کیا معاشرہ کو چلانے کیلئے حکمران ضروری ہیں؟

ظفری

لائبریرین
عارف تمہاری اکثر باتیں ہوائی ہوتیں ہیں ۔ تقریر کچھ اور ہے اور تم نے اس کو عنوان کیا دیدیا۔ معاشرہ ایک ادارہ ہے ۔ جہاں منتظمین کا ہونا ضروری ہے ۔ وہ تمام فیصلے معاشرے کی بقا اور ترقی کے لیئے کرتے ہیں ۔ معاشرے میں بھی بہت سے ذیلی ادارے ہوتے ہیں ۔ جیسے محکمہ انصاف ، پولیس ، فوج ، وغیرہ وغیرہ ۔ ان کے لیئے کسی سربراہ کا ہونا ضروری ہے ۔ اور سربراہ ظاہر ہے حکمران ہی ہوتا ہے ۔ اگر یہ حکمران نہ ہوں تو معاشرہ مچھلی بازار بن جائے جہاں جس کو جو جی چاہے کرتا پھرے ۔ ( اب خدا کے لیئے اس جنرل کلیئے کو پاکستان کے حکمرانوں کیساتھ نہ جوڑ دینا )
 

فاتح

لائبریرین
گفتار کے غازیوں کی لفاظی
تقریر لکھنے والے کو معلوم تھا کہ مہمانان خصوصی کون ہوں گے اور انھی مہمانان خصوصی کے مخالفان خصوصی کے دور کے واقعات کو لفاظی کا لبادہ اوڑھا کر انھیں خوش کر کے تقریر کے مقابلے میں پہلا انعام جیتنے کی کوشش کی ہے۔:cool:
 

dxbgraphics

محفلین
گفتار کے غازیوں کی لفاظی
تقریر لکھنے والے کو معلوم تھا کہ مہمانان خصوصی کون ہوں گے اور انھی مہمانان خصوصی کے مخالفان خصوصی کے دور کے واقعات کو لفاظی کا لبادہ اوڑھا کر انھیں خوش کر کے تقریر کے مقابلے میں پہلا انعام جیتنے کی کوشش کی ہے۔:cool:

فاتح بھائی معذرت کیساتھ۔ چاہے لفاظی بھی ہے لیکن ایک تلخ حقیقت ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
عارف تمہاری اکثر باتیں ہوائی ہوتیں ہیں ۔ تقریر کچھ اور ہے اور تم نے اس کو عنوان کیا دیدیا۔ معاشرہ ایک ادارہ ہے ۔ جہاں منتظمین کا ہونا ضروری ہے ۔ وہ تمام فیصلے معاشرے کی بقا اور ترقی کے لیئے کرتے ہیں ۔ معاشرے میں بھی بہت سے ذیلی ادارے ہوتے ہیں ۔ جیسے محکمہ انصاف ، پولیس ، فوج ، وغیرہ وغیرہ ۔ ان کے لیئے کسی سربراہ کا ہونا ضروری ہے ۔ اور سربراہ ظاہر ہے حکمران ہی ہوتا ہے ۔ اگر یہ حکمران نہ ہوں تو معاشرہ مچھلی بازار بن جائے جہاں جس کو جو جی چاہے کرتا پھرے ۔ ( اب خدا کے لیئے اس جنرل کلیئے کو پاکستان کے حکمرانوں کیساتھ نہ جوڑ دینا )

ظفر ی بھائی یہاں پر تو المیہ یہ ہے کہ مچھلی منڈی میں بھی قواعد و ضوابط ہونگے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے۔ اور صورت حال مچھلی منڈی سے بھی بدتر ہے۔ کروڑوں لوٹنے والے 248 کی چادر میں بچے ہیں جبکہ عام آدمی کو ایک تھانے کے ایس ایچ او سے انصاف کا تقاضا کرنے پر حوالات کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔
جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت کا ریموٹ کنٹرول مغرب میں ہے۔ جب یہ ریموٹ کنٹرول پاکستان میں آگیا تب ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت پھلنا پھولنا شروع ہوجائے گی۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
ماشاءاللہ کیا کہنے ہیں تبصرہ کرنے والوں کے، مگر صاحب آپ اسے لفاظی کہیں یا ہوائی باتیں کہیں مگر یہ سب ہے حقیقت اور حقیقت تلخ ہوتی ہے اور آنکھیں بند کر لینے سے بدل نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔! اس تقریر کا ایک ایک لفظ ایک نشتر ہے جو کسی بھی حساس دل کو تڑپانے کے کے لیے کافی ہے اور ایک ایک حرف مردہ ضمیروں کے دلوں پر برچھی کا نوکدار وار ہے لیکن ہمارے حکمران تو حکمران، عوام بھی اسے لفاظی کہہ کر جان چھڑا لیں گے کہ کیا کیا جائے یہ نشتر، یہ برچھیاں مردہ دلوں کو تو شاید گھائل کر ہی لیں مگر ' پتھروں ' پر بے اثر ہیں کہ بے حسی اور ذاتی مفاد کا اژدھا اس قوم کو نگل چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔! عارف بھائی شکریہ اتنی اچھی تقریر شئیر کرنے کا، مگر اس کا عنوان آپ نے تھوڑا غلط رکھا ہے۔ معاشرے کو چلانے کے لیے حکمران تو بلا شبہ ضروری ہیں مگر وہ جن میں فاروق اعظم سلام اللہ علیہ کے کردار کی جھلک ہو، تبھی جا کر کسی ہاری کی بیٹی کی عزت محفوظ رہ سکتی ہے۔ اس کا عنوان تو کچھ یوں ہونا چاہیے تھا کہ 'بھینس کے آگے بین' یا پھر ' مردہ ضمیروں کا جمگھٹا اور ضرب حق' یا پھر ' نقارخانے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!'
 
صرف تقریروں سے انقلاب نہپیں آیا کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلاب کے لئے میدان عمل مہں آنا پڑتا ہے
پاکستان کے تمام مسائل کا حل عوامی انقلاب میں ہے ۔
 

arifkarim

معطل
عارف بھائی شکریہ اتنی اچھی تقریر شئیر کرنے کا، مگر اس کا عنوان آپ نے تھوڑا غلط رکھا ہے۔ معاشرے کو چلانے کے لیے حکمران تو بلا شبہ ضروری ہیں مگر وہ جن میں فاروق اعظم سلام اللہ علیہ کے کردار کی جھلک ہو، تبھی جا کر کسی ہاری کی بیٹی کی عزت محفوظ رہ سکتی ہے۔
شکریہ۔ آپکا یہ تبصرہ خوب ہے۔ لیکن ظفری بھائی کے جمہوری نظام میں‌اس کی کوئی حیثیت نہیں‌کیونکہ "اکثریت" انکے ساتھ ہے! :grin:
باقی جہاں تک عنوان کا سوال ہے تو وہ میں نے گزشتہ وموجودہ زمانہ کے بہترین حکمرانوں کے قتال کو دیکھتے ہوئے کیا تھا۔ اصل میں چکر یہ ہوتا ہے کہ ہر حکمران یا تو برا ہوتا ہے یا اچھا۔ جو برا ہوتا ہے جیسے چنگیز، ہٹلر، اسٹالین؛ یہ سب مرنے سے پہلے اپنے ساتھ ہزاروں، کروڑوں بے گناہوں کو مار کر مرتے ہیں۔ اور جو اچھے حکمران ہوتے ہیں‌جیسے: حضرت عمر فاروقؓ، گاندھی، صدر کینیڈی ؛ ان سب کو دشمن مار دیتے ہیں۔ :grin:
اس لحاظ سے میرا عنوان بالکل درست ہے کہ انسانی معاشرہ کسی حاکم کے زیر سایہ زیادہ عرصہ چل ہی نہیں‌سکتا جبتک اسمیں پراپیگنڈا کی آمیزش نہ ہو۔ جبتک پراپیگنڈا جا ری رہے، اثر کرتا رہے، حاکم حکومت میں‌رہتا ہے۔ اسی وباء سے بچنے کیلئے مغرب نے اپنا چار سالہ جمہوری نظام متعارف کروایا تاکہ بھولے بھالے لوگ یہی سمجھیں‌کہ حکمران ’’انکے‘‘ ووٹ سے ۴ سالوں کیلئے منتخب ہوتے ہیں، اور ۴ سالوں بعد بالکل اسی قسم کے اور لوگ ان پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ مطلب ایجنڈا ایک ہی ہے اور چہرے بدل جاتے ہیں۔ جبکہ پرانے وقتوں میں حکمران کے خاتمے کیساتھ ہی ایجنڈا بھی بدل جاتا تھا۔ جو کہ اب نہیں ہے۔ کیسا؟ :grin:
 

سویدا

محفلین
بہت اعلی !
عقلی دلائل کی واقعی کوئی انتہا نہیں‌ہے
بہت خوب جواب دیا آپ نے ، ویسے اتنے منطقی اور فلسفی دلائل کے بعد آپ کی جانب سے اتنی جذباتی اور پرانے گھسے پٹے انداز کی تقریر!
ویسے اس تقریر کو دیکھ کر مجھے کچھ پرانے مذہبی قائدین یاد آگئے اس لڑکی نے لگتا ہے ان کو کاپی کرنے کی کوشش کی ہے
 

dxbgraphics

محفلین
صرف تقریروں سے انقلاب نہپیں آیا کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلاب کے لئے میدان عمل مہں آنا پڑتا ہے
پاکستان کے تمام مسائل کا حل عوامی انقلاب میں ہے ۔

تو پھر الطاف حسین کب پاکستان آکر میدان عمل میں آرہے ہیں :grin:
کراچی والے تو ٹیلیفون پر تقریریں سن سن کر انقلاب کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں
 

arifkarim

معطل
بہت خوب جواب دیا آپ نے ، ویسے اتنے منطقی اور فلسفی دلائل کے بعد آپ کی جانب سے اتنی جذباتی اور پرانے گھسے پٹے انداز کی تقریر!
انداز تقریر کی بجائے مضمون تقریر کو سمجھیں۔ ہمارا پورا معاشرہ ایک فیشن بن چکا ہے۔ ہر چیز کو سطحی انداز میں‌دیکھا جاتا ہے جسے انگریزی میں cool ہونا کہتے ہیں۔ مطلب جو شخص اس فہرست میں نہ ہوگا، وہ لاکھ چیختا چلاتا رہے۔ اسکی سنی نہ جائے گی۔
 

arifkarim

معطل
تو پھر الطاف حسین کب پاکستان آکر میدان عمل میں آرہے ہیں :grin:
کراچی والے تو ٹیلیفون پر تقریریں سن سن کر انقلاب کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں

الطاف بھائی ٹیلیوفون کے انقلاب کو ظاہر کرنے کیلئے وہ تقریریں کرتے ہیں جو کہ ۱۸۷۶ میں ایجاد ہوا تھا!
 

خوشی

محفلین
اس کا مطلب ھے کہ مجھے سپیکر چیک کرنے چاھیئے شکریہ عارف جی جواب جلد دینے کا اور مناسب جواب بھی
 
Top