تیرہویں سالگرہ کیسے لگے یہ محفلین

سید عمران

محفلین

سید عمران

محفلین
آج ہم جس محفلین کی بابت قلم اٹھانے جارہے ہیں یا یوں کہیں کہ کی بورڈ کے بٹن دبا رہے ہیں تو سمجھیں اپنی شامت اعمال کو بیٹھے بٹھائے خود بخود دعوت دے رہے ہیں۔ ڈر ہے کہیں ان کی حد سے زیادہ سنجیدہ مزاجی ہمارے جیسے من چلے، آزاد منش اور بے راہ رو کو سیدھی راہ لگانے کے لیے راہِ ہدایت کا چابک استعمال نہ کر بیٹھے۔ کیوں کہ جہاں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے کا موقع ہوتا ہے وہاں صاحب بہادر دبی دبی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دوستانہ کا تمغہ دے کر ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں۔ خدا جانے ان سے قہقہہ لگوانے کے لیے کون سی کوہ کنی کرنی پڑتی ہوگی۔ نہ ہوئے یہ شیریں اور نہ ہوا ان کے زمانے میں کوئی فرہاد، ورنہ داستانِ عشق و جور و ستم ایک بار پھر دہرائی جاتی۔

اگرچہ ڈر کے مارے ان کا نام لینے کی ہمت تو نہیں ہورہی لیکن جب اوکھلی میں سر دیا تو موسلوں کا کیا ڈر۔ پھر محفلین کی حیرت اور استفسار کا سامنا الگ کرنا پڑے گا کہ ہمت ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر۔ اگر ہمت نہیں تھی تو اس تذکرہ کا ذکر ہی کیوں چھیڑا۔ تو صاحبو، کلیجہ تھام کے سنیے اور ہمارے حق میں دعا گو رہیے کیوں کہ امید واثق ہے کہ ہمارے بچاؤ کو آئے گا تو کوئی نہیں۔ اس لیے نہیں کہ ہم سے ہمدردی نہیں بلکہ اس لیے کہ اپنی جان سب کو پیاری ہوتی ہے۔

بھائی صاحب کا نام لینے سے پہلے ان کی ایک اور صفت بیان کرتے چلیں، کیوں کہ کچھ پتا نہیں کہ ان کا نام لینے کے بعد ہم آگے کچھ بیان کرنے کے قابل رہیں گے یا نہیں۔ تو ان کی دوسری زبردست صفت ہے بہترین اور معیاری اردو لکھنا اور بوقت فرمائش اس کے بخیہ بخیہ ادھیڑ ڈالنا۔ اگر محفل کے مابدولت مستقبل میں بطیب خاطر کسی کو مقامِ جاں نشینی پر فائز کرنا گوارا کریں گے تو وہ سو فیصد یہی موصوف ہوں گے۔

اب ہم چلتے ہیں حضرت اقدس کا اسم گرامی تحریر کرنے۔ مگر یہ معرکہ سر انجام دیتے ہی ہم پلک جھپکنے کے بھی کم عرصہ میں یہاں سے نو دو گیارہ ہونے والے ہیں۔آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہم مارے ڈر کے بھاگیں گے بلکہ عصر کی نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے اس لیے جارہے ہیں۔ آپ لوگ بڑے ہوگئے ہیں، اب خود سے بھی کچھ سمجھ جایا کریں۔

تو ہمارے آج کے یہ ہر دل عزیز محفلین ہیں سید عاطف علی بھائی۔۔۔

ارے بھاگ رے بھیا جان بچا کے بھاگ رے!!!
:auto::auto::auto::auto::auto:
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
میں نے بوجھ لیا تھا کہ یہ جناب سید عاطف علی ہی ہو سکتے ہیں کہ جن کا ذکرخوف معذرت:) ذکر خیر ہو رہا ہے۔:)
بہرحال حسب معمول بہت اچھی تحریر ہے ماشاءاللہ۔
بھیا کے ساتھ ساتھ آپ بھی بہت ذہین ہوتی جارہی ہیں۔۔۔
یہ سب ہماری صحبت نیک اثر کا اثر لگتا ہے!!!
:D:D:D
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کہتی ہےتجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ؟
لڑکپن میں بہت سے مضامین لکھنے کو دیئے جاتے کہ گائے پر مضمون لکھو ، اونٹ پر مضمون لکھو گدھے پر مضمون لکھو وغیرہ اور خدا بخشے بخاری صاحب کو کتے تک پر مضمون رقم فرماگئے ہیں۔ :) سو آج ہمیں ہم پر مضمون پڑھ کر جی بہت بوقلموں اور گوں نگوں کیفیات کی کھچڑی سے دوچار ہوا ۔ کچھ الزامات بھی لگائے گئے وہ تو درکنار کہ الزام تو وزراء و صدور پر بھی لگتے رہے ہیں ہم کس کھیت کی مولی ہیں ۔ خیر کچھ ملاحظات سپرد قلم کرنا مناسب معلوم ہوا۔
جس وقت یہ مراسلہ دیکھا تو عجب حال ہوا تھا کہ کہیں کوئی مددگار کروبی نمودار ہو اور فی الفور آئینہ دکھا دے کہ سر پر کہیں سینگ تو نہیں اگ آئے اور یہ سربستہ سرِّ اعظم افشا ہو کہ ایسا رعب و طنطنہ عزیز از انٹرنیٹ محفلی بھائیوں بہنوں کے معصوم دلوں پر کیوں کر طاری ہوا ؟ وقت بھی ایسا تھا کہ فرائض منصبی کی کرسی پر براجمان تھا ہر سو صاحبان کمپنی اور عاملان ڈیپارٹمنٹ اپنے اپنے پردہ ء سیمیں پر نظریں گاڑے کام میں ایسے مشغول تھے کہ گویا کسی خزانہ ء الماس و مروارید کے خفیہ نقشے سے طول و عرض اپنی یادداشتوں میں محفوظ کر رہے ہوں ۔ٹیلیکوم کمپنی کے نیٹورک آپریشن کا ماحول اتنا ہی مہیب ہوتا ہے ۔لیکن مجھے تو خیال اسی مذکورہ رعب اور دبدے کے سبب کا تھا ۔
سو ایسے میں ایک خیال آیا کہ آج کی اس تکنیکی و سائنسی زندگی کی چکا چوند مصروفیتوں میں ہر ایک کی جیب میں جدید دور کا ایک ایسا طلسمی و سیمیائی شاہکار موجود ہے جو جام جمشید کی انفرادیت اور افادیت کو للکارتا اور شکست دیتا ہے ۔ یہ نہ صرف دنیا و مافیہا ،شرق و غرب ، اور خشک و تر کے مناظر چند لمحوں میں مٹھی بھر کے مالک سا منے لا حاضر کرتا ہے بلکہ بوقت ضرورت آئینہ اور عکاس بن کر سامنے کے مناظر بھی دقت نظر اور بے پایاں گہرائی کے ساتھ محفوط کرسکتا ہے۔ جیب سے نکال کر اس کے پردے پر اپنا آپ دیکھا تو خدائے بزرگ و برتر کا شکر بجا لایا کہ سب خیریت ہے لیکن حیرت دو چند ہوگئی کہ اگر ظاہری سراپا بھی ٹھیک ہے تو پھر آخر اس کا سبب و باعث کیا ہوا ؟ اسی فکر میں سربگریباں ناچار اپنے قلم کو تکنے لگا کہ اس میں یہ صمصام بے نیام اور نوک خنجر کے تیور آخر کہاں سے در آئے ؟ شاید یہ خدشات اس نوک اور تیز دھاری کا کرشمہ ہوں کہ محفلین کے گمان کو بوجھل کیا ۔
جب اس پر بھی غور کیا تو یہ شک زائل ہوا کہ قلم میں بھی ایسی کوئی ایسا جوہر نہیں کہ سطوت و جلال کا نقش بٹھا سکے ۔ اب تو استعجاب اس درجے بڑھا کہ استغراق کی منزل تک پہنچا اور گویا گم ہو گیا ۔ اسی کیفیت میں توسن ہاے فکر تکان کے مارے آگے بڑھنے سے انکار کرنے لگے سو آن کی آن میں یہ خیال آسمانی بجلی کی طرح کونداکہ اے زیبائش گیتی کی بے ثباتی کے شکار! یہ سب کذب و مکر کےفریب کا سحر ہے ، نفس امارہ کا تعمیر کردہ محل ہے جسے ثبات نہیں ۔کبر و عُجب انسان کو شایاں نہیں یہ سراسر دھوکا ہے ،لمحے بھر کا مزہ اور عمر بھر کی شرمساری ہے ۔ کبریائی کی ردا اسی ذات بے ہمتا کو سزاوار ہے ۔ انسان کو وہی انکسار زیبا ہے جو ذات کبریا کی بارگاہ جلال سے خلعتِ تواضع کو اختیار کر کے مخلوق خداوند کی تعظیم و خدمت کے میدان میں زندگی کو پھیرنے سے حاصل ہو سو تو بھی محفلین کے سامنے خاکساری کا سچا سلام پیش کر اور عجز و تواضع سے خمیدہ کمر کے ساتھ کورنش بجا لا اور اس تکبر کے پیکر کو توڑ جو دو دن کی زندگی میں گھاٹے کا سودا کر بیٹھے اور پونجی لٹا کر کف افسوس مل کر پچھتاتا رہے ۔
بہر کیف شکر گزاری کا ہدیہ محفلین کی خدمت میں پیش ہے جو محبت اور عزت افزائی کا مقابلہ کرنے سے تو قاصر ہے لیکن خلوص دل کے بیش بہا جذبات کا حامل ہے۔خیر اب اجازت آتش لکھنوی صاحب کے ان سنہرے کلمات کے ساتھ ۔
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا ۔
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ۔
خیر اندیش۔
 
کہتی ہےتجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ؟
لڑکپن میں بہت سے مضامین لکھنے کو دیئے جاتے کہ گائے پر مضمون لکھو ، اونٹ پر مضمون لکھو گدھے پر مضمون لکھو وغیرہ اور خدا بخشے بخاری صاحب کو کتے تک پر مضمون رقم فرماگئے ہیں۔ :) سو آج ہمیں ہم پر مضمون پڑھ کر جی بہت بوقلموں اور گوں نگوں کیفیات کی کھچڑی سے دوچار ہوا ۔ کچھ الزامات بھی لگائے گئے وہ تو درکنار کہ الزام تو وزراء و صدور پر بھی لگتے رہے ہیں ہم کس کھیت کی مولی ہیں ۔ خیر کچھ ملاحظات سپرد قلم کرنا مناسب معلوم ہوا۔
جس وقت یہ مراسلہ دیکھا تو عجب حال ہوا تھا کہ کہیں کوئی مددگار کروبی نمودار ہو اور فی الفور آئینہ دکھا دے کہ سر پر کہیں سینگ تو نہیں اگ آئے اور یہ سربستہ سرِّ اعظم افشا ہو کہ ایسا رعب و طنطنہ عزیز از انٹرنیٹ محفلی بھائیوں بہنوں کے معصوم دلوں پر کیوں کر طاری ہوا ؟ وقت بھی ایسا تھا کہ فرائض منصبی کی کرسی پر براجمان تھا ہر سو صاحبان کمپنی اور عاملان ڈیپارٹمنٹ اپنے اپنے پردہ ء سیمیں پر نظریں گاڑے کام میں ایسے مشغول تھے کہ گویا کسی خزانہ ء الماس و مروارید کے خفیہ نقشے سے طول و عرض اپنی یادداشتوں میں محفوظ کر رہے ہوں ۔ٹیلیکوم کمپنی کے نیٹورک آپریشن کا ماحول اتنا ہی مہیب ہوتا ہے ۔لیکن مجھے تو خیال اسی مذکورہ رعب اور دبدے کے سبب کا تھا ۔
سو ایسے میں ایک خیال آیا کہ آج کی اس تکنیکی و سائنسی زندگی کی چکا چوند مصروفیتوں میں ہر ایک کی جیب میں جدید دور کا ایک ایسا طلسمی و سیمیائی شاہکار موجود ہے جو جام جمشید کی انفرادیت اور افادیت کو للکارتا اور شکست دیتا ہے ۔ یہ نہ صرف دنیا و مافیہا ،شرق و غرب ، اور خشک و تر کے مناظر چند لمحوں میں مٹھی بھر کے مالک سا منے لا حاضر کرتا ہے بلکہ بوقت ضرورت آئینہ اور عکاس بن کر سامنے کے مناظر بھی دقت نظر اور بے پایاں گہرائی کے ساتھ محفوط کرسکتا ہے۔ جیب سے نکال کر اس کے پردے پر اپنا آپ دیکھا تو خدائے بزرگ و برتر کا شکر بجا لایا کہ سب خیریت ہے لیکن حیرت دو چند ہوگئی کہ اگر ظاہری سراپا بھی ٹھیک ہے تو پھر آخر اس کا سبب و باعث کیا ہوا ؟ اسی فکر میں سربگریباں ناچار اپنے قلم کو تکنے لگا کہ اس میں یہ صمصام بے نیام اور نوک خنجر کے تیور آخر کہاں سے در آئے ؟ شاید یہ خدشات اس نوک اور تیز دھاری کا کرشمہ ہوں کہ محفلین کے گمان کو بوجھل کیا ۔
جب اس پر بھی غور کیا تو یہ شک زائل ہوا کہ قلم میں بھی ایسی کوئی ایسا جوہر نہیں کہ سطوت و جلال کا نقش بٹھا سکے ۔ اب تو استعجاب اس درجے بڑھا کہ استغراق کی منزل تک پہنچا اور گویا گم ہو گیا ۔ اسی کیفیت میں توسن ہاے فکر تکان کے مارے آگے بڑھنے سے انکار کرنے لگے سو آن کی آن میں یہ خیال آسمانی بجلی کی طرح کونداکہ اے زیبائش گیتی کی بے ثباتی کے شکار! یہ سب کذب و مکر کےفریب کا سحر ہے ، نفس امارہ کا تعمیر کردہ محل ہے جسے ثبات نہیں ۔کبر و عُجب انسان کو شایاں نہیں یہ سراسر دھوکا ہے ،لمحے بھر کا مزہ اور عمر بھر کی شرمساری ہے ۔ کبریائی کی ردا اسی ذات بے ہمتا کو سزاوار ہے ۔ انسان کو وہی انکسار زیبا ہے جو ذات کبریا کی بارگاہ جلال سے خلعتِ تواضع کو اختیار کر کے مخلوق خداوند کی تعظیم و خدمت کے میدان میں زندگی کو پھیرنے سے حاصل ہو سو تو بھی محفلین کے سامنے خاکساری کا سچا سلام پیش کر اور عجز و تواضع سے خمیدہ کمر کے ساتھ کورنش بجا لا اور اس تکبر کے پیکر کو توڑ جو دو دن کی زندگی میں گھاٹے کا سودا کر بیٹھے اور پونجی لٹا کر کف افسوس مل کر پچھتاتا رہے ۔
بہر کیف شکر گزاری کا ہدیہ محفلین کی خدمت میں پیش ہے جو محبت اور عزت افزائی کا مقابلہ کرنے سے تو قاصر ہے لیکن خلوص دل کے بیش بہا جذبات کا حامل ہے۔خیر اب اجازت آتش لکھنوی صاحب کے ان سنہرے کلمات کے ساتھ ۔
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا ۔
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ۔
خیر اندیش۔
اتنا ہی کہوں گا کہ اردو کو اچھے لکھاری سے محروم نہ کیجیے، لکھتے رہا کیجیے۔ :)
 

سید عمران

محفلین
کہتی ہےتجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ؟
لڑکپن میں بہت سے مضامین لکھنے کو دیئے جاتے کہ گائے پر مضمون لکھو ، اونٹ پر مضمون لکھو گدھے پر مضمون لکھو وغیرہ اور خدا بخشے بخاری صاحب کو کتے تک پر مضمون رقم فرماگئے ہیں۔ :) سو آج ہمیں ہم پر مضمون پڑھ کر جی بہت بوقلموں اور گوں نگوں کیفیات کی کھچڑی سے دوچار ہوا ۔ کچھ الزامات بھی لگائے گئے وہ تو درکنار کہ الزام تو وزراء و صدور پر بھی لگتے رہے ہیں ہم کس کھیت کی مولی ہیں ۔ خیر کچھ ملاحظات سپرد قلم کرنا مناسب معلوم ہوا۔
جس وقت یہ مراسلہ دیکھا تو عجب حال ہوا تھا کہ کہیں کوئی مددگار کروبی نمودار ہو اور فی الفور آئینہ دکھا دے کہ سر پر کہیں سینگ تو نہیں اگ آئے اور یہ سربستہ سرِّ اعظم افشا ہو کہ ایسا رعب و طنطنہ عزیز از انٹرنیٹ محفلی بھائیوں بہنوں کے معصوم دلوں پر کیوں کر طاری ہوا ؟ وقت بھی ایسا تھا کہ فرائض منصبی کی کرسی پر براجمان تھا ہر سو صاحبان کمپنی اور عاملان ڈیپارٹمنٹ اپنے اپنے پردہ ء سیمیں پر نظریں گاڑے کام میں ایسے مشغول تھے کہ گویا کسی خزانہ ء الماس و مروارید کے خفیہ نقشے سے طول و عرض اپنی یادداشتوں میں محفوظ کر رہے ہوں ۔ٹیلیکوم کمپنی کے نیٹورک آپریشن کا ماحول اتنا ہی مہیب ہوتا ہے ۔لیکن مجھے تو خیال اسی مذکورہ رعب اور دبدے کے سبب کا تھا ۔
سو ایسے میں ایک خیال آیا کہ آج کی اس تکنیکی و سائنسی زندگی کی چکا چوند مصروفیتوں میں ہر ایک کی جیب میں جدید دور کا ایک ایسا طلسمی و سیمیائی شاہکار موجود ہے جو جام جمشید کی انفرادیت اور افادیت کو للکارتا اور شکست دیتا ہے ۔ یہ نہ صرف دنیا و مافیہا ،شرق و غرب ، اور خشک و تر کے مناظر چند لمحوں میں مٹھی بھر کے مالک سا منے لا حاضر کرتا ہے بلکہ بوقت ضرورت آئینہ اور عکاس بن کر سامنے کے مناظر بھی دقت نظر اور بے پایاں گہرائی کے ساتھ محفوط کرسکتا ہے۔ جیب سے نکال کر اس کے پردے پر اپنا آپ دیکھا تو خدائے بزرگ و برتر کا شکر بجا لایا کہ سب خیریت ہے لیکن حیرت دو چند ہوگئی کہ اگر ظاہری سراپا بھی ٹھیک ہے تو پھر آخر اس کا سبب و باعث کیا ہوا ؟ اسی فکر میں سربگریباں ناچار اپنے قلم کو تکنے لگا کہ اس میں یہ صمصام بے نیام اور نوک خنجر کے تیور آخر کہاں سے در آئے ؟ شاید یہ خدشات اس نوک اور تیز دھاری کا کرشمہ ہوں کہ محفلین کے گمان کو بوجھل کیا ۔
جب اس پر بھی غور کیا تو یہ شک زائل ہوا کہ قلم میں بھی ایسی کوئی ایسا جوہر نہیں کہ سطوت و جلال کا نقش بٹھا سکے ۔ اب تو استعجاب اس درجے بڑھا کہ استغراق کی منزل تک پہنچا اور گویا گم ہو گیا ۔ اسی کیفیت میں توسن ہاے فکر تکان کے مارے آگے بڑھنے سے انکار کرنے لگے سو آن کی آن میں یہ خیال آسمانی بجلی کی طرح کونداکہ اے زیبائش گیتی کی بے ثباتی کے شکار! یہ سب کذب و مکر کےفریب کا سحر ہے ، نفس امارہ کا تعمیر کردہ محل ہے جسے ثبات نہیں ۔کبر و عُجب انسان کو شایاں نہیں یہ سراسر دھوکا ہے ،لمحے بھر کا مزہ اور عمر بھر کی شرمساری ہے ۔ کبریائی کی ردا اسی ذات بے ہمتا کو سزاوار ہے ۔ انسان کو وہی انکسار زیبا ہے جو ذات کبریا کی بارگاہ جلال سے خلعتِ تواضع کو اختیار کر کے مخلوق خداوند کی تعظیم و خدمت کے میدان میں زندگی کو پھیرنے سے حاصل ہو سو تو بھی محفلین کے سامنے خاکساری کا سچا سلام پیش کر اور عجز و تواضع سے خمیدہ کمر کے ساتھ کورنش بجا لا اور اس تکبر کے پیکر کو توڑ جو دو دن کی زندگی میں گھاٹے کا سودا کر بیٹھے اور پونجی لٹا کر کف افسوس مل کر پچھتاتا رہے ۔
بہر کیف شکر گزاری کا ہدیہ محفلین کی خدمت میں پیش ہے جو محبت اور عزت افزائی کا مقابلہ کرنے سے تو قاصر ہے لیکن خلوص دل کے بیش بہا جذبات کا حامل ہے۔خیر اب اجازت آتش لکھنوی صاحب کے ان سنہرے کلمات کے ساتھ ۔
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا ۔
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ۔
خیر اندیش۔

اس مراسلہ ہوش ربا کا مطالعہ کرنے کے بعد ہوش و حواس جو ذرا بحال ہوئے تو وجودِ خود کو بے خود پایا۔ بغور معائنہ قلبی و دماغی کرنے کے باوجود سببِ سلبِ حواس دریافت نہ ہوسکا۔ اس عالم حیرت و تعجب میں بے سدھ دنیائے عقل و خرد سے بے گانہ پڑے تھے کہ پاس موجود رفیقِ دیرینہ نے حالتِ زار کو کائنات سے بے زار دیکھ کر جھٹ تلوے سہلائے، لخلخہ سنگھایا اور خمیرہ چٹایا۔

ان تدابیر آزمودہ کے آزمائے جانے کے بعد جب اوسان ذرا بحال ہوئے اور سانس میں سانس آیا تو مراسلہ ہٰذا کو دائرۂ عقل و فہم میں لانے کے لیے از سرِ نو بغور دیکھنا شروع کیا۔ مریض کو مرض کی طرف دوبارہ کمربستہ جاتے دیکھ کر رفیقِ دیرینہ نے جھٹ برقی پردۂ سیمیں کا بجلی سے رابطہ منقطع کردیا۔ بقول اس کے گر ہے جان و دل عزیز تو مطالعۂ مراسلہ ہذا سے احتیاط احوط ہے۔

سو بلا مطالعہ ثانی بدستِ لاغر یہ مراسلہ تحریر کرنے کی جسارت کی جارہی ہے۔ امید ہے راقم تحریر کی حالتِ ضعف و ناتوانی پر نگاہِ ترس ڈالی جاوے گی اور قابل گرفت الفاظ کو درخور اعتنا نہ سمجھ کر درگزر سے کام لیا جاوے گا۔
فقط
والسلام!!!
:hypnotized::hypnotized::hypnotized:
 
آخری تدوین:
اس مراسلہ ہوش ربا کا مطالعہ کرنے کے بعد ہوش و حواس جو ذرا بحال ہوئے تو وجودِ خود کو بے خود پایا۔ بغور معائنہ قلبی و دماغی کرنے کے باوجود سببِ سلبِ حواس دریافت نہ ہوسکا۔ اس عالم حیرت و تعجب میں بے سدھ دنیائے عقل و خرد سے بے گانہ پڑے تھے کہ پاس موجود رفیقِ دیرینہ نے حالتِ زار کو کائنات سے بے زار دیکھ کر جھٹ تلوے سہلائے، لخلخہ سنگھایا اور خمیرہ چٹایا۔

ان تدابیر آزمودہ کے آزمائے جانے کے بعد جب اوسان ذرا بحال ہوئے اور سانس میں سانس آیا تو مراسلہ ہٰذا کو دائرۂ عقل و فہم میں لانے کے لیے از سرِ نو بغور دیکھنا شروع کیا۔ مریض کو مرض کی طرف دوبارہ کمربستہ جاتے دیکھ کر رفیقِ دیرینہ نے جھٹ برقی پردۂ سیمیں کا بجلی سے رابطہ منقطع کردیا۔ بقول اس کے گر ہے جان و دل عزیز تو مطالعۂ مراسلہ ہذا سے احتیاط احوط ہے۔

سو بلا مطالعہ ثانی بدستِ لاغر یہ مراسلہ تحریر کرنے کی جسارت کی جارہی ہے۔ امید ہے راقم تحریر کی حالتِ ضعف و ناتوانی پر نگاہِ ترس ڈالی جاوے گی اور قابل گرفت الفاظ کو درخور اعتنا نہ سمجھ کر درگزر سے کام لیا جاوے گا۔
فقط
والسلام!!!
:hypnotized::hypnotized::hypnotized:
مابدولت فی الفور اس حالت غش سے بخیر وعافیت نکلنے کے لئے نبرد آزما ہیں جو مراسلہ مرقوم بالا المرسل عزیزی سید عمران ساکنہ اردو محفل کو ملاحظہ کرنے پر مابدولت پر طاری ہوا ہے ! (تفنن برطرف ) زبردست۔:):)
 

جاسمن

لائبریرین
دونوں سیدوں کے مراسلے "کلاسک ادباء" میں سے کسی کی تحریر لگتے ہیں۔
بتائیں آپ نے کس کی نقل کی ہے؟:D
 

سید عمران

محفلین
سیما علی صاحبہ ہمارے بعد آئیں۔ دنیا میں بھی، محفل پہ بھی۔ دنیا میں اس طرح اگر ہماری عمر عزیز دو سو ستر برس تسلیم کی جائے جو اکثر احباب کرتے ہیں اور محفل پہ آنے کا ثبوت دونوں کے کوائف نامے دیکھ کر حاصل کرلیا جائے۔
دیر سے آنے کے باوجود محفل پر چھا جانے کی مثال قائم کردی۔ دھنا دھن کاپی پیسٹ، دھما دھم مراسلے اور دھڑا دھڑ ریٹنگز۔ ایک دم بھیا کا فیمیل ورژن۔ یہی کام بھیا محفل کا ہنی مون پیریڈ گزارتے ہوئے کر گزرے ہیں۔
بھیا اور سیما صاحبہ میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ مثلاً دونوں کو اردو ادب سے از حد لگاؤ ہے جس کا ثبوت مستقل مزاجی اور تن دہی سے اردو املا کی رواں اغلاط ہیں جو اردو سے محبت کی طرح ترقی کی سمت تیزی سے گامزن ہیں۔
دونوں ہی کو ہر طرح کی خبریں کاپی پیسٹ کرنے کا شوق ہے جو مراسلہ نگاری سے ان کی محبت کا بیّن ثبوت ہے۔ یہاں لفظ بیّن پر ’’تشدد‘‘ ہے، لفظ بین ب کے زبر کے ساتھ اور ہے جبکہ لفظ بین ب کے زیر کے ساتھ اور۔ لیکن ہمارا مقصد کسی کو زیر و زبر کرنا نہیں ہے فقط تعارف کا زیر و بم پیش کرنا ہے۔ ایک اہم بات کی طرف توجہ، یہ ’’زیر‘‘ ’’و‘‘ ’’بم‘‘ ہے۔ ‘‘زیرو بم‘‘ نہیں، کل کلاں کو ہمیں دہشت گردی کے کسی زُمرے میں نہ پھنسوادیں۔
عدنان بھائی جیسی ایک اور عادت جو سیما صاحبہ میں بدرجہ اتم ٹھاٹھیں مارتی موجود ہے کہ یہ بھی ریٹنگز دینے کے کریز میں مبتلا ہیں۔قارئین اسے کپڑوں کی کِریز سے الگ رکھیں۔ زبردست، پسندیدہ اور پُرمزاح کی ریٹنگز تو یوں بانٹتی ہیں جیسے ایسے نہ کرنے پر جہنم کی وعید آئی ہو۔ ریٹنگز دینے میں روانی کا یہ عالم ہے کہ غمگین بات پر پُرمزاح اور ناپسندیدہ بات پر زبردست اور پسندیدہ کے بٹن ٹھوکتے ٹھوکتے کچھ خیال آتا ہے تو پیچھے مڑ کے دیکھتی ہیں مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ، شامیانے لگ کے اکھڑ چکے ہوتے ہیں، دیگیں خالی ہوجاتی ہیں اور رونے والوں کے آنسو خشک ہوئے مدتیں گزر گئی ہوتی ہیں۔
قارئین کرام، اگر آپ کو ہماری اس جلی کٹی تحریر سے کسی قسم کی جلن حسد کی بو آتی ہے تو یقین جانیئے آپ کی ناک بالکل صحیح کام کررہی ہے۔ غضب خدا کا جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور ہم سے زیادہ مراسلے۔ ہے کوئی تُک۔ پھر کیوں نہ ہو جلن حسد۔ اب کوئی وعظ و نصحیت کے پل باندھنے نہ بیٹھ جائے، ہمیں سمجھنے سمجھانے نہ بیٹھ جائے کہ
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
ورنہ آج کل ہمارا جیلسی سے جو حال ہورہا ہے اس پر یہی کہیں گے کہ
ہاں زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!
 

سیما علی

لائبریرین
قارئین کرام، اگر آپ کو ہماری اس جلی کٹی تحریر سے کسی قسم کی جلن حسد کی بو آتی ہے تو یقین جانیئے آپ کی ناک بالکل صحیح کام کررہی ہے۔ غضب خدا کا جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور ہم سے زیادہ مراسلے۔ ہے کوئی تُک۔ پھر کیوں نہ ہو جلن حسد۔ اب کوئی وعظ و نصحیت کے پل باندھنے نہ بیٹھ جائے، ہمیں سمجھنے سمجھانے نہ بیٹھ جائے کہ
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
درست کہا آپ نے ہم میں اور ہمارے [B] بھیا[/B] میں بہت سی باتیں مشترک ہیں آخر کیوں نا ہو ہمارے بھیا ۔۔۔اردو کی غلطیاں کو درست کرنے کے لئے جناب آپ جیسے گراں قدر اردو داں محفل موجود ہیں تو ہم دونوں بہن بھائی کو کیا فکر ہو ۔۔۔۔۔پر آپ کا شمار محفل کے اُن نورتن میں ہوتا ہے ، جنکی عزت ہم دل سے اُس وقت سے کرتے ہیں جب آپ کا دیدار بھی نہ ہوا تھا ۔۔۔اب تو خیر سے آپ کا دیدار بھی ہوچکا ہے تاریخی ناشتہ پر آپکی میزبانی میں 22اگست 2021 ۔۔۔ ۔۔۔۔
سلامت رہیے ۔۔شاد و آباد رہیے اللّہ آپکے رزق میں بے شمار اضافہ فرمائے ۔۔۔۔آمین
ہم نے اپنی زندگی میں بہت کم لوگ ایسے دیکھے ہں جن کو اللّہ تعالیٰ نے کم عمری میں اتنے علم سے نوازا ہو اور باوجود تمام علم و ادب کے اسقدر عجز و انکساری ہو اور جنکی دل سے عزت کی جائے ۔۔۔
ہمیں تو اس بات کی خوشی ہے کسی بہانے تو آپ کی آمد ہوئی محفل میں۔۔۔۔ ورنہ محفل میں تاریکی کا دور دورہ تھا ۔۔۔آپ آئے تو ۔۔۔۔۔
چاند بھی حیران دریا بھی پریشانی میں ہے
عکس کس کا ہے کہ اتنی روشنی پانی میں ہے
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
لیکن ہمارا مقصد کسی کو زیر و زبر کرنا نہیں ہے فقط تعارف کا زیر و بم پیش کرنا ہے۔ ایک اہم بات کی طرف توجہ، یہ ’’زیر‘‘ ’’و‘‘ ’’بم‘‘ ہے۔ ‘‘زیرو بم‘‘ نہیں، کل کلاں کو ہمیں دہشت گردی کے کسی زُمرے میں نہ پھنسوادیں۔
مجھ کو تو گردش دوراں نے دیا ہے لہجہ
میرا مطلب تو اسی زیر و زبر سے نکلا !!
ہماری یہ مجال کہاں کہ ہم یہ گستاخی کریں اور وہ بھی آپ کی شان میں ۔۔۔😊😊😊😊😊
 
آخری تدوین:
Top