کیسے پرلطف ہوا کرتے تھے وہ پیار کے دن(غزل)

دل پہ قابو جو نہیں رہتا ہے دیدار کے دن
لفظ بھی ساتھ نہیں دیتے ہیں اظہار کے دن
روز مسکان سجاتے ہیں ہمیں دیکھ کے جو
کرتے اعراض ہیں پھر کیوں مرے اقرار کے دن
وصلِ احباب تو موسم پہ بھی رکھتا ہے اثَر
کیسی دلشاد فضا ہوتی ہے اتوار کے دن
پھر تو دو چند ہو یہ عید ، جو محبوب ہمیں
آکے خود ’’عید مبارک‘‘ کہے تہوار کے دن
رات ساری انھی سوچوں میں گزر جاتی ہے
کیسے پرلطف ہوا کرتے تھے وہ پیار کے دن
ہجر کی تیغِ جفا کھاکے ہمیں یاد آیا
قیس و لیلیٰ کا زمانہ ، وہی تلوار کے دن
سَرسَرؔی سی نظر اک بار پڑی تھی ان پر
اب گزرتے نہیں اُس دید کے بیمار کے دن
 
Top