کیا دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہے؟؟؟

نایاب

لائبریرین
یہ ایک سنجیدہ قسم کا دھاگہ ہے۔ برائے مہربانی اس میں غیر متعلقہ باتیں نہ کی جائیں ورنہ حذف کر دی جائیں گی۔
ویسے کیا ہی اچھا ہو کہ اگر اک ریٹنگ " غیر متعلقہ پوسٹ " کی بنا دی جائے ۔ تاکہ غیر ضروری غیرمتفق اور ناپسند کی ریٹنگ سے بچاؤ ہو سکے ۔
 

وجی

لائبریرین
آپ لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہسٹری ہے ۔ اوکے مجھے دکھائیں کوئی عمر جیسا کریکٹر آج یا 1000 سال پہلے تک کوئی ویسا دوسرا بنا؟ ہم لوگ 2012 میں جی رہے ہیں اور ہمارے ہاتھ میں جو کچھ ہے ہمیں اس کی بات کرنی ہے ۔ کیا آپکو پتہ ہے سن 1900 میں دنیا کی آبادی صرف 900 ملین تھی اب 7 ارب ہو چکی ہے ؟ آپ 1400 سال پہلے کی اور ان زمانوں کی باتوں سے باہر نکلیں ۔ آج اپرن پر کھڑے ایک جہاز کو چلانے کے لیے پائلٹ چاہیے نا کہ ملا ۔ ایک مل کو چلانے کے لیے لیبر سے لے کر سی ای او چاہیے ملا نہیں آج ہمارے ملک کے ہزاروں ٹائیپ کے جہازوں میزائیلوں ٹینکوں اے پی سی شپس سب میرینز ہیلی کاپٹرز کو آپریٹ کرنے کے لیے ہزاروں انجئیئیرز اور ٹیکنیشنز کا پڑھا لکھا عملہ چاہیے نا کہ مدرسے کے مولوی ۔ آج ملک کے اندر ہر ہونے والے کام کے لیے سول انجئیرز چاہیے نا کہ مولوی ۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی اور ہم کہاں پڑے ہیں چین میں تیس منزلہ عمارت 15 دن میں بنا دیتا ہے تو ہم یہ کام 60 سال میں نہیں کر پا رہے اور ہمارا اول و آخر مسئلہ یہی مذہب اور دین بچا ہے ۔ :atwitsend: اور ہم جیتے ہیں ہسٹری میں اس ملک کو ہر کام کے لیے پروفیشنل چاہیے پی ایچ ڈی چاہیے اور جس کام اسی کو ساجھے ۔ مذہب نماز روزہ حج وغیرہ جو دل کرے کریں کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے پر مذہب ہر کام میں ہاتھ نا ہی ڈالے تو بہتر ہے ۔ کیا مولوی ہماری 3 سٹاک مارکیٹس چلا لیں گے ؟ یا کامرہ میں جہاز بنانے اور اوور ہال کرنے کے ساتوں پلانٹ آپریٹ کر سکتے ہین؟ یا کے آر ایل نیسکام میں میزائیل بنا سکتے ہیں؟ کیا ٹیکسی وے پر کھڑے ایک جہاز کو لندن لے جا کر واپس لے آ سکتے ہیں؟ نہیں کیونکہ یہ ان کا کام نہیں ہے ۔ورنہ انجام افغانستان انڈر طالبان ہو گا جو ہم سب نے دیکھ لیا

بھائی عسکری آپ بات کو گھمارہے ہیں ملا کے حساب سے
یہاں بات دین اور سیاست کی ہے اس پر بات کریں
اگر آپ دین کو ملا کا پابند سمجھتے ہیں تو یہ آپکی سوچ ہوگی ہر کسی کی نہیں ۔
پہلے یہ طے کر لیں کہ سیاست کیا ہے پھر دین کی کیا ہے اس پر غور کریں
یا پہلے دین کیا ہے اس پر غور کرلیں

میرے نذدیک سیاست دین کا حصہ ہے کوئی دین کے دائرے سے باہر کی شہ نہیں ہے
کبھی لاالٰہ الا اللہ پر غور کریں اسی میں سیاست کی تعریف بھی مل جائے گی ۔
 

نیلم

محفلین
میں عام طور پر جنگ و دجل کی مخالفت کی وجہ سے عسکری کی پوسٹس کے سخت خلاف رہتا ہوں لیکن یہاں 100 فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ سیاست اور دین بالکل دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ کوئی ایک کامیاب اسلامی ریاست اس 21 ویں صدی میں نہ قائم ہوئی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ ایران اور سعودیہ جیسی اسلامی ریاستوں کا حال آپ سب کے سامنے ہے۔ ایک میں خواتین گاڑی نہیں چلا سکتیں، دوسرے میں اپنی پسند کی شادی نہیں کر سکتیں۔ ایک میں شیعوں پر مظالم ہیں تو دوسرے میں سنیوں اور بہائیوں پر۔ تمام اسلامی مملکتیں بین الاقوامی اسٹیٹس میں ناکام ریاستوں کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ اور ظاہر ہے یہاں اسلامی مذہب کا کوئی قصور نہیں بلکہ ان ملاؤں کا ہے جو ملا کی دوڑ مسجد چھوڑ کر عوامی سیاست میں گھس گئے ہیں!
توپھریہ مذاہب کاقصور توناہواہم انسانوں کاہوا،،،
دین نےعورتوں پرایسی کوئی پابندی نہیں لگائی ہے
 

عسکری

معطل
بھائی عسکری آپ بات کو گھمارہے ہیں ملا کے حساب سے
یہاں بات دین اور سیاست کی ہے اس پر بات کریں
اگر آپ دین کو ملا کا پابند سمجھتے ہیں تو یہ آپکی سوچ ہوگی ہر کسی کی نہیں ۔
پہلے یہ طے کر لیں کہ سیاست کیا ہے پھر دین کی کیا ہے اس پر غور کریں
یا پہلے دین کیا ہے اس پر غور کرلیں

میرے نذدیک سیاست دین کا حصہ ہے کوئی دین کے دائرے سے باہر کی شہ نہیں ہے
کبھی لاالٰہ الا اللہ پر غور کریں اسی میں سیاست کی تعریف بھی مل جائے گی ۔
سیاست ملک گیری اور ملک کا نظم و نسق انتظامی خارجی داخلی دفاعی معاشی -قانونی اور ترقیاتی امور کے علاوہ بہت کچھ
دین - بندے اور اس کے خدا یا جسے وہ مانے اس کے درمیان رشتہ عبادات رسم و تہوار دینی فرائض کی ادائیگی اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی ایک ناکام کوشش ۔
 

عسکری

معطل
توپھریہ مذاہب کاقصور توناہواہم انسانوں کاہوا،،،
دین نےعورتوں پرایسی کوئی پابندی نہیں لگائی ہے
انسانوں کے بغیر مذہب کیا ہے ؟ اگر انسان نا ہوں تو مذہب اپنی موت تو خود مر جائے گا انسان کے دم سے مذہب ہے مذہب کے دم سے انسان نہیں ۔ آج اگر سارے مسلمان دنیا سے غائب ہو جائیں تو اگلی ازان کون دے گا کوئی عیسائی یا یہودی؟ آپ لوگ مذہب کو بچانے کے لیے انسانیت کو الزام دے سکتے ہیں میں نہین دے سکتا اسلام وہی ہے جو مسلمانوں نے اپنے افعال اور اعمال سے دکھایا اور آج کا اسلام خونی اور بہت ہی بھیانک ہو چکا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں ۔
رہی بات عورتوں کی تو ہر مذہب نے انہین اچھی طرح نچوڑا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک بنیادی سوال۔ کیا اسلام میں ملا کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں؟ یعنی ایسا بندہ جو آپ کو "قیمتاً" مذہب تک لے جائے؟
 

arifkarim

معطل
توپھریہ مذاہب کاقصور توناہواہم انسانوں کاہوا،،،
دین نےعورتوں پرایسی کوئی پابندی نہیں لگائی ہے
قصور تو ظاہر ہے ہم انسانوں کا ہی ہے کہ ہمنے ایک دین اسلام کی لاتعداد تشریحات کر دیں اور اسی ایک دین میں سے لاتعداد فرقے، جماعتیں اور گروہ بنالئے۔ جبتک یہ دین ایک تھا اسوقت سیاست اور دین میں کوئی فرق رکھنے کی ضرورت نہیں تھی یعنی خلفائے راشدین کے وقت تک۔ جب خلفائے راشدین کے بعد یہ ایک دین اسلام دو فرقوں یعنی شیعہ سنی میں بٹ گیا تو سمجھ لیں کہ اسوقت ہی یہ دین اسلام ریاست سے الگ ہو گیا کیونکہ پھر کوئی جائز مرکزی حاکم باقی نہ رہا جو کہ آنحضور صللہعلیہسلم کی وفات کے بعد سے ایک یکساں اسلامی خلافتی نظام کی روح تھی۔ اسکے بعد آنے والی نام نہاد بادشاہت نما خلافتوں نے دین اور ریاست کیساتھ جو کیا، اسکی یہاں تعریف نہ ہی بیان کی جائے تو بہترہے!
 

نایاب

لائبریرین
ایک بنیادی سوال۔ کیا اسلام میں ملا کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں؟ یعنی ایسا بندہ جو آپ کو "قیمتاً" مذہب تک لے جائے؟
کوئی گنجائیش نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ وعید خسارہ ہے ان کے لیئے جو اللہ کی آیات فروخت کرتے ہیں ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لیئے ۔
کیا عجب بلند اخلاق و شان تھی ان کی جو اونٹ بکریاں چراتے کسب حلال فرماتے لوگوں کو ہدایت کی جانب بلاتے رحمت العالمین قرار پائے ۔
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عثمان

محفلین
دونوں ہی قسم کی مثالیں موجود ہیں۔
ایسی کامیاب سیاست اور ریاست جو دین کے تابع رہیں۔
اور ایسی کامیاب سیاست اور ریاست جو لادین رہیں۔
افراد کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ دین اور بے دین ، ہر قسم کے حلقہ میں شریف النفس اور کامیاب لوگ آپ کو نظر آئیں گے۔ :)
 
بہت خوب اور یہ ملا نامی ایک ہوا بنایا کس نے ہے؟؟؟؟؟ بھائی ملا کو بنانے والے بھی ہم ہی ہیں۔ یہ بہت خؤب ہے کہ پہلے اپنی نالائقی سے ایک شخص کو ایک ایسا کردار سونپ دیا جائے جو کہ اسلام نے اس کو سونپا ہی نہیں پھر اس کو ملا کا ایک ایسا حقیر ٹائٹل دے دیا جو آں جناب محترم و مقدس مآب کے نزدیک بھنگی کے آس پاس ہی کوئی چیز معلوم ہوتا ہے اور پھر اس کردار کوایک ڈیولش علامت بنا کر دنیا جہاں کی برائیاں لے کر گنوئی جائیں کسی سترہویں صدی کی بڑھیا کی طرح ؟

یعنی ایک نارمل مسلمان جو کہ عبادات کا پابند اخلاقیات سے مرصع ، اور بنیادی معاملات کا پکا ہو اس معیار پر پہچنے کے لیے کس چیز نے آپ کو اور مجھ کو روکا ہے کیا ملا نے؟ عبادات ، مذہبی امتیازی علامات اور عقائد نہ کسی کو انجنیر بننے سے روکتے ہیں نہ ڈاکٹر نہ سائنسدان اور نہ اکنامسٹ۔ ڈاڑھی رکھنے سے گاڑی کا بریک لگانے میں کوئی پرابلم نہیں ہوتی نہ نماز پڑھنے سے نوکری چھوٹتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑی بڑی مہمات تک مذہب کسی چیز میں آڑے نہیں آتا۔ملا ہو یا آیت اللہ ہو، مراجع ہو یا مجتہد ہو یہ سب حقارت کے استعارے نہیں بلکہ انجنیئر ڈاکٹر اور معاشرے کے لیے مفید و معاون دیگرحضرات کی طرح ہیں، جس ایک ڈاکٹر، ایک فوجی، ایک انجنیئر کی دو نمبری اس کا ذاتی فعل ہے نہ مجموعی طبقے و پیشے کا اسی طرح کوئی بدیانت ملا بھی نہ ساری برادری کا نمائندہ ہے اور نہ ہی ساری دنیا کی خرابی کا ذ مہ دار۔ اس کو اس کے درجے پر ہی رکھیئے ۔ کبھی کبھی مجھ کو زیادہ پڑھے لکھے حضرات کی باتیں سن کر یوں لگتا ہے کہ انہوں نے ایک شیطانی یوٹوپیا بنائی ہوئی ہے جہاں دنیاوہ تمام خرابیوں کا ایک ہی ذمہ دار ہے وہ ہے ملا نامی ایک کردار، یعنی ملا نہ ہوا چوک پر رکھا ڈھول ہوا کہ جو بھی آتا ہے ہاتھ مار کر اس کی بجا ڈالتا ہے۔
کس نے کہا ہے کہ سیاست کو مذہب کے تابع رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ ملکی باگ ڈور کسی ملا کو سونپ دی جائے؟ درحقیقت اسلام جو بھی اصول و ضوابط پیش کرتا ہے اس کو موجودہ دور کہ کسی ملا کے کردار سے نہیں سمجھا جاسکتا اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ سارے ملا دو نمبر ہیں بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی نظام یا سسٹم اپنے پیروکاروں کے اپنے انفرادی معاملات و خیالات سے متاثر ہوتا ہے، اور جوں جوں اپنے اصل سے بعد اختیار کرتا ہے ویسے ویسے یہ رنگ آمیزی کہیں کہیں اصل سے بالکل مختلف ہو جاتی ہیں ، کہیں قصدا کہیں حادثا لہذا اگر دین سیکھنا ہے تو پھر قرآن، صاحب قرآن کی سیرت اور اصحاب صاحب قرآن سے بہتر اور کوئی محفوظ ذریعہ نہیں۔
موجودہ دور میں ایک بنیادی نظام حکومت تمام تر جدید طور طریقوں سے قائم کیا جاسکتا ، چلایا جاسکتا ہے تمام باگ دڑ میرے خیال میں بہترین ٹیکوکریٹس کے پاس ہونی چاہیے ان کا سربراہ ایک مقتدر اور پاک از کرپشن سیاستدان ہو اور علما کی کونسل صرف متنازعہ معاملات میں مشورہ دے اور رہنمائی۔ بنیادی معاملات کو ٖقران و سنت کی روشنی میں تمام لوگ مل کر چلائیں۔
 

وجی

لائبریرین
سیاست ملک گیری اور ملک کا نظم و نسق انتظامی خارجی داخلی دفاعی معاشی -قانونی اور ترقیاتی امور کے علاوہ بہت کچھ
دین - بندے اور اس کے خدا یا جسے وہ مانے اس کے درمیان رشتہ عبادات رسم و تہوار دینی فرائض کی ادائیگی اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی ایک ناکام کوشش ۔

ساست کی جو آپنے تعریف کی مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں
مگر دین ۔ صرف رسم و تہوار و دینی فرائض کی ادائیگی کا نام نہیں
دین میں شریعت ہے اسکا کی تعریف آپ نے کی ہے میرے خیال میں
دین میں شریعت ہے دین کی بنیاد پر آپ کسی شریعت کی پیروی یا عمل کرتے ہیں ۔

دین عقائد کی بات کرتا ہے، سوچ کی بات کرتا ہے اور
شریعت ان عقائد کی بنیاد پر عمل و پیروی کا نام ہے اور پھر مختلف رسم و رواج اور زندگی گزارنے کے طریقے کی بات کرتا ہے
اسی طرح
قصور تو ظاہر ہے ہم انسانوں کا ہی ہے کہ ہمنے ایک دین اسلام کی لاتعداد تشریحات کر دیں اور اسی ایک دین میں سے لاتعداد فرقے، جماعتیں اور گروہ بنالئے۔ جبتک یہ دین ایک تھا اسوقت سیاست اور دین میں کوئی فرق رکھنے کی ضرورت نہیں تھی یعنی خلفائے راشدین کے وقت تک۔ جب خلفائے راشدین کے بعد یہ ایک دین اسلام دو فرقوں یعنی شیعہ سنی میں بٹ گیا تو سمجھ لیں کہ اسوقت ہی یہ دین اسلام ریاست سے الگ ہو گیا کیونکہ پھر کوئی جائز مرکزی حاکم باقی نہ رہا جو کہ آنحضور صللہعلیہسلم کی وفات کے بعد سے ایک یکساں اسلامی خلافتی نظام کی روح تھی۔ اسکے بعد آنے والی نام نہاد بادشاہت نما خلافتوں نے دین اور ریاست کیساتھ جو کیا، اسکی یہاں تعریف نہ ہی بیان کی جائے تو بہترہے!

ہاں کہ سکتے ہیں شریعت میں ایک واضع فرق آگیا ہے
مگر عقائد تو ابھی بھی ہوئی ہیں اس لحاظ سے میں نہیں سمجھتا کہ دین اسلام میں فرق پڑھ گیا ہے ۔

پاکستانی آئین مسلمان کی تعریف کچھ اسطرح کرتا ہے کہ
وہ شخص جو اللہ کی واحدانیت کا اقرار کرے اور محمد صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کو اللہ کا آخری بنی و رسول مانتے ہوئے ان پر نازل ہوئی کتاب قرآن پر ایمان و عمل کرے وہ مسلمان ہے ۔
اب عارف صاحب اس پر آپ پوچھ لیں کسی فرقے کو اعتراض ہو۔
 

نیلم

محفلین
انسانوں کے بغیر مذہب کیا ہے ؟ اگر انسان نا ہوں تو مذہب اپنی موت تو خود مر جائے گا انسان کے دم سے مذہب ہے مذہب کے دم سے انسان نہیں ۔ آج اگر سارے مسلمان دنیا سے غائب ہو جائیں تو اگلی ازان کون دے گا کوئی عیسائی یا یہودی؟ آپ لوگ مذہب کو بچانے کے لیے انسانیت کو الزام دے سکتے ہیں میں نہین دے سکتا اسلام وہی ہے جو مسلمانوں نے اپنے افعال اور اعمال سے دکھایا اور آج کا اسلام خونی اور بہت ہی بھیانک ہو چکا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں ۔
رہی بات عورتوں کی تو ہر مذہب نے انہین اچھی طرح نچوڑا ہے
مذہب کبھی نہیں مراکرتےہاں انسان ضرور مرجاتےہیں:)مذہب انسانوں کامحتاج نہیں انسان مذہب کامحتاج ہےاگردنیامیں مذہب ناہوتےتوہم انسان ایکدوسرےکو کاٹتےپیٹتےکسی کوکسی چیز کاڈر خوف ناہوتا،،،
اگر سیاست میں یہ بات سمجھ لی جائےکہ ہم نےاپنےہرعمل کاحساب دیناہےاورسب فانی ہےتوکوئی بھی فرعون نابنےسب حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ بناچائے۔
فرعون کےپاس کیانہیں تھا؟سب کچھ تھالیکن مذہب ناتھا،،،فرعون جیتایاہارا:)
عورتوں کومذاہب نےنہیں نچوڑابلکہ سنوارااور بچایابلکل ایسےجیسے کوئی اپنی بہت قیمتی چیز کو7 تالوں میں چُھپاکےرکھتاہے:)
اور مرد کو اس کاحاکم نہیں محافظ بناکےبہجھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت خوب اور یہ ملا نامی ایک ہوا بنایا کس نے ہے؟؟؟؟؟ بھائی ملا کو بنانے والے بھی ہم ہی ہیں۔ یہ بہت خؤب ہے کہ پہلے اپنی نالائقی سے ایک شخص کو ایک ایسا کردار سونپ دیا جائے جو کہ اسلام نے اس کو سونپا ہی نہیں پھر اس کو ملا کا ایک ایسا حقیر ٹائٹل دے دیا جو آں جناب محترم و مقدس مآب کے نزدیک بھنگی کے آس پاس ہی کوئی چیز معلوم ہوتا ہے اور پھر اس کردار کوایک ڈیولش علامت بنا کر دنیا جہاں کی برائیاں لے کر گنوئی جائیں کسی سترہویں صدی کی بڑھیا کی طرح ؟

یعنی ایک نارمل مسلمان جو کہ عبادات کا پابند اخلاقیات سے مرصع ، اور بنیادی معاملات کا پکا ہو اس معیار پر پہچنے کے لیے کس چیز نے آپ کو اور مجھ کو روکا ہے کیا ملا نے؟ عبادات ، مذہبی امتیازی علامات اور عقائد نہ کسی کو انجنیر بننے سے روکتے ہیں نہ ڈاکٹر نہ سائنسدان اور نہ اکنامسٹ۔ ڈاڑھی رکھنے سے گاڑی کا بریک لگانے میں کوئی پرابلم نہیں ہوتی نہ نماز پڑھنے سے نوکری چھوٹتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑی بڑی مہمات تک مذہب کسی چیز میں آڑے نہیں آتا۔ملا ہو یا آیت اللہ ہو، مراجع ہو یا مجتہد ہو یہ سب حقارت کے استعارے نہیں بلکہ انجنیئر ڈاکٹر اور معاشرے کے لیے مفید و معاون دیگرحضرات کی طرح ہیں، جس ایک ڈاکٹر، ایک فوجی، ایک انجنیئر کی دو نمبری اس کا ذاتی فعل ہے نہ مجموعی طبقے و پیشے کا اسی طرح کوئی بدیانت ملا بھی نہ ساری برادری کا نمائندہ ہے اور نہ ہی ساری دنیا کی خرابی کا ذ مہ دار۔ اس کو اس کے درجے پر ہی رکھیئے ۔ کبھی کبھی مجھ کو زیادہ پڑھے لکھے حضرات کی باتیں سن کر یوں لگتا ہے کہ انہوں نے ایک شیطانی یوٹوپیا بنائی ہوئی ہے جہاں دنیاوہ تمام خرابیوں کا ایک ہی ذمہ دار ہے وہ ہے ملا نامی ایک کردار، یعنی ملا نہ ہوا چوک پر رکھا ڈھول ہوا کہ جو بھی آتا ہے ہاتھ مار کر اس کی بجا ڈالتا ہے۔
کس نے کہا ہے کہ سیاست کو مذہب کے تابع رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ ملکی باگ ڈور کسی ملا کو سونپ دی جائے؟ درحقیقت اسلام جو بھی اصول و ضوابط پیش کرتا ہے اس کو موجودہ دور کہ کسی ملا کے کردار سے نہیں سمجھا جاسکتا اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ سارے ملا دو نمبر ہیں بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی نظام یا سسٹم اپنے پیروکاروں کے اپنے انفرادی معاملات و خیالات سے متاثر ہوتا ہے، اور جوں جوں اپنے اصل سے بعد اختیار کرتا ہے ویسے ویسے یہ رنگ آمیزی کہیں کہیں اصل سے بالکل مختلف ہو جاتی ہیں ، کہیں قصدا کہیں حادثا لہذا اگر دین سیکھنا ہے تو پھر قرآن، صاحب قرآن کی سیرت اور اصحاب صاحب قرآن سے بہتر اور کوئی محفوظ ذریعہ نہیں۔
موجودہ دور میں ایک بنیادی نظام حکومت تمام تر جدید طور طریقوں سے قائم کیا جاسکتا ، چلایا جاسکتا ہے تمام باگ دڑ میرے خیال میں بہترین ٹیکوکریٹس کے پاس ہونی چاہیے ان کا سربراہ ایک مقتدر اور پاک از کرپشن سیاستدان ہو اور علما کی کونسل صرف متنازعہ معاملات میں مشورہ دے اور رہنمائی۔ بنیادی معاملات کو ٖقران و سنت کی روشنی میں تمام لوگ مل کر چلائیں۔
قسم لے لیں، میں نے نہیں بنایا :hypnotized:
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت خوب اور یہ ملا نامی ایک ہوا بنایا کس نے ہے؟؟؟؟؟ بھائی ملا کو بنانے والے بھی ہم ہی ہیں۔ یہ بہت خؤب ہے کہ پہلے اپنی نالائقی سے ایک شخص کو ایک ایسا کردار سونپ دیا جائے جو کہ اسلام نے اس کو سونپا ہی نہیں پھر اس کو ملا کا ایک ایسا حقیر ٹائٹل دے دیا جو آں جناب محترم و مقدس مآب کے نزدیک بھنگی کے آس پاس ہی کوئی چیز معلوم ہوتا ہے اور پھر اس کردار کوایک ڈیولش علامت بنا کر دنیا جہاں کی برائیاں لے کر گنوئی جائیں کسی سترہویں صدی کی بڑھیا کی طرح ؟

یعنی ایک نارمل مسلمان جو کہ عبادات کا پابند اخلاقیات سے مرصع ، اور بنیادی معاملات کا پکا ہو اس معیار پر پہچنے کے لیے کس چیز نے آپ کو اور مجھ کو روکا ہے کیا ملا نے؟ عبادات ، مذہبی امتیازی علامات اور عقائد نہ کسی کو انجنیر بننے سے روکتے ہیں نہ ڈاکٹر نہ سائنسدان اور نہ اکنامسٹ۔ ڈاڑھی رکھنے سے گاڑی کا بریک لگانے میں کوئی پرابلم نہیں ہوتی نہ نماز پڑھنے سے نوکری چھوٹتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑی بڑی مہمات تک مذہب کسی چیز میں آڑے نہیں آتا۔ملا ہو یا آیت اللہ ہو، مراجع ہو یا مجتہد ہو یہ سب حقارت کے استعارے نہیں بلکہ انجنیئر ڈاکٹر اور معاشرے کے لیے مفید و معاون دیگرحضرات کی طرح ہیں، جس ایک ڈاکٹر، ایک فوجی، ایک انجنیئر کی دو نمبری اس کا ذاتی فعل ہے نہ مجموعی طبقے و پیشے کا اسی طرح کوئی بدیانت ملا بھی نہ ساری برادری کا نمائندہ ہے اور نہ ہی ساری دنیا کی خرابی کا ذ مہ دار۔ اس کو اس کے درجے پر ہی رکھیئے ۔ کبھی کبھی مجھ کو زیادہ پڑھے لکھے حضرات کی باتیں سن کر یوں لگتا ہے کہ انہوں نے ایک شیطانی یوٹوپیا بنائی ہوئی ہے جہاں دنیاوہ تمام خرابیوں کا ایک ہی ذمہ دار ہے وہ ہے ملا نامی ایک کردار، یعنی ملا نہ ہوا چوک پر رکھا ڈھول ہوا کہ جو بھی آتا ہے ہاتھ مار کر اس کی بجا ڈالتا ہے۔
کس نے کہا ہے کہ سیاست کو مذہب کے تابع رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ ملکی باگ ڈور کسی ملا کو سونپ دی جائے؟ درحقیقت اسلام جو بھی اصول و ضوابط پیش کرتا ہے اس کو موجودہ دور کہ کسی ملا کے کردار سے نہیں سمجھا جاسکتا اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ سارے ملا دو نمبر ہیں بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی نظام یا سسٹم اپنے پیروکاروں کے اپنے انفرادی معاملات و خیالات سے متاثر ہوتا ہے، اور جوں جوں اپنے اصل سے بعد اختیار کرتا ہے ویسے ویسے یہ رنگ آمیزی کہیں کہیں اصل سے بالکل مختلف ہو جاتی ہیں ، کہیں قصدا کہیں حادثا لہذا اگر دین سیکھنا ہے تو پھر قرآن، صاحب قرآن کی سیرت اور اصحاب صاحب قرآن سے بہتر اور کوئی محفوظ ذریعہ نہیں۔
موجودہ دور میں ایک بنیادی نظام حکومت تمام تر جدید طور طریقوں سے قائم کیا جاسکتا ، چلایا جاسکتا ہے تمام باگ دڑ میرے خیال میں بہترین ٹیکوکریٹس کے پاس ہونی چاہیے ان کا سربراہ ایک مقتدر اور پاک از کرپشن سیاستدان ہو اور علما کی کونسل صرف متنازعہ معاملات میں مشورہ دے اور رہنمائی۔ بنیادی معاملات کو ٖقران و سنت کی روشنی میں تمام لوگ مل کر چلائیں۔
رنگ شدہ متن کے لئے دو مثالیں ہیں۔ ایک ایران جہاں آیت اللہ (یا ان کا جو بھی ٹائٹل ہے) ایک طرح سے مطلق العنان حکمران ہیں لیکن پردے کے پیچھے۔ دوسری مثال سعودی عرب کی ہے۔ اب بتائیے کہ اس طرح کی صورتحال میں کسے فالو کیا جائے؟

میرا ذاتی مشورہ یہ ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ علماء کو حکومت کے امور میں اور حکومت کو علماء کے امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے

کسی بھی فلاحی اور ترقی یافتہ مملکت کی مثال دیکھ لیں، بغیر کسی مسلمان عالم کے اپنے شہریوں کو وہ سہولتیں دے رہی ہے جو عین اسلام ہونا چاہیئے۔ یعنی جان، مال اور عزت کا تحفظ، چادر اور چاردیواری کا تقدس، مستقل ذریعہ آمدنی یا اس کا متبادل، صحت کی مفت سہولیت (مفت یعنی انتہائی کم قیمت پر)، مفت تعلیم وغیرہ وغیرہ

داڑھی بے شک گاڑی کی بریک کو لگنے سے نہ روکتی ہو، لیکن تحقیق کر کے ہمیں گاڑیاں بنانے تک نہیں پہنچنے دے سکتی۔ چاند پر اگر انسان پہنچا ہے تو اس میں اس کی داڑھی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ بلکہ داڑھی کا عمل دخل نہ ہونے سے ہی انسان چاند تک پہنچا ہے۔ ہمارے "علماء" نے تو اسی وقت فتاوے جھاڑ دیئے تھے کہ یہ پتہ نہیں کیا کیا ہے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے نیل آرمسٹرانگ کا کہ جس نے اذان سنی اور ہمارے علماء کو چین اور یقین، دونوں ملے :)
 
رنگ شدہ متن کے لئے دو مثالیں ہیں۔ ایک ایران جہاں آیت اللہ (یا ان کا جو بھی ٹائٹل ہے) ایک طرح سے مطلق العنان حکمران ہیں لیکن پردے کے پیچھے۔ دوسری مثال سعودی عرب کی ہے۔ اب بتائیے کہ اس طرح کی صورتحال میں کسے فالو کیا جائے؟

میرا ذاتی مشورہ یہ ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ علماء کو حکومت کے امور میں اور حکومت کو علماء کے امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے

کسی بھی فلاحی اور ترقی یافتہ مملکت کی مثال دیکھ لیں، بغیر کسی مسلمان عالم کے اپنے شہریوں کو وہ سہولتیں دے رہی ہے جو عین اسلام ہونا چاہیئے۔ یعنی جان، مال اور عزت کا تحفظ، چادر اور چاردیواری کا تقدس، مستقل ذریعہ آمدنی یا اس کا متبادل، صحت کی مفت سہولیت (مفت یعنی انتہائی کم قیمت پر)، مفت تعلیم وغیرہ وغیرہ

داڑھی بے شک گاڑی کی بریک کو لگنے سے نہ روکتی ہو، لیکن تحقیق کر کے ہمیں گاڑیاں بنانے تک نہیں پہنچنے دے سکتی۔ چاند پر اگر انسان پہنچا ہے تو اس میں اس کی داڑھی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ بلکہ داڑھی کا عمل دخل نہ ہونے سے ہی انسان چاند تک پہنچا ہے۔ ہمارے "علماء" نے تو اسی وقت فتاوے جھاڑ دیئے تھے کہ یہ پتہ نہیں کیا کیا ہے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے نیل آرمسٹرانگ کا کہ جس نے اذان سنی اور ہمارے علماء کو چین اور یقین، دونوں ملے :)

پہلی بات دونوں میں متعدد خرابیاں ہیں ایک جگہ علما کونسل مشورہ کی دینے کی جگہ ڈکٹیٹر کونسل بنی ہوئی ہے دوسری جگہ شریعہ کا ایک ماخذ خواہشات مقتدرہ ٹھر گئی ہے۔ میری مراد صرف اتنی تھی ایسا حکمران طبقہ جو نہ صرف دنیاوی امور سے بہرہ مند ہو اورکم از کم بنیادی دینی معلومات رکھتا ہو نیز مملکت کا کام اسلامی اسوہ کے مطابق چلانے کا خؤاہش مند ہو وہ علما سے اہم معاملات میں مشاورت ضرور کرے ، کہ جہاں دیگر ٹیکنو کریٹس حکومت کے لیے معاونین کے فرائض انجام دیتے ہو وہیں اگر علما کو اس قسم کی ذمہ داری سونپ دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

دوسری بات فلاحی مملکت اگر صرف دنیاداری پر ہی فوکس کا نام ہے تو آپ کی بات درست ہو سکتی ہے لیکن اگر اس میں میں آپ فلاح دنیا کے ساتھ فلاح آخرت کو بھی شام کر لیں تو اس میں کوئی نقصان نہیں فائدہ ہے۔ ایک حکومت جو دیانت داری کے ساتھ عوام کے فلاح و بہبود کے کام کرے وہ اگر عوام کی روحانی بہبود کے لیے نیز ان اخلاقی اصول کی مضبوطی یا دوسرے لفظوں میں ان اقدار کے استحکام کی خاطر جو کسی بھی معاشرے کی بقا میں بنیادی کرادر کی حامل ہوتی ہیں ، استنباط دین کا کام ماہرین دین کی مدد سےانجام دے تویہ نور علی نور کی بات ہے۔مغربی دنیا اخلاقیات کے اعتبار سے روبہ زوال ہے اور روحانی اقدار کا فقدان بڑی اچھے فلاحی ممالک میں بھی ہے اس پر کسی بڑی ڈیبیٹ کی ضرورت نہیں یادش بخیر ایک فلم کبھی دیکھی تھی کڈز کے نام سے لو بجٹ کی یہ ہالی وڈ فلم مغربی معاشرے کی نوجوان نسل کے اخلاقی و روحانی تباہی کی ایک مثال ہے۔
تیسری بات ڈاڑھی کا تعلق کسی طور صرف علما تک محدود کرنا معذرت کے ساتھ مضحکہ خیز بات ہے۔ اور پھر علما نے کیا فتویٰ کن اور کس مواقعوں پر دئیے یہ ایک علیحدہ ڈبیٹ ہے۔ مقصد صرف اتنا ہے بنیادی اسلامی اقدار و شعار و علامات ایک نارمل مسلمان کو کسی طور دنیاوی ترقی میں نہیں روکتی ہیں۔ اور کراچی و پاکستان میں ہم نے دیکھا ہے کہ ڈاڑھی تو نہیں البتہ پتنگ و تیر و زعفران و دخت زر (ہمہ اقسام)نے تعلیم کی تباہی میں اہم کردار اداد کیا ہے۔ ایچ ای سی، جامعہ کراچی، سمیت بیشتر تعلیمی ادارے صر ف و صرف سیاسی اقربا پروری کی بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں۔ پھر مدرسوں کو چھوڑئیے جو اتنے بڑی بڑی مسلم یونیورسٹیز ہیں جہاں چہروں پر کسی قسم کی فصل کا نمودار ہونا ممنوع ہے انہوں نے کیا جینز کی پینٹ چڑھا کر اور جیلٹ کے ریزر ہاتھ میں پکٹر کر مارس و جیوپیٹر فتح کر لیے ہیں؟
 
Top