ملنا
اتنا
سلنا
مٹنا
کِھلنا
دِکھنا
بِکنا
لِکھنا
کتنا
جتنا۔۔۔

مجھے "ملنا" کے ساتھ قوافی کی ضرورت ہے مگر ذہن میں کِھلنا، سِلنا، ہِلنا کے علاوہ کچھ نہیں آ رہا اس لیئے سوچا پتہ کر لوں اگر یہ سب استعمال کر سکتی ہوں تو کر لوں۔
 
پہلے شعر میں ملنا کے ساتھ اتنا قافیہ کریں۔ پھر یہ سب بھی استعمال کرسکتی ہیں۔ مگر ہلنا اور ملنا کو پہلے شعر میں رکھ کر باقی قوافی غلط ہونگے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے شعر میں ”اتنا“ اور ”جتنا“ قافیہ کریں پھر باقی اشعار میں اوپر لکھے سب قوافی استعمال کریں۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے شعر میں ”اتنا“ اور ”ایسا“ قافیہ رکھیں باقی اشعار میں کوئی بھی ایسا قافیہ جو الف پر ختم ہو لے آئیں۔ :)
 
پہلے شعر میں ملنا کے ساتھ اتنا قافیہ کریں۔ پھر یہ سب بھی استعمال کرسکتی ہیں۔ مگر ہلنا اور ملنا کو پہلے شعر میں رکھ کر باقی قوافی غلط ہونگے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے شعر میں ”اتنا“ اور ”جتنا“ قافیہ کریں پھر باقی اشعار میں اوپر لکھے سب قوافی استعمال کریں۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے شعر میں ”اتنا“ اور ”ایسا“ قافیہ رکھیں باقی اشعار میں کوئی بھی ایسا قافیہ جو الف پر ختم ہو لے آئیں۔ :)

بہت شکریہ!
 

شام

محفلین
یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے شعر میں ”اتنا“ اور ”جتنا“ قافیہ کریں پھر باقی اشعار میں اوپر لکھے سب قوافی استعمال کریں۔
:)

مزمل بھائی کیا اس سے قافیہ " تنا " پر پابند نہیں ہو جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو " لکھنا "وغیرہ کیسے قافیہ ہو گا ان کے ساتھ
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
قافیے کی بابت اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اس کی پابندی سخت ہو تو بہتر ہے اور سخت پابندی میں آپ کے قافیے:
ملنا۔۔۔سلنا۔۔کِھلنا۔۔ ہی درست ہیں، باقی سب غلط۔۔۔
ہاں مزمل بھائی نے جو بتایا ہے، اس کی اجازت ضرور ہوگی، جبھی وہ بتا رہے ہیں، لیکن بہتر ہے ایسے قافیوں سے دور رہاجائے کہ اس سے عیب شاعری پیدا ہو نہ ہو، ابہام ضرور ہوتا ہے اور غزل کی شائستگی ہر ایک کے لیے ایک جیسی نہیں رہتی، جو سمجھتا ہے وہ مانتا ہے اور جو نہیں سمجھتا وہ اعتراض کرسکتا ہے۔ ملنا سلنا آپ کہاں استعمال کر رہی ہیں؟ یہ جان سکتے تو اس کا متبادل بھی ڈھونڈا جاسکتا تھا۔۔
 
قافیے کی بابت اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اس کی پابندی سخت ہو تو بہتر ہے اور سخت پابندی میں آپ کے قافیے:
ملنا۔۔۔ سلنا۔۔کِھلنا۔۔ ہی درست ہیں، باقی سب غلط۔۔۔
ہاں مزمل بھائی نے جو بتایا ہے، اس کی اجازت ضرور ہوگی، جبھی وہ بتا رہے ہیں، لیکن بہتر ہے ایسے قافیوں سے دور رہاجائے کہ اس سے عیب شاعری پیدا ہو نہ ہو، ابہام ضرور ہوتا ہے اور غزل کی شائستگی ہر ایک کے لیے ایک جیسی نہیں رہتی، جو سمجھتا ہے وہ مانتا ہے اور جو نہیں سمجھتا وہ اعتراض کرسکتا ہے۔ ملنا سلنا آپ کہاں استعمال کر رہی ہیں؟ یہ جان سکتے تو اس کا متبادل بھی ڈھونڈا جاسکتا تھا۔۔

"کیا" کے بعد باقی سب استعمال ہو سکتے ہیں؟

کیا ہوا ہے
(ات)نا ہوا ہے
(سل)نا ہوا ہے
(مٹ)نا ہوا ہے
(کت)نا ہوا ہے
(جت)نا ہوا ہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پہلے کیا لفظ استعمال ہوا تھا۔ آپ کے کیا ہوا سے یاد آیا کچھ ایسا قافیہ میں نے بھی ایک بار استعمال کیا تھا، مزاحیہ سا ہے، غور کریں تو شاید آپ کے کیس کو سلجھانے میں کچھ مدد مل سکے۔۔۔

میں سمجھا تھا وہ اردو جانتا ہے
مرا استاد بھی مجھ پر گیا ہے

مری بیوی تو مرتی ہی نہیں ہے
مری قسمت کو آخر کیا ہواہے؟؟

اس میں اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ پہلے کیا لفظ تھا، سوال یہ ہے کہ قافیہ کہاجانے والا لفظ گزشتہ قافیہ بنائے جانے والے لفظ سے کس حد تک مشترک یا مختلف ہے۔۔۔
 
شاہد شاہنواز صاحب آپ میری اس غزل کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ کیا یہ درست قوافی ہیں آپ کی نظر میں؟

ہے تجھے شکوہ کے میرا چاہنا اچھا نہیں
مت کہو میرے لئے یہ ماننا اچھا نہیں

خود ہی کرتا ہے وضاحت اپنی فطرت کی ہر ایک
وقت سے پہلے کسی کو جاننا اچھا نہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شاہد شاہنواز صاحب آپ میری اس غزل کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ کیا یہ درست قوافی ہیں آپ کی نظر میں؟

ہے تجھے شکوہ کے میرا چاہنا اچھا نہیں
مت کہو میرے لئے یہ ماننا اچھا نہیں

خود ہی کرتا ہے وضاحت اپنی فطرت کی ہر ایک
وقت سے پہلے کسی کو جاننا اچھا نہیں
اگر میرے بیان کردہ سختی والے کلیے کی رو سے دیکھا جائے تو میرا جواب وہی ہے جو آپ کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے۔۔۔ یعنی
ماننا اور جاننا درست ہیں۔ چاہنا غلط۔۔۔
کیونکہ میں قافیے کو قافیہ اپنی ہی تعریف سے مانتا ہوں جو میرے ذہن میں محفوظ ہے لیکن کبھی اس کو الفاظ کی صورت نہیں دے پایا ۔
ماننا اور جاننا میں نا کو الگ کریں تو مان اور جان بچی۔۔۔ جو ہم قافیہ ہیں، اور نا ان کی ردیف سمجھ لیجئے۔ چاہنا میں نا تو ملا لیکن چاہ نہیں، سو یہ غلط ثابت ہوا۔۔۔
تاہم میری یہ تعریف میری اپنی ہی وضع کردہ ہے ، اس کی پابندی ہر ایک پر فرض نہیں ہے۔ آپ کے قافیے کے کلیے کو تفصیل سے پڑھنے کے بعد بھی میری نااہلی ہے کہ سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوپارہا۔۔۔
 
شاہد شاہنواز بھائی مجھے کہنا پڑے گا کہ آپ گمراہ ہیں۔ کیونکہ اس تعریف پر آپ اپنا قول کسی سے بھی نہیں منوا سکتے۔ نہ کوئی استاد مانے گا، نہ کوئی عروضی، اور نہ ہی کوئی اور۔ اس دن اسد قریشی صاحب کی جس غزل کے قوافی کو درست کہا اسے میں نے دلائل سے ثابت بھی کیا اور استاد شاعر کا کلام بھی بطور دلیل پیش کیا۔ اس کے بعد رد کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ مگر آپ کی جو تعریفِ قافیہ ہے وہ یقیناً درست نہیں۔ اب آپ اوپر میری قافیہ میں دی گئی اجازتیں دیکھیں اور پھر غالب کا درجِ ذیل کلام دیکھیں؛
1:
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا
غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
فکرِ نالہ میں گویا، حلقہ ہوں زِ سر تا پا
عضو عضو جوں زنجیر، یک دلِ صدا پایا
حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا

2:
دل میرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموش کی مانند، گویا جل گیا
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا
عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا

3:
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا
نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا
فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا

ثابت ہوا کہ غالب اس معاملے میں آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔

اب میر کو دیکھیں:

4:
کیا طرح ہے آشنا گاہے، گہے ناآشنا
یا تو بیگانے ہی رہیے، ہو جیے یا آشنا

پائمالِ صد جفا ناحق نہ ہو اے عندلیب
سبزۂ بیگانہ بھی تھا اس چمن کا آشنا

کون سے یہ بحرِ خوبی کی پریشاں زلف ہے
آتی ہے آنکھوں میں میری موجِ دریا آشنا

رونا ہی آتا ہے ہم کو دل ہوا جب سے جدا
جائے رونے ہی کی ہے جاوے جب ایسا آشنا

بلبلیں رو رو کہ یوں کہتی تھیں ہوتا کاش کے
یک مژہ رنگِ فراری اس چمن کا آشنا

5:
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا
دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہو گا

اب اشک حنائی سے جو تر نہ کرے مژگاں
وہ تجھ کفِ رنگیں کا مارا نہ ہوا ہو گا

ٹک گورِ غریباں کی کر سیر کہ دنیا میں
ان ظلم رسیدوں پر کیا کیا نہ ہوا ہو گا

بے نالہ و بے زاری بے خستگی و خواری
امروز کبھی اپنا فردا نہ ہوا ہو گا

ہے قائدۂ کلی یہ کوئے محبت میں
دل گم جو ہوا ہو گا پیدا نہ ہوا ہو گا

دیکھیں میر بھی آپ کے ساتھ نہیں۔ اب حسرت کو دیکھیں:

6:
توڑ کر عہدِ کرم نا آشنا ہو جائيے
بندہ پرور جائيے اچھا خفا ہو جائيے
ميرے عذرِ جرم پر مطلق نہ کيجے التفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائے
خاطر محرام کو کر ديجئے محوِ الم
درپئے ايذائے جانِ مبتلا ہو جائيے
راہ ميں ملئے کبھی مجھ سے تو از راہِ ستم
ہونٹ کاٹ کر فورا جدا ہو جائيے
گر نگاہِ شوق کو محوِ تماشا ديکھئے
قہر کی نظروں سے مصروفِ سزا ہو جائيے
ميری تحريرِ ندامت کا نہ ديجئے کچھ جواب
ديکھ ليجئے اور تفاغل آشنا ہو جائيے

لیجئے حسرت موہانی بھی آپ کے ساتھ نہیں۔ اب کیا کرینگے آپ؟
تینوں شعراء خدائے سخن کہلاتے ہیں۔ تینوں میں سے ہر ایک نے ایسے قوافی استعمال کرے۔ بلکہ حسرت موہانی (رئیس المتغزلین) نے تو اس قافیہ کو اتنا استعمال کیا کہ غزلیات گنتے گنتے تھک جائیں آپ۔ تو حضور بنے بنائے اصول کو مت توڑیں۔ یہ زیادتی ہے۔:)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
آپ نے غور نہیں کیا شاید، لیکن جتنی بھی مثالیں آپ نے دی ہیں اور جتنی عرق ریزی کی ہے، اس کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کہ میں نے تو خود ہی ہار مانی ہوئی تھی۔ میں نے توپہلے ہی عرض کردیا ہے کہ آپ کی تعریف میری سمجھ میں نہیں آرہی، یہ میری نااہلی ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں نےجو مثال دی تھی مزاحیہ شاعری کی یعنی
میں سمجھا تھا وہ اردو جانتا ہے
مرا استاد بھی مجھ پر گیا ہے
مری بیوی تو مرتی ہی نہیں ہے
مری قسمت کو آخر کیا ہوا ہے؟
اب اس میں قوافی دیکھئے ، جانتا، گیا میری اس تعریف پر فٹ نہیں بیٹھتے۔ لیکن وہی دیسی کلیہ غزل والا ہم اس پر لاگو کریں یعنی ردیف ہو تو اچھا ہے، نہ ہو تو بھی ضروری نہیں۔ ان سب میں الف مشترک ہے، تو یہ قافیے بلا ردیف ہوئے۔ یہی صورت درج بالا اساتذہ کے کلام کی بھی ہے۔ لیکن اس کی صورت ذرا سوچ سمجھ کر استعمال کرنی پڑتی ہے۔ جو میرا اس سلسلے میں فکری اجتہاد ہے جسے آپ گمراہی کہیے ، وہ یہ ہے کہ پہلا ہی شعر آپ کا یہ طے کردیتا ہے کہ قوافی میں آپ ردیف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں۔ تو آپ نے جو مثال دی تھی وہ دوبارہ یہاں درج کرتا ہوں:
ہے تجھے شکوہ کے میرا چاہنا اچھا نہیں
مت کہو میرے لئے یہ ماننا اچھا نہیں
۔۔ یہ شعر درست ہے اور طے کرتا ہے کہ آپ قافیہ کس طرح کا استعمال کر رہے ہیں۔
خود ہی کرتا ہے وضاحت اپنی فطرت کی ہر ایک
وقت سے پہلے کسی کو جاننا اچھا نہیں
۔۔۔ یہ شعر ماننا کے بعد آیا تو پڑھنے والے کو یہ لگتا ہے کہ آپ نے قافیے کی ردیف نا کو طے کر لیا ہے، جو غلط ہے۔ اس لیے میں نے اس پر اعتراض کیا اور ماننا اور جاننا کو تو قافیہ مانا ، چاہنا کو غلط ٹھہرا دیا۔ حالانکہ غلط قافیہ جاننا کو کہنا چاہئے تھا۔ میری رائے میں قافیہ جاننا بھی غلط نہیں ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ آپ اشعار کی ترتیب ایسی رکھئے کہ یہ ماننا جاننا کے بعد کبھی نہ آئے۔ درمیان میں کوئی اور شعر رکھ لیں ۔۔۔لیکن اگر مضمون کے لحاظ سے ضروری ہے کہ ایسا ہی قافیہ لانا ہے تو کچھ اشعار کے بعد لے آئیے، تاکہ پڑھنے والے کا ذہن اس طرف نہ جائے۔۔

اب آپ نے جو اساتذہ کی مثالیں دی ہیں، غور فرما لیجئے اگر سب نہیں تو کوئی نہ کوئی میرے اس اجتہاد میں شاید میرا ساتھ دیتا ہوا پایاجائے، کیونکہ میں نے تو یہ تمام مثالیں غور سے پڑھیں۔ کہیں بھی خامی نظر نہیں آئی۔ ذہن چونکا نہیں کہ یہ کیا لکھ دیا حضرت غالب نے، میر نے یا حسرت موہانی نے۔میں قافیے کی تعریف کیا ہے اور علم عروض میری اس رائے سے کس حد تک اتفاق یا اختلاف رکھتا ہے، نہیں جانتا۔ لیکن درج بالا وضاحت اس لیے کی ہے تاکہ آپ تسلی سے میری خرابیوں کو دور کرسکیں۔۔۔
 
شاہد شاہنواز بھائی،
آپ قافیہ کے حوالے سے بہت الجھ گئے ہیں۔۔
جاننا اور ماننا میں ہرگز کوئی کراہت نہیں۔ البتہ آپ نے جو کہا کہ ایک قافیہ جاننا، پھر چاہنا، پھر سوچنا، پھر ماننا رکھ لیا جائے اور آپ اسے درست بھی مانتے ہیں تو میں یہ کہونگا کہ علم قافیہ میں اس سے بڑا عیب اور کوئی ہے ہی نہیں۔ اور میری اس بات سے تمام عروضی اتفاق بھی کرینگے :) شکر کریں کہ ہم دونوں میں کوئی بھی عروضی نہیں۔ :)
اب آجائیں غالب پر تو دیکھیں غالب پہلا قافیہ کرتے ہیں: ”محابا“ اس کے ساتھ دوسرا قافیہ ”گویا“ لگاتے ہیں پھر تیسرا محض ”تھا“ کو قافیہ کردیا۔ اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ اس میں کونسا اصول اپنایا غالب نے؟
پھر میرؔ نے ”رسوا“ کے ساتھ ”ایسا“ کو قافیہ کردیا۔ اس میں کیا اصول اپنایا؟
اب میں نے جو سارہ بشارت گیلانی صاحبہ کو مشورہ دیا اسے دیکھیں:
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے شعر میں ”اتنا“ اور ”ایسا“ قافیہ رکھیں باقی اشعار میں کوئی بھی ایسا قافیہ جو الف پر ختم ہو لے آئیں۔ :)

غور کریں کہ کیا یہاں غالب، میر اور حسرت نے یہی کچھ نہیں کیا؟ واضح ہوجائے گا۔ :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے شعر میں ”اتنا“ اور ”ایسا“ قافیہ رکھیں باقی اشعار میں کوئی بھی ایسا قافیہ جو الف پر ختم ہو لے آئیں۔ :)

غالب کی عروضی مثالیں میری سمجھ میں کم کم ہی آتی ہیں۔
لہٰذا اب میں یہ سمجھوں کہ فراز صاحب کی مشہور غزل "جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو"
اس میں "آتا، سا، سایا، دنیا، چہرہ، لگتا، لیلیٰ، دریا، زندہ، گوارا" اسی بنیاد پہ رکھے گئے ہیں؟
 
غالب کی عروضی مثالیں میری سمجھ میں کم کم ہی آتی ہیں۔
لہٰذا اب میں یہ سمجھوں کہ فراز صاحب کی مشہور غزل "جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو"
اس میں "آتا، سا، سایا، دنیا، چہرہ، لگتا، لیلیٰ، دریا، زندہ، گوارا" اسی بنیاد پہ رکھے گئے ہیں؟

جی صد فیصد۔ یہ قافیہ ایسا ہے کہ سیکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں ملتی ہیں۔ اور آسان ترین قافیہ ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں الجھا نہیں ہوں بلکہ جو پہلے سمجھتا آیا ہوں اور جو اب تک سمجھ رہا ہوں، صرف وہ بیان کیا ہے۔

میں ایسے قافیے کو جس میں سوائے ایک حرف کے ، کچھ بھی آپس میں نہ ملتا ہو، صوتی قافیہ کہتا اور سمجھتا رہا ہوں۔۔۔ اور آپ ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ صوتی قافیہ نام کی کوئی چیز اردو شاعری میں نہیں ہوا کرتی۔۔۔ تو پھر یہ کیا ہے؟
 
صوتی قافیہ جیسی اردو میں کوئی چیز نہیں پھر دوبارہ کہتا ہوں. یہ صوتی قافیہ نہیں.
صوتی قافیہ ہوتا ہے جیسے:
آپ کا قافیہ آب,
طاق کا قافیہ جھانک,
راگ کا قافیہ خاک وغیرہ.
یعنی ملتے جلتے حروف کو قافیہ کرنا.
قاف اور کاف کو,
ب اور پ کو,
ت اور ط کو,
سین اور ص کو.
یہ صوتی قافیہ ہے. مگر یہ جائز نہیں. بہت زیادہ معیوب اور نفرت آمیز ہے.
 

الف عین

لائبریرین
قافیہ کے بارے میں میں نے تو یہ طے کیا ہے کہ ا س سلسلے میں بحث نہیں کی جائے۔ کوئی قافیہ نہیں لگتا بھی ہو تو بھی اساتذہ کے کلام سے مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ھالانکہ بے عیب تو صرف خدا کی ذات ہے، اساتذہ سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ بہر ھال میرے حساب سے سارہ بشارت کو یہ جواب ہے کہ یہ قوافی ممکن نہیں۔ ہاں وہ قوافی ممکن ہیں، جن کی بہت مثالیں دی جا چکی ہیں، جن میں صرف الف مشترک ہو۔ اگر ملنا ہی لفظ رکھا جائے تو مطلع میں دوسرا قافیہ ایسا نہ ہو جس میں ’نا‘ مشترک ہو، ورنہ ایطا کا سقم ہو جائے گا۔ ہاں ’جاتا‘ بلکہ ’ملتا‘ قافیہ بھی ممکن ہے۔ اور اس صورت میں وہ سب قوافی ممکن ہیں جن کی مثالیں مثلاً بلال نے دی ہیں۔ "آتا، سا، سایا، دنیا، چہرہ، لگتا، لیلیٰ، دریا، زندہ، گوارا"
 
Top