کیا ذہانت کو بڑھایا جا سکتا ہے ؟

ہر انسان قدرتی طور پر مخصوص ذہنی رحجان رکھتا ہے، اس کی سوچ اور لگاؤ کسی خاص شعبہ زندگی کی طرف زیادہ ہوتا ہے اور اگر اس مخصوص شعبے میں اسے کام کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ بہت اچھی کارکردگی دکھا سکتا ہے جیسے کچھ لوگوں کو الیکٹرانکس میں دلچسپی ہوتی ہے، کچھ کو تاریخ معلومات میں، کوئی اپنے ذہنی رحجان کے باعث دینی معلومات کا ماہر بن جاتا ہے، جو لوگ اپنی پسند کے شعبہ زندگی میں پہنچ جاتے ہیں وہ غیر معمولی عروج حاصل کر لیتے ہیں مگر جو اپنی پسند کے شعبے میں نہیں پہنچ پاتے اور باعث مجبوری، روزی روٹی کمانے کے لیے کسی دوسرے شعبے میں چلے جاتے ہیں ان کے نصیب میں لعن طعن رہ جاتی ہے، مایوسی، عدم ذہنی سکون اور دوسروں کی ناراضگی اس کا مقدر بن جاتی ہے

بہت سے لوگ ہر فن مولا بھی ہوتے ہیں اور انہیں کسی بھی شعبہ زندگی میں کام کرنے کا موقع ملے وہ کامیاب رہتے ہیں مگر جو لوگ ایسے نہیں ہوتے انہں بار بار یہ بات سننی پڑتی ہے

اپنے دماغ کا استعمال کرو

کام پہ دھیان دو

ایسے نہیں اس کام کو ایسے کرتے ہیں

تمہارا دھیان کہاں ہوتا ہے

وغیرہ وغیرہ

میں اس مسلے پر آپ کی رائے لینا چاہتا ہوں، اگر کسی کو بھی اوپر بیان کی گئی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو ، کیا وہ کسی طریقے سے اپنی ذہانت میں اضافہ کر سکتا ہے ؟ ذہانت یا آئی کیو لیول تو اللہ تعالی کی دی ہوئی ایک نعمت ہے، کیا کوئی ایسی کتاب ،ایسا فارمولا یا ایسی کوئی خوراک موجود ہے جس سے ایک انسان اپنی ذہانت یا آئی کیو لیول میں اضافہ کر سکے اور اپنی کارکردگی کسی خاص شعبہ زندگی میں بڑھا سکے
نوٹ : یہ سوال میں اپنے بلاگ پر بھی شائع کر چکا ہوں
 

تعبیر

محفلین
محفل کے ذہینوں کہاں ہو آ کر جواب دیں یہاں


گو کہ ذہانت مروثی ہے لیکن اگر آپ کا رجحان اس چیز میں ہو تو آپ اس میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا سکتے ہیں اور اگر رجحان نا ہو تو عدم دلچسپی کی وجہ سے وہاں ہم اس مخصوص فیلڈ میں بے وقوف ہی لگیں گے

رہی آپ کی دوسری بات بلکہ سوالات تو اسکا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات کچھ deficiencies کی وجہ سے بھی ہم خود کو کند ذہن محسوس کرتے ہیں
 

طالوت

محفلین
میرے خیال میں سارا دارومدار آپ کی دلچسپی پر ہے ۔۔ ذہانت کی کمی یا بڑھوتوی مسئلہ نہیں ۔۔
وسلام
 

ماسٹر

محفلین
میرے خیال میں تو ذہانت بڑھانے سے قبل ذہانت کا استعمال آنا چاہیے -
آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ عام انسان اپنی ذہانت کا صرف 15 سے 20 فیصد استعمال کرتا ہے ، اور بقیہ کے استعمال سے ساری عمر محروم رہتا ہے اور اپنی ان صلاحیتوں سے بے خبر ہی رہتا ہے -
 

قیصرانی

لائبریرین
وقت، تجربہ اور دلچسپی سے کافی مشکلات آسان ہو سکتی ہیں۔ ایک مزے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر میں کوئی کام آج کرنا چاہوں یا کوئی مشکل حل کرنا چاہوں اور ناکام رہوں تو چند دن کے وقفے کے بعد دوبارہ کوشش سے وہی چیز آرام سے حل ہو سکتی ہے

تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں

دلچسپی کا آپ بہتر جانتے ہیں
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم جناب مرزا یاسر عمران جی
ذہانت کو بڑھانے کے لیئے
پابندی نماز کے ساتھ
"رب زدنی علما "
اے اللہ میرے علم و فہم کو بڑھا دے
کا ورد بہترین ہے ۔
اور اگر ساتھ میں درود شریف بھی پڑھ لیا جائے ۔
تو یقین واثق ہے کہ
کم ذہانت والا بھی وقت آنے پر ذہانت والوں کو متحیر کر دے ۔
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ۔
آزما لیں ۔
اللہ تعالی آپ کو علم نافع سے نوازے آمین
نایاب
 

ناصر عاقل

محفلین
مرزا یاسر عمران ساحب! آپ کی بات چھوٹی سی ہے مگر اس کو سمجھانا آسان نہیں- کوئی کتاب تو میرے علم نہیں ہے- لیکن کچھ بزگوں کی باتیں مختصر بیان کرتا ہوں
انسان کے دماغ کے اندر چھپی تہیں ہوتی ہیں جو شخص ان تہوں تک پہنچ جاتا ہے وہ اس کام میں قابل کہلاتا ہے- دراصل میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر انسان کے اندر پہلے سے ڈیٹا بیس موجود ہوتا ہے بس جو جس ڈیٹا تہ تک پہچتا ہے وہ اسے سمجھ جاتا ہے۔ جس طرح آپ کسی کا نام یاد کریں پھر بھول جائیں اور یاد کرانے پر یاد آ جائے۔ مثلا اگر آج سے دس سو سال پہلے کوئی شخص ہوائی جہاز کی بات کرے تو سب اسے پاگل کہیں گے یعنی کم عقل لیکن حقیقت میں وہ دماغ کی اس تہ تک پہنچ گیا تھا کہ دوسرے نہیں پہنچ سکے۔ اسی طرح جو شخص موجودہ زمانے کے حساب سے نہیں سوچتا وہ کم قابل یا لو آئی کیو لیول کہلاتا ہے اور جس نے پرکٹیکلی ہوائی جہاز بنا کر دنیا والوں کو دیکھا دیا وہ قابل ہوا- لیکن سوال یہ ہے اس شخص نے ہوائی جہاز کے بارے میں سوچا کیسے اور مانا کیسے - جو لعں طعں کا شکار ہوتے ہیں ان لوگوں کے لیے مشورہ یہ ہے کہ وہ دنیا سے ہٹ کر یہ سوچے کہ وہ کیا سوچتے ہیں اور اس کو پرکٹیکلی ثابت کرکے دیکھائیں چاہے وہ کام عجوبہ ہی لگے دنیا مان جائے گی یہ بندہ قبل ہے۔ رہی بات مجبوری کی تو تمام دنیا کھیل تماشا ہے، اللہ پاک کی کوئی نہ کوئی اس میں مصلحت ہے کیونکہ انسانی عقل محدود ہے کنواں کے مینڈک کی طرح سوچتی ہے جبکہ اللہ کا علم لامحدود ہے۔ ان جیسے لوگوں کے لیے مشورہ ہے کہ وہ کوششں کرے اور دوسروں کی باتوں پر توجہ دیے بغیر اصل کامیابی کی سوچیں یعنی مقام جنت۔ ہر انساں کا آئی کیو لیول ایک جیسا ہوتا ہے لیکن جو ثابت کرتے ہیں وہ لوگ ہر فن مولا ، اس کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے پہلی اللہ کی مرضی دوسری بندے کی محنت۔ جب یہ دونوں میچ نہیں کرتیں تو کم عقل، لو آئی کیو لیول وغیرہ۔
 
میرے خیال میں تو ذہانت بڑھانے سے قبل ذہانت کا استعمال آنا چاہیے -
آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ عام انسان اپنی ذہانت کا صرف 15 سے 20 فیصد استعمال کرتا ہے ، اور بقیہ کے استعمال سے ساری عمر محروم رہتا ہے اور اپنی ان صلاحیتوں سے بے خبر ہی رہتا ہے -

مگر ہم اپنے دماغ کے بقیہ 80 فیصد کو کیسے استعمال میں لا سکتے ہیں
 
وقت، تجربہ اور دلچسپی سے کافی مشکلات آسان ہو سکتی ہیں۔ ایک مزے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر میں کوئی کام آج کرنا چاہوں یا کوئی مشکل حل کرنا چاہوں اور ناکام رہوں تو چند دن کے وقفے کے بعد دوبارہ کوشش سے وہی چیز آرام سے حل ہو سکتی ہے

تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں

دلچسپی کا آپ بہتر جانتے ہیں

جی میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں ، اسی لیے تو صلاح الدین ایوبی نے بھی ہندوستان پر 17 حملے کیے اور بالآخر فتح حاصل کی
 
السلام علیکم
محترم جناب مرزا یاسر عمران جی
ذہانت کو بڑھانے کے لیئے
پابندی نماز کے ساتھ
"رب زدنی علما "
اے اللہ میرے علم و فہم کو بڑھا دے
کا ورد بہترین ہے ۔
اور اگر ساتھ میں درود شریف بھی پڑھ لیا جائے ۔
تو یقین واثق ہے کہ
کم ذہانت والا بھی وقت آنے پر ذہانت والوں کو متحیر کر دے ۔
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ۔
آزما لیں ۔
اللہ تعالی آپ کو علم نافع سے نوازے آمین
نایاب

بہترین نسخہ ہے، مگر ہم اس نسخے کو بھلا چکے ہیں ، اسی وجہ سے تو مار کھا رہے ہیں
میں آپ کے جواب سے ذہنی طور پر مطمیئن ہوا ہوں
یہ باتیں یقینن کہیں پڑھی ہوں گی مگر بھلا چکا تھا، آپ نے پھر یاد دلا دیا
اللہ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے
 
مرزا یاسر عمران ساحب! آپ کی بات چھوٹی سی ہے مگر اس کو سمجھانا آسان نہیں- کوئی کتاب تو میرے علم نہیں ہے- لیکن کچھ بزگوں کی باتیں مختصر بیان کرتا ہوں
انسان کے دماغ کے اندر چھپی تہیں ہوتی ہیں جو شخص ان تہوں تک پہنچ جاتا ہے وہ اس کام میں قابل کہلاتا ہے- دراصل میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر انسان کے اندر پہلے سے ڈیٹا بیس موجود ہوتا ہے بس جو جس ڈیٹا تہ تک پہچتا ہے وہ اسے سمجھ جاتا ہے۔ جس طرح آپ کسی کا نام یاد کریں پھر بھول جائیں اور یاد کرانے پر یاد آ جائے۔ مثلا اگر آج سے دس سو سال پہلے کوئی شخص ہوائی جہاز کی بات کرے تو سب اسے پاگل کہیں گے یعنی کم عقل لیکن حقیقت میں وہ دماغ کی اس تہ تک پہنچ گیا تھا کہ دوسرے نہیں پہنچ سکے۔ اسی طرح جو شخص موجودہ زمانے کے حساب سے نہیں سوچتا وہ کم قابل یا لو آئی کیو لیول کہلاتا ہے اور جس نے پرکٹیکلی ہوائی جہاز بنا کر دنیا والوں کو دیکھا دیا وہ قابل ہوا- لیکن سوال یہ ہے اس شخص نے ہوائی جہاز کے بارے میں سوچا کیسے اور مانا کیسے - جو لعں طعں کا شکار ہوتے ہیں ان لوگوں کے لیے مشورہ یہ ہے کہ وہ دنیا سے ہٹ کر یہ سوچے کہ وہ کیا سوچتے ہیں اور اس کو پرکٹیکلی ثابت کرکے دیکھائیں چاہے وہ کام عجوبہ ہی لگے دنیا مان جائے گی یہ بندہ قبل ہے۔ رہی بات مجبوری کی تو تمام دنیا کھیل تماشا ہے، اللہ پاک کی کوئی نہ کوئی اس میں مصلحت ہے کیونکہ انسانی عقل محدود ہے کنواں کے مینڈک کی طرح سوچتی ہے جبکہ اللہ کا علم لامحدود ہے۔ ان جیسے لوگوں کے لیے مشورہ ہے کہ وہ کوششں کرے اور دوسروں کی باتوں پر توجہ دیے بغیر اصل کامیابی کی سوچیں یعنی مقام جنت۔ ہر انساں کا آئی کیو لیول ایک جیسا ہوتا ہے لیکن جو ثابت کرتے ہیں وہ لوگ ہر فن مولا ، اس کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے پہلی اللہ کی مرضی دوسری بندے کی محنت۔ جب یہ دونوں میچ نہیں کرتیں تو کم عقل، لو آئی کیو لیول وغیرہ۔

جی آپ درست فرما رہے ہیں، کامیابی حاصل کرنے کے لیے انسان کو بہت آگے کا سوچنا پڑتا ہے اور بہت محنت بھی کرنی پڑتی ہے، اتنا مفصل جواب تحریر کرنے کا بہت شکریہ :)
 
Top