کیا سخن تھے کہ جو دل میں بھی چھپائے نہ گئے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام ! ایک پرانی غزل ڈھونڈ نکالی ہے ۔ شاید کوئی کام کا شعر ہو ۔ آپ کے ذوقِ لطیف کی نذر کرتا ہوں ۔( اشعارِ قدیمہ کی مزید کھدائی جاری ہے ۔ دیکھئے اور کیا کیا برآمد ہوتا ہے ۔ویسے لگتا ہے کہ اب زیادہ کچھ نہیں رہ گیا ۔ :):):))






 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا سخن تھے کہ جو دل میں بھی چھپائے نہ گئے
لبِ اظہار تک آئے پہ سُنائے نہ گئے​

ضعفِ مضرابِ تمنا کوئی دیکھے تو مرا
تار بھی بربطِ ہستی کے ہلائے نہ گئے​

چشمِ نم بھول گئے ، عارضِ تر بھول گئے
یہ الگ بات وہ آنسو ہی بھُلائے نہ گئے​

میرے زخموں کا بھی درمان تو ممکن تھا مگر
زخم ایسے تھے مسیحا کو دکھائے نہ گئے​

بارِ نفرت لئے پھرتی ہے یہ دنیا کیسے!
ہم سے آزارِ محبت ہی اُٹھائے نہ گئے

دل کی دنیا پہ حکومت تو ملی تھی کچھ روز
چام کے دام مگر ہم سے چلائے نہ گئے​

ہم وہ نادارِ محبت ہیں کہ ہنگامِ وداع
گوہرِ اشک بھی پلکوں پہ سجائے نہ گئے​

ہم دوانوں سے خفا کیوں ہوئے اربابِ خرد
اُن کی دہلیز پہ ہم تو کبھی آئے نہ گئے​

ہم نفس رات کے پھونکوں سے بجھا دیتے ہیں
جو دیئے تیز ہواؤں سے بجھائے نہ گئے​

(۲۰۱۴)​
 
کیا کہنے ظہیر بھائی۔
یہ اشعار خاص طور پر پسند آئے۔
چشمِ نم بھول گئے ، عارضِ تر بھول گئے
یہ الگ بات وہ آنسو ہی بھُلائے نہ گئے​

میرے زخموں کا بھی درمان تو ممکن تھا مگر
زخم ایسے تھے مسیحا کو دکھائے نہ گئے​

بارِ نفرت لئے پھرتی ہے یہ دنیا کیسے!
ہم سے آزارِ محبت ہی اُٹھائے نہ گئے​

ہم نفس رات کے پھونکوں سے بجھا دیتے ہیں
جو دیئے تیز ہواؤں سے بجھائے نہ گئے​
 
یہ اشعار بہت خوب ہیں, ادھر تازہ اشعار پڑھ کر دل کی کلی کھل اٹھی۔ واضح رہے کہ ایک عرصے سے تازہ اشعار کی فرمائش تھی سو اب ان شاءاللہ پوری ہوتی رہنے کی قوی امید پیدا ہوگئی ہے!!!
 

فرقان احمد

محفلین
کیا سخن تھے کہ جو دل میں بھی چھپائے نہ گئے
لبِ اظہار تک آئے پہ سُنائے نہ گئے

ضعفِ مضرابِ تمنا کوئی دیکھے تو مرا
تار بھی بربطِ ہستی کے ہلائے نہ گئے

چشمِ نم بھول گئے ، عارضِ تر بھول گئے
یہ الگ بات وہ آنسو ہی بھُلائے نہ گئے

ہم وہ نادارِ محبت ہیں کہ ہنگامِ وداع
گوہرِ اشک بھی پلکوں پہ سجائے نہ گئے
جسے ہم لاجواب کہتے ہیں!
 

یاسر شاہ

محفلین
کیا سخن تھے کہ جو دل میں بھی چھپائے نہ گئے
لبِ اظہار تک آئے پہ سُنائے نہ گئے

میرے زخموں کا بھی درمان تو ممکن تھا مگر
زخم ایسے تھے مسیحا کو دکھائے نہ گئے

بارِ نفرت لئے پھرتی ہے یہ دنیا کیسے!
ہم سے آزارِ محبت ہی اُٹھائے نہ گئے



بہت خوب -دلکش غزل -
 
Top