کیا پاکستان ختم ہو جائے گا؟

خرم

محفلین
فیصل بھیا میں دلائل دے دیتا ہوں۔
اس ملک کو دین کے نام پر حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں مسلمان اسلامی قوانین کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ اسلامی طرز زندگی سے مراد یہ تھا کہ اسلام فرد اور معاشرہ کو جو بھی آزادیاں‌دیتا ہے وہ انہیں حاصل ہوں گی اور یہ ریاست ان سنہری اصولوں کو اپنائے کی جن کی اساس اسلامی کا عظیم الشان نظام زندگی ہو۔ قانون کی بالادستی ہوگی جہاں‌ہر ایک سے بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب مساوی سلوک کیا جائے گا۔ پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان و بنگالی کی بجائے سب پاکستانی بن کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں شانہ بشانہ کام کریں گے۔ قرآن اور سُنت کے احکامات سے اخذ کردہ قوانین نافذ کئے جائیں گے تاکہ دُنیا پر ثابت ہو جائے کہ قرآن اور سُنت ہی وہ واحد ذریعہ ہیں جن سے ایک منصف مزاج، شائستہ اور خوبصورت و متحرک معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔
آج ساٹھ سے زائد برس گزر جانے کے بعد پاکستان کے حُلیئے پر نظر ڈالئے۔ آدھا جسم کٹ چُکا باقی کو کاٹا جا رہا ہے۔ ایک طرف ظالمانی اسلام اسے دن دیہاڑے ذبح کر رہا ہے، دوسری جانب مہاجر قومیت اس کے سر پر ہتھوڑے مار رہی ہے، تیسری طرف پنجاب ہل من مزید کی رٹ لگا رہا ہے اور چوتھی طرف سے بلوچ سردار مزید اقتدار اور مال کی ہوس میں بندوقیں داغ رہے ہیں۔ ہر ایک کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے۔ اسے اقتدار اور مال چاہئے، بلا شرکت غیرے۔ قرآن اور سُنت کے نام پر وہ مذاق ہو رہا ہے جو خوارج بھی نہ کر سکے۔ ذاتی ہوس اور طمع کو اسلام کہہ کر بزور بندوق نہ صرف مارکیٹ کیا جارہا ہے بلکہ مارکیٹ‌بھی کیا جارہا ہے۔ عوام رشوت، اقربا پروری، جھوٹ، کینہ پروری، ملاوٹ اور ہر قسم کی دوسری معاشرتی برائی میں مگن ہے اور روز بروز اس میں ترقی فرما رہی ہے۔ باہمی اخوت، محبت، رواداری، انصاف، عدل، قانون کی بالادستی وغیرہ معاشرہ سے قریباَ ناپید ہیں۔ چند ٹکوں کے عوض ہر اصول، ہر قانون برائے فروخت ہے۔ منصف اب اہلیت کی بنا پر نہیں، پی آر کی بنا پر مقرر کئے جاتے ہیں۔ افواج کی کمان گیدڑوں کے ہاتھ ہے۔ میر جعفر اور میر صادق ایک ڈھونڈو کروڑ ملتے ہیں۔ کیا کبھی تاریخ میں اس قدر تتر بتر، منتشر، ناانصاف، سست و نااہل معاشرہ و ریاست اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو پاکستان اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا؟
 

ساجد

محفلین
پاکستان کے موجودہ جغرافیائی حالت میں برقرار رہنے کا انحصار اس بات پہ ہے کہ ہم ایک قوم کے ناطے مذہب اور قومیت کے نام پہ سیاست کرنے والوں کو کتنی دیر تک فری ہینڈ دینے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ ایک قوم کہلانے کے لئیے جو عناصر درکار ہوتے ہیں ان میں سب سے اہم ہوتا ہے یک جہتی۔ لیکن ہماری حالت شتر بے مہار والی ہے۔ ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے ہوئے ہے۔ ایسے میں حالات کچھ زیادہ خوش کن نہیں کہے جا سکتے بس دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
السلام وعلیکم خرم صاحب۔ آپ کا سوال اور دلائل دونوں کسی بھی محب وطن پاکستانی کے ضمیر کو جھجوڑنے کیلیئے کافی ہیں۔۔۔۔

لیکن!! میرا سوال ہےجس آٹھ لاکھ کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے خطے کو ہم پاکستان کہتے ہیں اور سترہ کروڑ آبادی پرمشتمل لوگوں کو پاکستانی قوم، اگر اس خطے اور اس قوم کا نام پاکستان کے بجائے کچھ اور رکھ دیا جاتا یا اب اس کا نام تبدیل کردیتے ہیں تو کیا جو مسائل آپ نے گنوائے ہیں وہ ختم ہوجائیں؟ کیا پھریہ ملک دولخت نہیں ہوتا اور باقی ماندہ کوختم نہیں کیا جائے گا ؟ کیا ظالمان اپنے نظریے سے دستبردارہوجائیں گے؟ کیا مہاجر قومیت کے نام پر غنڈہ راج ختم ہوجائےگا؟ کیا صوبائی جھگڑے ختم ہوجائیں گے؟ کیا بلوچ سردار پہاڑوں سے اتر کر بلوچ پنجابی بھائی بھائی کے نعرے لگائیں گے؟ کیا پھر خودغرض فوج- بیوروکریٹ مافیا اسٹیبلشمنٹ خودغرضی اور ہوس پرستی سے باز آجائے گی؟ کیا سیاستدانوں ملک کو چلانے کے قابل ہوجائیں گے؟ مذہب کے نام پر گلے کٹنے بند ہوجائیں گے؟ کیا عوام رشوت دینا اور لینا بند کردےگی؟ اور تمام برائیوں سے توبہ کرکے نیک اور صالح بن کر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے جذبے سے اعتدال پسند ہوجائے گی؟ کیا پھر عوام بغیر کسی لحاظ کے ہر قیمت پر قانون کی بالادستی کرے گی؟ کیا پھر عوام اپنا انفرادی نفع نقصان اجتعماعی نفع نقصان پر قربان کردے گی؟ اگر ایسا ہے تو آج، ابھی اسی لمحے پاکستان ختم ہوجانا چاہیےاور پھر واقعی کوئی وجہ، کوئی دلیل نہیں ہے پاکستان کو قائم رکھنے کی۔

لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو میرے بھائی پاکستان نام کے ایک ملک کو قائم رہنےیا ختم ہونےسے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ایسا نہیں ہے مسلہ یہ نہیں ہےبالکہ اصل مسلہ ہےسترہ کروڑ آبادی پرمشتمل لوگ، جو جنوبی ایشیا میں آٹھ لاکھ کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ایک زمین کے ٹکڑے پر رہتے ہیں جسکو انہوں نے پاکستان نام دیا ہے اور جسکوخومخواہ ایک خیرت مند، بہادر، ذہین، باصلاحیت، طاقتور وغیرہ وغیرہ وغیرہ "قوم" ہونے کا دعوٰی "یا خوش فہمی بھی کہہ سکتے ہیں" ہے۔

کیاگذشتہ چالیس سالوں میں مشرقی پاکستان کا نام تبدیل کرکے بنگلہ دیش رکھ دینے سے عام بنگالی کی زندگی میں کوئی فرق آیا؟ کیا آج اگرشمالی کوریا کا نام تبدیل کرکے جنوبی کوریا رکھ دیا جائے تو عام شمالی کورین کے مسائل ختم ہوجائیں گے؟ ایسی اور بے شمار مثالیں جن سے ثابت ہوتا کہ ایک خطے کو یا ایک ہجوم کا نام تبدیل کر دینے سے اُس ہجوم کے حالات، اُس کی عادات و اطوار، اس کی ذہنی و جسمانی طاقت اور صلاحیت وغیرہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اگرفرق پڑتا ہے تواپنی خرابیوں اور کمزوریوں کی صحیح تشحیص سے اور پھر ان خرابیوں اور کمزوریوں کوختم کرنے کےلیے انقلابی اقدامات سے۔

کسی کے پاس کوئی وجہ نہیں؟
تو جس چیز کی بقاء کی کوئی دلیل ہی نہیں وہ باقی کیونکر رہے؟

فیصل بھیا میں دلائل دے دیتا ہوں۔
اس ملک کو دین کے نام پر حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں مسلمان اسلامی قوانین کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ اسلامی طرز زندگی سے مراد یہ تھا کہ اسلام فرد اور معاشرہ کو جو بھی آزادیاں‌دیتا ہے وہ انہیں حاصل ہوں گی اور یہ ریاست ان سنہری اصولوں کو اپنائے کی جن کی اساس اسلامی کا عظیم الشان نظام زندگی ہو۔ قانون کی بالادستی ہوگی جہاں‌ہر ایک سے بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب مساوی سلوک کیا جائے گا۔ پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان و بنگالی کی بجائے سب پاکستانی بن کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں شانہ بشانہ کام کریں گے۔ قرآن اور سُنت کے احکامات سے اخذ کردہ قوانین نافذ کئے جائیں گے تاکہ دُنیا پر ثابت ہو جائے کہ قرآن اور سُنت ہی وہ واحد ذریعہ ہیں جن سے ایک منصف مزاج، شائستہ اور خوبصورت و متحرک معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔
آج ساٹھ سے زائد برس گزر جانے کے بعد پاکستان کے حُلیئے پر نظر ڈالئے۔ آدھا جسم کٹ چُکا باقی کو کاٹا جا رہا ہے۔ ایک طرف ظالمانی اسلام اسے دن دیہاڑے ذبح کر رہا ہے، دوسری جانب مہاجر قومیت اس کے سر پر ہتھوڑے مار رہی ہے، تیسری طرف پنجاب ہل من مزید کی رٹ لگا رہا ہے اور چوتھی طرف سے بلوچ سردار مزید اقتدار اور مال کی ہوس میں بندوقیں داغ رہے ہیں۔ ہر ایک کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے۔ اسے اقتدار اور مال چاہئے، بلا شرکت غیرے۔ قرآن اور سُنت کے نام پر وہ مذاق ہو رہا ہے جو خوارج بھی نہ کر سکے۔ ذاتی ہوس اور طمع کو اسلام کہہ کر بزور بندوق نہ صرف مارکیٹ کیا جارہا ہے بلکہ مارکیٹ‌بھی کیا جارہا ہے۔ عوام رشوت، اقربا پروری، جھوٹ، کینہ پروری، ملاوٹ اور ہر قسم کی دوسری معاشرتی برائی میں مگن ہے اور روز بروز اس میں ترقی فرما رہی ہے۔ باہمی اخوت، محبت، رواداری، انصاف، عدل، قانون کی بالادستی وغیرہ معاشرہ سے قریباَ ناپید ہیں۔ چند ٹکوں کے عوض ہر اصول، ہر قانون برائے فروخت ہے۔ منصف اب اہلیت کی بنا پر نہیں، پی آر کی بنا پر مقرر کئے جاتے ہیں۔ افواج کی کمان گیدڑوں کے ہاتھ ہے۔ میر جعفر اور میر صادق ایک ڈھونڈو کروڑ ملتے ہیں۔ کیا کبھی تاریخ میں اس قدر تتر بتر، منتشر، ناانصاف، سست و نااہل معاشرہ و ریاست اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو پاکستان اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا؟
 

خرم

محفلین
خورشید بھیا بہت شکریہ جواب دینے کا۔ میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کیا ان حرکتوں کے ہوتے ہوئے ہم اپنی آزادی اور اپنی شناخت برقرار رکھ سکتے ہیں لفظ پاکستان جن کا اظہاریہ ہے۔
 

زینب

محفلین
افوووووووو کچھ نہپین ہو گا پاکستان کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ نے قائم رکھنے کے لیے ہی بنایا ہے۔۔کتنے بڑے بڑے طوفانوں سے نکل آئے ہم اب بھی کنارے لگ جایئں گے بھائی لوگ ہلکان نا ہوں بس اپنے اپنے شعبے میں دل لگا کر محب وطن ہو کر کام کریں انشاللہ حالت پھر سے ہمارے غلام ہوں گے
 

arifkarim

معطل
جب ریاست کے اندر بہت ساری ریاستیں قائم ہو جائیں تو ملک کو ٹوٹنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا!
 

زینب

محفلین
خرم پا جی نا امیدی میں بھی امید کی باتیں کرنی چاہیں۔۔۔پھر سے مراد یہ کہ مشرف کے آنےس ے پہلے پاکستان کے جیسے حالات تھے ویسے ہو جایئں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ان شااللہ
 
خرم کی بات بالکل درست ہے ہمیں اس سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے
کیا خیال ہے ایک مشورہ کرنا چاہتا ہوں آپ سب سے کہ پاکستان کو کیسے ان حالات سے نکالا جائے ۔ اس سلسلے میں ہم کیا کیا کردار ادا کر سکتے ہیں اور کیا کیا طریقہ اختیار کیا جائے کہ پاکستان نہ صرف محفوظ ہو بلکہ پرامن۔ اور ترقی پذیر ملک بن سکے ۔ ایسا ملک جہاں ہر وقت رونا دھونا نہ ہو ۔ آپ کی رائے اس سلسلے میں بہت صائب ہو گی
 

گرائیں

محفلین
آپ مجھے یاسیت پسند کہ لیں مگر، حالات سلجھنے کی بجائے بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ رؤف کلاسرہ کی رپورٹ پڑھی کسی نے آج کے نیوز میں؟
 

خرم

محفلین
زینب بہنا مشرف کے آنے سے پہلے کونسا ملک میں دودھ کی ندیاں بہہ رہی تھیں؟ یہ جو کچھ ہے یہ آٹھ کا نہیں ساٹھ برسوں کا گند ہے۔ یہی بات تو سب سے پہلے سمجھنے اور ماننے کی ہے پیاری بہنا۔ دیکھیں اب یہ شریفے، انہوں نے آج تک کبھی ظالمان کے خلاف کوئی بیان دیا ہے؟ چلو آپ ہی بتا دو اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو؟

فیصل بھیا، سب سے اہم بات ہے عوام میں شعور پیدا کرنا کہ ووٹ اصول کی بنیاد پر دئے جائیں نا کہ ذات برادری، اور کسی مرے ہوئے سیاسی لیڈر یا کسی جیتے شعبدہ باز کی عقیدت میں۔ ارے بھئی مرنے والا گیا، آپ زندہ ہو، ملک کو مردے نہیں چلاتے، زندہ لوگوں نے حکومت کرنی ہے اس پر۔ اسی طرح جو لوگ بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں، منافقت کا اعلٰی نمونہ ہیں، انہیں‌کیوں‌ووٹ دیتے ہو؟ یہ بات سمجھانا ضروری ہے کہ جو کچھ بھی آپ کرو گے اس کا پھل آپ کے سامنے آئے گا۔ کہ یہ لاقانونیت، یہ رشوت ستانی، یہ اقرباء پروری اس سب کے ذمہ دار ہم ہیں کہ ہم نے ایسے ہی لوگوں کو اپنا رہنما کیا ہوا ہے۔ اگر ان سب سے جان چھڑانی ہے تو ان عادات بد کو خود چھوڑنا ہوگا اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا ہوگا جو ان آلائشوں‌سے پاک ہوں وگرنہ انجام کچھ اچھا نہ ہوگا۔
 

arifkarim

معطل
اگر ان سب سے جان چھڑانی ہے تو ان عادات بد کو خود چھوڑنا ہوگا اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا ہوگا جو ان آلائشوں‌سے پاک ہوں وگرنہ انجام کچھ اچھا نہ ہوگا۔

18 کروڑ میں سے یہ چنیدہ "نیک" احباب مل جائیں تو مجھے ضرور انفارم کیجئے گا:(
 

خورشیدآزاد

محفلین
یہی تو رونا ہے خرم بھائی کہ عوام میں شعور لیکچر دینے سےپیدا نہیں ہوتا۔ ورنہ انصاف کی بات کی جائے تو مشرف دور کے پہلے انتخابات میں مشرف نے بھی پوری دیانتداری سے گھنٹوں اس عوام کو لیکچر دیئے ہیں کہ کن لوگوں کو ووٹ دینا چاہیں۔ لیکن عوام نے اسکی ایک نہیں سنی اور پھر انہی چوہدریوں، غنڈوں، لغاریوں کو ووٹ دیئے جن کا علاقائی، ضلعی اور دیہاتی سیاست میں اثرورسوخ تھا۔

بالکہ یہ شعور اچھی تعلیم سے آتا ہے جس کے لیے دہائیوں کی ضرورت ہے، وہ بھی اگر آپ بجٹ میں تعلیم کو سرفہرست رکھیں تو۔ اوراس کے ساتھ جو تعلیم سے بھی زیادہ ضروری ہےایک آزادوخودمختارماحول والے معاشرے اور سماج میں جہاں کمزور سے کمزور شخص کو بھی سچ بولنے اور سچ کا ساتھ دینے میں کوئی خوف اور ہچکچاہٹ نہ ہو۔

یا پھر جو لوگ ان بھیڑبکریوں کی مانند قوم کی تقدیر بدلنا چاہتا ہے تو اسے خود میدان میں آکر ان کی حفاظت کرنی ہوگی اور ان کو دکھانا، اور ثابت کرنا ہوگا کہ وہ جوکہہ رہاہے وہ صحیح ہے۔ ورنہ یہ عوام مسلسل صرف ان لوگوں کو ہی ووٹ دے کر برسراقتدار لائے گی جو ان کے انفرادی، مثلاً تھانہ کچہری وغیرہ قسم کے مسائل قانون کو بالائے طاق رکھ کر ایک حکم سے حل کرسکیں۔
 

arifkarim

معطل
بالکہ یہ شعور اچھی تعلیم سے آتا ہے جس کے لیے دہائیوں کی ضرورت ہے، وہ بھی اگر آپ بجٹ میں تعلیم کو سرفہرست رکھیں تو۔ اوراس کے ساتھ جو تعلیم سے بھی زیادہ ضروری ہےایک آزادوخودمختارماحول والے معاشرے اور سماج میں جہاں کمزور سے کمزور شخص کو بھی سچ بولنے اور سچ کا ساتھ دینے میں کوئی خوف اور ہچکچاہٹ نہ ہو۔

محفل پر ہی ایک اور دھاگے پر ہماری ڈسکشن کی تان اسی تعلیم پر آکر ٹوٹی تھی۔ ہم بھی اسی نتیجہ پر پہنچے تھے کہ پہلے عوام میں‌یکساں تعلیم کو فروغ دینا ہوگا اور اسکے بعد ایک کامیاب جمہوریت کی طرف سفر کرنا ہوگا۔ کیونکہ جب انٹرسٹس میں اینٹ کتے کی لڑائی ہو تو یکجہتی کیا خاک آئے گی!
 

خرم

محفلین
بالکل درست فرمایا خورشید بھائی آپ نے اور عارف آپ نے بھی۔ بات صرف یہ ہے کہ جب تک کچھ اور نہیں کر سکتے، تب تک یہ تو کیا جائے کہ ہر جگہ ہر فورم ہر موقع پر لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کروائی جائے۔ وقت تو لگے گا لیکن انشاء اللہ اسی طرح سوچوں کے بدلنے کا آغاز ہوتا ہے۔
 
Top