خرم شہزاد خرم
لائبریرین
ہوں تو شعراء کی بہت اقسام ہیں۔ نظم گو شاعر، غزل گو ، قصیدہ گو، وغیرہ وغیرہ ۔ ہر شاعر کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ ہر کوئی اپنی کسی خاض بات سے مشہور ہوتےہیں۔ میری بھی بہت سے شعراء حضرات سے ملاقاتیں ہوئی۔ یہ ملاقاتیں کبھی کسی مشاعرے میں، کبھی کسی کے گھر، کبھی اکادمی ادبیات میں، اور کبھی کسی پروگرام میں، بہت سے شاعر ایسے ہوتےہیں جو مشاعرے میں کچھ اور عام محفل میں کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ مشاعرے میں یا کسی محفل میں مائیک کے سامنے اپنے دوستوں کی تعریفیں کرتے ہیں لیکن تنہائی میں یا آف دی ریکارڈ ان کے خلاف ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ بیان سے باہر ہیں۔ خیر یہ سب تو سیاسی اور غیر سیاسی شعراء کا کمال ہے لیکن شعراء کی جس قسم کے بارے میں میں بتانے لگا ہوں وہ آپ لوگوں نے بھی دیکھی ہوگی تقریبا ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ وہ قسم ہے خود گو شاعر۔ جی ہاں خود گو شاعر اپنے آپ کو ہی سناتے رہتے ہیں۔ ہر بات میں ہر داستان میں ہر جگہ اپنے آپ کو لیے آتے ہیں۔ جہاں دو شاعر بیٹھے ہوں وہاں اپنا کلام سنانا شروع کر دیتے ہیں اور اتنی دیر تک سناتے رہتے ہیں جتنی دیر تک سننے والا اٹھ کر چلا نا جائے۔ اسی طرح کے ایک شاعر سے ایک مشاعرے میں ملاقات ہوئی ہوا کیا تھا خود ہی دیکھ لیں۔
مشاعرے کی نظامت ایک نوجوان شاعر کر رہے تھے۔ وقت کی کمی کی وجہ سے ہر شاعر کو یہ ہدایت دی جا رہی تھی کہ کم سے کم کلام سنا کر دوسرے شعراء حضرات کو بھی پڑھنے کا موقعہ دیا جائے۔ نوجوان شاعرے نے ایک شاعر کی کچھ تعریف کی اور انکو اسٹیچ پر آنے کی دعوت دی کہ وہ آپ کر اپنا کلام پیش کریں۔
شاعر صاحب اسٹیچ پر آئے اور شروع ہوگے۔
جیسا کے نوجوان شاعر نے کہا وقت کی کمی ہے اس لیے میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا اور کسی بھی طرح کی گفتگو شروع کرکے آپ کا وقت ضائع نہیں کروں گا بلکے اپنا کلام سناؤں گا یہ غزل میں نے پہلی دفعہ انگلیڈ کے مشاعرے میں پڑھی تھی جہاں بہت سے عظیم شاعر آئے تھے اور مجھے اس مشاعرے میں بہت داد ملی تھی یہ غزل میری پہلی غزل بھی ہے اور مجھے یہ پسند بھی ہے (اتنے میں نظامت والے نوجوان نے کھانسی کر کے اشارہ دیاتو کیا ہوا) جی ہاں میں جانتا ہوں وقت کم ہے اس لیے غزل سناتا ہوں۔
جناب نے غزل سنائی جو کم از کم 17اشعار پر مشتمل تھی۔ غزل ختم ہونے کے بعد نوجان نے مائیک لینا چاہ لیکن جناب نے پھر سے بولنا شروع کر دیا۔ بس دو اشاعر سنانے کے بعد اجازت چاہوں گا میں جانتا ہوں وقت کم ہے اس لیے صرد دو اشعار ہی سناؤں گا۔ اس کے بعد جناب نے پھر 9،10 اشعار سنا دیے اور آخر میں پھر ایک دوست کی فرمائش پر ایک مختصر سی غزل۔ (نجانے یہ کون سا دوست ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا لیکن فرمائش کرتا رہتا ہے) اور اس کے بعد بڑی مشکل سے مائیک کی جان چھوڑی۔
ایسے شاعروں کے ساتھ لطیفے والا حساب کرنا چاہے۔
دوآدمی بھاگ رہے تھے۔ ایک آگے آگے تھا اور دوسرا اس کے پیچھے اس کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک اور آدمی آ گیا اور اس نے پیچھے والے کو پکڑ لیا اور پوچھا کیوں آپ اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ تو اس نے کہا یار وہ اپنی غزل سنا کر بھاگ گیا ہے میری غزل سن ہی نہیں رہا۔
تو ایسے شاعروں کو مشاعرے میں دعوت دے کر سب شعراء کا کلام سنایا جائے اور ان کا سننے سے پہلے ہی مشاعری ختم کر دیا جائے :d
مشاعرے کی نظامت ایک نوجوان شاعر کر رہے تھے۔ وقت کی کمی کی وجہ سے ہر شاعر کو یہ ہدایت دی جا رہی تھی کہ کم سے کم کلام سنا کر دوسرے شعراء حضرات کو بھی پڑھنے کا موقعہ دیا جائے۔ نوجوان شاعرے نے ایک شاعر کی کچھ تعریف کی اور انکو اسٹیچ پر آنے کی دعوت دی کہ وہ آپ کر اپنا کلام پیش کریں۔
شاعر صاحب اسٹیچ پر آئے اور شروع ہوگے۔
جیسا کے نوجوان شاعر نے کہا وقت کی کمی ہے اس لیے میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا اور کسی بھی طرح کی گفتگو شروع کرکے آپ کا وقت ضائع نہیں کروں گا بلکے اپنا کلام سناؤں گا یہ غزل میں نے پہلی دفعہ انگلیڈ کے مشاعرے میں پڑھی تھی جہاں بہت سے عظیم شاعر آئے تھے اور مجھے اس مشاعرے میں بہت داد ملی تھی یہ غزل میری پہلی غزل بھی ہے اور مجھے یہ پسند بھی ہے (اتنے میں نظامت والے نوجوان نے کھانسی کر کے اشارہ دیاتو کیا ہوا) جی ہاں میں جانتا ہوں وقت کم ہے اس لیے غزل سناتا ہوں۔
جناب نے غزل سنائی جو کم از کم 17اشعار پر مشتمل تھی۔ غزل ختم ہونے کے بعد نوجان نے مائیک لینا چاہ لیکن جناب نے پھر سے بولنا شروع کر دیا۔ بس دو اشاعر سنانے کے بعد اجازت چاہوں گا میں جانتا ہوں وقت کم ہے اس لیے صرد دو اشعار ہی سناؤں گا۔ اس کے بعد جناب نے پھر 9،10 اشعار سنا دیے اور آخر میں پھر ایک دوست کی فرمائش پر ایک مختصر سی غزل۔ (نجانے یہ کون سا دوست ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا لیکن فرمائش کرتا رہتا ہے) اور اس کے بعد بڑی مشکل سے مائیک کی جان چھوڑی۔
ایسے شاعروں کے ساتھ لطیفے والا حساب کرنا چاہے۔
دوآدمی بھاگ رہے تھے۔ ایک آگے آگے تھا اور دوسرا اس کے پیچھے اس کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک اور آدمی آ گیا اور اس نے پیچھے والے کو پکڑ لیا اور پوچھا کیوں آپ اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ تو اس نے کہا یار وہ اپنی غزل سنا کر بھاگ گیا ہے میری غزل سن ہی نہیں رہا۔
تو ایسے شاعروں کو مشاعرے میں دعوت دے کر سب شعراء کا کلام سنایا جائے اور ان کا سننے سے پہلے ہی مشاعری ختم کر دیا جائے :d