کیا یہی پیار ہے؟

شادی شدہ جن کو میں اکثر شادی زدہ خواتین بھی کہتا ہوں؛ کا پیار ان کا خاوند ہوتا ہے۔ جیسے اللہ نے ہو انسان کو اچھوتا تخلیق کیا ہے، بعینہ ہر شادی زدہ خاتون کا پیار بھی یکتا ہے۔ چونکہ ہم تمام خواتین کو نہیں جانتے لہذا سب کے مسائل سے بھی واقف نہیں، لیکن جو ہماری نظر میں آئی ہیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

بیوی الف : ان کو ماں، باپ اور بھائیوں نے بہت توجہ دی۔ ظالم زمانے سے محفوظ رکھنے کی فکر ہر وقت والدین کو رہتی تھی- ماں نے کبھی گھر کا کام بھی کرنے نہیں دیا کہ نجانے سسرال کیسا ہوگا، کم از کم شادی سے پہلے تو ان جھنجھٹ ویں میں نہ پڑے۔ بھائی گھر کے دروازے سے کالج کے دروازے تک چھوڑنے جاتے اور چھٹی سے آدھ گھنٹہ پہلے گیٹ پہ انتظار کرتے۔ خانہ آبادی کا وقت آیا تو بے شمار امیدواروں کو پرکھا گیا۔ کسی کا گھر چھوٹا، کسی کی ماں سخت مزاج، کسی کی پانچ بہنیں، کسی کی کار پرانی!! ماں چاہتی تھی کہ ساس کے طعنے اور نندوں کی سیاست سے بیٹی کا پالا نہ پڑے۔ آخر کار ایک ایسا لڑکا مل ہی گیا، خوب کماؤ پوت، دیارِ غیر میں اکیلا رہتا، تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا۔ مگر مسئلہ یہ کہ مجازی خدا کے جتنے بال تصویر میں نظر آتے تھے اس سے آدھے بھی نہیں۔ شادی کے تین ماہ کے اندر ہی توند قمیص پھاڑ کے باہر نکلنے کو ہے۔ پتا چلا کہ موصوف پہلے بھی ایسے ہی تھے، باب بیاہ کے چکر میں کچھ وزن کم کیا تھا۔ رنگ لٹھے کی سلیٹی چادر جیسا اور آنکھوں کے گرد حلقے! یہ سوچتی ہیں کہ کیا یہی پیار ہے؟

بیوی ب: کالج میں تھیں کہ ایک خوبرو، دراز قد، خوش گفتار نوجوان کی ان پہ نظر پڑی اور وہ دل و جان نثار کرنے لگا۔ انہوں نے خاصا پیچھا چھڑانا چاہا مگر وہ اخلاص کا یقین دلاتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہے تو ہمارے گھر والوں سے بات کرو۔ رشتہ آیا، والدین کو پسند نہ تھا کیونکہ نہ تو موصوف کا خاندان ہم پلہ تھا اور نہ لڑکے میں ہی گورے رنگ کے علاوہ کوئی خوبی نظر آتی تھی، مگر ان کے اصرار پہ رشتہ ہوگیا۔ چند سال تو خوب گزرے، اللہ نے دو پیارے سے بچے بھی دیے۔ لیکن شوہر شریف اب تک کوئی کام کاج نہیں کرتے۔ عام نوکری ان کی شان سے مطابق نہیں۔ ایک دو جگہ پہ جہاں سسر نے اثر و رسوخ سے رکھو آیا تھا، نکال دیے گئے۔ طرہ یہ کہ خاتون کا زیور بھی کسی کاروبار کے چکر میں بیچ کر کھا گئے ہیں۔ وہ خود ہی نوکری کرتی ہیں اور ان کا بھیُ خرچہ چلاتی ہیں۔ آج کل خاوند شریف گھر سے بھی بلا وجہ باہر رہتے ہیں، فون کعب سنبھال کر رکھتے ہیں، اورُ اچانک رات کوُ فون اٹھا کر باہر نکل جاتے ہیں۔ بیوی کو یقین ہو چلا ہے کہ کسی ناہنجار کے دام میں پھنس چکے ہیں۔ وہ بھی سوالات کرتی ہیں کیا یہی پیار ہے؟
 
بیوی ج: ان کے مجازی خدا اچھا کماتے ہیں، شہزادہ گلفام تو نہیں لیکن پر کشش ہیں۔ کبھی بیمار پڑ جائیں تو خوب خیال بھی رکھتے ہیں، مگر جناب کو بات چیت سے گویا کوئی بیر ہے۔ اپنے پروفیشن، کرکٹ اور سیاست کے علاوہ ان کے خیال میں دنیا میں کچھ بھی نہیں۔ اوّل تو گھر آ کر ٹی وی دیکھنے کے علاوہ ان جناب کا کوئی مشغلہ نہیں اور اگر کبھی باہر لے بھی جائیں تو مجال ہی کہ منہ سے کچھ پھوٹ پڑیں۔ یہ بھی سوچتی ہیں کیا یہی پیار ہے جس کا خواب انہوں نے دیکھا تھا؟
 
آخری تدوین:
چودھری مصطفی بھائی پیار تو یہی ہے جو آپ نے اپنی تحریر میں بیان فرمایا ،
پیار ایک وقتی جذبات کے ابال کا نام ہے ، جب وہ ابال ٹھنڈا ہوتا ہے تو انسان پرحقیقت عیاں ہوتی ہے جو جذبات کے طوفان کی پرشور موج میں چھپی ہوئی ہوتی ہے مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور اکثر اوقات واپسی کی تمام راہیں بند ہوچکی ہوتی ہیں۔جذبات کے طوفان میں تباہ حال خود کو بےبسی کی تصویر بن جاتے ہیں جو ہم سب کے لیے ایک اہم سبق ہوتا ہے ۔
 
بیوی س: ان کی شادی پھوپھی کے دیور کی ساس کے بھتیجے سے بچپن میں ہی طے پائی تھی۔ ان کو بھی لڑکا پسند تھا۔ ان کی خوبی ہے کہ یہ بہت “صاف گو” ہیں۔ وقت کہ ساتھ ساتھ جب ان کی یہ خوبی نمایاں ہوئی تو ہونے والی ساس نے پس و پیش شروع کر دی، مگر لڑکے نے اصرار جاری رکھا۔ یہ بھی منگیتر کی دلجوئی میں کوئی کسر نہ چھوڑتی تھیں مگر صاف گوئی کے ہاتھوں مجبوراً ہو کر ہونے والی ساس کی خوبیاں بیان کر جاتی تھیں۔ اسی گفتگو کے دوران ایک دن منگیتر نے کہہ دیا کہ ان کی صاف گوئی شاید اس کے ظرف سے کچھ بڑھ کے ہے، لہذا اس رشتے کو رہنے ہی دیا جائے۔ انہوں نے بھی فرمایا کہ آپ اورُ آپ جاب خاندان بھاڑ میں جائیں، ہمیں رشتے بہت ہیں۔ اسی دوران ایک اچھا رشتہ آیا، انہوں نے فورا قبول کیا، چٹ منگنی اور پٹ بیاہ۔ یہ پیا کے دیس سدھاریں، مگر مسئلہ کچھ یہ ہے کہ پچھلے منگیتر اور اس کے خاندان کے ہاتھوں اپنی ناقدری کا رنج بدستور ہے۔ اس رنج کا نشانہ اکثر ان کے زوج محترم اور ساس بنتے ہیں۔ موصوفہ اکثر سوچتی ہیں کہ انہیں ایسے ناقدر منگیتر اورُ ایسے اجڈ شوہر و سسرال کیوں نصیب ہوئے ۔ کیاُ یہی پیار ہے!!!
 
چودھری مصطفی بھائی پیار تو یہی ہے جو آپ نے اپنی تحریر میں بیان فرمایا ،
پیار ایک وقتی جذبات کے ابال کا نام ہے ، جب وہ ابال ٹھنڈا ہوتا ہے تو انسان پرحقیقت عیاں ہوتی ہے جو جذبات کے طوفان کی پرشور موج میں چھپی ہوئی ہوتی ہے مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور اکثر اوقات واپسی کی تمام راہیں بند ہوچکی ہوتی ہیں۔جذبات کے طوفان میں تباہ حال خود کو بےبسی کی تصویر بن جاتے ہیں جو ہم سب کے لیے ایک اہم سبق ہوتا ہے ۔
عدنان بھائی یہاں اختلاف کی جسارت کروں گا، یہ وقتی ابال نہیں۔ یہ وہ کیڑا ہے جو لوگوں کو ساری عمر چین نہیں لینے دیتا۔ عمران خان کی تیسری شادی ہی دیکھ لیں۔
 

فاخر رضا

محفلین
چودھری مصطفی بھائی پیار تو یہی ہے جو آپ نے اپنی تحریر میں بیان فرمایا ،
پیار ایک وقتی جذبات کے ابال کا نام ہے ، جب وہ ابال ٹھنڈا ہوتا ہے تو انسان پرحقیقت عیاں ہوتی ہے جو جذبات کے طوفان کی پرشور موج میں چھپی ہوئی ہوتی ہے مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور اکثر اوقات واپسی کی تمام راہیں بند ہوچکی ہوتی ہیں۔جذبات کے طوفان میں تباہ حال خود کو بےبسی کی تصویر بن جاتے ہیں جو ہم سب کے لیے ایک اہم سبق ہوتا ہے ۔
یہ جو ابال ہے، یہ ٹھنڈا کیسے ہوتا ہے. تفصیل سے بیان کیجئے
 

فاخر رضا

محفلین
کیا یہی پیار ہے، ہاں یہی پیار ہے
ایک بہت ہی پرانا گانا تھا
محبت ہے کیا چیز ہم کو بتاؤ، یہ کس نے شروع کی .. وغیرہ وغیرہ
 

مہر نگار

محفلین
حالانکہ "شادی زدہ" خواتین کو تو آپ نے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے...
(آپکے خیال میں) :))
 
Top