کیوں بھلا ایسے در بدر ہوتے :: غزل از:: محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
محمد حفیظ الرحمٰن

کیوں بھلا ایسے در بدر ہوتے
ہم کسی کام کے اگر ہوتے

جو گزرتے تمہارے ساتھ وہ دن
جیسے فردوس میں بسر ہوتے

کاش اِس راہ سے گزرتے تٰم
اور ہم گردِ رہ گزر ہوتے

زیر ہو بھی گئے تو کیا، کہ انہیں
دیر لگتی نہیں زبر ہوتے

سحر کو سامنے دعاؤں کے
ہم نے دیکھا ہے بے اثر ہوتے​
 

Pervez Baqi

محفلین
اس بار حفیظ صاحب نے چھوٹی بحر میں طبع آزمائی کی ہے اور کیا خوبصورت غزل کہی ہے کہ ہر شعر سادگی اور پرُکاری کی مثال ہے۔
 

امین شارق

محفلین
غزل
محمد حفیظ الرحمٰن

کیوں بھلا ایسے در بدر ہوتے
ہم کسی کام کے اگر ہوتے

جو گزرتے تمہارے ساتھ وہ دن
جیسے فردوس میں بسر ہوتے

کاش اِس راہ سے گزرتے تٰم
اور ہم گردِ رہ گزر ہوتے

زیر ہو بھی گئے تو کیا، کہ انہیں
دیر لگتی نہیں زبر ہوتے

سحر کو سامنے دعاؤں کے
ہم نے دیکھا ہے بے اثر ہوتے​
خوبصورت غزل۔

مختصر اچھی غزل ہے مگر مزہ آتا
چند اشعار اور اگر ہوتے
 
Top