کیا کشتیاں جلائی گئی تھیں؟

عرفان سعید

محفلین
مسلمانوں کی سپین کی فتح میں غیر معمولی نام طارق بن زیاد کا ہے۔ زبان زدِ عام بات یہ ہے کہ اس نے اپنی تمام کشتیاں جلا ڈالی تھیں۔ ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر خالص عقلی بنیادوں پر سوچا جائے تو یہ محض ایک افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک سمجھدار جرنیل جانتے بوجھتے کبھی اپنی فوج کو موت کے حوالے نہیں کرتا۔ غزوہ خندق کی تابندہ مثال ہمارے سامنے ہے۔
آپ کے خیال میں اس واقعے میں کتنی صداقت ہے ؟
 

فلسفی

محفلین
مسلمانوں کی سپین کی فتح میں غیر معمولی نام طارق بن زیاد کا ہے۔ زبان زدِ عام بات یہ ہے کہ اس نے اپنی تمام کشتیاں جلا ڈالی تھیں۔ ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر خالص عقلی بنیادوں پر سوچا جائے تو یہ محض ایک افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک سمجھدار جرنیل جانتے بوجھتے کبھی اپنی فوج کو موت کے حوالے نہیں کرتا۔ غزوہ خندق کی تابندہ مثال ہمارے سامنے ہے۔
آپ کے خیال میں اس واقعے میں کتنی صداقت ہے ؟
اس واقعے کے خلاف کوئی تاریخی حوالہ آپ کے پاس ہے تو شئیر کیجیے۔ منطقی انداز میں تو دلیل حمایت میں بھی دی جاسکتی ہے اور خلاف بھی۔
 
مسلمانوں کی سپین کی فتح میں غیر معمولی نام طارق بن زیاد کا ہے۔ زبان زدِ عام بات یہ ہے کہ اس نے اپنی تمام کشتیاں جلا ڈالی تھیں۔ ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر خالص عقلی بنیادوں پر سوچا جائے تو یہ محض ایک افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک سمجھدار جرنیل جانتے بوجھتے کبھی اپنی فوج کو موت کے حوالے نہیں کرتا۔ غزوہ خندق کی تابندہ مثال ہمارے سامنے ہے۔
آپ کے خیال میں اس واقعے میں کتنی صداقت ہے ؟
یہ واقعہ مشہور ہے لیکن معروف مؤرخین ابن خلدون، طبری وغیرہ کسی نے بیان نہیں کیا۔حتی کہ اندلس کی تاریخ کے بڑے مؤرخ مقری نے فتح اندلس کا واقعہ تفصیل سے ذکر کرنے کے باوجود اس واقعے کا ذکر نہیں کیا۔ ایک امکان یہ بیان کیا گیا ہے کہ شاید یہ مفہوم طارق کے اس مشہور جرأت افروز خطبے سے اخذ کیا گیا ہے جس کا آغاز یوں ہوتا ہے:
این المفر؟ البحر من ورائکم والعدو من امامکم ولیس لکم واللہ الا الصدق والصبر واعلموا انکم فی ہذہ الجزیرۃ اضیع من الایتام علی مأدبۃ اللئام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگو! تمہارے لیے بھاگنے کی جگہ ہی کہاں ہے! تمہارے پیچھے سمندر ہے اور آگے دشمن۔ خدا کی قسم تمہارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ تم خدا کے ساتھ کیے ہوئے عہد میں سچے اترو اور صبر سے کام لو۔ یاد رکھو تم اس جزیرے میں ان یتیموں سے زیادہ بےآسرا ہو جو کسی کنجوس کے دسترخوان پر بیٹھے ہوں۔۔۔۔۔۔۔
دیکھیے (اندلس میں چند روز، مفتی محمد تقی عثمانی، ص 16 تا 20)
 

عرفان سعید

محفلین
اس واقعے کے خلاف کوئی تاریخی حوالہ آپ کے پاس ہے تو شئیر کیجیے۔ منطقی انداز میں تو دلیل حمایت میں بھی دی جاسکتی ہے اور خلاف بھی۔
مجھے برملا اعتراف ہے کہ اس موضوع پر تحقیقی مطالعہ نہیں کر پایا۔ اسی لیے تو لڑی شروع کی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
تاریخی واقعات میں کسی حد تک نہیں، کافی حد تک مبالغہ آرائی ممکن ہے۔ سچ پوچھیں تو فی زمانہ بھی قریب قریب ہر بڑے واقعے کو مختلف پہلوؤں اور تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ ممکن ہے ایک دو کشتیاں جلا دی گئی ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ سبھی کشتیاں جلا دی گئی ہوں اور یہ بھی ممکن ہے ۔۔۔ خیر ۔۔۔! جب خطہ فتح ہو گیا تو پھر کوئی بھی بات معمولی نہ رہی؛ سبھی کچھ غیر معمولی بن گیا۔ طارق بن زیاد ایک دلیر جرنیل تھا؛ اس میں بہرصورت کوئی شبہ نہیں۔
 

عرفان سعید

محفلین
یہ واقعہ مشہور ہے لیکن معروف مؤرخین ابن خلدون، طبری وغیرہ کسی نے بیان نہیں کیا۔حتی کہ اندلس کی تاریخ کے بڑے مؤرخ مقری نے فتح اندلس کا واقعہ تفصیل سے ذکر کرنے کے باوجود اس واقعے کا ذکر نہیں کیا۔ ایک امکان یہ بیان کیا گیا ہے کہ شاید یہ مفہوم طارق کے اس مشہور جرأت افروز خطبے سے اخذ کیا گیا ہے جس کا آغاز یوں ہوتا ہے:
این المفر؟ البحر من ورائکم والعدو من امامکم ولیس لکم واللہ الا الصدق والصبر واعلموا انکم فی ہذہ الجزیرۃ اضیع من الایتام علی مأدبۃ اللئام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگو! تمہارے لیے بھاگنے کی جگہ ہی کہاں ہے! تمہارے پیچھے سمندر ہے اور آگے دشمن۔ خدا کی قسم تمہارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ تم خدا کے ساتھ کیے ہوئے عہد میں سچے اترو اور صبر سے کام لو۔ یاد رکھو تم اس جزیرے میں ان یتیموں سے زیادہ بےآسرا ہو جو کسی کنجوس کے دسترخوان پر بیٹھے ہوں۔۔۔۔۔۔۔
دیکھیے (اندلس میں چند روز، مفتی محمد تقی عثمانی، ص 16 تا 20)
زبردست!
بہت عمدہ معلومات۔ بہت شکریہ
 

جاسم محمد

محفلین
طارق بن زیاد ایک دلیر جرنیل تھا؛ اس میں بہرصورت کوئی شبہ نہیں۔
طارق بن زیاد جیسے اعلیٰ پایہ جرنیل کے یہ شان شاہان نہیں کہ وہ کشتیاں جلانے والاخودکش قدم اُٹھاتے۔ ایک اناڑی سا جرنیل بھی ہار کی صورت میں واپسی کا راستہ کھلا رکھنا جانتا ہے۔ یہ تو پھر طارق بن زیاد تھے۔
 
Top