیں۔ لکھنؤ کی عورتوں کا کیرکٹر ہے کہ وہ شوہر پر اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کو تیار رہتی ہیں۔ اپنی ہستی کو شوہر کی ہستی کا ایک ضمیمہ تصور کرتی ہیں۔ اور بعض اور شہروں کی عورتوں کی طرح جو خانہ داری کے سلیقے میں لکھنؤ والیوں سے بہ درجہا بڑھی ہوتی ہیں، یہاں کی عورتوں کو کبھی یہ خیال نہیں پیدا ہوا کہ اپنا روپیا شوہر سے چھپا کے الگ جمع کریں۔ اور شوہر کی بیماری میں بھی اپنی دولت صرف کرنے میں تامل کریں۔ لکھنؤ کی عورتیں وہاں کی عورتوں کی سی ہنرمند نہیں اور گھر گرہستی کے کام میں ان کے مقابل پھوہڑ ہیں، حد درجے کی مُسرف ہیں، چٹوری ہیں، مگر شوہر کا ساتھ دینے اور اس پر اپنی جان قربان کردینے میں سب سے اوّل ہیں۔
(41)
(5) معاشرت میں پانچویں چیز نشست و برخاست ہے۔ ہر متمدّن قوم میں نشست و برخاست کے مختص قوانین اور اصولِ موضوعہ ہوا کرتے ہیں۔ اور انہی سے اس قوم کی ترقی و تہذیب کا درجہ قائم ہوا کرتا ہے۔ اگر آپ عیسائیوں کے متمدّن شہروں پیرس، لندن، اور برلن میں یا مسلمانوں کے مہذب بلاد قسطنطنیہ، تہران اور شیراز میں جائیے اور وہاں کے مہذب لوگوں کی صحبت میں شریک ہو جیے تو

ریختہ صفحہ 357
نظر آئے گا کہ ان میں نشست و برخاست کے اخلاقی قوانین کس قدر سخت ہیں۔ مگر ہندوستان کے بڑے تاجرانہ شہروں میں آپ جائیں اور وہاں کے اُمرا و معزّزین سے ملیں تو آپ کو اخلاقی قوانینِ تہذیب کا بالکل پتا نہ چلے گا۔ مگر ان شہروں میں جہاں کوئی خاص دربار قائم ہے، یا رہ چکا ہے مثلاً حیدرآباد دکن، بھوپال اور رام پور وغیرہ معزّز وطنی درباروں کے قائم ہونے کی برکت سے عوام و خواص سب میں حفظِ مراتب کے قواعد نظر آئیں گے۔ بخلاف تاجرانہ شہروں کے جہاں تمیزداری، ادب اور حفظِ مراتب کا نام و نشان بھی نہ ہوگا۔
دہلی میں اگلے دنوں یہ اخلاقی اصول یقیناً سب جگہ سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے۔ اِس لیے کہ وہاں کا دربار سب سے بڑا تھا اور صدیوں سے قائم چلا آتا تھا۔ مگر وہاں تجارت پیشہ اقوام کے سوسائٹی پر غالب آنے کی وجہ سے اگلی ساری تہذیب خاک میں مل گئی۔ نشست و برخاست کی بنیاد امارت، ریاست اور حکومت سے پڑتی ہے۔ حکومت و ریاست بتاتی ہے کہ چھوٹوں کو بڑوں سے اور بڑوں کو چھوٹوں سے کیونکر ملنا چاہیے۔ اور برابر والوں سے کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ مگر تجارت کو ان امارت کے چوچلوں اور اخلاقی تکلّفوں سے دشمنی ہے۔ وہ معاملت اور خودغرضی کے آغوش میں پلتی ہے اور سلف سیکری فائس یعنی اپنے وقت اور اپنے روپے، اپنے ہُنر اور اپنی دولت کو بے وجہ کسی پر قربان کر دینے کو حماقت اور لغویت بتاتی ہے۔ بخلاف اس کے ریاست کا جوہر یہ ہے کہ بے غرضی کے ساتھ اپنے طرف داروں یا قابل لوگوں سے مراعات کی جائے۔ اور اس کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ جہاں تجارت کو فروغ ہو گا اور تاجروں کی معاشرت خوش باش امیروں اور شریفوں کی معاشرت پر غالب آ جائے گی، وہاں کوئی اخلاقی قانون نہیں باقی رہ سکتا۔ چنانچہ اس چیز نے دہلی کے اگلے عظیم الشان درباروں کی ساری آن بان مٹا کے رکھ دی اور وہ بات نہیں باقی رہی،

ریختہ صفحہ 358

جو اُس کی نام وری کی تاریخ کے شایاں تھی۔
دہلی کی تہذیب کو جب تاجروں کا ہجوم تباہ کرنے لگا تو اُس نے اپنے قدیم وطن سے بھاگ کے لکھنؤ کے چھوٹے دربار میں پناہ لی جو اگرچہ چھوٹا تھا مگر اُس کے سواد میں داخل ہونے کے بعد کسی کو نہ نظر آ سکتا تھا کہ دنیا میں یہاں سے بڑا اور کوئی دربار بھی ہے۔ پھر یہاں آزادی سے بیٹھ کر شرفائے دہلی نے اپنے قوانینِ نشست و برخاست کو برتنا شروع کیا تو چند ہی روز میں یہ حالت ہو گئی کہ اکیلا لکھنؤ ہی سارے ہندوستان میں تہذیب و شائستگی اور آدابِ نشست و برخاست کا مرکز تھا۔ اور تمام شہروں کے مہذّب لوگ اہلِ لکھنؤ کی تقلید اور پیروی کررہے تھے۔ ان مراتب کا قائم کرنا کہ کس شخص کا استقبال دروازے تک آ کے کرنا چاہئے، کس کے لیے فقط کھڑے ہو جانے کی ضرورت ہے، کس کے لیے نیم خیز ہو کے اور کس کے لیے اپنی جگہ پر بیٹھے ہی بیٹھے " آئیے تشریف لائیے" کہہ دینا کافی ہے، زیادہ تر اپنے دلی فیصلے اور اجتہاد پر موقوف ہے اور اس اجتہاد کا جیسا ملکہ لکھنؤ کے مہذّب شرفا کو حاصل ہے، کسی کو نہیں۔
یہاں کوئی برابر والا آئے گا تو کھڑے ہو کے تعظیم دیں گے۔ اس کے لیے بہترین جگہ خالی کریں گے اور جب تک وہ بیٹھ نہ جائے گا، خود نہ بیٹھیں گے۔ اس کے سامنے ادب اور تمیزداری سے بیٹھیں گے۔ چہرہ بشّاش رکھیں گے تاکہ اُس کو کسی قسم کا تنغّص نہ ہو، جب وہ کوئی چیز دے گا تو ادب سے تسلیم کر کے لیں گے۔ اس کا پورا خیال رکھیں گے کہ ہماری کوئی حرکت اُسے ناگوار نہ ہو۔ اور اُس کی صحبت میں کسی اور ضروری کام کی طرف توجہ کریں گے تو اُس سے معذرت خواہ ہو کے اور معافی مانگ کے توجہ کریں گے۔ کہیں اُٹھ کے جانے کی ضرورت پیش آئے گی تو اُس سے اجازت لے کے جائیں گے۔ اگر اُس کے ساتھ جانے کی نوبت آئے تو راستے میں اُس کے پیچھے رہیں گے۔

ریختہ صفحہ 359

اور اُسے آگے بڑھائیں گے۔ اصولِ تہذیب کی پابندی میں وہ بھی اصرار کرے گا کہ "پہلے آپ تشریف لے چلیں۔" لیکن اِدھر سے بار بار یہی کہا جائے گا کہ "جناب آگے تشریف لے چلیں۔ میں کس قابل ہوں۔" اور اگر وہ کسی طرح نہ مانے اور مجبور ہی کر دے تو شکرگزاری میں آداب بجا کے آگے قدم بڑھائیں گے بھی تو اس انداز سے کہ اُس کی طرف پیٹھ نہ ہو۔
اکثر لوگ اِن آداب کا مضحکہ اڑاتے ہیں اور ضرب المثل ہو گیا ہے کہ چند لکھنؤ والے "پہلے آپ" "پہلے آپ" کہتے رہے اور ریل چھوٹ گئی۔ چنانچہ دونوں اسٹیشن پر پڑے رہ گئے۔ اِس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر چیز کا اعتدال سے گزر جانا بدنما اور مُضر ہو جاتا ہے۔ مگر کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آدابِ معاشرت کی نگہہ داشت اہلِ لکھنؤ کے اخلاق میں اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ اُن کے برتنے میں انہیں ضرر پہنچ جانے کا بھی خیال نہیں رہتا۔ جو لوگ تہذیب و شایستگی سے مُعرّا ہیں، جو اعتراض چاہیں کریں۔ لیکن ایک مہذّب و شایستہ آدمی ان باتوں کو بجائے عیب کے، اخلاقی جوہر تسلیم کرے گا۔
اب تو سب شہروں کی طرح یہاں بھی میز کرسیوں اور انگریزی فرنیچر کا رواج ہو گیا ہے، مگر پہلے نشست فرش کی تھی، جو حسبِ حیثیت و دولت قیمتی و پر تکلّف ہوا کرتا۔ اگر کوئی ہم رتبہ غیر یا بزرگ اور واجبُ التعظیم شخص آ جاتا تو اُسے گاؤ کے آگے بٹھا کے، سب لوگ حاضرینِ صحبت کی تعداد کے مطابق چھوٹا یا بڑا حلقہ باندھ کے مودّب اور دوزانو بیٹھ جاتے۔ جس کسی سے وہ بات کرتا، وہ شخص ہاتھ جوڑ کے نہایت ہی فروتنی سے جواب دیتا اور اُس کے سامنے زیادہ باتیں کرنا یا اپنی آواز کو اُس کی آواز پر بلند کرنا اخلاقی جرم خیال کرتا۔
لیکن اگر سب برابر والے حریفانِ صحبت اور یارانِ ہم مذاق ہوتے تو نشست میں بے تکلّفی رہتی۔ اور باوجود ہم رتبہ و ہم سِن ہونے کے، بے تکلّفی پر

ریختہ صفحہ 360
بھی سب ایک دوسرے کا ادب کرتے۔اس کا خیال رہتا کہ کسی کی طرف پیٹھ نہ ہو اور کوئی ایسی بات نہ ہونے پائے جس سے کسی کی سُبکی یا اُس کی عزت کرنے سے بے پروائی ثابت ہو۔ نوکر اور خدمت گار پاس یا اس فرش پر نہ بیٹھ سکتے جس پر یارانِ صحبت بیٹھے ہوتے۔ وہ تعمیلِ احکام کے لیے سامنے ادب سے کھڑے ہوتے یا نظر سے غائب کسی قریب ہی ایسے مقام پر ٹھہرتے جہاں تک آواز پہنچ جائے۔ اور اُن کا ہر وقت کھڑا رہنا یا زیادہ باتیں کرنا بدتمیزی سمجھا جاتا۔
وہ خاص دان یا حقہ لا کے لگاتے تو صاحبِ خانہ اپنے ہاتھ سے دوستوں کے سامنے بڑھاتا اور وہ اُٹھ کے اور تسلیم کر کے لیتے۔ بے تکلّفی کی صحبتوں میں خُردوں کا بے ضرورت آنا نا مناسب تھا۔ اگر کبھی ضرورت سے وہ آ جاتے تو باپ کے آگے دوستوں کو نہایت ہی ادب سے جھک کے آداب بجا لاتے۔ اور اُن کے آتے ہی بزرگوں کی صحبت، بے تکلّف سے مہذّب بن جاتی۔ اور جس طرح وہ خُرد سب کی بزرگی کا ادب کرتا، اُسی طرح بزرگ اُس کی خُردی کا پاس کر کے اپنی بے تکلّفیاں چھوڑ دیتے۔
یہاں کی صحبت میں روز کے ملنے والوں سے مصافحے یا معانقے کا رواج نہ تھا۔ مصافحہ، مقدایانِ قوم کی دست بوسی تک محدود تھا۔ اور معانقہ صرف اُن دوستوں کے لیے تھا جو کسی سفر سے واپس آئیں یا مدّت کے بعد ملیں۔
زنانے میں مرد جاتے تو عورتوں کا احترام کرتے۔ اُن کے سامنے ممکن نہ تھا کہ وہ زیادہ بے تکلّفی برتیں یا اُن میں زیادہ نشست رکھیں۔ میاں بیوی میں بے تکلفی لازمی تھی۔ لیکن گھر کی بزرگ عورتوں کے سامنے وہ بھی ہرگز بے تکلّف نہ ہوتے۔ دِہات کے شرفا میں معمول تھا کہ نئی دُلھن جب تک چار پانچ بچوں کی ماں نہ ہو جائے، گھر کی تمام عورتوں کے سامنے شوہر سے پردہ کرتی اور مجال نہ تھی کہ کوئی عزیز مرد
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 426

(52)

پانوں کی گلوریاں رکھنے کے لیے اگرچہ خاصدان میں بہت ترقی کی گئی، اس کی خوش نمائی و نظر فریبی میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا گیا، مگر جب یہ نظر آیا کہ گرمیوں کے موسم میں تانبے کے قلعی کیے ہوئے خاصدان جل اٹھتے ہیں، اور ان میں رکھنے سے پُرتکلف گلوریوں کے خشک ہونے کے علاوہ وہ ایسی گرم ہو جاتی ہیں کہ کھانے میں بجائے تفریح کے، تکلیف ہوتی ہے اور بعوض تسکین کے، منہ خشک ہو جاتا ہے تو اس موسم میں ان کے رکھنے کے لیے مٹی کی کوری ہانڈیاں اختیار کی گئیں، جن میں پان ٹھنڈے رہتے ہیں۔ ان کی تازگی و فرحت بخشی میں اور ترقی ہو جاتی ہے اور ان میں نہایت ہی سوندھا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ کاغذی ہانڈیاں لکھنؤ میں ایسی سبک، خوشنما اور ورق کی سی باریک بنتی ہیں کہ اور کسی جگہ نہیں بن سکتیں۔ جب ان کو پانی میں بھگو کے اور ان میں گلوریاں رکھ کے سامنے لائی جاتی ہیں تو پان تو بعد میں کھایا جائے گا، ان کی صورت دیکھتے ہی آنکھوں میں تازگی آ جاتی ہے۔

پھر اُمرا کے تکلف نے اس خیال سے کہ ان کو بار بار بھگونا دشوار ہے، اور جب تک پانی میں تر نہ ہوں، ان میں لطف نہیں آ سکتا، ان پر کپڑا منڈھا، تاکہ کپڑا ان کو تر رکھے۔ اور معمولی سفید کپڑا چونکہ جلدی میلا ہو جاتا ہے اور گلوریاں رکھنے کی وجہ سے اس میں جا بہ جا سرخ دھبے پڑ جاتے ہیں، اس لیے بجائے سفید کے، ان پر سرخ ٹول منڈھا گیا، جو نہ جلدی میلا ہوتا ہے اور نہ پان کے دھبے ان کو بدنما کر سکتے ہیں۔ زیادی آراستگی کے لیے ان ہانڈیوں میں ٹول پر باریک روپہلی دھنک سے پھانکیں سی بنا دی جاتی ہیں۔ ان چیزوں نے پان کی ہانڈیوں کو بنا سنوار کے دلہن بنا دیا۔

تانبے کے خاصدان بھی عموماً غلاف میں بندھے رہتے ہیں۔اور اسی طرح

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 427

کے غلافوں کا رواج پاندانوں اور حسن دانوں کے متعلق بھی ہے جو بڑے اہتمام سے حسب درجہ و حالت پُر تکلف بنائے جاتے ہیں۔ جن میں فقط حفاظت ہی نہیں، آرایش بھی ملحوظ خاطر ہوتی ہے۔

ایسا ہی ٹول، دھنک کے ساتھ صُراحیوں پر بھی منڈھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے صراحیوں میں پانی خوب ٹھنڈا رہتا ہے اور ان کی صورت دیکھتے ہیں بے پیاس کے پانی پی لینے کو جی چاہتا ہے۔

پان کھانے والوں کو اکثرپیک تھوکنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے، جس کے لیے بار بار اٹھنا زحمت سے خالی نہیں۔ اور پھر جن کمروں میں پُرتکلف فرش بچھا ہو، تھوکنے کو جگہ مشکل سے اور دور جا کے ملتی ہے۔ اور جگہ ملے بھی تو پیک کے دھبوں سے مکان خراب ہوتا ہے۔ اس لیے پان ہی کے سلسلے میں ایک اور ظرف کی ضرورت پیش آئی جو تھوکنے کے لیے ہو۔ یہ ظرف اگالدان کہلاتا ہے۔ اگالدان کوئی نئی چیز نہیں جس کو لکھنؤ کے ساتھ خصوصیت ہو۔ پہلے اگالدان غالباً دہلی میں ایجاد ہوئے اور وہ بعینہ لکھنؤ میں منتقل ہو آئے۔ ان کی قطع یہ تھی کہ نیچے گول پیندا، اس کے اوپر ایک گول لٹو، پھر اس کے اوپر کنول نما دہانہ۔ یہ اگالدان تانبے، پیتل اور جست کے ہر جگہ بننے لگے۔ بیدر میں ان پر وہاں کا بے نظیر بیدری کا کام بنا۔ لکھنؤ میں تانبے پر نقاشی کا کام بنایا گیا۔ پھر مراد آباد میں بنے اور ان پر وہاں کی نفیس نقاشی ہوئی۔ لکھنؤ میں پھر مٹی کے اگالدان اسی قطع کے بننے لگے۔

مگر ان میں خرابی یہ تھی کہ ان کے نیچے کا حصہ ہلکا اور اوپر کا زیادہ پھیلاؤ کی وجہ سے وزنی ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ اکثر بے احتیاطی یا غفلت میں گر جاتے اور فرش خراب ہوتا۔ اس عیب کو دور کرنے کے لیے جے پور، حیدر آباد اور اس کے بعد مراد آباد میں ایک دوسری قطع کے اگالدان بننے لگے، جو شاید دہلی ہی کی ایجاد ہوں۔ ان

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 428

کی قطع کہاروں کی ہُڑک، یا مداری کی ڈگڈگی کی سی ہوتی ہے۔ اور لکھنؤ میں بھی بہت سے لوگوں کو اس قسم کے اگالدان اختیار کر لینا پڑے۔ اگرچہ یہاں ابھی تک پرانی وضع چھوٹی نہیں اور اسی وضع کے بہت بڑے بڑے اگالدان اب بھی بنتے ہیں، مگر اب بہت سے گھروں میں اس نئے وضع کے بھی موجود ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ اگالدان کی ایجاد و ترقی میں لکھنؤ کو کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ اگرچہ ان کا رواج لکھنؤ میں ہندوستان کے تمام شہروں سے زیادہ ہے۔

اب ایک نئی قطع کے بیٹھے اور پھیلے ہوئے انگریزی اگالدان بھی آتے ہیں جو چینی اور تام چینی کے ہوتے ہیں۔ مگر وہ غالباً چُرٹ پیتے وقت تھوکنے کے لیے ہیں۔ پان کی پیک تھوکنے کے لیے باکل موزوں نہیں ہیں۔

خاصدان کے بعد اُمرا اور خوش باش لوگوں کے ہمراہی سامان میں پانی کی لُٹیا بھی ہے، جو خدمت گاروں کے پاس رہا کرتی ہے۔ علی العموم یہ تانبے کی اوسط درجے کی سادی یا نقشی لُٹیاں ہوا کرتی ہیں۔ جن لوگوں کو خدا نے استطاعت دی ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ امارت و دولت مندی نے ان کو پابندی شرع سے آزاد کر دیا ہے، وہ چاندی کی لُٹیاں ساتھ رکھتے ہیں۔

لُٹیا پرانی ہندوؤں کے عہد کی چیز ہے، جو ایک بے ٹونٹی کا گول ظرف ہوتا تھا۔ جس کا منہ، پیٹ سے چھوٹا ہوتا۔ اور چونکہ کنویں سے پانی بھرنے کی اکثر ضرورت پیس آیا کرتی، اس لیے ہر مسافر کے ساتھ سفر میں لٹیا ڈوری ضرور رہا کرتی۔ اور دیہات کے ہندوؤں اور نیز وہاں کے ادنا طبقے کے مسلمانوں میں آج تک اسی اگلی شان میں اس کا رواج ہے۔ مسلمانوں نے اپنے زمانے میں اس لٹیا میں ٹونٹی لگا دی، تاکہ پانی کے استعمال میں آسانی ہو۔

میں نہیں جانتا کہ دہلی کے اُمرا میں بھی یہ رواج تھا۔ اور جن لوگوں کے ساتھ خدمت گر رہا کرتے تو ان کے پاس لُٹیا بھی ضرور ہوتی، جو پانی پینے، کُلی کرنے اور دیگر

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 429

ضرورتوں میں کام آیا کرتی۔ مگر لُٹیا کی موجودہ قطع اور اس کی خوشنمائی میں لکھنؤ کو بڑا دخل ہے جس کا حال ہم تانبے کے برتنوں کے سلسلے میں بیان کریں گے۔

گرمیوں میں رنگین کپڑے کا منڈھا ہوا جھالر دار پنکھا بھی خدمت گاروں کے پاس رہتا۔ اور بعد کے زمانے میں چھتری بھی لازم ہو گئ جس کو دھوپ میں نوکر آقا کے سرپر لگائے رہتا۔

گھروں کی اندرونی ضرورتوں میں ہاتھ دھونے کے لیے سلفچی، آفتابہ، اور چوں کہ صابن کا رواج نہ تھا، اس لیے بیسن دانی بھی ضروری چیزیں تھیں۔ سلفچی، آفتابہ ہندوستان کے دولت مند گھرانوں کی پرانی چیزیں ہیں، جو دہلی میں خدا جانے کب سے مروج تھیں، اور اپنی قدیم وضع و شان سے لکھنؤ میں آ گئیں۔ یہاں سلفچی تو وہی رہی، اور گو اب اُس کی جگہ تسلے کا زیادہ رواج ہو گیا ہے مگر سچ یہ ہے کہ وہ سلفچی کا بدل نہیں ہو سکتا۔ سلفچی ایک گول پیٹ کا ظرف ہے جس کا منہ ذرا چھوٹا کر کے، کگریں ایک اُتھلے تشت کی وضع میں بہت زیادہ پھیلی ہوتی ہیں۔ اور منہ پر ایک پردے کی جالی رکھ دی جاتی ہے، جس میں سے ہاتھ دھونے میں سب پانی گر جاتا ہے۔ اس پردے کو جب چاہیں اٹھا کر اس کو خوب اچھی طرح صاف کر سکتے ہیں۔ اس جالی کے اوپر تھوڑی گھاس ڈال دی جاتی ہے کہ پانی کے گرنے میں چھینٹیں نہ اُڑیں۔ اس میں بہت بڑی خوبی اور نفاست یہ ہے کہ میلا پانی جس کی صورت کریہ ہوتی ہے، نظر کے سامنے نہیں رہتی۔ اور جن کے مزاج میں نفاست ہے، ان کو تکلیف ہوتی ہے (کذا)۔ مگر آفتابے کی جگہ لکھنؤ میں لوٹا رائج ہو گیا۔ دراصل آفتابہ ہی پرانے زمانے کا لوٹا تھا جس پر لکھنؤ کے مذاق نے تصرف کر کے موجودہ لوٹے کی سڈول شکل پیدا کی۔ پُرانا لوٹا جو آفتابہ کہلاتا، اس کی شکل یہ تھی کہ تانبے کا ایک مخروطی شکل کا ظرف ہوتا، جس میں پیٹ اور گلے کا کچھ امتیاز نہ تھا۔ پیندے کے پاس جتنا دور ہوتا، وہ اوپر کی طرف تدریجاً گھٹتا

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 430

چلا جاتا۔ آخر میں وہی گلا ہو جاتا۔ یہاں تک کہ کنارے موڑ کے منہ بنا دیا جاتا۔ اور ایک جانب اس میں خم دار ٹونٹی لگا دی جاتی۔ اس شکل کے لوٹے حیدر آباد میں آج بھی مل جاتے ہیں، جو اپنی قدامت اور ہمارے لوٹوں کے نقش اولیں کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کی شکل مصر و شام کے گلی ظروف آب یا انگریزوں کے یہاں منہ دھونے کی میز پر جو چینی کا جگ رہتا ہے، اس کی سی ہوتی۔ اور اسی سے خیال ہوتا ہے کہ مسلمان اس کو عرب و ایران سے اپنے ساتھ لائے ہوں گے۔ چند روز بعد ہندی تمدن کے اثر نے اس میں پہلا تصرف یہ کیا کہ پیٹ گول بن کر، گردن سے جدا اور متمائز ہو گیا۔ مگر اصلیت کی قربت کے باعث لمبوترا پن باقی تھی، یعنی عرض اور پھیلاو، بلندی کی مناسبت سے نہ تھا۔ اس وقت تک پیٹ کی گولائی بھی کُرے کی مثل نہیں، بلکہ بیضاوی تھی۔ یہی شکل اس آفتابے کی ہے جس کا ذکر اردو کی اگلی مثنویوں اور قصے کہانیوں میں ہے۔ لکھنؤ میں یہ ہوا کہ پیٹ بیضاوی سے کُروی ہو گیا۔ اور جتنی بلندی ہوتی، اسی کی مناسبت سے اس کا دور اور پھیلاؤ بھی بڑھ گیا۔ گلوں میں ایک موزوں ڈھلاو ہو گیا اور تونٹی بھی ابتداً وسیع اور نوک کے پاس تنگ، خم دار اور بہت ہی خوش نما ہو گئی۔ یہ لکھنؤ کا موجودہ لوٹا ہے، جس سے زیادہ خوش نما اور سڈول لوٹے ہندوستان کے کسی شہر میں نہیں بنتے۔ اور ہر جگہ کے شوقین فرمایشیں کر کر کے لکھنؤ سے منگوایا کرتے ہیں۔ جو تناسب لوٹوں میں یہاں پیدا ہو گیا ہے۔ چھوٹی لُٹیا سے لے کر بڑے سے بڑے لوٹے تک سب میں نظر آیا ہے۔ اسی قسم کا مناسب تصرف تانبے کے تمام برتنوں میں ہوا ہے، جس کو ہم آیندہ بیان کریں گے۔ اس لیے کہ اس محل پر اس کے بتانے کا موقع نہیں ہے۔

بیسن دانی دراصل تانبے کی ایک بے ٹونٹی کی لٹیا ہوتی ہے۔ عموماً کھانے کے بعد ثُہنیت چھڑانے کے لیے اس میں سے بیسن لے کر ملا جاتا ہے اور پھر پانی سے دھو ڈالا جاتا ہے۔ بعض مگر بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو بیسن کی جگہ بیسن دانی میں بُٹنا یا

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 431

کھلی رکھتی ہیں۔ اس لیے کہ بیسن کھانے کی چیز ہے، جس کو ہاتھ دھونے میں صائع کرنا ان کے خیال میں ناجائز یا نامناسب ہے۔ مگر اب اس کا رواج بہت کم ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ بُٹنا شادیوں کے سوا اور کسی موقع پر نہیں بنتا۔ اور کھلی سے ہاتھ میں اس کی تیز بو آنے لگتی ہے۔

(53)

معاشرت کے بہت سے سامان ضروری اور آداب نشست و برخاست کو ہم اس سے پیش تر بیان کر چکے ہیں، مگر ابھی ہم کو یہاں کے شرفا کی باہر کی آمد و رفت کی وضع و شان بتانے کی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ ہندوستان کے تمام شہروں کی طرح یہاں بھی انگریزیت اس قدر غالب آ گئی ہے کہ ایشای کے آخری تمدن میں جو وضع پیدا ہوئی تھی، بالکل مٹ گئی۔ مگر ہم کو اس موقع پر وہی چیز بیان کرنا ہے جو مٹ چکی ہے یا مٹنے کے قریب ہے۔ لہذا ہم آج سے ساٹھ ستر برس پیش تر سے بھی پہلے زمانے میں نکلے چلتے ہیں اور اس زمانے کی تصویریں ناظرین کے پیش نظر کرتے ہیں، جو اب کہیں نہیں نظر آ سکتیں۔

آج کل کی سی عمدہ موٹروں اور لمبی چوڑی فٹنوں اور لینڈو گاڑیوں کے نہ ہونے سے، اور نیز حال کے اصول حفظ صحت کے پیش نظر نہ ہونے کے باعث، ان دنوں آج کل سی لمبی چوڑی اور وسیع و کشادہ سڑکیں نہ تھیں۔ بلکہ تنگ گذرگاہیں تھیں جن میں ہاتھی، گھوڑے، اونٹ، ہوادار، بوچے، فینیس، میانے، سکھپالیں، ڈولیاں، رتھیں، بہلیں، آدمیوں کی بھیڑ میں سے ہٹو بچو کرتی ہوئی ہر وقت گزرا کرتی تھیں۔ کیسا ہی مرجع عام بازار اور کسی ہی پسندیدہ سیر گاہ ہو، سب کی حالت بلا استثان یہی تھی۔

ایک اونٹ تو نہیں جو فوجی ضرورتوں، نامہ بر قاصدوں، یا باربرداری کے لیے مخصوص تھے، باقی اور تمام سواریاں شرفا و رؤسا میں حسبِ حالت و حیثیت مروج

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 432

تھیں۔ اعلا طبقے کے شاہ زادے اور نواب یا انہی کے درجے کے اور اُمرا، ہوا داروں اور بوچوں پر سوار ہو کے نکلتے۔ ہوا دار، ٹمٹم کی وضع کی ایک کھلی ڈولی تھی جس کے پیچھے چمڑے کا ٹپ ہوتا اور لوہے کی کمانیوں کے ذریعے سے کھولا یا بند کیا جا سکتا۔ ٹھنڈے اوقات میں جب ٹپ گرا دیا جاتا تو ہر طرف کی فضا کھلی رہتی۔ آگے پیچھے اس اس میں فنس کے سے ڈنڈے لگے ہوتے۔ چار کہار اس کو کاندھوں پر اٹھا کے لے جاتے اور جو شخص سوار ہوتا وہ نہایت وقار و تمکنت سے بازار کی سیر کرتا، ہر چیز کو دیکھتا بھالتا اور شناساؤں سے صاحب سلامت کرتا ہوا جاتا۔ ہوادار کی قطع سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خاص انگریزوں کی ایجاد کی ہوئی چیز تھی۔ اور اپنی نفاست، خوشنمائی، اور صفائی کی بدولت رؤسائے ہند کو بہت پسند آیا۔ اب اس کا رواج بالکل اٹھ گیا۔ اگرچہ بعض پرانے رؤسا کے یہاں چند ہوا دار اب بھی پڑے ہوئے ہیں جو رؤسا کی آمد و رفت میں تو نہیں مگر دولت مند ہندوؤں کی براتوں میں وہ کبھی کبھی نظر آ جایا کرتے ہیں۔

بوچا، اس سے زیادہ باوقار اور مشین سواری تھی۔ اس کی قطع آج کل کی بروہم یا ادھا گاڑیوں کی سے ہوتی، جس میں پہیوں کے بجائے پایے ہوتے۔ اور آگے پیچھے فنس کے ایسے دو ڈنڈے ہوتے اور کم از کم آٹھ اور اکثر سولہ کہار اس کو اٹھا کے لے چلتے۔ اس لیے کہ وہ کہاروں کے اٹھانے کی تمام سواریوں سے زیادہ بھاری ہوتا۔ اس سواری پر شاید کبھی اور اُمرا بھی سوار ہوئے ہوں مگر میں نے فقط واجد علی شاہ کو کلکتے میں اس پر سوار ہوتے دیکھا۔ اور ان کے سوا یہ سواری میں نے کہیں اور کسی کے پاس نہیں دیکھی۔ بادشاہ اپنے باغوں، محلوں اور کوٹھیوں میں اسی پر سوار ہو کے پھرا کرتے اور گرد جلوسی خُدام کے علاوہ معزز ارکان دولت اور حضور رس مصاحبین پا پیادہ ساتھ چلتے۔ مگر یہ بھی یقیناً انگریزوں کی ایجاد تھاإ، جو اُس عہد کی انگریزی گاڑیوں سے اخذ کر کے کہاروں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 433

کے اٹھانے کے قابل بنا لیا گیا۔

سُکھپال ان دونوں عورتوں کی نہایت معزز سواری تھی، جو خالص ہندوستانی چیز اور ہندی مذاق کے تکلفات کا مکمل نمونہ تھی۔ یہ ایک سرخ گُمبد نما ڈولی تھی۔ ایک لمبے چوڑے کھٹولے پر ایک شاندار لال برج سا بنا دیا جاتا، جس میں سونے چاندی کے کلس لگے ہوتے۔ چاروں طرف پردے لٹکتے ہوتے۔ اس میں بھی آگے پیچھے دو دو ایک ایک ڈنڈے ہوتے اور بہت سے کہاران کو اٹھا کے لے چلتے۔ یہ سواری عالی مرتبہ بیگمات اور محل شاہی کی خاتونوں کے لیے خاص تھی۔

رتھ اسی وضع کی پہیوں دار گاڑی تھی جس میں بیل جوت دیے جاتے۔ رتھیں دیہات کے تعلقداروں اور معزز زمینداروں کے یہاں اور دیسی ریاستوں میں اب بھی موجود ہیں، مگر روز بہ روز بے کار ہوتی جاتی ہیں اور ان کا رواج اٹھتا جاتا ہے۔ لکھنؤ میں خاص شاہی محلات کی ضرورت کے لیے ان دنوں ہزاروں رتیں تھیں۔ شجاع الدولہ کی بیوی بہو بیگم صاحبہ، نواب آصف الدولہ کے عہد میں جب اپنی بیوگی کی زندگی ایک حکمراں ملکہ کی شان سے فیض آباد میں بسر کرتی تھیں تو اکیلی ان کی سرکار میں آٹھ نو سو رتھیں تھیں۔ اور قدیم الایام میں جب شاہان دہلی اپنی مملکت میں دور دراز کے سفر کیا کرتے تھے تو ان کے محلات عالیات انہی رتھوں پر سوار ہو کے ساتھ جاتے۔

بہل، بیلوں کی عام گاڑی تھی، جس میں ایک کھٹولے کو دو پیہوں پر قائم کرتے، پھر اس پر چر ڈنڈے کھڑے کر کے، ایک چھتری لگا دیتے۔ اور اس پر پردے کے لیے غلاف ڈال دیا جاتا۔ اس میں اکثر مرد اور عورتیں سفر کرتیں۔ ان دنوں متوسط طبقے کے دیہاتیوں اور شہریوں دونوں کے لیے سفر کا ذریعہ یہی سواری تھی۔ بہلیں، دیہاتوں میں اب بھی بکثرت موجود ہیں۔ مگر ان کی ضرورت روز بہ روز مٹتی جاتی ہے۔ اورغن قریب ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ یہ سواری عنقا ہو جائے گی۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 434

ان کے سوا تمام سواریوں کو لوگ خود ہی جانتے ہیں۔ ہمیں ان کی شکل و صورت بتانے کی ضرورت نہیں لے۔

بہر حال یہ سب سواریاں شہر کے تمام راستوں اور گلی کوچوں میں گزرتی نظر آئیں۔ زیادہ تر لوگ فنسوں پر سوار ہوتے۔ علما، اطبا، امرا اور خوش باش، جن کو خدا استطاعت دیتا، چار کہار نوکر رکھ لیتے جو خدمت گاری بھی کرتے اور سواری بھی کام دیتے۔ جن لوگوں میں ذرا بھی بانکپن ہوتا یا سپہگرانہ شان دکھانا چاہتے، جو ان دنوں تمام اہل شہر میں عام تھی وہ گھوڑے پر سوار ہو کر نکلتے، جو چاندی کے زیور اور کارچوبی شاش و براق سے دلہن بنا دیے جاتے۔ اعلا درجے کے معززین ہاتھیوں پر بیٹھ کے آمد و رفت کرتے، جو باوجود اس قد و قامت کے تمام گلی کوچوں میں بلا تکلف گزر جاتے، ہاتھیوں پر سادی بانات یا کارچوبی جھولیں ہوتیں اور ان پر کھلے ہودے یا سایہ دار بُرج نما عماریاں کسی جاتیں۔

زنانی سواریاں جو سکھپالوں اور فنسوں پر ہوتیں، وہ بڑی تکلف اور شان سے نکلتیں۔ فنس پر سرخ چھٹکے پڑے ہوتے، جن پر کبھی گوٹا لچکا بھی ٹانک دیا جاتا۔ کہار سرخ بانات کے چُغے پہنے ہوتے۔ سروں پر سرخ کگردار پگڑیاں ہوتیں، جن کی کگروں پر چاندی کی مچھلیاں ٹکی رہتیں۔ مچھلی، ہندوستان میں بہترین شگون مانی گئی ہے۔ رخصت کرتے وقت یا کسی کو کسی اہم کام کے لئے جاتے وقت آج بھی عورتوں کی زبان سے نکل جاتا ہے : "وہی مچھلی۔" غالباً اس کو نجوم سے تعلق ہو اور یہ بھی نجومیوں ہی کا لٹکا معلوم ہوتا ہے کہ چاندی کی مچھلیاں بنوا کر کہاروں کی پگڑی میں ٹانک دی جائیں جو آگے رہتے ہیں۔ تاکہ کہیں جاتے وقت مچھلیاں ہر وقت پیش نظر رہیں۔

زنانی فنس کے ساتھ ساتھ ایک کہاری چھٹکے کا کونا پکڑے دوڑتی جاتی۔ ان کہاریوں کی وضع بھی خاص قسم کی تھی۔ سب سے بڑی پہچان یہ تھی کہ لہنگے میں اتنی چوڑی گوٹ ہوتی ہے کہ اس کا آدھے سے زیادہ حصہ فقط گوٹ کا ہوا کرتا۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 435

ان سواریوں میں سے شہر میں اب فقط فنس باقی رہ گئی ہے۔ یا کبھی کبھی کوئی رئیس گھوڑے یا ہاتھی پر دکھائی دے جاتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ باہر نکلنے میں شرفا کی کیا وضع ہوتی تھی۔ لباس کو ہم بیان کر چکے ہیں۔ مگر ان کی تصویر دکھانے کےلیے ہمیں پھر ایک حد تک ان کی وضع قطع بتانے کی ضرورت ہے۔ سواری کی شان کے متعلق میں نے جو کچھ بیان کیا، اس میں بہ جز بوچے اور ہوا در کے، اور تمام چیزیں وہی یں جو دہلی سے آئیں۔ لکھنؤ کو ان سے کوئی خصوصیت نہیں۔ دراصل یہ دہلی ہی کی شان تھی جو اپنی آخری جھلک بڑے کروفر کے ساتھ لکھنؤ میں دکھا کے غائب ہو گئی۔

لیکن لباس میں لکھنؤ، دہلی سے جدا ہو گیا۔ اب گھر میں کُرتا یا قمیص اُتار کے بیٹھنا معیوب ہو گیا ہے۔ مگر ان دنوں یہاں گھر کا لباس سچ پوچھیے تو ایک غرقی تھی۔ یہاں کا دربار شیعہ تھا اور ہر چیز یہاں تشیع ہی کے سانچے میں ڈھلتی تھی۔ فقہ امامیہ کی رُو سے رانوں کے کُھلے رہنے میں مضائقہ نہیں۔ بخلاف حنفیوں کے، کہ ان کے مذہب میں ناف سے لے کر گھٹنوں تک جس قدر حصہ جسم ہے، ستر میں داخل ہے۔ اس کا چھپانا ضروری ہے۔ اور اسی بنا پر دہلی میں علی العموم تہمت کی وضع کی لنگی باندھی جاتی۔ جس میں گھٹنوں کے نیچے تک جسم ڈھنکا رہتا ہے۔ یہاں کے تمدن میں اس کی ضرورت نہیں باقی رہی۔ اور یہاں کی لنگی فقط ایک پتلی سے غرقی یا جانگھیا رہ گئی، جس میں ناف سے کُنچ ران تک تو جسم ڈھنک جاتا ہے باقی سب جسم کُھلا رہتا ہے۔ لوگوں میں مہذب اور مرد آدمی بن کے نکلنے کا خیال تو بڑھا ہوا تھا مگر گھر میں بجز ایک غرقی کے جسم پر ایک دھاگا بھی نہ رہتا۔ اور یہ بات اس قدر عام ہو گئی تھی کہ اسی برہنگی کی وضع سے اپنے گھر پر کسی سے ملنے میں بھی مضائقہ نہ سمجھا جاتا۔ مگر یہی حضرات جب باہر نکلتے تو شان ہی اور ہوتی قالب پر چڑھی چوگوشیہ ٹوپی، اجلا صاف اور براق انگرکھا، جو معلوم ہوتا کہ ابھی بھی دھوبی کے گھر سے آیا ہے اور اسی وقت گوٹ اور آستینیں چُنی گئی ہیں۔ گُلبدن یا

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 436

نین سُکھ کا عرض کا پائجامہ، کاندھے پر مثلت رومال۔ ہاتھ میں دستی رومال اور چھڑی۔ اور پاؤں میں لکھنؤ کا بنا ہوا سبک مخملی خردنو کا جوتا، باہر کھلنے میں ہر وضع و شریف کی یہی وضع تھی۔

بہت سے لوگوں کو باہر نکلنے میں اس وضع و لباس کا اس قدر لحاظ تھا کہ کبھی ان کے کپڑے میلے نہ نظر آتے۔ معلوم ہوتا کہ اسی وقت دھوبی کے یہاں سے آئے ہیں۔ حالانکہ مہینوں ان کے دھلنے کی نوبت نہ آتی۔ اور ہوتا یہ کہ دو گھڑی دن رہے گھر سے نکلے، خراماں خراماں ہر چیز سے بچتے اور اپنے سایے تک سے بھڑکتے ہوئے چوک کی سیر کی۔ دو گھڑی رات گئے واپس آ گئے۔ اور آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ٹوپی قالب پر رکھ کے ایک کپڑے سے اُڑھا دی۔ انگرکھے، پائجامے، اوڑھنے کے رومال کو احتیاط سے تہہ کر کے، دستی رومال میں گٹھڑی کی طرح باندھ کے کھونٹی پر رکھ دیا۔ اور غرقی باندھ کے اور کوئی پُرانا جو تا یا زیر پائی پہن کر بیٹھ رہے۔ اسی داشت کی برکت تھی کہ قیمتی اور شالی کپڑے چار چار پانچ پانچ پُشتوں تک اس احتیاط سے رہتے کہ نہ میلے ہوتے، نہ پھٹتے، نہ کیڑا کھاتا۔ ہمیشہ نئے بنے رہتے اور شادی کی تقریبوں یا شان و شکوہ کی محفلوں میں ایسا شاہانہ لباس پہن کر جاتے کہ لوگوں کو جو ان کی حالت و حیثیت سے واقف ہوتے، تعجب ہوتا۔

گو کہ اعلا طبقے کے اُمرا خصوصاً شاہزادے، علما اور اطبا لزوم کے ساتھ سواریوں پر نکلتے مگر شرفا کے لیے پیدل پھرنا آج کل کے زمانے کی طرح معیوب نہ تھا۔ ہر طبقے اور درجے کے لوگ یکساں حالت سے پاپیادہ باہر کی سیر کرتے اور پیدل چلنے والے، بڑے سے بڑے رئیسوں اور معزز لوگوں کے برابر بیٹھتے اور مضائقہ نہ ہوتا۔

(53)

اب ہم مختصراً یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ لکھنؤ کی معاشرت نے اپنی ضرورت و

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 437

قدردانی سے کن کن چیزوں کو ترقی دی اور کن کن فنون کو یہاں نشو و نما ہوا۔ اس سلسلے میں بہت سی چیزوں کا ذکر آئے گا۔ مگر ہم پہلے مٹی کے برتنوں سے شروع کرتے ہیں۔

مٹی کے برتن دنیا کی پہلی ایجاد ہیں۔ ہر ملک اور ہر سرزمین سے کھود کے قدیم الایام کے خزف پارے برآمد کیے گئے ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مٹی کو بھی بھٹی میں پکا کے خزف بنا لینا، انسان کو اپنی ترقیوں کے بہت ابتدائی دور میں معلوم ہو گیا تھا۔ اور غالباً دنا کے عہد حجریت ہی میں معنی فلزات کے برآمد ہونے سے پہلے انسان کو، برتن بنا کے ان کو پکانا آ گیا تھا۔ مصر میں عہد فراعنہ کے گلی ظروف اور بابل و نینوا میں غذا اور پانی کے ظروف کے ساتھ نہایت پختہ اینٹیں برآمد ہوئی ہیں۔ فراعنہ کے دور میں امرائے مصر جن تابوتوں میں لاشوں کی ممی بنا کے رکھا کرتے، وہ مٹی ہی کے ہوتے تھے۔ یہی نہیں، اگلی دُنیا کے خزف پاروں اور ٹھیکروں سے بہت دنوں تک کاغذ کا کام لیتی رہی ہے۔

ہندوستان والوں کو بھی قدیم الایام ہی میں یہ فن آ گیا تھا۔ اور عہد قدیم کے نکلے ہوئے ظروف سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی اس فن نے دیگر مقامات سے کم ترقی نہیں کی تھی۔ مخصوصاً بُت پرستی نے ہندوؤں میں بھی مٹی کی مورتوں کی بنیاد ڈالی، جس میں روز بروز ترقی ہوتی رہی۔ اور یہاں کمہاروں کی ایک ذات پیدا ہو گئی، جس کا خاندانی اور آبائی پیشہ یہی ہے کہ مٹی کے ظروف اور کھلونے بنا کے پکاتے ہیں۔

دہلی میں اسلامی دور نے عام کمہاروں کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ کسگروں (کاسہ گروں) کا ایک نیا گروہ پیدا کر دیا جو مسلمان ہیں اور ظروف کے ساتھ کھلونے بھی بناتے ہیں۔ اور اگرچہ شرع اسلام مورتوں کے بنانے کو مطلقاً ناجائز بتاتی ہے، مگر کسگروں کا چونکہ ذریعۂ معشیت یہی کام ہے، اس لیے وہ ایک حد تک کھلونے بنانےبھی بناتے ہیں۔ اور اگرچہ شرع اسلام مورتوں کے بنانے کو مطلقاً ناجائز بتاتی ہے، مگر کسگروں کا چونکہ ذریعہ معیشت یہی کام ہے، اس لیے وہ ایک حد تک کھلونے بنانے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 438

اور بیچنے پر مجبور ہیں۔ مسلمان کسگر عام معاشرت و شایستگی اور نیز اپنے فن میں کمہاروں سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔

دہلی سے مسلمان اُمرا ان کسگروں کو بھی اپنے ساتھ لکھنؤ میں لائے۔ اور امرا کی شوقینی کی بدولت انکی صنعت کو یہاں زیادہ اور نمایاں ترقی ہونے لگی۔ چنانچہ کمہار اور کسگر دونوں نے اپنے کام میں وہی ذہانت و طباعی اور جد طرازیاں دکھانا شروع کیں جو ایک مصور، تصویروں میں ایک شاعر، اشعار میں دکھایا کرتا ہے۔

حُسن اتفاق سے لکھنؤ کی مٹی اس فن کےلیے مناسب ثابت ہوئی جس نے کاری گری کو اظہار کمالات کا موقع دینا شروع کیا۔ اور برتن اور کھلونے دونوں ایسے بننے لگے جیسے کہ کہیں نہ بن سکے تھے۔ ظروف میں تو یہ ترقی ہوئی کہ ایسے سبک، باریک اور صاف اور اس کے ساتھ خوش قطع برتن یہاں بنتے ہیں کہ کہیں نہیں بن سکتے۔ امروہے کی مٹی بھی اس کام کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ چنانچہ وہاں بھی اس فن کو بڑی ترقی ہو رہی ہے۔ اور وہاں کے کاریگروں کے ظروف، گل دستوں اور لکھنؤ کے ظروف کی وضع میں فرق ہے۔ اور اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ لکھنؤ کے کاریگروں کا کام نفاست پسند لوگوں کی نظر میں بڑھا ہوا ہے۔

عام چیزوں میں لکھنؤ کے گھڑے، بدھنیاں، سارے ہندوستان کے گھڑوں اور بدھنیوں سےسبک اور خوشنما ہوتے ہیں۔ گھرؤں کی گُلائی نہایت ہی مکمل اور اپنے حدود میں پوری ہوتی ہے۔ بدھنیاں، تانبے کے لوٹوں کی قطع سے بہت زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ ظروف میں سفالی کے برتن یہاں سے اچھے شاید کہیں کم ملیں گے۔ مگر چونکہ مٹی کے برتنوں میں کھانے کا رواج بالکل اٹھ گیا ہے، اس لیے کمہاروں کی توجہ اب ان کی طرف سے ہٹ گئی اور روز بہ روز ہٹتی جاتی ہے۔ مگر جن ظروف میں یہاں کے کسگروں نے اپنے کمالات کا اعلا ترین ثبوت دیا، وہ آبخورے، صراحیاں، جھجریاں اور حقے ہیں۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 439

اور ان کے بعد کھیر کی ہانڈیاں۔

آبخورے، پانی پینے کے ظروف ہیں۔ اگرچہ شیشے اور تام چینی کے سبک اور خوش نما اور نفیس گلاس اور نیز مراد آباد وغیرہ کے گلاس اور کٹورے کثرت سے رواج پا گئے ہیں، مگر ہندوستان میں گرمیوں کا ایک ایسا موسم آتا ہے جب کہ بجز مٹی کے آبخوروں کے، کسی ظرف میں پانی مزہ نہیں دے سکتا۔ اس لیے کہ پانی ان میں ٹھنڈا رہتا ہے اور خود ان کی ٹھنڈک سے، ہاتھ اور ہونٹوں پر خُنکی کی ایسی لذت دیتی ہے جو اور کسی چیز سے نہیں حاصل ہو سکتی۔ علاوہ بریں، مٹی کے کورے آبخورے میں ایک ایسی روح کو تازہ کرنے والی خوشبو ہوتی، جس کے شوق نے یہاں مٹی کا عطر ایجاد کرا دیا۔ غرض اس ضرورت نے آبخوروں کو باقی رکھا، جن میں طرح طرح کی نفاستیں پیدا کی گئیں۔ ایسے نازک، ہلکے اور سبک آبخورے بنے جو کاغذی کہلاتے ہیں۔ اور اس قدر باریک ہوتے ہیں کہ شیشے کے گلاسوں کی نزاکت کو بھی یہاں مٹی کے آبخوروں کی سبکی اور باریکی نے مات کر دیا۔ پھر ان پر نقش و نگار بنا کے بالو کی ایک تہہ چڑھا دی جاتی ہے کہ پانی کو زیادہ ٹھنڈا رکے۔ انہیں کے مناسب اں کے جوڑ کی تھالیاں ایجاد ہوئیں۔ آخر آبخوروں کی قطع ایسی خوش نما اور دل کش ہو گئی کہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور زمانے کو مان لینا پڑا کہ انسانی صنعت نے جو کمال پگھلنے والے فلزات کے استعمال میں دکھایا ہے، وہی مٹی میں بھی دکھا سکتی ہے۔

آبخوروں کے بعد، پانی رکھنے اور اس کے ٹھنڈا کرنے کے ظروف میں صُراحیاں ہیں۔ صراحی بہت پُرانی چیز ہے، جس کا رواج ایران و مصر قدیم میں بھی تھا۔ مگر لکھنؤ کی صراحیاں، مٹی کی خوبی اور کاریگروں کی لطافت مذاق سے نفیس، کاغذی اور بہت ہی سبک ہو گئیں۔ اور پھر ان کی شکل بھی ایسی خوب صورت ہو گئی کہ ان دونوں باتوں میں کہیں کی صراحیاں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ ان کے دہانے پر ایسی متناسب خمیدگی پیدا ہو گئی کہ لکھنؤ کی صُراحیاں کا دہانہ ہی ایسی چیز ہے جو اور کسی جگہ نظر

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 440

نہیں آ سکتی۔ جھجریاں بھی ویسی ہی نازک و سبک ہیں۔ ان کا پیٹ تو وہی صراحیوں کے مثل ہوتا ہے مگر اس کے اوپر لمبی گردن کے عوض ایک مُہنگر لگا دیا جاتا ہے۔ کام اور نزاکت و لطافت کے اعتبار سے وہ بھی صراحیوں سے کم نہیں ہوتیں۔

حقے۔ ان میں بھی ٹھنڈک کے بے انتہا ضرورت ہوا کرتی ہے تاکہ دھواں ٹھنڈا آئے۔ مٹی کے کاغذی حُقے یہاں ایسے نفیس اور خوش قطع بننے لگے کہ کسی جگہ نہیں نصیب ہو سکتے۔ پھر نئے انواسے ہوئے کورے حُقوں سے دھویں میں خنکی اور نفاست کے ستھ ساتھ کوری مٹی کی ایسی نفیس خوشبو پیدا ہو جاتی ہے۔ کہ عہد شاہی کے بہت سے عالی مرتبہ رئیسوں کو سوا ان کے کسی حقے میں مزہ نہ آتا تھا۔ عظیم اللہ خاں نے انمیں اور خوشنمائی و نفاست پیدا کر کے، عظیم اللہ خانی حقے اپنی یادگار چھوڑ دیے، جو آج تک مٹی کے کل قسموں کے حقوں سے اچھے، سبک اور مقبول عام ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ لندن کے ملک الشعرا لارڈ ٹنیسن کی نسبت سُجا کہ ان کو مٹی کے سفید پائپ جو "گلی پائپ" کہلاتے ہیں، اس قدر پسند تھے اور ان کی شاعرانہ نفاست پسندی، کورےپائپوں کی اس قدر رسیا تھی کہ سامنے ایک ٹوکری میں بھرے ہئے کورے اور اچھوتے پائپ رکھے رہتے۔ وہ ایک پائپ کو لے کر اس میں تمباکو بھرتے، پیتے، اور چند منٹ میں اس کو توڑ کے دوسری ٹوکری میں دیتے۔ پھر دوبارہ ضرورت ہوتی تو دوسرا پائپ لیتے اور چند کش لے کر اسے بھی توڑ کے ڈال دیتے۔ یوں ہی دن بھر بیٹھے کورے پائپ بھرا، پیا، اور توڑا کرتے۔ میرا خیال ہے کہ اگر لارڈ ٹنیسن کو لکھنؤ کے عظیم اللہ خاںی حُقے مل جاتے، تو ان گلی پائپوں کو بھول جاتے۔ اس لیے کہ ان کے دھویں میں جو ٹھنڈک، نفاست اور خوبی ہوتی ہے، اس کا پتا گِلی پائپوں میں کوسوں نہیں ہے۔

کھیر کی ہانڈیاں – پکانے کی ہانڈیاں ہر جگہ بنتی ہیں مگر لکھنؤ کی ہانڈیاں،

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 441

تانبے کی پتیلوں کی جتنی سچی نقل ہیں، اور کہیں نہ ہوں گی۔ خصوصاً گلابی ہانڈیاں، جو حصوں میں کھیر وغیرہ تقسیم کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ آبخوروں اور صراحیوں کی طرح یہ بھی کاغذی اور بہت ہی خوبصورت بنتی ہیں۔ ان میں اب اکثر نازک اُمرا گلوریاں بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ گرمیوں کے موسم میں خاصدان جل اُٹھتے ہیں اور ان میں گلوریاں بھی بہت گرم ہو جاتی ہیں۔ مگر ہانڈیوں میں وہ اس قدر ٹھنڈی رہتی ہیں اور ان میں ایسی سوندھی خوشبو پیدا ہو جاتی ہے کہ نہایت ہی فرحت بخش ہو جاتی ہیں۔مگر برتنوں سے بھی زیادہ کمال کُمہاروں نے کھلوں اور مٹی کے مورتوں میں دکھایا۔ بُت تراشی کا فن بُت پرستی کے طفیل میں بہت پُرانا ہے۔ مصریوں، بابلیوں اور ایرانیوں، یونانیوں اور رومیوں، سب نے اپنے اپنے عہد میں اس فن میں کمالات دکھائے، جن کے نمونے آج یورپ کے نامور عجائب خانوں میں نظر آ سکتے ہیں۔ خصوصاً اہل یونان نے پتھر کی مورتیں تراشنے اور اعضا کا تناسب قائم رکھنے میں ایسا کمال کر دکھایا کہ آج کا زمانہ بھی باوجود بے انتہا ترقیوں کے ان کی چابک دستی ہر حیران ہے۔ اور ان کی بنائی ہوئی مورتیں حال کے بت تراشوں اور مصوروں کے لیے بہترین "ماڈل" یا معیار سمجھی جاتی ہیں۔ مگر مٹی کے کھلونوں میں تناسب اعضا قائم رکھنے اور فطرت کی سچی نقل اتارنے میں جو کاریگری یہاں کے ان پڑھ جاہل کمار دکھا رہے ہیں، وہ یونان کے کمال سے ذرا بھی کم نہیں ہے۔ وہ انسان کو دیکھ کر، اس کی پوری مورت اتنی ہی بڑی جتنا کہ اس کا جسم ہو، تیار کر دیتے ہیں۔ پھر چھوٹی مورتوں میں ہر وضع اور ہر طبقے کے لوگوں کی ایسی مُطابق اصل تصویریں بناتے ہیں کہ ان کے کمال میں شاعرانہ نازک خیالیوں کا پتا چلتا ہے۔ دیوالی میں ہندو کثرت کھلونے خریدتے اور تقسیم کرتے ہیں۔ اور اسی ضرورت سے ہر سال اس موسم میں یہاں کے کمہاروں کو اپنے فن میں نئی نئی ایجادوں، طباعیوں، اور نازک خیالوں کے ظاہر کرنے کا موقع جایا کرتا ہے۔

ان کمہاروں نے جو مورتوں کے طرح طرح کے گروپ اور سٹ تیار کیے ہیں، وہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انگریزی بینڈ، رنڈیوں اور بھانڈوں کے طائفے، قدیم نوابوں کی محفل، اُمرا کے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 442

دربار، مختلف اہل حرفہ کے مجمع، خاص شان رکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ نمایش کے موقع پر یہاں کے ایک کمہار نے ایک ہندوستانی گاؤں بنایا تھا، جس میں آبادی کے اندر دکان اور مکانوں کے درمیان مختلف الوضع لوگوں کا چلنا پھرنا، بیلوں اور گاڑیوں کا گزرنا دکھانے کے بعد، گرد کے میدان میں کسانوں کا ہل جوتنا اور نالیوں کے ذریعے سے کھیتوں میں پانی پہنچانا دکھایا تھا۔ نالیوں میں پانی بہنا اور اس میں ننھی ننھی لہروں کا پڑنا تک نمودار ہوتا تھا اور یہ چیز نمایاں طور پر دکھائی گئی تھی کہ جو بیل، ہلوں میں کام کر رہے ہیں، نہایت دُبلے ہیں اور ان کی پسلیاں صاف نظر آ رہی ہیں۔ اسی طرح شاہی زمانے کے لکھنؤ کی ایک تصویر بھی میں نے دیکھی جس میں اس وقت کی آبادی اور گلیوں اور پُلوں کا نقشہ دکھا دیا گیا تھا۔ مگر افسوس کہ یہ سب محنتیں ایک وقتی جوش کے طور پر دو چار روز نظر آ کے غائب ہو جاتی ہیں اور کوئی ایسا مقام نہیں ہے جہاں ان تمام صناعیوں کے نمونے محفوظ رکھے جاتے ہوں۔ لندن میں "میڈم تساڈس اگزیبیشن" کے نام سے ایک مومی تصویروں کا عجائب خانہ ہے، جس میں ہر قسم کی قد آدم تصویریں گل مشاہر زمانہ کی اور نیز وہ جن میں صناع نے کوئی خاص کمال دکھایا ہے، جمع کر دی گئی ہیں۔ بعض ایسی صورتیں ہیں کہ ممکن نہیں ہر جانے والے کو کسی نہ کسی مورت پر دھوکہ نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ان مٹی کی مورتوں کا ایک عجائب خانہ یہاں قائم کر دیا جائے اور اس میں کمہاروں کی تمام کاریگریاں جمع کر دی جائیں تو میرا خیال ہے کہ جن کی ترقی میں بے حد مفید ہونے کے علاوہ نفع بخش بھی ہو گا۔ اس کے داخلے کے لیے ایک ٹکٹ مقرر کرایا جا سکتا ہے اور میرا خیال ہے کہ کوئی باہر کا سیاح بغیر اس کے دیکھے نہ جائے گا۔ لیکن خرابی یہ ہے کہ خود ہم میں کوئی ذوق اور جوش نہیں ہے۔ اور ہم ہربات میں گورنمنٹ کے دست نگر رہنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی دولت مند امیر زادے کو بجائے عیاشی کے، اس کا شوق ہو جائے تو کس قدر ناموری و خدمت وطن کا باعث ہو سکتا ہے؟

عجائب خانوں میں اس قسم کے کھلونے اکثر جمع کر دیئے گئے ہیں، مگر وہ بہت ہی محدود ہیں۔ اور لکھنؤ میں اس صنعت کا درجہ اتنا ہی نہیں ہے کہ دیگر عجوبۂ روزگار چیزوں کے حمن میں چند کھلونے بھی رکھ دیئے جائیں۔ یہاں کھلونوں اور گلی مورتوں کی مستقل نمایش ہونی چاہیے۔
 

La Alma

لائبریرین
ریختہ صفحہ 371

مگر جمع کی دو ضمیریں ہیں "تم" اور "آپ" اور ان تینوں ضمیروں کے لئےمخاطب کا درجہ اور مرتبہ مقرر ہے۔ ایک بہت ادنا شخص کو "تو " کہیں گے۔ ادنا درجے کے لوگوں میں جو ذرا امتیاز رکھتا ہو اسے اور اپنے خردوں کو "تم" کہیں گے اور جو ہم رتبہ معزز و تعلیم یافتہ شریف ہو اسے "آپ" کہیں گے۔اگرچہ معزز درجے کے لوگ کبھی بے تکلفی میں اپنے اقران و امثال اور اپنےہم سنوں کو بھی "تم" کہنے لگتے ہیں، مگر جن لوگوں سے بے تکلفی نہ ہو، ان کو تم کہنا، اردو میں، خصوصاً اہل ِ لکھنؤ میں اخلاقی و ادبی جرم ہے۔
اردو زبان میں اور خاص لکھنؤ والوں میں مخاطب کے اتنے ہی درجے نہیں،بلکہ ان سے بڑھ کے بہت سے الفاظ ہیں جن کا شرفا و معززین کے مقابلے میں استعمال کرنا لازمی ہے: جناب، جناب ِ والا، جناب ِ عالی، حضرت، حضرت ِوالا، حضور، حضور ِ والا، حضور ِ عالی، قبلہ، قبلہ و کعبہ، سرکار اور اسی قسم کےچند اور الفاظ اردو میں معزز مخاطب کی نسبت حسب ِ درجہ استعمال کیے جاتےہیں، جو لکھنؤ والوں کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں۔ اور ان کا صحیح استعمال جس قدر اہل ِ لکھنؤ جانتے ہیں، اور کسی دوسرے شہر کے لوگ نہیں جانتے۔
ہمارا دعوا ہے کہ اتنے تعظیمی الفاظ خطاب دنیا کی کسی زبان میں نہیں ہیں۔ہندوستان میں وہ زمانہ گزر گیا، جب اردو یہاں کی تمام زبانوں کی ادب آموزتھی، اور اب ادب اردو کی شاگردی سے آزاد ہو کے سب زبانیں کوس لمن الملکی بجا رہی ہیں۔ بنگالی، پنجابی، گجراتی، سندھی، مرہٹی، کنٹری، تلنگی وغیرہ سب کو اپنی ادبی ترقی و فصاحت کا دعوا ہے۔ مگر ہم مذکورہ ہندوستانی زبانوں کواور ان کے ساتھ ساری دنیا کی مشہور زبانوں فارسی، عربی،


ریختہ صفحہ 372

انگریزی اور فرانسیسی کو بھی چیلنج دیتے ہیں کہ اگر ان کو اردو سے زیادہ ادبی وسعت و فصاحت کا دعوا ہے تو مخاطب کے لیے اپنی لغتوں میں اتنے لفظ نکال دیں جتنے کہ اردو میں موجود ہیں۔ سچ یہ ہے کہ باوجود اپنی کم عمری اور اپنےمحدود رقبہء تصرف کے، اردو چند ہی روز میں شائستگی، لطافت اور مناسبات ِعلم ِ مجلس کے اعتبار سے اس درجہء کمال کو پہنچ گئی تھی جو دنیا کی کسی زبان کو نہیں حاصل ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اردو کسی ملک، کسی صوبے، کسی گروہ، کسی مذہب کی زبان نہ تھی، بلکہ یہ وہ زبان تھی جو شاہی دربار سے شروع ہو کے ہندوستان کے ہر شہر میں مہذب و شائستہ لوگوں، نکھری صحبت والوں،صاحبان ِ علم و فضل، شاعروں اور ادب و اخلاق کے شیدائیوں کی زبانوں پرجاری ہو گئی تھی۔ لہذا اس کی بنیاد ہی تہذیب و شائستگی کے ہاتھوں سے پڑی اور آخر تک نکھرے مذاق والوں اور شیدائیان ِ سخن کے ساتھ مخصوص رہی۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو بولنے والوں کی مجارٹی کسی صوبے میں نہیں، مگر یاد رکھناچاہیے کہ ہر جگہ کے مہذب و شائستہ لوگ اس کے بولنے والے ہیں، یہ پیدا اس لیے ہوئی تھی کہ ہندوستان میں اعلا درجے کی اور ساری دنیا سے زیادہ شائستہ سوسائٹی پیدا کردے۔ مگر بد نصیبی سے انگریزی دور میں جب مغربی معاشرت وادب نے جگہ پکڑی تو ہندوستانیوں کے باہمی اور قدیم فطری تعصبات نے یہ رنگ دکھایا کہ مسلمان اس پر ناز کرنے لگے کہ ہماری زبان ہے اور ہندوؤں نےیہ خیال کر کے کہ اس زبان میں ہم مسلمانوں کا مقابلہ نہ کر سکیں گے، اسےمسلمانوں ہی کے سر مارا اور دامن جھٹک کے علیحدہ ہو گئے۔ اس سے اردو کونقصان پہنچا اور روز بروز زیادہ نقصان پہنچے گا۔ مگر باوجود اس کے، اس سےانکار نہیں کیا جا سکتا کہ جو رسیلا پن، جو ادبی خوبیاں اس میں


ریختہ صفحہ 373

ہیں، نہ نئی پیدا کی ہوئی ہندی زبان میں ہیں اور نہ ہندوستان کی کسی اور زبان میں۔
انگریز ہوں یا عرب، افغانی ہوں یا ایرانی، جب اردو بولتے ہیں تو مخاطب کےلیے سوا "تم" کے اور کوئی لفظ ان کے خیال میں نہیں آتا۔ اس لیے کہ اس قسم کا اور کوئی لفظ جو "تم” سے زیادہ شایستہ و ترقی یافتہ ہو، ان کی زبان میں موجود ہی نہیں ہے۔
انگریزی میں خطاب کے اور الفاظ ہیں مثلاً یور آنر، یور ایکسیلینسی، یور ہائنس، یورمجسٹی وغیرہ۔ مگر وہ اعلا درجے کے امرا اور بادشاہوں کے لیے خاص ہیں، انکے سوا اور کسی کی نسبت نہیں استعمال کیے جا سکتے۔ اس قسم کے مختص الشخاص الفاظ اردو میں بھی ہیں۔ مثلاً جہاں پناہ، صاحب ِ عالم، مرشد زادہ، نواب صاحب، نواب زادہ، صاحب زادہ۔ یہ خاص اعلا طبقے کے لوگوں کے خطابات ہیں، جن کےساتھ جناب یا حضور کے الفاظ ملا کے خطاب کیا جا سکتا ہے۔ اور غالباً اس قسم کے مخصوص خطابات ہر زبان میں موجود ہوں گے۔ مگر مذکورہ بالا تعظیمی الفاظ جو اردو زبان میں ہر معزز و شایستہ انسان کی نسبت استعمال کیے جا سکتےہیں، اردو کے سوا کسی اور زبان میں نظر نہیں آتے۔
مزاج پرسی کو دیکھیے، ہر زبان میں اس کے لیے معمولی الفاظ ہیں، مگر اردومیں ادب و احترام کی نگہداشت کے لیے، مزاج ِ عالی، مزاج ِ مبارک، مزاج ِ قدس،مزاج ِ مقدس، مزاج ِ معلا وغیرہ کہہ کے معزز ِ مخاطب کی خیریت دریافت کرتےہیں۔ یہ الفاظ اگرچہ اب ترقی اردو کے ساتھ ہر جگہ اور ہر شہر میں پھیل رہےہیں، مگر ان کے استعمال میں جو اجتہادی ملکہ شرفائے لکھنؤ کو حاصل ہے
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 374

اور کسی جگہ کے لوکوں کو نصیب نہیں ہو سکتا۔

شرفائے لکھنؤ میں ایک خاص بات یہ ہے کہ "ش، ق" درست رے گا۔ اور تمام عربی حرفوں کو حتی الامکان ان کے اصلی مخرج سے ادا کریں گے۔ فارسی ترکیبوں میں اضافت نمایاں طور پر ادا کی جائے گی۔ علما اور ذی علم لوگوں سے باتیں کریں گے تو عربی و فارسی الفاظ کو زیادہ استعمال کریں گے۔ اور انکے صحیح تلفظ سے ادا کریں گے۔ اطبا سے گفتگو ہو گی تو عربی کے طبی مصطلحات کو کام میں لائیں گے۔ جاہل نوکروں اور عوام سے بات کریں گے تو عربی الفاظ سے بچیں گے۔ عورتوں سے بات چیت ہو گی تو ان کے محاورں اور مثلوں کو گفتگو میں صرف کریں گے۔

خُرد، بزرگ سے۔ ادنا، اعلا سے۔ یاعامی، عالم سے گفتگو کرئے گا تو ہر لفظ اور ہر فقرے میں ادب و تعظیم کا خیال رکھے گا، آواز مناسب درجے تک پست اور نیچی رہے گی۔ اسی طرح بزرگ، خُردوں سے، اعلا طبقے والے، ادنا لوگوں سے، علما، عوام سے بات کریں گے تو ان کے لہجے، ان کے انداز اور ان کے الفاظ میں شفقت و محبت کے جذبات مضمر ہوں گے۔

ان باتوں کا لحاظ رکھنے اور مذکورۂ بالا ادب و تعظیم کے الفاظ و ضمائر استعمال کرنے سے اہل لکھنؤ کی زبان اس قدر شایستہ اور سُستہ و رُفتہ ہو گئی ہے کہ یہاں کے عوام اور جُہلا، دوسرے شہروں کے اکثر شعرا و فصحا سے زیادہ اچھی اُردو بولتے ہیں۔ اور جو شایستگی و تمیز داری ان سے ظاہر ہو جاتی ہے، کسی اور مقام کے قابل و ذی علم لوگوں سے بھی نہیں ظاہر ہو سکتی مگر افسوس! لکھنؤ مٹتا جاتا ہے، اب یہاں بیرونی لوگوں کا ایسا طوفان بے تمیزی بپا ہے، یہاں کے شایستہ لوگ اس طرح بے کار ہو کے کونے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 375

میں بیٹھ گئے ہیں، اور قانونی آزادی نے جُہلا و عوام کو اس درجہ بے باک و بدتمیز بنا دیا ہے کہ یہ تمام ادبی خوبیاں خام میں مل رہی ہیں اور چند روز بعد شاید ان کا پتا بھی نہ ہو۔

(44)

(8 ) آدابِ معاشرت میں آٹھویں چیز طریقۂ مذاق ہے۔ عرب کا پرانا مقولہ بلکہ مشہور حدیث نبوی ہے کہ کلام میں ظرافت ویسی ہی ہے جیسے کھانے میں نمک۔" سچ یہ ہے کہ شوخی و ظرافت کے بغیر نہ کلام میں مزہ پیدا ہوتا ہے اور نہ صحبت میں جان پڑتی ہے۔ مگر اسی ظرافت نے باتوں باتوں میں اکثر تلوار چلوا دی ہے اور پُرانے جانی دوستوں کو گھڑی بھر میں دشمن بنا دیا ہے۔ غور سے دیکھو تو صاف نظر آ جائے گا کہ ان خرابیوں کا باعث ظرافت نہیں بلکہ ظرافت میں بے احتیاطی کرنا یا اعتدال سے باہر ہو جانا ہوا کرتا ہے۔

جو زبان جتنی زیادہ ترقی کرتی ہے، اسی قدر اس میں مذاق و ظرافت کے پہلو بڑھتے جاتے ہیں۔ کلام میں ظرافت جن طریقوں سے پیدا ہو جاتی ہے، ان کا محصور کرنا بہت دشوار ہے۔ صدہا طریقے ہیں جن سے ایک فصیح البیان شخص اجتہادی طور پر فائدہ اٹھا لیا کرتا ہے اور ان کے متعلق تفصیلی بحث کرنے کے لیے ایک مستقل کتاب چاہیے۔ ہمیں اس موقع پر فقط اس قدر کہنا ہے کہ زیادہ تر بنائے ظرافت ایسے الفاظ ہوا کرتے ہیں جو مختلف معنی رکھتے ہوں اور بعض معنوں سے کسی پر تعریض ہوتی ہو۔ اور کبھی ظرافت میں ایسے الفاظ سے بھی کام نہیں لیا جاتا بلکہ کسی انسان یا چیز کو کسی ایسی شے سے تشبیہ دی جاتی ہے جو باوجود غیر متناسب ہونے کے مشابہ ہو۔ پھر اس تشبیہ
 
صفحہ 326 - 330
ہوتی بلکہ جو نوک دلّی وال اور شاہی سلیم میں اوپر نکالی جاتی، اس میں سینے کے بعد الٹ کے اندر کر دی جاتی۔ نوک کے پاس فقط ایک ذرا سا ابھار رہتا۔ یہ جوتے لال نری کے نہایت ہی سبک اور صاف بنائے جاتے اور نفاست و سبک باری کے اگلے مذاق نے اس کو یہاں تک سبک کیا کہ بعض موچیوں کے ہاتھ کا جوڑا چار پانچ پیسوں بھر سے زیادہ نہ ہوتا- اگر چہ عوام اور دیہاتیوں کے لیے اسی وضع کے چمڑودھے جوتے اتنے بھاری ہوتے کہ سیر سیر دیڑھ دیڑھ سیر سے کم نہ ہوتے اور پھر کڑوا تیل پلا پلا کے اور بھاری کرلئے جاتے-
تھوڑے دنوں بعد لکھنؤ میں اس خرد نو کی آرائش و زیبائش کی طرف توجہ ہوئی۔ پہلے جاڑے گرمیوں کے خشک موسم کے لئے کاشانی مخمل کے اور برسات کے لئے کیمخت کے بننا شروع ہوئے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بانات کا جوتا نہایت ہی نفیس، سادہ، سبک اور خوش نما ہوتا۔ کیمخت، سبززنگاری رنگ کا ہوتا۔ جو گھوڑے یا گدھے کی کھال سے بنتا اور اس میں کٹہل کے خاروں کی طرح دانے ابھار کے پیدا کیے جاتے اور تعریف یہ تھی کہ برسات میں چاہے کتنا ہی بھیگے اس کے رنگ روپ میں فرق نہ آتا۔ خود کیمخت بنانے کا فن اگرچہ باہر سے آیا تھا مگر لکھنؤ میں اس کے بہت سے کارخانے جاری ہو گئے اور سب جگہ سے اچھا بننے لگا۔
چند روز بعد جوتوں کی آرائش میں اور ترقی ہو ئی اور سلمے ستارے کے کارچوبی کام کے جوتے بننے شروع ہوئے۔ جن میں مقیش کے پھندے لگا کے عجب چمک دمک اور آب و تاب پیدا کر دی جاتی۔ اس کے بعد جب جھوٹا سلما اور کلابتون آیا تو جھوٹے کام کے چڑھوّیں جوتے بننے لگے جو بہت سستے داموں میں عجب بہار دکھایا کرتے۔ لیکن چڑھویں کے ساتھ ہی ساتھ یہاں ایک گھتیلا جوتا مروج تھا جو دراصل پرانے کفش نما جوتوں سے ماخوذ تھا اور عالی مرتبہ امیروں اور اکثر اعلی طبقے کے شریفوں میں على العموم پہنا جاتا تھا۔ در اصل یہی ہندوستان کا پرانا قومی جوتا تھا اور اسی کی یادگار حیدر آباد کی چپل اور دیگر مقامات کے دیسی جوتے ہیں اور یہی اگلے اہل دربار اور وطنی بزرگان سلف کے پانو میں نظر آتا ہے۔ گھتیلے میں اتنی ترقی ہوئی کہ اس کی نوک بجائے مختصر رہنے کے ہاتھی کی سونڈ کی طرح بہت بڑھا کے اور پھیلا کے پنجے کے اوپر ایک بڑے حلقے کی صورت میں لپیٹ دی گئی۔ یہ جوتا اودھ کے اگلے بادشاہوں اور وزرا و امرا سب کے پانو کی زینت ہوا کرتا۔
چڑھویں جوتے نے ایجاد ہونے کے بعد اس کی جگہ لینا شروع کی۔ یہاں تک کہ غدر ہوتے ہوتے گھتیلا فقط عورتوں کے پانو میں رہ گیا جن کے نازک پانو کا وہ عام لباس تھا اور مردوں کی پوشاک سے وہ بالکل خارج ہو گیا۔ لیکن کفشیں اپنی اصلی صورت پر آج تک باقی ہیں جو شیعیان علی کے اتقیا و صلحا خصوصا مجتہدین کے ساتھ مخصوص ہیں۔
گھتیلے جوتوں ، کفشوں اور ان پر جو کار چوبی کام بنایا جاتا ہے، اس نے مسلمانان لکھنؤ میں دو خاص پیشے پیدا کر دیے جن پر بہت سے لوگوں کی معاش کا دارومدار ہوگیا۔ پہلے تومسلمان موچی، جن کی یہاں ایک مستقل قوم اور برادری ہے۔ یہ لوگ سوا گھتیلے جوتے بنانے کے اور کسی قسم کا جوتا بنانا اپنی شرافت کے خلات جانئے ہیں۔ لکھنؤ میں ان لوگوں کے بہت سے گھر تھے اور سب سچے مسلمان سفید پوش اور به مقابل دوسرے ادنی طبقے والوں کے، ممتاز تھے اور اگلے دنوں نہایت فارغ البالی سے بسر کرتے تھے۔ لیکن اب قدیم وضع و لباس کے بدلنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ مردوں کے بعد عورتوں نے بھی گھتیلا جوتا بالکل چھوڑ دیا اور بازار اعلی درجے کے گھتیلے جوتوں سے بھرا رہتا تھا، اس میں اب اگر کسی دکان پر اس وضع کا ایک آدھ جوڑا مل بھی جاتا ہے تو بہت ہی ذلیل و حقیر پرانا ، ماند اور میلا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان موچیوں کا گروہ بالکل تباہ ہو گیا۔ ان کے بیسیوں گھر اجڑ گئے اور جو باقی ہیں، فعرِ فنا کے بالکل کنارے ہیں لیکن ان لوگوں کی وضع داری کی داد دینا چاہے کہ لٹ گئے اور تباہ ہو گئے مگر یہ نہ گوارا کیا کہ گھتیلے جوتوں کے عوض سلیپریں یا بوٹ بنائیں اور رفتار زمانہ کا ساتھ دے کے ، پہلے سے زیادہ ترقی کریں۔
دوسرا گروہ ، اہل حرفه ، جو ان کی جوتیوں کے صدقے میں پیدا ہوا، جوتوں کی جھوٹی اوگھیاں بنانے والوں کا ہے۔ اوگھی، کارچوبی کام کے ان مختله قطع کے ٹکڑوں کو کہتے ہیں جو زنانے یا مردانے جوتوں پر لگائے جاتے ہیں۔ اوگھیاں یہاں بہت ہی نفیس، زرق برق ، اعلی درجے کی ایسی نفیس بنتی تھیں جیسی کہیں نہ بن سکتی تھیں اور ان کی مانگ اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ آبادی کا ایک معتدبہ حصہ انھی کی تیاری پر زندگی بسر کر رہا تھا۔
بہرحال، گھتیلے جوتوں کے فنا ہونے سے ان دونوں گروہوں کو نقصان ہوا۔ اب گھتیلے کے عوض عورتوں میں عموماََ سیلیپروں کا اور خاص گھرانوں یا خاص موقعوں کے لیے تمام شریف بیبیوں میں اعلی درجے کے پمپ شوز کا رواج ہے۔ دولت مند گھرانوں میں گھتیلا جوتا چھوڑ کے ٹاٹ بافی (یعنی کارچوبی کام کے) بوٹ پہننا شروع کیے تھے۔ ان کے چند ہی روز بعد چمڑے کے بوٹ جو بغیر کھولے پانو سے اتر سکیں، پہنے جانے لگے اور اب تو على العموم پمپ شوز اور جن لوگوں نے پوری انگریزی ضع اختیار کرلی ہے ، ان کی بیگمیں تو ہر قسم کے لیڈیز شوز پہننے لگی ہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسی سلسلے میں عورتوں کے عام لباس کو بھی بیان کر کے ہم وضع و لباس کی بحث کو ختم کر دیں۔
ہندوستان میں عورتوں کا قدیم لباس صرف ایک بے سی ہوئی لمبی چادر تھی جو آدھی کمر سے پیٹ کے باندھ لی جاتی اور آدھی کندھے یا سر پر ڈال کے اوڑھ لی جاتی۔ اس کے ساتھ سینے کا ایک لباس بھی ہندوؤں کے پرانے زمانے سے چلا آتا ہے جو بلندری ہند میں، انگیا اور جنوبی ہند میں چولی کہلاتا ہے۔ یہ لباس سری کرشن جی کے زمانے میں بھی معلوم ہوتا ہے کہ موجود تھا۔ آخر زمانے میں چولی اور انگیا کی تفریق یوں ہوئی کہ دکھن میں ایک جھول دار پٹی سے پیچھے سے آگے کی طرف لا کے دونوں چھاتیوں کے درمیان میں گرہ دے کے، یا بوتام لگا کے کس دی جاتی ہے اور دونوں چھاتیاں اس جھول میں کسی قدر ابھار کے ساتھ دبی اور کسی رہتی ہیں۔ یہی دکھن کی چولی ہے بہ خلاف اس کے بلندی ہند میں انگیا یوں بنتی ہے کہ پستانون کے مناسب ناپ کے کپڑے کی دو کٹوریاں بنائی جاتی ہیں جو دو تین انگل تک باہم سی کے جوڑ دی جاتی ہیں اور ان کے بالائی کونوں پر جالی کی دو چھوٹی چھوٹی آستینیں لگا دی جاتی ہیں اور ان آستینوں کے نیچے دونوں پہلوؤں پر دو دو بند لگا دیے جاتے ہیں۔ اس طرح تیار کرکے اور دونوں ہاتھوں کو آستینوں میں ڈال کے یہ انگیا یہن لی جاتی ہے۔ آستینیں بہت ہی چھوٹی آدھے بازوؤں سے بھی کم رہتی ہیں اور چھاتیوں کی کٹوریوں میں ڈال کے پیٹھ پر بند کھینچ کے نیچے اوپر دو بندشیں دے دی جاتی ہیں۔ بخلاف چولی کے ، انگیا چھاتیوں کو اصل سے زیادہ ابھار کے نمایاں کر دیتی ہے۔
بہرحال یہ پرانا ہندو لباس ہے اور ہم نہیں جانتے کہ مرورِ زمانہ سے اس میں کیا اصلاحیں یا یا ترقیاں ہوئیں۔ بادی النظر میں انگیا زیادہ ترقی یافتہ اور بعد کی اصلاح معلوم ہوتی ہے۔
اس کے سوا ہندو زمانے میں عورتوں کا اور کوئی لباس نہیں معلوم ہوتا۔ سیے ہوئے کپڑے اور کرتا پائجامہ مسلمان اپنے ساتھ لائے۔ مسلمانوں کی عورتیں ملک عجم سے عرض کے ڈھیلے پائنچوں کے پاجامے پہنے ہوئے یہاں آئیں جو ٹخنوں پر چنٹ دے کے باندھ دیے جاتے تھے۔ چند روز بعد وہ پائجامے، تنگ مہری کے گھٹنے ہو گئے جن کا گھیر اوپر سے ڈھیلا ڈھالا ہوتا۔ رفتہ رفتہ ان میں کھنچاؤ کاشوق بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ اوپر کا گھیر بھی کم ہو گیا اور پائینچوں کی مہریاں تو اس قدر تنگ ہو گئیں کہ پہننے کے بعد کس کے سی لی جاتیں اور اتارتے وقت مہری کے ٹانکے توڑنے کی ضرورت لاحق ہوتی۔ جیسے پائجامے آج بھی بہت سے شہروں میں مروج ہیں۔
لکھنؤ میں مسلمان بیگموں کی وضع ابتداََء تو یہی تنگ مہری کا کھنچا ہوا پائجامہ، سینے پر چھوٹی اور تنگ آستینوں کی کھینچی ہوئی انگیا اور پیٹ اور پیٹھ چھپانے کے لیے ایک عجیب وغریب کرتی جو آگے کی طرف اس حد تک کاٹ دی جاتی، جہاں تک جسم پر انگیا کا تصرف رہتا۔ اس میں نہ آستینیں ہوتیں اور نہ سینے پر اس کا کوئی حصہ رہتا۔ دو لمبے بندوں کے ذریعے سے جو شانوں پر سے ہوکے آتے، پیٹ اور پیٹھ پر معلق ہوتی۔ اس کے اوپر تین گز کا چنا ہوا باریک دوپٹا جو سر سے اوڑھا جاتا لیکن آخر میں فقط شانوں پر پڑا رہنے لگا۔
ہندوستان کے موسم اور مزاجوں کی نزاکت نے محرم، کُرتی اور دوپٹے سب کو روز به روز سبک کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ لاہی کی انگیا اور کریب کے دوپٹے وضع دار امیرزادیوں کے فیشن میں داخل ہوگئے۔ نصیر الدین حیدر بادشاہ کے زمانے سے گھٹنے رخصت ہو گئے اور ان کی جگہ بڑے بڑے گھیردار پائینچوں کے کلیوں دار پائجامے جو کمر کے پاس بہت ہی تنگ ہوتے اور چور کلی یعنی میانی خوب کھنچی رہتی، علی العموم رواج پا کے عورتوں کی خاص وضع قرار پا گئے۔ یہ پائنچے آگے کی طرف ایک
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ریختہ صفحہ ۵۳ کتابی صفحہ ۵۱

صنّاعوں، اور طالب علموں نے وطنوں کو خیر باد کہہ کے، فیض آباد ہی کو اپنا مَسکَن بنا لیا اور یہاں ہر زمانے میں ڈھاکے، بنگالے، گجرات، مالوہ، حیدر آباد، شاہجہان آباد، لاہور، پشاور، کابل، کشمیر اور ملتان وغیرہ کے طالب علموں کا ایک بڑا بھاری گروه موجود رہتا، جو علما کی درس گاہوں میں تعلیم پاتے اور اُس چشمۂ علم سے، جو فیض آباد میں جاری تھا، سیراب ہو ہو کے اپنے گھروں کو وابس جاتے۔ کاش نوّاب وزیر اور دس بارہ برس جی جاتے، تو گھاگرا کنارے ایک نیا شاہجہان آباد آباد ہو جاتا۔ اور نیا ایک نئی زنده دہلی کی صورت دیکھ لیتی۔

یہ نوّاب شجاع الدّولہ کے صرف نو سال کے قیام کا نتیجہ تھا، جس نے فیض آباد کو ایسا بنا دیا۔ اور ان نو سال میں بھی صرف برسات کے چار مہینے وہ شہر میں رونق افروز رہتے، باقی زمانہ اپنی قلمرو کے دورے اور سیر و شکار میں صرف ہوتا تھا۔ شجاع الدّولہ کا طبعی میلان مہ جبیں عورتوں اور رقص و سرود کی طرف تھا جس کی وجہ سے بازاری عورتوں اور ناچنے والے طائفوں کی شہر میں اس قدر کثرت ہوگئی تھی کہ کوئی گلی کوچہ ان سے خالی نہ تھا۔ اور نوّاب کے انعام و اکرام سے وہ اِس قدر خوش حال اور دولت مند تھیں کہ اکثر رنڈیاں ڈیرہ دار تھیں، جن کے ساتھ دو دو تین تین عالی شان خیمے رہا کرتے اور نوّاب صاحب جب اضلاع کا دورہ کرتے اور سفر میں ہوتے تو نوّابی خیموں کے ساتھ ساتھ، اِن کے خیمے بھی شاہانہ شکوہ سے چھکڑوں پر لد لد کے روانہ ہوتے اور ان کے گرد دس دس بارہ بارہ تلنگوں کا پہرا رہتا۔ اور جب حکم راں کی یہ وضع تھی تو تمام اُمرا اور سرداروں نے بھی بے تکلّف یہی وضع اختیار کرلی اور سفر میں سب کے ساتھ رنڈیاں رہنے لگیں۔ اگرچہ اس سے بد اخلاقی اور بے شرمی کو ترقی ہوگئی، لیکن اس میں شک نہیں کہ ان شاہدانِ بازاری کی کثرت اور امرا کی شوقینی سے، شہر کی رونق بہ درجہا زیادہ بڑھ گئی تھی اور فیض آباد، دُلھن بن گیا تھا۔

ریختہ صفحہ ۵۴ کتابی صفحہ ۵۲

سن ۱۷۷۳ء میں شجاع الدّولہ نے مغرب کا سفر کیا۔ اس سفر میں شاہی کیمپ کی رونق اور چہل پہل بیان سے باہر تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ نوّابی علمِ اقبال کے ساتھ ساتھ ایک بڑا بھاری شہر سفر کر رہا ہے۔ لکھنؤ ہوتے ہوئے اٹاوہ پہنچے، جس پر مرہٹے قابض تھے۔ ایک ہی حملے میں، اُسے اُن سے چھین کے، اپنے قبضے میں کیا۔ اور احمد خاں بنگش کی قلمرو میں داخل ہو کے، کوڑ یا گنج اور کاس گنج میں خیمہ زن ہوئے۔ یہاں سے انھوں نے حافظ رحمت خاں فرماں رواے بریلی کو لکھا ”گذشتہ سال میں نے ایک کروڑ روپے، مہاجی سیندھیا مرہٹے کو بھیجے تھے، جس نے آپ کا وہ تمام علاقہ جو درمیان دو آب ہے، آپ سے چھین لیا تھا۔ وہ رقم ادا کر کے، میں نے آپ کا وہ علاقہ اس کے قبضے سے چھڑایا اور آپ کے حوالے کر دیا۔ لہٰذا اب پچاس لاکھ کی رقم جو آپ کی طرف سے میں نے ادا کی تھی، فوراً ادا کیجیے۔“

حافظ رحمت خاں نے اپنے تمام افغان سرداروں اور بھائی بندوں کو جمع کر کے کہا: ”شجاع الدّولہ لڑائی کے لیے بہانہ ڈھونڈھ رہے ہیں، مناسب یہ ہے کہ مطلوبہ رقم ادا کر دی جائے۔ بیس لاکھ میں اپنے پاس سے دیتا ہوں اور مابقی تیس لاکھ تم جمع کردو۔“

ناعاقبت اندیش پٹھان سرداروں نے جواب دیا: ”شجاع الدّولہ کے آدمی دیکھنے ہی کے ہیں، وہ بھلا ہم سے کیا مقابلہ کریں گے؟ باقی رہی انگریزی فوج جو اُن کے ساتھ ہے، تو اُن کی توپوں پر جس وقت ہم تلواریں سُوت سُوت کے جا پڑیں گے، سب کے حواس جاتے رہیں گے۔ دینے لینے کی کچھ ضرورت نہیں۔“ حافظ رحمت خاں نے یہ سن کے کہا: ”تمہیں اختیار ہے، مگر میں کبھی سے کہے رکھتا ہوں کہ اگر لڑائی کا رنگ بدلا تو میں میدان سے زندہ نہ آؤں گا، اور اس کا جو انجام ہوگا، وہ تمہیں کو بھگتنا پڑے گا۔“

بہ ہر تقدیر، شجاع الدّولہ کو اپنی خواہش کے موافق جواب نہ ملا، فوج لے کے چڑھ گئے۔ لڑائی ہوئی اور لڑائی کا انجام وہی ہوا جسے تقدیر نے حافظ رحمت خاں کی زبان سے پہلے ہی سنوا دیا تھا۔ حافظ رحمت خاں شہید ہوئے اور اُن کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ مگر یہ

ریختہ صفحہ ۵۵ کتابی صفحہ ۵۳

فتح شجاع الدّولہ بہادر کو بھی سزاوار نہ ہوئی۔ ۱۳ صفر سن ۱۱۸۸ھ ۱۷۷۴ء کو لڑائی ہوئی تھی، ۱۱ شعبان کو شجاع الدّولہ بریلی سے کوچ کر کے لکھنؤ آئے۔ ماهِ مبارک رمضان لکھنؤ میں بسر کیا۔ ۸ شوال کو لکھنؤ سے کوچ کرکے، ۱۴ کو فیض آباد میں داخل ہوئے۔ اور فتح کو ۹ مہینے دس دن ہی ہوئے تھے اورگھر میں پورے ڈیڑھ مہینے بھی آرام کرنے کا موقع نہیں ملا تھا کہ ہم ۲۳ ذیقعدہ سن ۱۱۸۸ھ ۱۷۷۴ء کو راہ گراے عالمِ جا وداں ہوئے۔ اور افسوس، ان کی وفات ہی کے ساتھ فیض آباد کی ترقی کا دور بھی ختم ہوگیا۔

اُس وقت حکومتِ اودھ میں سب سے بڑا اثر نوّاب شجاع الدّولہ بہادر کی بی بی، بہو بیگم صاحبہ کا تھا، جو نہایت ہی دولت مند بھی سمجھی جاتی تھیں۔ اُن کی منظوری سے نوّاب آصف الدّولہ مسند نشینِ حکومت ہوئے۔ مگر ان کی اخلاقی حالت نہایت خراب تھی اور مصاحبوں کو مناسب معلوم ہوا کہ ماں بیٹوں کو الگ رکھیں۔ چند روز تک سیر و شکار میں مصروف رہنے کے بعد، نوّاب آصف الدّولہ بہادر نے لکھنؤ میں قیام اختیار کر لیا اور یہیں بیٹھے بیٹھے ماں کو ستایا کرتے اور بار بار اُن سے روپیا طلب کرتے۔

بہو بیگم صاحبہ کے موجود رہنے سے، فیض آباد کو اُن کی زندگی تک تھوڑی بہت رونق حاصل رہی۔ اگرچہ اُن کی زندگی میں بھی نوّاب آصف الدّولہ کی نالائقیوں نے بیگم صاحبہ کے اطمینان میں اور اس کی وجہ سے فیض آباد کے امن و امان میں خلل ڈالا، مگر اُس محترم خاتون کی زندگی تک، وہ جھگڑے اور ہنگامے بھی ایک گو نہ باعثِ رونق ہو جایا کرتے تھے۔ اُن کی وفات پر فیض آباد کی تاریخ ختم ہو گئی اور لکھنؤ کا دور شروع ہوا۔ جس کا حال ہم آیندہ لکھیں گے۔

(۲)
ٹھیک کسی کو نہیں معلوم کہ لکھنؤ کی آبادی کی بنیاد کب پڑی؟ اس کا بانی کون تھا؟ اور وجہِ تسمیہ کیا ہے؟ لیکن مختلف خاندانوں کی قومی روایتوں اور قیاسات سے
 
Top