یہ تحریر اردو میں پڑھنا سلسلے کی تیسری تحریر ہے، پہلی دو تحریریں آپ یہاں سے پڑھ سکتے ہیں:
ریاضی کو اردو میں پڑھنا
نظامِ شمسی کو اردو میں پڑھنا
کیمیا کو اُردو میں پڑھنا
کیمیا کا مضمون کسی تعارُف کا محتاج نہیں۔ جب کوئی طالب علم میٹرک کے کسی ایک مضمون میں فیل ہو تو وہ مضمون عموما ریاضی ہوتا ہے ۔ اِسی طرح جب کوئی دو مضامین میں فیل ہو تو دوسرا مضمون ضرور کیمیا ہوتا ہے۔ اورپھر اِس کے بعد باقی مضامین کی باری آتی ہے۔

کیمیا اور ریاضی وہ مضامین ہیں جو ہمارے ناپسندیدہ ترین مضامین کے ہال آف فیم میں شامل ہیں ۔ریاضی کو ہم پچھلی تحریر میں ستارہ امتیاز سے نواز چکے ہیں اور اِس تحریر کے توسط سے اب یہ سعادت اب کیمیا کے حصے میں آئے گی۔

کیمیا سے ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیں ۔ لیکن ہمیں اس مضمون کا عام زندگی میں کہیں اطلاق نظر نہیں آیا۔اگر ہمیں نہ بھی پتا ہوتا کہ پانی ہائڈروجن کے دو اور آکسیجن کے ایک ایٹم سے مل کر بنتا ہے تو بھی ہماری صحت پہ کوئی فرق نہ پڑتا۔ اور نہ ہی ہم پینے سے پہلے یہ چیک کرتے ہیں کہ اس میں اٹیمز کی تعداد تو پوری ہے نا، کہیں اوپر نیچے تو نہیں ہو گئی ۔ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ بھی ضرورت کی کسی چیز کے استعمال سے پہلے ہمیں اس کی کیمیائی ساخت سے کبھی سروکار نہیں ہوا۔

ہمارا تعلق اس دور سے تو نہیں جب کیمیا کی کتابوں میں الیکٹرون کو برقیہ اور پروٹان کو اولیہ لکھا جاتا تھا مگر پھر بھی اس مضمون کو پڑھ کر لوگ یہی سمجھیں گے کہ شایدہم نے اکبر باد شاہ کے دور میں میٹرک کیا تھا۔ اس لئے یہ سطور لکھ دی گئی ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ دراصل ہمارے میٹرک کے سیشن13-2011کے دوران میں بھی کافی ایسی اردو اصطلاحات باقی تھیں جو کیمیا سے آپ کی دلچسپی پیدا کریں نہ کریں اردو کے لئے آپ کے دل میں محبت ضرور پیدا کر دیں گی۔

کیمیا کے بنیادی تصورات میں سے ایک تصور عنصر، مرکب اور آمیزے کا فرق تھا۔عنصر کی تو ہم سمجھ گئے۔ مگر کیا کیجیے دل کا جو کم آمیز بہت ہے،مرکب اور آمیزے کا فرق ہم نے ہمیشہ گڈمڈ ہی کیا۔ مرکب میں جب دو یا دو سے زیادہ عناصر ملتے ہیں تو انہیں الگ کیا جاسکتا ہے اور آمیزے میں نہیں کیا جاسکتا۔ یا شاید مرکب میں الگ کیا جاسکتا ہے اور آمیزے میں نہیں۔

مساوات کا لفظ اسلامیات سے ریاضی میں آیا اور ریاضی سے کیمیائی مساوات کی شکل میں کیمیا میں آن ٹپکا۔کیمیائی مساوات کی تعریف یہ ہے کہ جب دو یا دو سے زائد عناصر یا مرکبات آپس میں تعامل کرتے ہیں تو ان کی ساخت میں جو تبدیلیوں واقع ہوتی ہیں انہیں کیمیائی مساوات کی مدد سے ظاہر کرتے ہیں۔عناصر اور مرکبات کا تعامل تو ہم کروا دیتے، لیکن مساوات کی دوسری طرف جو تبدیلیاں ہم رُونما کرواتے ان سے ممتحن صاحب اتفاق نہ کرتے۔اس لئے خد کا شُکر ہے اسکول والوں نے ہم سے حقیقت میں کوئی کیمیائی تجربہ نہیں کروایا۔ورنہ نتائج کا ذمہ دار ادارہ ہوتا ۔

دوری جدول بھی ایک دلچسپ چیز تھی جس میں مختلف عناصر ان کی خصوصیات کے لحاظ سے مختلف گروپس میں رکھا گیا تھا۔ لیکن ہم نے سہولت کی خاطر اپنی مرضی کے گروپس بنائے ہوئے تھے۔ نوبل گیسوں کو ہم 'امن پسند عناصر' کہتے تھے کیوں کہ وہ کسی غیر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتیں۔ جب کہ باقی عناصر کو ہم 'شرپسند عناصر 'کہتے کیونکہ یہی باقی عناصر یا مرکبات سے کیمیائی تعامل کرتے ہیں اور پھر امتحان میں سوالات کی صورت آ کر ہمارے دماغ کے ساتھ تعامل کرتے۔ انہی شرپسند عناصر کی مذموم کاروائیوں کے باعث ہماری کیمیا ہمیشہ ایک نازک دَور سے ہی گزرتی رہی۔

اس طرح تیزاب، اساس اور نمکیات پر ایک مکمل باب تھا۔ چوں کہ پاکستانی کی اساس اسلام ہے ،اس لیے ہم نے باب کا یہ حصہ پڑھنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ تیزاب اور نمکیات ہم واقف تھے لیکن یہ باب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ان دونوں کےموضوعات متعلق ہماری معلومات آٹے میں نمکیات کے برابر ہیں۔مثال کے طور پرہمیں پتا چلاکہ نمک کھانے اور زخموں پر چھڑکنے کے علاوہ بھی کئی کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔اور ہمارے نصیب کی تیزابی بارشیں کسی اور چھت پر ہی برس جائیں تو اچھا ہو گا۔

ہر سچے پاکستانی کی طرح ہمارا پسندیدہ عنصر بھی یورینیم ہی تھا کیونکہ اسی عنصرسے پاکستان نے صحیح معنی میں فائدہ اٹھایا ہے اور اسی کے بل بُوتے پہ ہم نے پوری دنیا فتح کرنی تھی وغیرہ وغیرہ۔ اُوپر سے ہمارے فریق (سیکشن) کا نام بھی اے-کیو -خان تھا ، اس لئے آپ ہمارے اُس دور کی حب الوطنی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

ایک کیمیائی مرکب کا نام آبِ سلطانی بھی تھا جو سونے سے چاندی الگ کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے۔پہلے زمانے میں بادشاہ ہوتے تھے اس لیے شایدکیمکلز کے نام بھی بادشاہوں والے رکھ دیے۔ابھی تو شکر ہے آبِ حیات کو کیمیا کے نصاب کا حصہ نہیں بنا دیا گیا۔اسی طرح برقی پاشیدگی، برقی مُلمع کاری، حراتِ مخصوصہ، نفوذ اور تراوش جیسی اصطلاحات سے بھی ہمارا واسطہ کیمیا کے طفیل پڑا ۔

امتحانات کے نتائج میں ہمارے باقی مضامین میں امتیازی نمبرز ہوتے جب کہ کیمیا میں ہم بمشکل پاس ہوتے ۔ شومئی قسمت ہمارے انچارج صاحب ہمیں کیمیا ہی پڑھاتے تھے، چنانچہ وہ رزلٹ کارڈ پر کیمیا کے ساتھ ہمارےامتیازی سلوک کا احوال لکھ دیتے جسے پڑھ کر گھر والے بھی کہہ اُٹھتے، ’کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں’۔
ہمارے پاس بھی جواب میں کشور کمار وہ گانا ہی ہوتا:
کچھ تو لوگ کہیں گے
لوگوں کا کام ہے کہنا
چھوڑو بے کار کی باتوں میں کہیں بیت نہ جائے رہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔

اصطلاحات اگرچہ ثقیل تھیں، لیکن زبان تو اُردو ہی تھی، مزید براں اساتذہ کرام اہم تصورات کو سہل بنانے کے لیے پنجابی کو ذریعہ اظہار بناتے تھے۔ ہماری جماعت میں اردو اور انگریزی دونوں میڈیمز کے طَلبہ تھے ، اس لئے ہمارا ذاتی مشاہدہ تھا کہ اپنے انگریزی میڈیم ہم جماعتوں کی نسبت ہم اردو میڈیم پڑھنے والوں کو بنیادی تصورات کی سمجھ زیادہ تھی۔

لیکن آج کل تو تقریبا ہر جگہ انگریزی میڈیم کا ہی راج ہے۔ہمارے ذاتی تجربے کے مطابق کم از کم قصبوں اور دیہات کے طَلبہ کی انگریزی کی استعدادِکار اتنی نہیں ہوتی کہ وہ میٹرک کی فزکس اور کیمیا کے تصورات پر گرفت بنا سکیں۔ ویسے بھی درسی کتب کی انگریزی ایک خاص ‘اکیڈمک لینگوئج’ میں لکھی جاتی ہے جوکو بول چال والی انگریزی سے مختلف ہوتی ہے۔ویسے بھی آپ ایک زبان سے سارے عُلوم جیسے سائنس، فلسفہ اور طب وغیرہ نکال دیں تو پیچھے صرف شاعری، افسانے اور کہانیاں ہی بچ جاتی ہیں۔

حوالہ جات:
کیمیا برائے نہم اور دہم ،پنجاب ٹیکسٹ بورڈ
فرہنگ اصطلاحات کیمیا، اُردو ویکی پیڈیا
مصنف کی یاداشت
 
Top