کیا قصور چیف جسٹس کا ہے

اسلام آباد میں’ کروڑوں جانثاروں‘ کے سامنے صدر پرویز مشرف کی اس بات سے میں سو فیصد متفق ہوں کہ کراچی میں جو کچھ ہوا وہ عوامی طاقت کا مظاہرہ تھا۔
اگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کراچی جانے کی ضد نہ کرتے تو پینتیس لاشیں نہ گرتیں۔ بلکہ اب تو یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ اگر جسٹس چودھری نو مارچ کو جنرلوں کے روبرو بات مان کر خاموشی سے گھر چلے جاتے تو بکھیڑا پیدا ہی نہ ہوتا۔
نو مارچ تک اچھی خاصی حکومت چل رہی تھی، ترقیاتی کام پوری رفتار سے جاری تھے، نجکاری بہترین انداز میں ہو رہی تھی، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں دہشتگردی کا موثر طریقے سے قلع قمع ہو رہا تھا اور میڈیا اعتدال پسندی اور سرکاری روشن خیالی کے گیت گا رہا تھا۔ یہ جسٹس چودھری ہی ہیں جنہوں نے رنگ کو بھنگ کر دیا۔ کیا ملا انہیں اپنے بال کھنچوا کر اور ملک کی بدنامی کروا کے۔

ایسے ہی الیکشن بھی ہوں گے
اب مجھے یقین ہوچلا ہے کہ حکومت نے سنیچر کو کراچی میں جس نظم و ضبط و صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اسی نظم و ضبط اور صبر وتحمل کے ساتھ وہ شفاف عام انتخابات بھی منعقد کرائےگی۔


چیف جسٹس اور ان کے ساتھی قانون داں یہ سمجھنے لگے کہ پانچ مقامات پر پرامن خطاب کر کے اور اسلام آباد سے لاہور تک کا ساڑھے چار گھنٹے کا راستہ پچیس گھنٹے میں طے کر کے گویا انہوں نے ملک فتح کر لیا ہے اور کراچی جانا بھی گویا پکنک کی طرح ہوگا۔
لیکن شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ حکومت بہرحال حکومت ہوتی ہے۔ آپ اس کی رٹ چاہے طاقت سے چیلنج کریں یا پرامن طریقے سے بات ایک ہی ہے۔
لیکن اگر میں صدر مشرف کی یہ بات مان رہا ہوں کہ کراچی میں سنیچر کو جو کچھ ہوا جسٹس چودھری کی ضد کے سبب ہوا تو پھر مجھے یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ ایئرپورٹ سے سندھ ہائی کورٹ کے پچیس کلومیٹر کے راستے کو جس طرح جگہ جگہ کنٹینروں، ٹرالرز اور بسوں کو آڑا ترچھا کر کے بند کیا گیا وہ بھی ایک رات پہلے چیف جسٹس کے حامیوں نے کیا اور ذمہ داری حکومت پر ڈال دی۔ انہی کے مسلح حامیوں نے ہائی کورٹ کی عمارت کو گھیرے میں لیا اور باہر سے کراچی آنے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی تاکہ وکلاء اور سول سوسائٹی والے یہ سمجھیں کہ یہ سب حکومت کرا رہی ہے یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ہی بار روم کے لیڈیز ونگ کو بھی آگ لگادی اور اپنے ہی ہم پیشہ لوگوں کو مارا پیٹا۔

’اگر جسٹس مان جاتے‘
اگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کراچی جانے کی ضد نہ کرتے تو پینتیس لاشیں نہ گرتیں۔ بلکہ اب تو یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ اگر جسٹس چودھری نو مارچ کو جنرلوں کے روبرو بات مان کر خاموشی سے گھر چلے جاتے تو بکھیڑا پیدا ہی نہ ہوتا۔


اور پھر آج ٹی وی چینل کی عمارت کو بھی چھ گھنٹے گھیرے میں لے کر جدید ہتھیاروں سے نہ صرف گولیاں برسائیں بلکہ کمپاؤنڈ میں کھڑی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی۔ یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ یہ چینل چیف جسٹس کے مسلح حامیوں کے کرتوتوں کی مسلسل کوریج کر رہا تھا۔
یہ بات قطعاً درست نہیں کہ حکومت نے کسی کو بھی ریلی یا جلسے سے روکا۔ چیف جسٹس کے حامی دراصل ریلی نکالنا ہی نہیں چاہتے تھے۔اگر کوئی سرکاری رکاوٹ ہوتی تو بھلا ایم کیو ایم کیسے ریلی نکال سکتی۔
حکومت نے تو اتنی احتیاط برتی کہ پندرہ ہزار پولیس والے تعینات کرنے کے باوجود اس نے لوگوں کو ہلاک کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے والے چیف جسٹس کے کسی ایک مسلح حامی کو بھی حراست میں نہیں لیا مبادا توہینِ عدالت ہو جائے۔
اب مجھے یقین ہوچلا ہے کہ حکومت نے سنیچر کو کراچی میں جس نظم و ضبط و صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اسی نظم و ضبط اور صبر وتحمل کے ساتھ وہ شفاف عام انتخابات بھی منعقد کرائے گی۔

بحوالہ: بی بی سی اردو از وسعت اللہ خان
 
میں آپ کی رائے سے پوری طرح متفق ہوں۔

اس کے علاوہ جو جو آپ نے دیکھا یا آپ کے جاننے والوں نے بتایا وہ بھی تحریر کریں تاکہ اندازہ ہو کہ کتنا کچھ ہوا اور کتنا کچھ لوگوں کو پتہ ہے۔
 

حجاب

محفلین
محب آپ نے جو لکھا ہے مطلب یہ کہ قصور چیف جسٹس کا ہوا آپکے خیال میں؟؟؟؟؟؟؟؟ ایک بندہ جس کودعوت دے کے ہائی کورٹ بلایا گیا تھا اگر وہ آکر اپنے خیالات کا اظہار اپنے حق کے لیئے کر لیتا کچھ کہہ کے تو کیا فرق پڑتا؟؟؟؟؟؟ آخر اور بھی شہروں میں تو چیف صاحب بول ہی چکے ہیں نہ تو کراچی میں کیوں نہیں :? میری سمجھ میں نہیں آتا عوام کیوں کود پڑتی ہے سب معاملوں میں ، پٹتی بھی ہے پھر بھی سکون نہیں کراچی کی عوام کو۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محب،

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ احتجاج کرنے کا حق جمہوریت میں سب کو حاصل ہے۔

مگر ایک بنیادی نکتہ ہے جس پر میڈیا میں کوئی تنقید ہوئی اور نہ علمی حلقوں میں۔۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ کیا چیف جسٹس صاحب کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ ایک آئینی ایشو کو یوں سیاسی ایشو بنا دیں؟

کوئی مانے یا نہ مانے، مگر اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں، بشمول مذھبی طبقوں کے اس مسئلے کو حکومت کے خلاف سیاسی سطح پر مسلسل انتہائی ہٹدھرمی سے مسلسل استعمال کیے جا رہے ہیں اور جس عدلیہ کا نام لے رہے ہیں، اس کھیل میں سب سے زیادہ انہوں نے اسی کے ساتھ کھیلا ہے۔

حتی کہ اب تو وکلاء بھی دبے الفاط میں اس مسئلے پر شامل سیاسی جماعتوں سے اپیل کر رہے ہیں۔

یہ وہ مسئلہ ہے جس پر میڈیا کچھ نہیں لکھتا اور توپوں کا سارا رخ حکومت کی طرف رکھنا مسائل کا حل نہیں۔

اور موجودہ مسئلے کے اسی سیاسی رنگ نے ایم کیو ایم کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ اتنا سخت ردعمل ظاہر کرے (اور بظاہر جو صدر صاحب کا مسئلہ تھا اس میں الجھ پڑے)۔

ایمکیو ایم کا بنیادی مطالبہ جو مجھے نظر آیا وہ یہ ہی تھا کہ عدلیہ کا نام لے کر یہ سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو سیاسی رنگ دے رہی ہیں اور فل کورٹ کی تشکیل کے بعد یہ سیاسی حربے استعمال کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی تھی۔

تو ایم کیو ایم کے اس بنیادی مطالبے پر تو میں ان سے متفق ہوں، مگر انکے طریقہ کار سے ہمیشہ سے مجھے اختلاف رہا ہے۔

ایم کیو ایم کا پس منظر ایک مسلح جماعت کا ہے۔ مگر یہ بتائیں کہ کون سی پاکستانی جماعت ہے جو طاقت کا استعمال نہیں کرنے کا دعوی رکھتی ہے؟

اور کراچی میں ایم کیو ایم کا مسلح ہونا ایک ردعمل تھا کیونکہ جماعت اور پیپلز پارٹی دونوں مسلح تھیں اور کالجز یونیورسٹیز وغیرہ میں ہر جگہ شروع میں انھوں نے اسلحہ سے ایم کیو ایم کا راستہ روکا۔ پھر اس وقت کی حکومتی مشینری نے بھی خصوصی طور پر محترمہ کے دور میں کافی اسلحہ کا استعمال کیا۔

آج بھی لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کا ماحول مجھے یاد ہے (میری ممانی پنجاب یونیورسٹی میں جاب کرتی ہیں)

تو پنجاب یونیورسٹی میں آج بھی آپ کو جماعت شاید اسلحہ کے ساتھ نظر آ جائے اور علاقے میں اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے دوسری جماعت کو بمشکل ہی سیاسی جلسے کرنے دیتی ہے اور ان کے کیمپ اکھاڑ دیتی ہے۔

بہرحال یہ لمبے مسائل ہیں اور ایم کیو ایم کے خلاف باقی ملک میں انتہائی نفرت ہے۔ اسکا پتہ مجھے ہر میڈیا سے ، بلکہ سب سے بڑھ کر لاہور میں موجود اپنے خاندان والوں کے خیالات جان کر ہی ہو جاتا ہے۔

بہرحال، ایم کیو ایم کا یہ مسلح رویہ بہت غلط ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ میں چیف جسٹس اور بقیہ سیاسی و مذھبی جماعتوں کی بھی مذمت کرتی ہوں جو اس آئینی مسئلے کو مسلسل سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔
 
حجاب نے کہا:
محب آپ نے جو لکھا ہے مطلب یہ کہ قصور چیف جسٹس کا ہوا آپکے خیال میں؟؟؟؟؟؟؟؟ ایک بندہ جس کودعوت دے کے ہائی کورٹ بلایا گیا تھا اگر وہ آکر اپنے خیالات کا اظہار اپنے حق کے لیئے کر لیتا کچھ کہہ کے تو کیا فرق پڑتا؟؟؟؟؟؟ آخر اور بھی شہروں میں تو چیف صاحب بول ہی چکے ہیں نہ تو کراچی میں کیوں نہیں :? میری سمجھ میں نہیں آتا عوام کیوں کود پڑتی ہے سب معاملوں میں ، پٹتی بھی ہے پھر بھی سکون نہیں کراچی کی عوام کو۔

میں نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ قصور چیف جسٹس کا ہے بلکہ میں نے تو سوال پوچھا ہے اور میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ قصور حکومت کا ہے جس کا فرض ہے امن و امان قائم کرنا اور آزادی رائے کا دعوی کرنے کے ساتھ اس پر عمل بھی کرنا۔
 
مہوش علی نے کہا:
محب،

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ احتجاج کرنے کا حق جمہوریت میں سب کو حاصل ہے۔

مگر ایک بنیادی نکتہ ہے جس پر میڈیا میں کوئی تنقید ہوئی اور نہ علمی حلقوں میں۔۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ کیا چیف جسٹس صاحب کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ ایک آئینی ایشو کو یوں سیاسی ایشو بنا دیں؟

کوئی مانے یا نہ مانے، مگر اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں، بشمول مذھبی طبقوں کے اس مسئلے کو حکومت کے خلاف سیاسی سطح پر مسلسل انتہائی ہٹدھرمی سے مسلسل استعمال کیے جا رہے ہیں اور جس عدلیہ کا نام لے رہے ہیں، اس کھیل میں سب سے زیادہ انہوں نے اسی کے ساتھ کھیلا ہے۔

حتی کہ اب تو وکلاء بھی دبے الفاط میں اس مسئلے پر شامل سیاسی جماعتوں سے اپیل کر رہے ہیں۔

یہ وہ مسئلہ ہے جس پر میڈیا کچھ نہیں لکھتا اور توپوں کا سارا رخ حکومت کی طرف رکھنا مسائل کا حل نہیں۔

اور موجودہ مسئلے کے اسی سیاسی رنگ نے ایم کیو ایم کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ اتنا سخت ردعمل ظاہر کرے (اور بظاہر جو صدر صاحب کا مسئلہ تھا اس میں الجھ پڑے)۔

ایمکیو ایم کا بنیادی مطالبہ جو مجھے نظر آیا وہ یہ ہی تھا کہ عدلیہ کا نام لے کر یہ سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو سیاسی رنگ دے رہی ہیں اور فل کورٹ کی تشکیل کے بعد یہ سیاسی حربے استعمال کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی تھی۔

تو ایم کیو ایم کے اس بنیادی مطالبے پر تو میں ان سے متفق ہوں، مگر انکے طریقہ کار سے ہمیشہ سے مجھے اختلاف رہا ہے۔

ایم کیو ایم کا پس منظر ایک مسلح جماعت کا ہے۔ مگر یہ بتائیں کہ کون سی پاکستانی جماعت ہے جو طاقت کا استعمال نہیں کرنے کا دعوی رکھتی ہے؟

اور کراچی میں ایم کیو ایم کا مسلح ہونا ایک ردعمل تھا کیونکہ جماعت اور پیپلز پارٹی دونوں مسلح تھیں اور کالجز یونیورسٹیز وغیرہ میں ہر جگہ شروع میں انھوں نے اسلحہ سے ایم کیو ایم کا راستہ روکا۔ پھر اس وقت کی حکومتی مشینری نے بھی خصوصی طور پر محترمہ کے دور میں کافی اسلحہ کا استعمال کیا۔

آج بھی لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کا ماحول مجھے یاد ہے (میری ممانی پنجاب یونیورسٹی میں جاب کرتی ہیں)

تو پنجاب یونیورسٹی میں آج بھی آپ کو جماعت شاید اسلحہ کے ساتھ نظر آ جائے اور علاقے میں اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے دوسری جماعت کو بمشکل ہی سیاسی جلسے کرنے دیتی ہے اور ان کے کیمپ اکھاڑ دیتی ہے۔

بہرحال یہ لمبے مسائل ہیں اور ایم کیو ایم کے خلاف باقی ملک میں انتہائی نفرت ہے۔ اسکا پتہ مجھے ہر میڈیا سے ، بلکہ سب سے بڑھ کر لاہور میں موجود اپنے خاندان والوں کے خیالات جان کر ہی ہو جاتا ہے۔

بہرحال، ایم کیو ایم کا یہ مسلح رویہ بہت غلط ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ میں چیف جسٹس اور بقیہ سیاسی و مذھبی جماعتوں کی بھی مذمت کرتی ہوں جو اس آئینی مسئلے کو مسلسل سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔


مہوش،

میرا ذاتی خیال بھی یہی ہے کہ احتجاج کا بنیادی حق جمہوریت اور تمام معتبر نظاموں میں لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔

آپ کے دوسرے نکتہ سے میں اختلاف کروں گا ، میڈیا اور علمی حلقوں میں مسلسل یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ چیف جسٹس کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایک آئینی ایشو کو سیاسی بنائیں یا نہیں۔

اس کا سادہ اور بالکل واضح جواب یہ ہے کہ چیف جسٹس نے کہیں بھی آئین سے ماورا بات نہیں کی اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کا اظہار کیا ہے اور نہ حکومت پر تنقید کی ہے اور نہ قانون کے دائرہ کار سے نکل کر کوئی حرکت کی ہے۔ تمام خطبات میں آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کی بات کی ہے جو تمام عوام کا مطالبہ ہے اور آئینی تقاضہ بھی۔

دوسری بات کسی کو منوانے کی ضرورت ہی نہیں سیاسی جماعتیں اور جتنے بھی لوگ ہیں وہ اس مسئلے پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور بناتے رہیں گے ورنہ عدلیہ کے ساتھ جو سلوک پہلے ہوتا رہا ہے وہ پھر سے ہو جاتا اور دو ہفتوں میں کیس کا فیصلہ چیف جسٹس کے خلاف لے چکے ہوتے۔ وکلا نے شروع سے خود کو سیاسی جماعتوں سے الگ رکھا ہے اور بار کے تمام خطبات میں سیاسی کارکنوں کو باہر ہی رکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے وکلا نے کراچی میں بھی اپوزیشن کو استقبال سے علیحدہ رکھا۔

سب سے پہلے تو میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آئین کیا سیاست سے ہٹ کر کوئی چیز ہے ، کیا آئین سیاسی جماعتیں اور سیاسی جماعتوں پارلیمنٹ میں ہی نہیں بناتی اور کیا اس میں ترمیم اور اضافے سیاسی جماعتیں ہی نہیں کرتیں۔کیا آئین اور قانون پر سیاسی جماعتیں خاموش بیٹھا کرتی ہیں اور کیا آئین اور قانون کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنا سیاسی جماعتوں کا اولین فریضہ نہیں ہے۔ کیا عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلا کی حمایت اور عوام کے اندر شعور پیدا کرنا سیاسی جماعتوں کا بنیادی فریضہ نہیں ہے ؟
کیا پارلیمنٹ کو ہم مقننہ نہیں کہتے جس کا کام ہی قانون بنانا اور اس پر عملدرآمد کو یقنی بنانا ہے اور اس پر کسی بھی قسم کے دباؤ کو زائل کرنا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہے؟
کیا آئین اور عدلیہ کے آزادی جیسے بنیادی مسائل پر سیاسی جماعتوں کو ہونٹ سی کر بیٹھے رہنا چاہیے اور وکلا کو حکومتی جبر و استبداد کے سامنے کھلا چھوڑ دینا چاہیے ؟

کیا تاریخ اور عوام ان سیاسی جماعتوں کو اس اہم ترین اور نازک موڑ پر جس میں عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ سے علیحدگی جیسے انتہائی ضروری اور بنیادی مسئلہ پر الگ تھلگ کھڑا رہنے اور اپنا کردار ادا نہ کرنے پر معاف کرسکتے ہیں

فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ پہلے چیف جسٹس کے وکلاء نے کیا تھا جسے حکومتی وکلا نے مسترد کردیا اور عدالت نے بھی قبول نہ کیا اس کے بعد حکومتی وکلا نے اس کا مطالبہ کیا اور یہ قائم کر دیا گیا اس ایک بات سے ہی عدلیہ کی آزادی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر اتنا بھرپور احتجاج اور عوام کا ساتھ اور سیاسی جماعتوں کا واویلا نہ ہوتا تو حکومت من چاہا فیصلہ من چاہے وقت میں حاصل کر لیتی ۔

ایم کیو ایم کا پس منظر ہی نہیں پورا ڈھانچہ ہی اسلحہ اور غنڈہ گردی پر کھڑا ہے ۔ پاکستان کی متعدد جماعتیں طاقت کا استعمال نہیں کرتیں جن میں سر فہرست مسلم نواز گروپ ، پی پی پی ، تحریک انصاف ، ای این پی ہے ۔ ان کے علاوہ اور بھی دیگر جماعتیں ہیں مگر ان پر کسی موقع پر اسلحہ کے استعمال کا شک کیا جاتا ہے مگر شاذ و نادر ہی جس میں اکا دکا واقعات ہوتے ہیں اور وہ بھی ذاتی رنجش کے زیادہ عمل دخل کی وجہ سے نہ کہ جماعت کے مجموعی طرز عمل کے عکس کے طور پر۔

کراچی میں اسلح شروع ہوا ہے ضیاء الحق کے دور میں اور کلاشنکوف کانام بھی لوگوں نے تبھی سنا اور ایم کیو ایم کو بنانے اور پی پی پی کا زور توڑنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ محترمہ کے دور میں حکومتی مشینری استعمال ہوئی اور بہت قتل و غارت بھی ہوا مگر ایم کیو ایم کی دہشت گردی اور غنڈہ گردی اتنی بڑھ چکی تھی کہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔

لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کا ماحول آپ کو پرانا یاد ہے جب کئی یونیورسٹیوں میں اسلحہ ہوا کرتا تھا اور درپردہ اب بھی ہوتا ہے مگر اب جماعت کی وہ طاقت نہیں رہی ہے جو کسی زمانے میں تھی اور اسلحہ کافی حد تک کم ہوگیا ہے۔ میں خود ایف سی کالج لاہور میں پڑھا ہوں جو جماعت کا گڑھ ہوا کرتا تھا مگر میرے کالج کے لی زمانے میں جماعت کا اثر کم ہوگیا تھا اور پھر بالکل ختم ہوگیا اور آخر میں کالج ہی پرائیوٹ ہوگیا۔
 
چونکہ ایف سی کالج میں خود بھی زیر تعلیم رہا اور میرے بعد میرا ایک کزن اور پھر میرا چھوٹا بھائی بھی زیر تعلیم رہا اس لیے اس کے متعلق آنکھوں دیکھا حال بتا سکتا ہوں اور اس کی تصدیق اس بات سے باآسانی لگائی جا سکتی ہے کہ چار پانچ سال کے احتجاج کے دوران ایک بھی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اسلحہ کا استعمال اور اس کا زور یونیورسٹیوں اور کالجوں میں رہا ہے جب متعدد سٹوڈنٹ تنظمیں اسلحے سے لیس ہوا کرتی تھیں جن میں جماعت ، ایم ایس ایف اور دیگر جماعتیں تھیں اور ان کے گڑھ پنجاب یونیورسٹی ، UET ، ایم اے او کالج ، دیال سنگھ کالج ، ایف سی کالج ، اسلامیہ کالج تھے ۔ کچھ جامعات میں تو باقاعدہ مورچہ بندی ہوا کرتی تھی اور فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا مگر اسلحہ کا استعمال سیاسی جلسوں یا ریلیوں میں سیاسی جماعتیں تب بھی نہیں کرتی تھیں اور اب تو جامعات سے بھی اسلحہ کا کافی حد تک صفایا ہوگیا ہے اور جامعات میں کافی عرصے سے باقاعدہ تھانے بن چکے ہیں جس کے بعد اس مسئلہ پر قابو پا لیا گیا تھا۔ اسی طرح کراچی کے اندر بھی ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے بھی جامعات میں اسلحہ کی نمائش کھلے عام بند کر دی تھی اور تقریبا ایک عشرے سے پرتشدد واقعات معمول کا حصہ نہ رہے تھے جس کی ایک بڑی وجہ ایم کیو ایم کا خود حکومت میں شامل ہونا بھی تھا۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم نے بہتر رویہ کا مظاہرہ کیا تھا اور امید ہو چلی تھی کہ وہ شاید اب اسلحہ کی سیاست کو ترک کرکے عدم تشدد کو اپنا لیں گے مگر 12 مئی کے واقعات نے یہ امید خاک میں ملا دی اور ایک بار پھر ایم کیو ایم نے طاقت کے زور پر سیاست کی کوشش کی جس میں وہ کھل کر سامنے آگئی ہے۔
 

اظہرالحق

محفلین
محب سچ کہا آپ نے ، پہلے ایم کیو ایم یہ کہتی تھی ہمیں حکومت نہیں ملی اس لئیے ہم کنٹرول نہیں کر سکتے ۔ ۔ ۔ مگر 12 مئی کو محلے کی حکومت ، ڈسٹرکٹ کی حکومت ، شہر کی حکومت ، صوبے کی حکومت اور مرکزی حکومت سب ایم کیو ایم کے ہاتھ میں تھی ۔ ۔ ۔ اور اب پتہ چل گیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے اپنے کالج کے زمانے میں جمیت اور اے پی ایم ایس او کے آفس میں ٹی ٹی اور گولیوں کے انبار دیکھے ہیں ۔ ۔ ۔ جب میں کراچی میں اسٹیج کیا کرتا تھا تو جب میں نے ایک کھیل لکھا جس میں کالجز کا ماحول دیکھانے کی کوشش کی تھی تو ۔ ۔ ۔ مجھے سب سے پہلے کالج کی تنظیموں نے ہی دھمکایا ۔ ۔ ۔

12 مئی والے سین میرے لئے ڈے جا وو ہیں ۔ ۔ ۔ میرے سامنے میرا سارا ماضی گھوم گیا ۔ ۔ ۔ ۔۔

کاش ہماری قوم اب اپنے اندر ہی قیادت تلاش کرے ۔ ۔ ۔ ورنہ ۔۔ ۔ ہر تلاش کا “ت“ کٹتا رہے گا اور “لاش“ ملتی رہے گی ۔ ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محب،
جہاں تک میں ایم کیو ایم کا تجزیہ کرتی رہی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کے قیام کے حالات دیگر جماعتوں سے کافی مختلف ہیں اور انہیں ان کا موازنہ اس لحاظ سے کرنا شاید صحیح نہ ہو۔
بلکہ صوبے کی جن محرومیوں کی وجہ سے ایم کیو ایم کو کراچی کی عوام میں اتنی مقبولیت ملی ہے، ان کا موازنہ بلوچستان کی پارٹیوں سے کسی حد تک کیا جا سکتا ہے۔ (اور ہمیں علم ہے کہ وہ کیسے اسلحہ کا استعمال کرتی ہیں)۔

ایم کیو ایم سے اختلافات اپنی جگہ، مگر دوسری طرف میرے مشاہدے کے مطابق بقیہ پاکستان نے بھی کبھی فراغ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے اور کراچی کی عوام کے فیصلے یعنی ایم کیو ایم کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا ہے۔
 
محترمہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔ جب کہ ایم کیو ایم تو خود مرکزی حکومت کا حصہ ہے اور جس پنجاب اور جن کے جاگیرداروں کے خلاف الطاف بھائی ہر تقریر میں زہر اگلتے ہیں۔ انہی چودھریوں کے ساتھ حکومت وہ حکومت میں بیٹھے ہیں۔ محترمہ ایم کیو ایم اور پاکستان کی دوسری قوم پرستوں کے ساتھ ملا کر بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں۔ سندھ کے ساتھ زیادتیاں ہیں۔ لیکن جو حکومتیں اور جو مرکز اس کام کا ذمہ دار ہے۔ایم کیو ایم بھی اس کا حصہ ہے۔

افسوس مجھے اس بات کا ہے کہ اس منافقت کے باوجود ایم کیو ایم کو سندھ میں پھر بھی مقبولیت حاصل ہے۔
 

اظہرالحق

محفلین
وہاب اعجاز خان نے کہا:
:twisted:
افسوس مجھے اس بات کا ہے کہ اس منافقت کے باوجود ایم کیو ایم کو سندھ میں پھر بھی مقبولیت حاصل ہے۔

وہاب اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ہم قوم نہیں ہجوم ہیں ۔ ۔ ۔ اور ہجوم کی کوئی بھی راہ متعین نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔

مہوش بقیہ پاکستان نے ایم کیو ایم کو قبول کیا ، اسی لئے تو اسنے اپنے آفسز پنجاب سرحد اور بلوچستان میں کھولے ، مگر آپ کو شاید علم نہ ہو کہ ان سب آفسز میں کوئی بھی مقامی پوزیشن نہیں بنا پایا ۔ ۔

اور کراچی میں تو ایم کیو ایم کو قبول نہ کرنے والے تو پہلے سے موجود تھے ۔ ۔ ۔ آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ کراچی کی کالجز میں ابھی بھی اے پی ایم ایس او (آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنازئشن ) اسی نام سے “متحدہ“ کا ساتھ دیتی ہے ۔ ۔ ۔ اور یہ آرگنائزیشن پی ایس اے ( پنجابی اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن ) اور پختون ایسویشن کے ساتھ اکثر ٹکراتی رہی ہے ۔ ۔ جمیعیت تو پہلے سے ہی انکے سامنے تھی ۔ ۔ آپ پی پی آئی ( پنجابی پختون اتحاد) کے نام کی تنظیم کو شاید جانتی ہوں ۔ ۔۔ میری معلومات کے مطابق ۔ ۔ اس دفعہ پہلا دفاع یا ایم کیو ایم کی پہلی گولی کا جواب ۔ ۔ غلام سرور اعوان نے دیا ۔ ۔ جو ائیر پورٹ کے علاقے میں رہائش پزیر ہیں ۔ ۔ اور وہیں سے 12 مئی کے ہنگامے کی ابتداء ہوئی ۔ ۔ الفلاح ، گرین ٹاؤن اور گولڈن ٹاؤن جو ان تمام ہنگاموں سے دور تھے ۔ ۔ اس میں لپیٹ میں آئے ۔ ۔ اور ان تمام واقعیات کا فائدہ اٹھا ایم کیو ایم اپنے پرانے حریفوں کو ٹارگٹ کلنگ سے ختم کرنا چاہتی تھی ۔ ۔ آپکو مزید یہ بھی بتا دوں کہ ۔ ۔ ملیر کینٹ کے علاقے ماڈل کالونی کو جو متبادل راستہ بن سکتا تھا چیف جسٹس کا ملیر بار تک جانے کا اسے 11 مئی کی شب کو ہی مسلم لیگ کے کارکن کو قتل کر کے ختم کر دیا گیا تھا ۔ ۔ یاد رہے یہ ماڈل کالونی ٹوکن کے اسٹاپ کے قریب ہی ہے جہاں میں کبھی پڑھایا کرتا تھا ۔ ۔ اور میں نے وہ ان سب حالات سے گذر چکا تھا جیسے آج ٹی وی پر دیکھائے گئے ہیں ۔ ۔ ۔ خیر مختصر یہ کہ ایم کیو ایم کو اسکی حرکتوں کی وجہ سے قبول نہیں کیا گیا ۔ ۔ ۔ اور انکی ان حرکتوں کا عینی شاہد میں خود ہوں ۔ ۔ ۔ اور ابھی مزید بہت کچھ اطلاعات ہیں جو میں بتا سکتا ہوں ۔ ۔۔ مگر شاید بہت سارے لوگوں کو “ہضم“ نہ ہو سکیں ۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ان ساری باتوں کو ایک طرف کریں، حکومت کی طرف سے چیف جسٹس کو شہر کی صورتحال کے پیش نظر ائیر پورٹ سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے ان کے خطاب کی جگہ تک لے جانے کی آفر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کیا جواب دیا تھا؟
 

اظہرالحق

محفلین
قیصرانی نے کہا:
ان ساری باتوں کو ایک طرف کریں، حکومت کی طرف سے چیف جسٹس کو شہر کی صورتحال کے پیش نظر ائیر پورٹ سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے ان کے خطاب کی جگہ تک لے جانے کی آفر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کیا جواب دیا تھا؟

قیصرانی انہوں نے انکار کیا تھا ، اسکی وجہ بھی بتا دوں ، کہ انتظامیہ صرف چیف جسٹس کو ہیلی کاپٹر پر لے جانا چاہتی تھی ، اور کسی کو بھی نہیں ، حتہ کہ انکے وکلا کو بھی ۔ ۔ اسی چکر میں زبردستی اور دھکم پیل بھی ہوئی تھی ۔ ۔۔ اس میں بھی شک یہ تھا کہ چیف جسٹس کو تو وہاں لایا جاتا اور پھر انہیں خطاب کا کہا بھی جاتا مگر ظاہر ہے وہ اپنے وکلا کے بنا نہیں جا سکتے تھے اور میزبانوں نے بھی اس شرط کو قبول نہیں کیا ۔ ۔

اور ہاں ایک بات جسکا زکر بہت کم جگہ پر آیا ہے کہ جب فاروق ستار سے پوچھا گیا کہ (میرے خیال میں 10 مئی کو شاید) کہ چیف جسٹس صاحب کا پروگرام اگر بدل جائے تو ۔ ۔ کیا آپ ریلی بھی تبدیل کریں گے ۔ ۔ تو انکا ارشاد تھا ، کہ ہم 12 مئی کو بھی ریلی نکالیں گے اور کسی بھی دن ۔ ۔ یہ ہمارا شہر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
مہوش،

سرحد میں اے این پی ، بلوجستان میں پونم ، پنجاب میں سرائیکی بیلٹ سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعتیں ، سندھ ہی میں جی ایم سید کی جماعت اور دیگر قوم پرست جماعتیں بھی انہی حالات کا دعوی کرتی ہیں جن کا ایم کیو ایم دعوی کرتی ہے مگر ان میں سے کوئی بھی جماعت ایم کیو ایم کے تشدد اور خونی سیاست کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ یقینا بہت سے طبقات اور چھوٹوں صوبوں میں بہت سے گروہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان سے زیادتیاں ہوتی رہی ہیں اور شاید آئیندہ بھی ہوتی رہیں گی مگر کیا ان زیادتیوں کے خلاف احتجاج کا طریقہ تشدد ہے اور اپنے املاک اور بے گناہ لوگوں کا قتل و غارت ہے۔ کوئی بھی مخلص اور معروف جماعت یہ حکمت عملی نہیں اپناتی ہے اور نہ اپنا کر کامیاب ہو سکتی ہے ورنہ تشدد تمام مسائل کا حل ہوتا اور سیاست اور گفتگو بے معنی ٹھہرتی۔
ایم کیو ایم کو شروع میں واقعی کافی مقبولیت ملی تھی اور ان کے جاگیردارانہ نظام کے خاتمے اور متوسط طبقے سے تعلق ہونے کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد کے عوام نے انہیں بھاری مینڈیٹ بھی دیا مگر ایم کیو ایم نے اسے اپنی جاگیر سمجھ لیا اور شہر پر تسلط جمانا شروع کردیا جس کے نتیجہ میں لوگ ان سے بدظن ہونا شروع ہو گئے اور حکومت میں آنے کے لیے یہ بلادریغ قتل و غارت اور بھتہ گیری شروع کرنے لگے جس کی مثالیں پچھلے دور میں ہمیں وافر مقدار میں ملتی رہی ہیں۔ بیس بیس نوجوانوں کی لاشیں بوریوں میں بھر کر حکومت کو تحفے کے طور پر پیش کی جاتی رہیں جس کے بعد جنرل بابر کا آپریشن شروع ہوا اور ملک عموما اور کراچی خصوصا بہت نازک دور سے گزرا ، بے پناہ بے گناہ لوگ مارے گئے ، ایم کیو ایم کی طرف سے بھی اور حکومت کی طرف سے ایم کیو ایم کی ظالمانہ طاقت کو ختم کرنے کے لیے۔
پھر مشرف کے دور میں ایم کیو ایم کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا اور صحیح معنوں میں حکومت کا مزہ چکھا، کچھ بردباری اور تحمل پیدا ہوا اور انہیں احساس ہوا کہ تشدد ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ اس سوچ کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے ملک گیر پارٹی بننے کی کوشش کی اور سرحد ، پنجاب تک اپنی پارٹی کو پھیلانے کا اعلان کیا۔ پنجاب میں جلسے کی بھرپور تیاریاں آخری مراحل میں تھیں کہ چیف جسٹس کا واقعہ ہوگیا۔ چیف جسٹس کو ملنے والی حمایت اتنی غیر یقینی اور بھرپور تھی کہ حکومت بوکھلا گئی ، چیف جسٹس جہاں بھی گئے لوگوں نے والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا اور ایک طویل عرصے کے بعد لوگ سڑکوں پر نظر آنے لگے اور تحریک بنتی اور بڑھتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ پشاور سے لے کر لاہور تک جس طرح فضا بنتی گئی اس سے حکومت اور ایم کیو ایم کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے۔ ایم کیو ایم نے عوامی حمایت اور لوگوں کے اظہار سے گھبرا کر اسی دن اپنی ریلی کا انتخاب کیا کیونکہ رپورٹس تھیں کہ کراچی میں جو فضا بنے گی اس کے بعد پورے ملک کی حمایت اور عوام کی پشت پناہی کا واضح ثبوت مل جائے گا اور لوگوں کو اظہار کا ایسا موقع اتنی جلدی شاید میسر نہ آئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔
 

باسم

محفلین
فاروق ستار صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ اپوزیشن روڈ پر نکلی ہے تو ہم روڈ کا شو جیت کر دکھائیں گے
ان کے ہاں جیت شاید لاشوں کے انبار کا نام ہے
 
قیصرانی نے کہا:
ان ساری باتوں کو ایک طرف کریں، حکومت کی طرف سے چیف جسٹس کو شہر کی صورتحال کے پیش نظر ائیر پورٹ سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے ان کے خطاب کی جگہ تک لے جانے کی آفر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کیا جواب دیا تھا؟

قیصرانی پہلی بات تو یہ کہ فساد کو جڑ سے دیکھا جاتا نہ کہ بیچ میں سے کوئی واقعہ نکال کر پوچھا جائے کہ یہ کیوں ہوا اور اگر یہ نہ ہوتا تو پہلا واقعہ بھی نہ ہوتا۔ چیف جسٹس کسی سیاسی ریلی سے خطاب کرنے نہیں جا رہے تھے کہ حکومت کو بیک وقت کراچی اور اسلام آباد میں اتنی بڑی بڑی ریلیاں کروانے کی ضرورت پیش آ گئی تھی اور ‘عوام کی طاقت‘ دکھانی کی عین اسی وقت اشد ضرورت آن پڑی۔ فاروق ستار سے متعدد بار یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ ایک دن آگے پیچھے نہیں کر سکتے تھے اپنی ریلی کیونکہ چیف جسٹس صاحب کی طرف سے تو یہ اعلان کافی پہلے کا تھا ان کا جواب تھا کہ بہت سوچ سمجھ کے بعد پارٹی کی اعلی قیادت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس کے سوا کسی اور دن ریلی نہیں‌رکھی جا سکتی۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اپنے وکلاء کے ساتھ کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کیلئے کراچی لینڈ کرتے ہیں مگر انہیں ائیر پورٹ کے اندر ” نظر بند“ کر دیا جاتا ہے اور پھر نو گھنٹے بعد انہیں اور ان کے رفقاء کو صوبہ بدر کر کے واپس لاہور بھیج دیا جاتا ہے ، وکلاء نے الزام لگایا کہ انہیں اغواء کرنے کی کوشش بھی کی گئی جو انہوں نے کامیاب نہیں ہونے دی، اس کے علاوہ چیف جسٹس نے جہاں وکلاء سے خطاب کرنا تھا ،اس کے سامنے کنٹینر کھڑے کر کے راستہ بلاک کر دیا گیا، جو وکلاء اندر موجود تھے ، وہ اندر ہی بند رہے ۔ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب صبیح الدین احمد نے جو احکامات جاری کئے انہیں ردی کے ٹکڑوں کی طرح ہوا میں بکھیر دیا گیا ، سندھ ہائیکورٹ طلبی پر کور کمانڈر نے آنے سے اور آئی جی سندھ نے حالات کنٹرول کرنے سے معذرت کردی۔ چیف جسٹس جناب صبیح الدین احمد کی کار کو روکا گیا، وہ بمشکل رکاوٹیں عبور کر کے ہائیکورٹ پہنچے تھے۔ مسٹر جسٹس گلزار احمد اور مسٹر جسٹس عارف حسن خلجی کو بھی گاڑیاں چھوڑ کر پیدل آنا پڑا، سندھ ہائیکورٹ کی عمارت کے انچارج جج جناب شیر عالم دروازہ پھلانگ کر اندر آئے ، جسٹس اطہر سعید کی گاڑی کی توڑ پھوڑ کی گئی اور کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن نے عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچایا ، ہم اس کا وقار بحال کررہے ہیں۔
 
Top