کیا غیر اللہ کو مولا کہنا شرک ہے؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
اس موضوع کا پس منظر تفہیم القران کے دھاگے میں اٹھنے والا یہ سوال ہے کہ مودودی علیہ رحمت صاحب کا نظریہ یہ تھا کہ غیر اللہ کے لیے مولا کا استعمال صحیح نہیں، اور اس لیے وہ اپنے لیے مولانا کے لفظ کا استمعال پسند نہیں فرماتے تھے۔
لیکن اس مسئلے میں مودودی علیہ رحمت کا اجتہاد زمانہ قدیم کے تمام علماء کے مخالف چلا گیا۔
عصر حاضر کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے اور الجھنیں بڑھ رہی ہیں۔
اس پوسٹ کو لکھنے کا مقصد قدیم علماء کی آراء کو واضح کرنا ہے کہ انہوں نے کیوں اس چیز کو جائز رکھا، اور کیوں امت میں بہت سے لوگ ان کی ابتک پیروی کر رہے ہیں۔

اللہ آپ سب پر اور محمد و آلِ محمد پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے۔ امین۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کیا غیر اللہ کو مولا کہنا شرک ہے؟
===================================

مولانا کا مطلب ہے "میرے مولا"۔ اسلامی شریعت میں اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے مولا کے استعمال کی کئی مثالیں موجود ہیں، مثلاً:؂

1۔ قران میں اللہ کے علاوہ دوسروں کے لیے مولا کا استعمال
2۔ زبانِ رسول (ص) سے اللہ کے علاوہ دوسروں کے لیے مولا کا استعمال

ذیل میں میں قران اور سنت سے مولا کے استعمال کے حوالے پیش ہوں گے، مگر ایسا کرنے سے پہلے بہت اہم ہے کہ ہم اس مسئلے کے پس منظر کو سمجھیں کیونکہ اس کے بغیر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور بہت سی ایسی چیزوں پر حرام کا فتویٰ جاری کر دیں گے جو کہ شریعتِ محمدیہ میں عین حلال ہیں۔
اللہ ہماری نیک نیتوں کو قبول فرمائے۔ امین۔

ظاہر پرستی کی بیماری (ظاہری عمل) بالمقابل اندرونی نیت
=============================================
رسول اللہ (ص) نے فرمایا: „انما الاعمال بالنیات" یعنی اعمال کا سارا دارومدار صرف نیت پر ہے۔
مگر ہم آج کے مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے رسول (ص) کے اس قول کو بھلا دیا اور ظاہر پرستی میں مبتلا ہو گئے۔ اسی ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے ہم میں سے ایک گروہ نے دعویٰ کر دیا کہ قران پورا کا پورا ظاہر ہے اور اس کی آیات کو مجازی معنوں میں نہیں لیا جا سکتا۔
لیکن اگر ہم اسی ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے پورے قران کو ظاہری معنوں میں لیتے رہے تو بہت سی جگہوں پر ہمیں اللہ اور قران پر شرک کے فتوے جاری کرنے پڑیں گے (معاذ اللہ)۔ لہذا بہترین اپروچ یہی ہے کہ اپنے آپ کو قران کے مطابق ڈھالیں، بجائے اسکے کہ قران اور شریعت کو اپنے مطابق ڈھال لیں۔

قبل اسکے کہ میں مولا کے مسئلے پر گفتگو کی جائے، ذیل کی قرانی مثالوں کو غور سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

کیا اللہ اکیلا ولی ہے اور کیا وہ بطور ولی کافی ہے اور کیا رسول ﷺ کو ولی ماننا شرک ہے؟
=====================================================================
بیشک اللہ مطلقاً معنوں میں اکیلا ولی ہے اور بیشک وہ بطور ولی کافی ہے۔

لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا[/Tahoma]
(القران 4:123) ۔۔۔ اور جو کوئی بھی برا کام کرے گا، بہرحال اسے اس کی سزا ملے گی اور وہ اللہ کے سوا نہ پائے گا کوئی ولی۔۔۔۔

اسی طرح یہ آیت:

وَاللّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ وَكَفَى بِاللّهِ وَلِيًّا

(القران 4:45) اور اللہ کو تمہارے دشمنوں کی خوب خبر ہے۔ اور اللہ بطور ولی کافی ہے۔

مگر اللہ اسی قران میں دوسری جگہ فرما رہا ہے کہ وہ ولی ہے اور اس کے ساتھ اس کا رسول بھی مسلمانوں کا ولی ہے اور وہ صالح مومنین بھی ولی ہیں جو کہ حالتِ رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں (اشارہ ہے علی ابن ابی طالب کی طرف ہے جب انہوں نے حالتِ رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی زکوۃ میں دی تھی)۔

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ

(القران 5:55) تمہارا ولی تو بس اللہ ہے، اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان رکہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔

اسی طرح آیت ملاحظہ فرمائیے:

وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ

(القران 5:56) اور جو اللہ کو اور اس کے رسول کو اور مومنین کو اپنا ولی بناتے ہیں تو بیشک اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔

تو ان آیات کی موجودگی میں کیا یہ کہنا اللہ کی ذات میں شرک ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ اور دوسرے ایمان والے بھی اللہ کے ساتھ ساتھ ہمارے ولی ہیں؟
اور کیا ان کو ولی بنانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ بطور ولی کافی نہ تھا اور صرف اسی وجہ سے اللہ کو ضرورت پڑی کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ھمارا ولی قرار دے؟

اس سوال کا آسان اور سیدھا جواب یہ ہے کہ ظاہر پرستی کی اس بیماری کے برخلاف کہ پورا قران ظاہر ہے، بیشک قران میں کچھ آیات ایسی بھی ہیں جن کے مجازی معنی بھی ہیں اور اگر ان کو مجازی معنوں میں نہ سمجھا جائے تو یقیناً قران میں تضاد پیدا ہو جائے گا۔

اصول:
=====
جب اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اکیلا ولی ہے اور بطور ولی کے کافی ہے، تو رسول ﷺ اور مومنین بھی مجازی طور پر اس میں شامل ہیں۔

کیا اللہ کے علاوہ کوئی ھماری شفاعت کر سکتا ہے؟
========================================
اللہ قران میں ایک جگہ فرما رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی شافع نہیں ہے:

أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاء قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ
قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

(القران 39 سورہ ، آیات 43 تا 44) کیا ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شفاعت کرنے والے اختیار کر لیے ہیں۔ تو آپ کہہ دیجئیے کی ایسا کیوں ہے چاہے یہ کوئی اختیار نہ رکہتے ہوں اور نہ ھی کسی قسم کی عقل رکہتے ہوں۔ کہہ دیجئیے کی شفاعت کا کُل اختیار تو اللہ کے ہاتھ میں ہی ہے۔۔۔

مگر اللہ اسی قران میں دوسری جگہ فرما رہا ہے کہ کچھ اولیاء اللہ ایسے بھی ہیں کہ جن کے متعلق مسلمانوں کو اجازت ہے کہ ان سے شفاعت طلب کریں کیونکہ اللہ نے انہیں ھماری شفاعت کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔

لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا

(القران 19:87) کسی کے پاس شفاعت کا اختیار نہیں ہے، سوائے ان کے کہ جنہوں نے خدائے رحمان سے شفاعت کا عہد لے رکہا ہے۔

اسی طرح یہ آیت مبارکہ دیکھیں:

وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

(القران 43:86) اور جنہیں یہ (کافر) اللہ کے سوا پکارتے ہیں، ان کے پاس شفاعت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، سوائے ان کے جو حق بات کی گواہی دیتے ہیں اور اسے جانتے ہیں۔

تو کیا یہ اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی مسلمانوں کی شفاعت کر سکتے ہیں؟ کیا واقعی قران میں (معاذ اللہ) تضاد ہے؟

اصول:
====
جب اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اکیلا ہمارا شافع ہے، تو اولیاء اللہ اس میں پہلے سے ہی مجازی طور پر شامل ہیں جو کہ اللہ کے اذن اور حکم سے مسلمانوں کی شفاعت کریں گے۔


کیا رسول اللہ اپنے فضل سے ہمیں غنی کر سکتے ہیں؟
==============================================
اس سلسلے میں آپ کو قران کی یہ آیت نظر آئے گی کہ فضل صرف اللہ کے لیے ہے۔:

لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّن فَضْلِ اللَّهِ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

(القران 57:29) تاکہ اہلِ کتاب یہ بات جان لیں کہ ان کے پاس اللہ کے فضل پر کوئی اختیار نہیں ہے اور یہ کہ فضل پورا کا پورا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔ بیشک اللہ فضلِ عظیم کا مالک ہے۔

ظاہر پرستی کی بیماری ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم یہ نتیجہ نکالیں کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے فضل کا لفظ استعمال کرنا شرک ہے۔ مگر آئیے اب اسی قران کے دو مزید آیات کا مطالعہ کرتے ہیں جو اس ظاہر پرستی کی مکمل طور پر نفی کر رہی ہیں:

وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ

(القران 9:59) اور اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے کی جو کچہ اللہ نے اور اس کے رسول نے انہیں دیا ہے، اور یہ کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ اور اللہ جلد ہمیں مزید عطا کرے گا اپنے فضل سے اور اس کا رسول بھی۔

تو کیا یہاں اللہ خود شرک کر رہا ہے یہ کہہ کر کہ رسول بھی ہمیں اپنے فضل سے عطا کرتا ہے؟

يَحْلِفُونَ بِاللّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا

(القران 9:74) یہ قسم کہاتے ہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا ہے حالانکہ انہوں نے کلمہِ کفر کہا ہے اور ایمان لانے کے بعد کافر ہو گثے ہیں اور وہ ارادہ کیا تھا جو حاصل نہیں کر سکے اور انہیں صرف اس بات کا غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے انہیں (مسلمانوں) کو غنی کر دیا ہے۔ بہرحال یہ اب بھی توبہ کر لیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ھے۔۔۔

فضل سے غنی کرنا تو صرف اللہ کا کام ہے، مگر اللہ اسی قران میں گواہی دے رہا ہے کہ اللہ کا رسول ﷺ بھی اپنے فضل سے مسلمانوں کو غنی کرتا ہے۔ تو اب مسئلہ یہ ہے کہ قران کے صرف ظاہر کو لینے اور مجاز کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے سب سے پہلے اللہ پر مشرک ہونے کا فتویٰ لگے گا۔۔

امید ہے کہ معزز پڑھنے والے اب اس ظاہر پرستی کے فتنے کو اچھی طرح سے سمجھ چکے ہوں گے۔


کیا اللہ بطور مددگار اکیلا اور کافی ہے؟
============================
بیشک اللہ بطور مددگار اکیلا کافی ہے:

وَاللّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ وَكَفَى بِاللّهِ وَلِيًّا وَكَفَى بِاللّهِ نَصِيرًا

(القران 4:45) اور اللہ کو تمہارے دشمنوں کی خوب خبر ہے۔ اور بیشک اللہ بطور ولی بھی کافی ہے اور بطور مددگار بھی کافی ہے۔

اسی طرح یہ آیت ملاحظہ فرمائیں:.

قُلْ مَن ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُم مِّنَ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا

(القران 33:17) ۔۔۔۔۔ اور اللہ کے سوا وہ کوئی ولی پائیں گے نہ کوئی مددگار

اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر قران کو پھر ہم صرف ظاہری معنوں میں سمجھیں تو اس میں پھر تضاد آ جاتا ہے اور ذیل کی آیات شرک کی دعوت دیتی نظر آئیں گی۔

إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ

(القران 66:4) (اے نبی کی بیویو) اب تم توبہ کرو کہ تمہارے دل ٹیرھے ہو گئے ہیں ورنہ اگر تم اس (رسول) کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو یاد رکہو کہ اس (رسول) کا ولی اللہ ہے اور جبرئیل ہیں اور صالح مومنین اور فرشتے سب اس کے مددگار ہیں۔

کیا واقعی ہمیں یہ آیت ظاہری معنوں میں لینی چاہیے اور اس کا مطلب یہ لینا چاھیے کہ اللہ بطور مددگار اپنے حبیب ﷺ کے لیے کافی نہیں تھا، اسی لیے اپنے ساتھ جبرئیل اور دیگر فرشتوں اور مومنین کا بھی ذکر کر رہا ہے کہ وہ بھی اس کی مدد کریں گے؟

اور کیا یہ واقعی شرک ہے اگر ہم یہ مانیں کہ جبرئیل، صالح مومنین اور دیگر فرشتے بھی ہمارے مولا (سرپرست) اور مددگار ہیں؟

اسی طرح یہ آیت دیکھیں:

وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَ۔ذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا

(القران 4:75)۔۔۔۔۔ مرد، عورتیں اور بچے جو برابر دعا کرتے ہیں کہ اے رب ہمیں اس قریہ سے نجات دے دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی ولی بھیج اور اپنی طرف سے کوئی مددگار بھیج۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ بطور ولی اور مددگار کے کافی ہے تو پھر یہ لوگ کیوں اللہ سے کسی دوسرے شخص کو بطور ولی اور مددگار کے مانگ رہے ہیں؟

اور اگر اللہ خود اس دوسرے شخص کو ولایت اور مددگار (نصرت) کی صفات عطا کر رہا ہے تو پھر یہ کہنا کیوں شرک ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچا سکتا (چاہے وہ ولایت کی صورت میں ہو یا پھر نصرت و مدد کی صورت میں)۔
بیشک اللہ کے اذن سے اولیاء اللہ ہماری مدد کرتے ہیں اور اپنی شفاعت سے ہمیں فائدہ پہنچاتے ہیں۔
اور یاد رکہیے کہ اولیاء اللہ بیشک اللہ کے ساتھ ہمارے ولی اور مددگار ہیں (یعنی اس معاملے میں یہ اللہ کے سوا اور الگ نہیں ہیں بلکہ اللہ نے خود انہیں اس معاملے میں اپنے ساتھ رکھا ہے۔
اور مخالف جماعت شیطان اور اس کے اولیاء کا ہے۔ اور بیشک یہ اللہ کے سوا اور الگ ہیں اور اگر کوئی انہیں اپنا ولی اور مددگار بناتا ہے تو یقیناً یہ شرک ہے۔

اللہ آپ سب پر اور محمد اور آلِ محمد پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔ امین۔
(جاری ہے)
 

مہوش علی

لائبریرین
کیا رسول اللہ (ص) کو آقا و مولا کہنا شرک ہے؟
============================
ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے امت مسلمہ میں اُس وقت انتشار پیدا ہو رہا ہوتا ہے جب رسول اللہ (ص) کے لیے آقا و مولا کے الفاظ استعمال کرنے پر شرک کے فتوے سامنے آ رہے ہوتے ہیں، جبکہ یہ زبانِ رسول (ص) خود تھی جس نے اپنے آپ کو خود مسلمانوں کا مولا قرار دیا۔ یاد کریں جب رسول اللہ (ص) نے وادیِ غدیر میں فرمایا تھا کہ:

عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه, قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: من كنت مولاه فعلي مولاه, وسمعته يقول: أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي, وسمعته يقول: لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله.

ترجمہ: سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا۔ (سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول (ص) کو یہ بھی کہتے سنا) اے علی تمہیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو کہ ہارون کو موسیٰ سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی اور نبی نہ ہو گا۔ اور میں (سعد) نے رسول کو (غزوہ خیبر میں) یہ بھی فرماتے سنا کہ آج میں علم اُس شخص کو دوں گا جو کہ اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔

پس رسول اللہ (ص) کو آقا و مولا کہنا شرک نہیں بلکہ عین سنتِ رسول ہے۔

یہ حدیث اتنے تواتر سے نقل ہوئی ہے انسان اسکی اسناد دیکھ کر گھبرا جاتا ہے (پورے اسلامی حدیث لٹریچر میں شاید ہی چند اور ایسی احادیث ہوں جو اتنے تواتر سے نقل ہوئی ہوں۔

محترم ڈاکٹر طاہر القادری کی اس حدیث پر ریسرچ
=============================
محترم ڈاکٹر صاحب نے اس حدیث کے تواتر پر پوری ایک کتاب تالیف فرمائی ہے جس میں انہوں نے 51 طریقوں سے یہ حدیث نقل کی ہے (جن میں سے کئی طُرق صحیح اسناد سے نقل ہوئے ہیں)۔ یہ کتاب آپ فرید ملت ریسرچ انسٹیٹوٹ پر آنلائن پڑھ سکتے ہیں۔

title.jpg


آنلائن کتاب پڑھنے کے لیے ذیل کے لنک پر تشریف لے جائیں۔
http://www.research.com.pk/home/fmri/books/ur/ghadir/index.minhaj?id=0


کیا یوسف ؑ اس وقت مشرک بن گئے جب انہوں نے اپنے مصری مالک کو ’رب‘ کہا؟
==============================================

آئیے اب قران کی ایک بہت اہم آیت کا مطالعہ کرتے ہیں کہ جہاں اللہ نے ظاہر پرستی کی بیماری کو مکمل طور پر رد کر ڈالا ہے۔

وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ

(القران 12:23) اور اس (زلیخا) نے ان سے اظہارِ محبت کیا کہ وہ اس کے گھر میں رہتے تھے اورکہنے لگی کی آؤ۔ یوسف نے کہا اللہ کی پناہ وہ (تمہارا شوہر) میرا رب ہے اور اس نے مجھے اچھی طرح رکہا ہے اور ظلم کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔

کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ قران میں مجازی معنی آیات موجود نہیں ہیں؟

ہمارے لیے تو یہ بات صاف ہے کہ یوسف ؑ نے رب کا یہ استعمال مجازی معنوں میں کیا تھا۔ رب کے لغوی معنی “پالنے والے” کے ہیں ۔ اور چونکہ اس مصری شخص نے یوسف ؑ کو پال پوس کر بڑا کیا تھا اس لیے یوسف ؑ نے اس کے لیے مجازی معنوں میں رب کا استعمال کیا ہے۔
یہ اسی طرح ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ ہمارے والدین نے ہمیں پال پوس کر بڑا کیا ہے اور وہ ہمارے مربی ہیں۔

مودودی علیہ رحمت کا اس آیت پر شش و پنج
==========================

مودودی صاحب پچھلی صدی کے بہت بڑے عالم ہیں اور ان کی تفہیم القران خاص طور پر تفسیر کے میدان میں اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن مودودی صاحب پر اس تفہیم القران کے حوالے سے جو سب سے بڑی تنقید ہے وہ یہی ہے کہ مودودی صاحب نے قرانی آیات کو اپنے فہم کے مطابق صرف ظاہری معنوں میں سمجھا ہے اور اسی وجہ سے انہیں بہت سے جگہوں پر قران میں تضادات کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے ان تضادات کو اپنے فہم کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کیں جس کے نتیجے میں انہیں قرانی آیات بالکل الگ ہی ڈھنگ میں پیش کرنا پڑیں۔

مثال کے طور پر آئیے دیکھتے ہیں کہ مودودی صاحب اس آیت کے ذیل میں کیا لکھ رہے ہیں:

’عام طور پر مفسرین نے (غلطی کی ہے اور) اس سے مراد یہ لیا ہے کہ یوسف ؑ نے ’رب‘ کا یہ لفظ اپنے مصری آقا کے لیے استعمال کیا ہے کہ وہ کس طرح اس کی بیوی سے زنا کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ان کی وفاداری کے خلاف ہو گا۔ مگر یہ انبیاء سے مناسبت نہیں رکہتا کہ وہ دوسروں کی خاطر گناہ کریں، بلکہ وہ گناہ نہیں کرتے تو صرف اللہ کی خاطر نہیں کرتے۔ اور قران میں بھی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی رسول نے کبھی بھی ’رب‘ کا لفظ اللہ کے سوا کسی اور کے لیے استعمال کیا ہو۔‘

مسئلہ یہ ہے کہ یہ آیت اتنی واضح اور صاف ہے کہ اس صدی تک کوئی ایسا عالم و مفسر نہیں گذرا جس نے اس آیت کو ایسے سمجھا ہو جیسا کہ مودودی صاحب اسکا مطلب ڈھالنا چاہ رہے ہیں۔
فتح جالندھری صاحب کا اردو ترجمہ دیکھ لیں تو اس میں بھی انہوں نے بھی صاف یہی لکھا ہے کہ رب کا لفظ یوسف(علیہ السلام) نے اپنے مصری آقا کے لیے استعمال کیا ہے۔
بلکہ عرفان القران (طاہر القادری)، کنز الایمان (احمد رضا صاحب)، تفسیر عثمانی، اور اسی طرح انگلش تراجم میں شاکر، یوسف، وغیرہ جس کو بھی دیکھ لیں، سب نے مودودی صاحب کے برخلاف سیدھا سادھا ترجمہ کیا ہے۔
بلکہ مودودی صاحب نے ایک اور بڑی غلطی یہ کی ہے کہ وہ اسی سورہ کے آگے والی کچھ آیات پر بھی نظر نہ رکھ سکے۔ مثلا اسی سورۃ میں حضرت یوسف(علیہ السلام) مصر کے بادشاہ کے لیے بھی رب کا لفظ استعمال کر رہے ہیں:

(القران 12:42) وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ

اور دونوں شخصوں میں سے جس کی نسبت (یوسف نے) خیال کیا کہ وہ رہائی پا جائے گا، اس سے کہا کہ اپنے رب (یعنی بادشاہ) سے میرا ذکر بھی کرنا۔ لیکن شیطان نے اس کو اپنے رب (بادشاہ) سے (یوسف) کا ذکر بھلا دیا۔

(اسی طرح اسی سورۃ یوسف کی آیت نمبر 50 بھی دیکھیئے جہاں یوسفؑ اس مصری بادشاہ کو دوبارہ رب کہہ رہے ہیں)

پس ان واضح قرانی نصوص کے مقابلے میں مودودی صاحب علیہ رحمت کے قیاسات کو اہمیت دینا بہت مشکل ہے۔ بہت اچھا ہوتا اگر مودودی صاحب ظاہر اور مجاز کا فرق سامنے رکھتے تاکہ نہ انہیں تمام قدیم مفسرین کے خلاف جانا پڑتا اور نہ ہی قران کی دیگر آیات میں تضاد نظر آتا۔

قران میں مجازی معنوں والی آیات کی کچھ اور مثالیں
===============================

اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ھے کہ وہ کریم ہے۔

فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ

(القران 27:40) ۔۔۔ اور میرا رب بے نیاز اور کریم ہے

لیکن اسی قران میں اللہ اپنے رسول ﷺ کے لیے بھی فرما رہا ہے:

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم

(القران 69:40) بیشک یہ (قران) ایک کریم رسول کا قول ہے۔

جب ہم اللہ کے لیے ’کریم‘ استعمال کرتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے جبکہ جب ہم ’نبیِ کریم‘ کہتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے۔ اور اگر ہم اس حقیقی اور مجازی معنوں کے فرق کو ملحوظِ خاطر نہ رکہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ اپنی صفت میں دوسرے کو شریک کر کے (معاذ اللہ) خود شرک کر رہا ہے۔

اسی طرح قوی بھی اللہ کی صفت اور نام ہے۔ اللہ قران میں اپنے متعلق فرماتا ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز

(القران 22:74) بیشک اللہ بڑا قوی اور غالب اور زبردست ہے۔

مگر اسی قران میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ رسول ﷺ بھی قوت والا ہے

ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ

(القران 81:20) وہ صاحبِ قوت ہے اور صاحبِ عرش کی بارگاہ کا مکین ہے۔

کیا اللہ یہاں یہ کہہ کر شرک کر رہا ہے کہ رسول بھی قوت والا ہے؟ آپ حضرات کو دعوتِ فکر ہے کہ اس چیز پر غور فرمائیں۔

رؤوف اور رحیم
===========
یہ دونوں صفات اللہ کی ہیں۔ اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ہے:

إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ

(القران 2:143) بیشک اللہ تو لوگوں کے لیے بہت رؤوف (شفیق) اور رحیم ہے۔

مگر اسی قران میں اللہ اپنے رسولﷺ کے لیے فرما رہا ہے:

لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ

(القران 9:128) لوگو تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں جنہیں تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت روؤف (شفیق) اور رحیم ہیں۔

اور در حقیقت قران میں کئی اور مقامات پر اللہ اپنے نیک بندوں کی اسطرح کی عزت افزائی کر رہا ہے کہ انہیں اپنی صفات والے ناموں کے ساتھ یاد کر رہا ہے۔ مثلاً:
عالم:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر اسمعیل ؑ کو بھی عالم کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے۔
حلیم:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر ابراہیم ؑ اور اسمعیل ؑ کو بھی حلیم کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
شکور:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر نوح ؑ کو بھی شکور کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
بر:
یہ اللہ کی صفت مگر عیسیٰ ؑ اور یحییٰ ؑ کو بھی بر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

نتیجہ:
=====
اللہ نے اپنی صفات کو اپنے نیک بندوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے یہ نیک بندے ان صفات میں اللہ کے شریک بن گئے ہیں۔ بیشک یہ ان صفات کے حقیقی معنوں میں مالک نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں اپنی ان صفات کا ایک حصہ عطا کیا ہے۔

اور ان قرانی آیات کو محض ظاہر پرستی، ظن اور قیاس کی بنیاد پر رد نہیں کیا جا سکتا۔

جب ہم اللہ کو ’کریم‘ کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے۔ اور جب ہم رسول اللہ ﷺ کو ’کریم‘ کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمیں اس کی تاویل مجازی معنوں میں کرنی پڑتی ہے۔

اور اگر ہم اب بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ قران میں مجازی معنوں والی آیات بھی ہیں، تو یقیناً ہم تمام مسلمانوں کو مشرک بنا دیں گے، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بھی مشرک بنا دیں گے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
تو پھر توحید کیا ہے؟
===============

جب بھی ظاہر پرستی کا ذکر ہوتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی کچھ صفات میں رسول اللہ (ص) اور دیگر مومنین بھی مجازی معنوں میں شامل ہیں، تو پھر اکثر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ پھر توحید کیا ہے اور اس کی کیا تعریف ہے۔ یہ سوال ابتک کی پوری بحث کا سب سے اہم سوال ہے۔


خاص صفات بمقابلہ عام صفات
======================
اور یہ جاننے کے لیے کہ توحید کیا ہے اور شرک کیا ہے، یہ بہت اہم ہے کہ ہم اللہ کی ’خاص صفات‘ اور ’عام صفات‘ کا فرق سمجھیں۔
’خاص صفات وہ ہیں جنہیں اللہ نے صرف اپنے لیے مخصوص رکہا ہے۔ مثلاً ’معبود‘ صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے ( اور شعائر اللہ کے لیے صرف تعظیم ہے مگر کوئی عبادت نہیں ہے)۔
شریعت بنانا صرف اللہ کا کام ہے اور کسی دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کوئی اپنی طرف سے کوئی چھوٹا سا قانون بھی بنا کر حلال چیزوں کو حرام کرتا پھرے۔

پوری کی پوری سورۃ اخلاص اللہ کے انہی ’خاص‘ صفات سے بھری ہوئی ہے:

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
کہہ دو اللہ ایک ہے
(یہ "ایک ہونے کی صفت" صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے اور اگر اللہ چاہتا تو کئی محمدﷺ پیدا کر دیتا)
اللَّهُ الصَّمَدُ
وہ بے نیاز ہے
(مگر محمد ﷺ بے نیاز نہیں ہیں بلکہ انہیں اللہ کی ضرورت ہے)
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ
نہ وہ کسی کا باپ ہے اور کسی کا بیٹا
(مگر محمدﷺ کا باپ بھی تھا اور اولاد بھی)
وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے
(مگر محمد ﷺ اللہ کے ہمسر نہیں ہیں)

تو محترم قارئین:
یہ توحید کی نفی اور رسول اللہ ﷺ کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول (ص) ہمارے آقا و مولا ہیں۔
یہ توحید کی نفی اور رسول اللہ ﷺ کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول ﷺ کریم ہیں۔
اور یہ بھی توحید کی نفی اور رسول اللہ ﷺ کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ وہ ہمیں اپنے فضل سے غنی کرتے ہیں۔
اور یہ بھی توحید کی نفی اور رسول اللہ ﷺ کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ وہ بھی ہمارے ولی ہیں۔
اور یہ بھی توحید کی نفی اور رسول اللہ ﷺ کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں اپنی شفاعت کے ذریعے ہماری مدد کرتے ہیں اور ہمیں فائدہ پہنچاتے ہیں اور ان کی شفاعت ہماری مغفرت کا باعث ہو گی۔

اگر ہم اب بھی اپنی ظاہر پرستی کے باعث ان خاص اور عام صفات کا فرق نہ سمجھ پائیں، تو یقیناً ہم تمام مسلمانوں کو مشرک بنا دیں گے اور ان کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بھی مشرک بنا دیں گے۔

ظاہر پرستی بمقابلہ جہمیہ
=====================

’جہمیہ لوگوں کی وہ جماعت تھی جو اللہ کی صفات کا انکار اپنی عقل اور دلائل کی بنیاد پر کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس طرح وہ اللہ کو انسان جیسا بنا دیں گے۔‘

مگر جب ہم آج اپنی ظاہر پرستی کو دیکھتے ہیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ ہم اس بیماری کو وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی صفات کا انکار اس بنیاد پر کرتے ہیں کیونکہ ہمارا خیال ہے کہ اس طرح ہم رسول ﷺ کو اللہ جیسا بنا دیں گے۔


گفتگو کا نچوڑ:

1۔ انما الاعمال بالنیات کو ظاہر پرستی پر فوقیت دینا (یعنی قران کی آیات کو ظاہری معنی میں لینے کی بجائے اُن کے مجازی معنی سمجھنے کی کوشش کرنا)

2۔ صرف اُن چیزوں کو حرام یا شرک قرار دینا جو کہ اللہ نے حرام کیں ہیں۔ ورنہ ہم اپنی ایک الگ شریعت قائم کر لیں گے جس میں بہت سے حلال اللہ چیزیں ہم اپنی طرف سے حرام قرار دے رہے ہوں گے۔۔۔۔۔ اور نتیجہ امت میں انتشار کی صورت میں نکلے گا۔ ‘

اللہ تعالی ہمیں ہدایت عطا فرمائے اور آپ سب پر اور محمد اور آلِ محمد پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔ امین۔
 

باذوق

محفلین
ظاہر پرستی ؟

السلام علیکم
مہوش علی ،
آپ کو تو پتا ہے کہ یہ سارا مواد آپ ہی کے قلم سے میں بہت پہلے پڑھ چکا ہوں‌اور اس پر ایک زمانے میں‌ہمارے درمیان کافی بحث و مباحثہ بھی ہوا ہے۔
آپ کی اس بات سے تو اتفاق ہے کہ ہر آیت کے ظاہری معنی مراد نہیں‌لیے جا سکتے۔
لیکن ہر آیت یا حدیث کے کسی لفظ کے ‘ خودساختہ‘ معانی بھی قابل قبول نہیں کہلائے جا سکتے۔
ہر لفظ کے اپنی پسند کے معانی اخذ کیے جائیں تو اُن دوسری آیات(احادیث) میں درج اسی لفظ کے دیگر معانی کدھر رکھے جائیں ؟
سارا جھگڑا تو اسی بات کا ہے کہ ہم تمام احادیث سے کس حد تک واقف ہیں ؟

خیر جی ، لمبی بحث ہے ۔۔۔ سلسلہ وار سہی ۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم
مہوش علی ،
آپ کو تو پتا ہے کہ یہ سارا مواد آپ ہی کے قلم سے میں بہت پہلے پڑھ چکا ہوں‌اور اس پر ایک زمانے میں‌ہمارے درمیان کافی بحث و مباحثہ بھی ہوا ہے۔
آپ کی اس بات سے تو اتفاق ہے کہ ہر آیت کے ظاہری معنی مراد نہیں‌لیے جا سکتے۔
لیکن ہر آیت یا حدیث کے کسی لفظ کے ‘ خودساختہ‘ معانی بھی قابل قبول نہیں کہلائے جا سکتے۔
ہر لفظ کے اپنی پسند کے معانی اخذ کیے جائیں تو اُن دوسری آیات(احادیث) میں درج اسی لفظ کے دیگر معانی کدھر رکھے جائیں ؟
سارا جھگڑا تو اسی بات کا ہے کہ ہم تمام احادیث سے کس حد تک واقف ہیں ؟

خیر جی ، لمبی بحث ہے ۔۔۔ سلسلہ وار سہی ۔۔۔

باذوق برادر،

اگر علماء کے لیے "مولانا" کے استعمال کے متعلق آپ کو گفتگو کرنی ہے تو اس وقت بہترین وقت ہو سکتا ہے کیونکہ آجکل مجھے کچھ فراغت ہے۔

والسلام۔
 

باذوق

محفلین
باذوق برادر،

اگر علماء کے لیے "مولانا" کے استعمال کے متعلق آپ کو گفتگو کرنی ہے تو اس وقت بہترین وقت ہو سکتا ہے کیونکہ آجکل مجھے کچھ فراغت ہے۔

والسلام۔
ڈئر سسٹر :)
اس کا جواب بہت پہلے تفصیل سے ہمارے ایک ساتھی (وہی جنہوں نے "ایصال ثواب" کے موضوعِ بحث پر آپ کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھا کہ آپ کو دوبارہ "پکوان" کی جانب توجہ دینا ہے :grin:) نے دے رکھا ہے ایک اور فورم پر۔ اُس ان پیج فائل کو یونیکوڈ میں کنورٹ کر کے یہاں‌ لگانے میں کتنی دیر لگتی ہے بھلا؟؟ مگر ۔۔۔۔۔۔ جس طرح‌ آپ دیگر تکنیکی مصروفیات میں مشغول ہوتی ہیں ۔۔۔ اسی طرح‌ مجھے بیک وقت کئی فورمز کی دنیاؤں کے کئی مسائل سے دوچار رہنا پڑتا ہے۔ ان شاءاللہ جلد یا بدیر سہی۔ انتظار فرما لیں کچھ۔
 

زیک

مسافر
گڑے مردے اکھاڑنے کا فائدہ؟ اتنی پرانی بحث کیوں آپ لوگ دوبارہ سے شروع کرنا چاہتے ہیں؟
 

خرم

محفلین
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں‌کا بھلا ہوجائے۔ ویسے یہ ایک انتہائی عام بات سی ہوگئی ہے آجکل اور ایک مکتبہ فکر تو انہی باتوں کا سہارا لے کر تمام سابقین پر کفر کے فتاوٰی لگاتا پھرتا ہے۔ اس پر سوا یہ کہ تیل کی دولت بھی کافی ہے جو ان فتاوٰی اور نظریات کی تبلیغ و ترویج کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ الگ بات کہ قرآن کی حقانیت اس سب کچھ سے ماورا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top