کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک 6 یا 7 سال کی دلہن تھیں؟ ایک پرانی روایت کی حقیقت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

آبی ٹوکول

محفلین
صحیح بخاری کی حدیث میں عمر ، ہندسہ میں نہیں بلکہ الفاظ میں درج ہے۔
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ۔ رضى الله عنها ۔ أن النبي صلى الله عليه وسلم تزوجها وهى بنت ست سنين، وأدخلت عليه وهى بنت تسع، ومكثت عنده تسعا‏
بخاری ، کتاب النکاح ، باب إنكاح الرجل ولده الصغار ، حدیث:5188

اتنی عربی تو آپ کو آتی ہوگی کہ " ست " اور " تسع " کا مطلب سمجھ سکیں۔
ویسے اپنی پوسٹ ( نمبر : 24 ) میں تفصیل سے میں لکھ چکا ہوں۔ دوبارہ غیرضروری بحث کرنے کے لئے ، میرے پاس وقت نہیں ہے ، معذرت۔
ہاں ۔۔۔۔ ذرا آپ اپنے خیال سے یہ بتائیے کہ چھ سال میں شادی کرنے کی ممانعت قرآن میں کس جگہ پائی جاتی ہے؟؟‌ اور متقدمین مفسرین میں سے کسی ایک ایسے مفسر کی تفسیر بھی پیش فرمائیں جس نے
"وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ"
کی تفسیر میں " نابالغ لڑکیوں کی عدت " کا انکار کیا ہو۔
السلام علیکم بازوق بھائی ۔
اصل میں جب میں پاکستان میں تھا تو وہان ایک کتاب پڑھی تھی غالبا عمر عائشہ رضی اللہ عنھا نام تھا اس کا رائٹر کا نام تو مجھے یاد نہیں آرہا فی الوقت لیکن اتنا یاد ہے کہ دیوبند مکتبہ فکر کے کسی عالم کی اچھی تحقیق تھی وہ جس میں حجرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی نکاح کے وقت عمر مبارک کے حوالے سے اچھی معلوماتی گفتگو تھی غالبا اس میں یہ ذکر تھا کہ راوی سے عشر کے لفظ چھوٹ گیا ہے باقی واللہ اعلم ۔ ۔ ۔

ٍٍ
 

مسٹر گرزلی

محفلین
(یہ اقتباس ایک دوسرے تھریڈ میں‌ لکھا گیا تھا۔ افادیت کے کئے یہاںمنتقل کردیا گیا )

کیا عائشہ ایک 6 یا 7 سال کی دلہن تھیں؟ ایک پرانی روایت کی حقیقت
ٹی۔ او ۔ شاہنواز
ٹی ۔او۔ شاہنواز ۔ ، مشی گن اسٹیٹ میں ایک پیشہ ور ڈاکٹر ہیں ۔ ان کا یہ مضمون منارات نامی رسالہ میں مارچ 1999 میں شائع ہوا۔ اسٌ پوسٹ:

http://www.ilaam.net/articles/ayesha.html

( مضمون لمبا ہے اور اس میں‌8 دلائل ہیں۔ صرف ایک یہاں درج کر رہا ہوں۔ دوسرے حضرات پسند کریں تو دوسرے دلائل کا ترجمہ بھی یہاں‌درج کرسکتے ہیں۔ فاروق)

حضرت عائشہ کی عمر اور حضرت اسماء کی عمر کی نسبت
بقول عبدالرحمن ابن ابی الذناد۔ حضرت اسماء، حضرت عائشہ سے دس سال بڑی تھیں۔ (سیار العلم النبالہ، الذہابی، جلد 2، ص 289 عربی۔ موسستہ الرسالہ، بیروت، 1992)

بقول ابن کثیر: حضرت اسماء اپنے بہن حضرت عائشہ سے 10 سال بڑی تھیں۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد 8، ص371، دار الفکر العربی الجزاہ، 1933)

بحوالہ ابن کثیر: حضرت اسماء نے اپنے بیٹے کو 73ھ میں مرتے ہوئے دیکھا۔ اور پھر 5 دن، یا 10 دن یا 20 دن یا' کچھ دن' یا 100 دن بعد( دنوں کی تعداد مورخ یا محدث پر منحصر ہے) انکی وفات 100 برس کی عمر میں ہوئی۔ (البدیاہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد 8، ص 372، دار الفکر العربی، الجزاہ، 1933)

بحوالہ ابن حجار الاثقلینی،:حضرت اسماء - 100 سو برس زندہ رہیں اور 73ھ یا 74 ھجری میں وفات پائی۔ (تقریب التہذیب، ابن حجار الاثقلینی، ص 654، عربی۔ باب فی النساء، الحرف الیف، لکھنئو)

تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت اسماء کی وفات - سو برس کی عمر میں 73ھ یا 74 ھ میں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ھجرت کے وقت، 27 یا 28 برس کی تھیں۔ جس کے حساب سے حضرت عائشہ کی عمر ھجرت کے وقت 17 یا 18 سال اور رسول اللہ کے گھر 19 یا 20 سال کی عمر سے رہنا شروع کیا۔

حجار، ابن کثیر، اور عبدالرحمن کی درج روایات کے مطابق، حساب کرنے سے ، حضرت عائشہ کی عمر ، شادی کے وقت 19 یا 20 سال بنتی ہے۔

ہشام بن عروہ حضرت عائشہ کی عمر کا تعین، مختلف روایات میں‌ نکاح کے وقت 6، 7، 9 ، 12 یا 13 سال کرتے ہیں؟

تو یہ بتائیے کہ شادی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر 17 یا 18 یا 19 یا 20 سال ہے؟ یا درست عمر 6، 7، 9 اور 12 سال ہے؟

نتیجہ: ہشام بن عروہ کی روایات کہ حضرت عایشہ کی عمر 6 یا 7 سال تھی اگر درست ہے تو پھر حجار، ابن کثیر اور عبدالرحمن درست نہیں۔ یہ واضح ہے کہ حضرت عائشہ کی نکاح‌کے وقت عمر، روایات میں لکھی کچھ ہیں اور حساب سے کچھ اور بنتی ہیں۔

مندرجہ بالا اقتباس ٹی۔ او ۔ شاہنواز کے مضمون سے لیا گیا۔

میرا نوٹ:
لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ کی گئی ہے یا ہوئی ہے۔ ممکن ہےکہ کتابت کی غلطی کی وجہ سے بھی کسی کتاب میں 19 کی جگہ 9 سال کتابت ہوگیا۔ اور پھر اس کتاب کی تقلید ہوتی رہی۔

محترم فاروق بھائی! آپ کے پہلے مراسلے میں تین باتیں ہیں:
1۔حضرت اسماء رضی اللہ عنہا حضرت عائشة رضی اللہ عنہا سے دس برس بڑی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2۔ ھشام بن عروہ والی بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3۔۔ حساب کتاب میں غلطی۔

اس میں شک نہیں کہ ابن کثیر نے اپنے تاریخ میں یہ بات واقعی درج کی ہے۔انہوں نے اسماء رضی اللہ عنہا کا ذکر 73ھ کے تحت کیا ہے اور لکھا ہے "وھی اکبر من اختہا عائشة بعشر سنین" کہ اسماء رضی اللہ عنہا اپنی بہن عائشة رضی اللہ عنہا سے دس برس بڑی تھیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ابن کثیر نے 774ھ میں وفات پائی یعنی اسماء رضی اللہ عنہا سے چھ صدی بعد اور انہوں نے یہ بات بلا کسی سند کے ذکر کی ہے۔چھ صدی بعد آنے والے ابن کثیر کوکیسے اس بات کا علم ہوگیا ؟ ان کے اس قول کے معتبر ہونے کے لیے ابن کثیر سے اسماء تک یا کسی اور آدمی تک جس نے ان کو اس کی خبر دی،سند کی ضرورت ہے ۔ ابن کثیر کی یہ بات کیسے تسلیم کی جائے۔ یہی بات ہے کہ صاحب مشکوة نے اپنے رسالہ "الاکمال فی اسماء الرجال" میں یہ بات صیغہ تمریض "قیل" کے ساتھ نقل کی ہے اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ یہ قول قابل اعتبار نہیں ہے۔
جب دس برس بڑا ہونے والی بات ہی ثابت نہیں تو ہجرت کے وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر 27 یا 28 سال اور شادی کے وقت عمر 19 یا 20 سال کیسے ثابت ہوسکتی ہے۔فلیتامل!
رہی یہ بات،کہ اگر ھشام کی بات تسلیم کی جائے تو ابن حجراور ابن کثیر وغیرہ کی بات کا غلط ہونا لازم آتا ہے،بھی درست نہیں کیوں کہ یہ تمام آدمی آٹھویں صدی کے ہیں اور چھ صدیاں پہلے گزرنے والے شخصیت کے متعلق ان کی بغیر سند کے کی گئی بات کو کیسے مانا جائے۔بل کہ ان حضرات نے بھی حضرت عائشة رضی اللہ عنہا کا نکاح چھ برس کی عمر اور رخصتی نو برس کی عمر میں ہونا بیان کیا ہے۔ملاحضہ کیجیے:
عبد الرحمن بن ابی الزناد: "حضرت عائشہ کی عمر بوقت نکاح چھ اور بوقت رخصتی نو برس تھی" (طبقات الکبری: ج 8 ، ص82)
ابن حجر لکھتے ہیں: "تزوجہا وہی بنت ست۔۔۔۔ودخل بہا وھی بنت تسع" کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشة رضی اللہ عنہا سے نکاح اور ہمبستری کی اور عائشة رضی اللہ عنہا کی عمر بالترتیب چھ اور نو سال تھی۔﴿الاصابة فی تمییز الصحابة:ج 8 ، ص16﴾
اور ابن کثیر نے بھی ابن حجر والی بات بخاری وغیرہ کے حوالے سے نقل کی ہے۔ ﴿البدایة والنہایة:ج3 ، ص130﴾۔

آخر میں آپ نے حساب وکتاب کے غلط ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے،جوکہ کئی وجوہ سے درست نہیں ہے۔دووجہ درج ذیل ہیں:

1۔ تمام احادیث اور متقدمین کی کتابوں میں حساب کو لفظوں میں لکھا گیا ہے نہ کہ ہندسوں میں چھ کو 6 نہیں، ست لکھا گیا ہے اور نو کو 9 نہیں بل کہ تسع لکھا گیا ہے۔

2۔ اللہ تعالی نے اس دین کو نازل ہی نہیں کیا بل کہ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی لیا ہے،ارشاد باری تعالی ہے:
"انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون"۔
اور یقینا یہ بھی ایک اہم دینی مسئلہ ہے،جس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی اور اس اہمیت میں مسئلہ کا ہر ہر پہلو شامل ہے،جس میں صغر سنی کا نکاح بھی ہے۔اس اہمیت کے پیش نظر اگر آپ کی بات کو درست تسلیم کرلیا جائے تو ﴿نوذ باللہ ﴾ اللہ نے اپنی حفاظت کا عہد وفاء نہیں کیا۔ العیاذ باللہ !

اس کے علاوہ اس کے بعد والے مراسلات میں پیش کردہ دلائل کا جائزہ بھی وقت ملنے پر پیش کروں گا۔بتوفیق اللہ تعالی وان شاء!
 
وہ اصل کتاب بھی پیش کردیجئے جس میں یہ حدیث ابن کثیر سے 5 یا 6 صدی پہلے لکھی گئی تھی اور جس پر نبی اکرم اور اللہ تعالی نے ایمان لانے کے لئے بھی کہا تھا۔ ایسی کسی کتاب کی غیر موجودگی میں یہ من گھڑت کہانیاں ہی کہلائیں گی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب میں اتنا تضاد ہے۔ اگر چھٹی صدی عیسوی میں ابن کثیر جیسی عزت رکھنے والے کے پاس درست معلومات نہیں تھیں تو آج کا مؤرخ ایسا دعوی کیسے کرتا ہے کہ یہ معلومات درست ہیں؟
صغر سنی کے نکاح کے بارے میں‌ قرآن کی کس آیت سے ثبوت ملتا ہے۔ عنایت فرمائیے۔
 

مسٹر گرزلی

محفلین
وہ اصل کتاب بھی پیش کردیجئے جس میں یہ حدیث ابن کثیر سے 5 یا 6 صدی پہلے لکھی گئی تھی اور جس پر نبی اکرم اور اللہ تعالی نے ایمان لانے کے لئے بھی کہا تھا۔ ایسی کسی کتاب کی غیر موجودگی میں یہ من گھڑت کہانیاں ہی کہلائیں گی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب میں اتنا تضاد ہے۔ اگر چھٹی صدی عیسوی میں ابن کثیر جیسی عزت رکھنے والے کے پاس درست معلومات نہیں تھیں تو آج کا مؤرخ ایسا دعوی کیسے کرتا ہے کہ یہ معلومات درست ہیں؟
صغر سنی کے نکاح کے بارے میں‌ قرآن کی کس آیت سے ثبوت ملتا ہے۔ عنایت فرمائیے۔

آپ نے ان حضرات کی تواریخ کی کتب کو کتب حدیث پر ترجیح دی ہے اسی لیے بخاری وغیرہ کو چھوڑ کر مورخین کے حوالے پیش کرہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی سب باتیں ایک طرف، کیا میں نے انہی مورخین کی کتب سے چھ سال میں نکاح اور نو سال میں رخصتی کاثبوت نہیں پیش کیا ہے جن کے حوالے سے آپ نے بوقت شادی حضرت عائشة رضی اللہ عنہا کی عمر ۱۹ یا ۲۰ برس ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آپ کو ان کے نام بھی درست طریقے سے لکھنے نہیں آتے جن پر اعتراض کے تیر برسائے جارہے ہیں۔ابن حجر العسقلانی کو ابن حاجر الثقلینی لکھا ہے اور الذھبی کو الذہابی لکھا ہے وغیرہما۔۔۔۔
بھائی آپ نے کتب حدیث پر شکوک کا اظہا ر کیاہے جو کہ نہایت افسوسناک ہے۔خیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نضر اللہ امرا سمع منا مقالتی فحفظہا فوعاھا فادی ھا کما سمعہا"۔
"اللہ اس آدمی کو تروتازہ رکھے جو میری بات کو سن کر اسے یاد رکھتا ہے اور ایسے ہی آگے پہنچادیتا ہے۔"
اور یہ بات بھی عام ہے کہ حفظ کی دو قسمیں ہیں: 1۔بالصدر 2۔ بالکتابت
بالصدر سے مراد ہے کہ سن کر اچھی طرح یاد رکھا اور لکھا نہیں کیوں کہ یاد کرنے والے کو اپنے حافظہ پر یقین کامل ہے ۔ اور بالکتابت سے مراد یاد کرکے اسے لکھ لیا جائے ہے۔

باقی آپ نے قرآن کے حوالے سے کم سنی کے نکاح کا ثبوت طلب کیاہے ، اگر چہ تسلیم اسے بھی نہیں کریں گے کیوں کہ اس کافی جواب باذوق دے چکے ہیں۔ انہی کا جواب یہاں پیسٹ کرتا ہوں:

" وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ
( سورة الطلاق : 65 ، آیت : 4 )
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)
(اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری)

غور کیجئے کہ درج بالا آیت میں دو قسم کی مطلقہ عورتوں کی عدت تین ماہ بتائی گئی ہے۔
ایک : ایسی بوڑھی عورتیں جنہیں حیض آنا بند ہو چکا ہو
دو : ایسی نابالغ بچیاں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔
یہ تو ظاہر ہے کہ طلاق کا مرحلہ نکاح کے بعد ہی آ سکتا ہے ، پھر جب بلوغت سے پہلے طلاق ہو سکتی ہے تو نکاح کیوں نہیں ہو سکتا ؟؟
"

اور کیا اس آیت میں مراد عدت بغیر طلاق کے ہوسکتی اور کیا طلاق بغیر نکاح کے ہوسکتی ہے۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟
یاللعجب!
 

مسٹر گرزلی

محفلین
صغر سنی کے بارے میں قرآن کی کس آیت سے اس کے منع ہونے کا ثبوت ملتا ہے؟

آپ نے بڑا اچھا نکتہ اٹھایا ہے۔۔۔ شکریہ
کیوں کہ مسلمہ اصول ہے کہ عبادات میں اصل حرمت ہے یعنی کسی دلیل کے بغیر کوئی عبادت یا عبادت کا کوئی رکن ثابت نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔جب کہ غیر عبادات میں اصل اباحت ہے یعنی جب تک کسی چیز کی ممانعت وارد نہ ہو ، تب تک وہ چیز یا کام ممنوع نہیں ہوسکتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
برادرم
دوست کے اس نکتہ کا جواب اسی دھاگہ میں پہلے دیا جاچکا ہے کہ شادی ایک بھاری معاہدہ ہے اور اس کے لئے بلوغت کا حکم واضح ہے۔ اس معاہدہ کے لیئے اللہ تعالی نے جو اصطلاح استعمال کی ہے وہ دیکھئے۔ معاہدہ بچوں‌کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ نکاح کے لئے سمجھدار ہونا شرط رکھا ہے۔ دونوں آیات ایک سے زیادہ لوگ فراہم کرچکے ہیں ۔ اس دھاگہ کو شروع سے دیکھ لیجئے۔

یہ بات بہت واضح ہے کہ ابن کثیر کے زمانے تک یہ روایت موجود نہیں تھی ورنہ ابن کثیر اتنے آرام سے ایسے حساب نہیں لگاتا۔

مجھے اس کتب کا انتظار رہے گا جو 250 ھجری کے لگ بھگ بخاری صاحب نے تدوین کیں۔ جب اصل کتب موجود ہونگی تو پھردیکھیں گے؟

عربی کی گنتی لکھئے سات لکھئے اور سترہ لکھئے ، اسی طرح‌نو لکھئے اور انیس لکھئیے ۔ کچھ اندازہ ہوجائے گا۔

اس آیت کے یہ معانی نکالنا کہ ابھی حیض‌نہیں آیا تو نابالغ ہے؟ کس طور مناسب ہے؟ یہ ان شادی شدہ اور طلاق یافتہ عورتوں کے بارے میں بات ہورہی ہے جن کو عدت شروع ہونے کے وقت اپنی بلوغت کے باوجود ابھی انتظار کرنا ہے کہ ابھی ان کو حیض‌ نہیں آیا۔

وہ اصل کتب لے آئیے جو بخاری نے لکھی تھیں‌ تاکہ معاملہ ایک طرف ہو۔ مزید یہ بھی بتا دیجئے کہ اللہ اور اس کے رسول نے کن کتب پر ایمان رکھنے کا حکم دیا ہے؟
 
صغر سنی کے بارے میں قرآن کی کس آیت سے اس کے منع ہونے کا ثبوت ملتا ہے؟
جناب من
ناسمجھی کی مد میں‌ 4:5 اور 4:6 دیکھ لیجئے ۔ پھر کسی عربی ڈکشنری سے نساء‌ کے معانی دیکھ لیجئے۔ اور پھر یہ بھی دیکھئے کہ مختلف عمر کی لڑکیوں کو عربی میں کیا کہتے ہیں۔ آپ کیوں‌ بچوں سے شادی کرنے پر مصر ہیں؟ اور اس کو کیوں‌اچھا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ اتنے سارے درست حوالہ بھی آپ کو ناقابل قبول لگیں تو بندہ کیا کرسکتا ہے۔ آپ خود ریسرچ کیجئے۔ میں‌جو لکھنا تھا لکھ چکا۔ اب اس پر مزید کچھ نہیں‌کہنا چاہتا جب تک کہ اصل کتب موجود نہ ہوں۔
 

مسٹر گرزلی

محفلین
برادرم
دوست کے اس نکتہ کا جواب اسی دھاگہ میں پہلے دیا جاچکا ہے کہ شادی ایک بھاری معاہدہ ہے اور اس کے لئے بلوغت کا حکم واضح ہے۔ اس معاہدہ کے لیئے اللہ تعالی نے جو اصطلاح استعمال کی ہے وہ دیکھئے۔ معاہدہ بچوں‌کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ نکاح کے لئے سمجھدار ہونا شرط رکھا ہے۔ دونوں آیات ایک سے زیادہ لوگ فراہم کرچکے ہیں ۔ اس دھاگہ کو شروع سے دیکھ لیجئے۔

یہ بات بہت واضح ہے کہ ابن کثیر کے زمانے تک یہ روایت موجود نہیں تھی ورنہ ابن کثیر اتنے آرام سے ایسے حساب نہیں لگاتا۔

مجھے اس کتب کا انتظار رہے گا جو 250 ھجری کے لگ بھگ بخاری صاحب نے تدوین کیں۔ جب اصل کتب موجود ہونگی تو پھردیکھیں گے؟

عربی کی گنتی لکھئے سات لکھئے اور سترہ لکھئے ، اسی طرح‌نو لکھئے اور انیس لکھئیے ۔ کچھ اندازہ ہوجائے گا۔

اس آیت کے یہ معانی نکالنا کہ ابھی حیض‌نہیں آیا تو نابالغ ہے؟ کس طور مناسب ہے؟ یہ ان شادی شدہ اور طلاق یافتہ عورتوں کے بارے میں بات ہورہی ہے جن کو عدت شروع ہونے کے وقت اپنی بلوغت کے باوجود ابھی انتظار کرنا ہے کہ ابھی ان کو حیض‌ نہیں آیا۔

وہ اصل کتب لے آئیے جو بخاری نے لکھی تھیں‌ تاکہ معاملہ ایک طرف ہو۔ مزید یہ بھی بتا دیجئے کہ اللہ اور اس کے رسول نے کن کتب پر ایمان رکھنے کا حکم دیا ہے؟




آپ نے اپنے اس مراسلے میں 6 باتیں کیں ہیں۔

1۔۔۔ دوست کے اس نکتہ کا جواب اسی دھاگہ میں پہلے دیا جاچکا ہے کہ شادی ایک بھاری معاہدہ ہے اور اس کے لئے بلوغت کا حکم واضح ہے۔ اس معاہدہ کے لیئے اللہ تعالی نے جو اصطلاح استعمال کی ہے وہ دیکھئے۔ معاہدہ بچوں‌کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ نکاح کے لئے سمجھدار ہونا شرط رکھا ہے۔ دونوں آیات ایک سے زیادہ لوگ فراہم کرچکے ہیں ۔ اس دھاگہ کو شروع سے دیکھ لیجئے۔

جواب: اس سے انکار نہیں کہ شادی کے لیے بلوغت شرط ہے بات دراصل یہ ہے کہ اگر کوئی غیر بالغہ کے ساتھ نکاح کرلے تو کیا اس کا نکاح درست ہے یا غلط؟ بلوغت کا حکم بالکل واضح ہے لیکن کیا غیر بالغہ کے ساتھ نکاح بھی کہیں مذکور ہے؟ یقینا نہیں ۔۔اس کی مثال یو ں سمجھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا ہےلیکن اس کے باوجود خود کھڑے ہوکر پیا بھی ہے۔اگر آپ کی طرح ہم کھڑے ہوکر پانی پینے والی روایت کا سرے سے انکار ہی کردیں تو ہم سے بڑا جاہل روئے زمین پر کوئی دوسرا نہ ہوگا۔۔اور اگر اس روایت ﴿کھڑے ہوکر پینے والی روایت﴾ کو محمول کریں جواز پر تو بات سمجھ میں آتی ہے اور عقل سلیم بھی اس کا انکار نہیں کرتی۔

2۔۔یہ بات بہت واضح ہے کہ ابن کثیر کے زمانے تک یہ روایت موجود نہیں تھی ورنہ ابن کثیر اتنے آرام سے ایسے حساب نہیں لگاتا۔

جواب: شاید آپ تحریر کو غور سے نہیں پڑھتے یا پھر یہ تجاہل عارفانہ ہے۔میں نے گذشتہ تحریر میں ابن کثیر کے حوالے سے یہ بات ثابت کی ہےکہ انہوں "البدایة" میں چھ اور نوبرس والی بات لکھی ہے۔اگر وہ اس روایت کو جانتے ہی نہ ہوتے تو چھ اور نو برس والی بات حضرت عائشة رضی اللہ عنہا کے ترجمہ میں ذکر نہ کرتے ۔
آپ کی یہ بات بھی تعجب خیز ہے کہ ابن کثیر سے پہلے اس روایت کاکوئی وجود نہیں تھا۔اس کا جواب تیسرے پوائنٹ کے تحت مذکور ہے۔ملاحظہ کیجیے:

3۔۔ مجھے اس کتب کا انتظار رہے گا جو 250 ھجری کے لگ بھگ بخاری صاحب نے تدوین کیں۔ جب اصل کتب موجود ہونگی تو پھردیکھیں گے؟

جواب: یہ عام طور پر مغالطہ دیا جاتا ہے کہ صحیح بخاری تیسری صدی میں لکھی گئی ہے اور اس سے پہلے موطاء دوسری صدی میں ۔۔۔یہ حضرات اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ احادیث کی تدوین دوسری اور تیسری صدی میں ہوئی۔ان کی یہ بات قطعا درست نہیں ۔کیوں کہ اس سے قبل "صحیفہ ھمام بن منبہ" موجود تھا جو ابو ھریرة سے ان کے شاگرد ھمام بن منبہ نے روایت کیا تھا۔حضرت ابو ھریرة کی وفات 57ھ میں ہوئی یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے 47 برس بعد اور صحیفہ ان کی وفات سے بہت پہلے کا لکھا ہوا ہے اور اس صحیفہ کی تمام احادیث بخاری مسلم وغیرہ میں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص نے بھی ایک صحیفہ لکھا جسے "صحیفہ صادقہ" کہاجاتا ہے۔اس کی احادیث بھی کتب ستہ میں موجود ہیں۔
ایک کتاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی تحریر کروائی تھی اہل یمن یعنی اہل نجران کے لیے، جس میں سنن فرائض اور دیات کے تمام مسائل مذکور تھے۔بعد ازاں یہ کتاب عمرو بن حزام کے خاندان کے پاس محفوظ رہی۔
صحیح بخاری سے قبل بہت سے کتب حدیث منصہ شہود پر آچکی تھیں،جن میں سے دو کاحوالہ لکھتا ہوں۔
۱۔المصنف لابن ابی شیبة ﴿ج 7 ، ص18﴾: "تزوجنی رسول اللہ وانا بنت ست وبنی بی وانا بنت تسع سنین"
۲۔۔ المصنف لعبد الرزاق ﴿ج 6 ، ص162﴾: " نکح النبی عائشة وھی بنت ست واھدیت الیہ وھی بنت تسع"
مذکورہ بالا دونوں حدیثوں کاترجمہ یہی ہے کہ نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نوبرس کی عمر میں۔


4۔۔ عربی کی گنتی لکھئے سات لکھئے اور سترہ لکھئے ، اسی طرح‌نو لکھئے اور انیس لکھئیے ۔ کچھ اندازہ ہوجائے گا۔

جواب:اس کا جواب پہلے ہوچکا ہے۔آپ کے کہنے پر میں مذکورہ گنتی لکھتا ہوں،ملاحظہ کجیے:
سات: سبع سترہ: سبع عشر نو : تسع انیس: تسع عشر
بتائیے! ان الفاظ میں کتابت کی غلطی کیسے ممکن ہے؟ اگر بات ایک دو کتابوں تک محدود ہوتی تو پھر یہ کہا جانا ممکن تھا کہ کتابت کی غلطی ہے۔لیکن یہ حدیث کی دسیوں کتب حدیث میں ہے ، کیا وہ سب غلط فہمی کا شکار رہے؟؟؟ اور اس غلطی کا ازالہ آں جناب نے آکر کیا! سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔


5۔۔ اس آیت کے یہ معانی نکالنا کہ ابھی حیض‌نہیں آیا تو نابالغ ہے؟ کس طور مناسب ہے؟ یہ ان شادی شدہ اور طلاق یافتہ عورتوں کے بارے میں بات ہورہی ہے جن کو عدت شروع ہونے کے وقت اپنی بلوغت کے باوجود ابھی انتظار کرنا ہے کہ ابھی ان کو حیض‌ نہیں آیا۔

جواب: حیض کے نہ انے کے باوجود عورت کا بالغہ ہونا کہاں سے نکلتا ہے؟؟ اس آیت میں دوقسم کی عورتوں کا ذکر ہے،ایک وہ جن کا حیض آنے کے بعد منقطع ہو چکا ہے اور دوسری وہ جو پہلی قسم کے برعکس ہیں یعنی ان کو ابھی تک حیض نہیں آیا۔ آپ کے مطابق دوسری قسم کی عورتوں سے مراد وہ ہیں جن کو عدت کے لیے حیض کا انتظار کرنا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ جن کو ابھی تک حیض آیا ہی نہیں اور عدت کے لیے حیض کا انتظار بھی کرنا ہے تو ان کا انتظار کس قدر طویل ہوگا اور کیا معلوم ان کو حیض آئے ہی نہ تو کیا وہ تمام عمر اسی کا انتظار کرتی رہیں گی؟؟؟؟؟؟
نوٹ: "ابھی تک حیض نہیں آیا" یہ "لم یحضن" کا ترجمہ ہے کیوں کہ "یحضن" فعل مضارع ہے اور قاعدہ ہےکہ اگر فعل مضارع پر "لم" آجائے تو اس کا معنی ماضی سے حال تک کی نفی ہوتا ہے۔


6۔۔ وہ اصل کتب لے آئیے جو بخاری نے لکھی تھیں‌ تاکہ معاملہ ایک طرف ہو۔ مزید یہ بھی بتا دیجئے کہ اللہ اور اس کے رسول نے کن کتب پر ایمان رکھنے کا حکم دیا ہے؟


جواب: بھائی اصل کتابوں ﴿مخطوطات﴾ کی قیمت لاکھوں میں ہوتی ہے۔۔اگر آپ گوجرانوالہ رہتے ہیں تو میں آپ کو کسی لائبریری سے اصل کتاب بھی دکھادیتا۔۔۔۔۔۔۔۔باقی جو آپ نے پوچھا کہ کن کتب پر ایمان رکھنا ضروری ہے؟؟؟ تو عرض ہے کہ دو کتابوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ایک قرآن مجید دوسری حدیث کی امہات الکتب۔کیوں کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
"ھوالذی بعث فی الا میین رسولا منہم یتلو علیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمة" ﴿الجمعة:4﴾
"جس نے ان پڑھوں میں انہی سے میں سے ایک رسول بھیجا جو اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے"

اس آیت میں "کتاب" سے مراد قرآن ہے اور "حکمت" سے مراد حدیث ہے جوکہ قرآن کی وضاحت ہے۔تمام مفسرین نے "حکمت" سے مراد حدیث لی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ہمارے پیارے نبی نے ہمیں جو سکھایا ہے ، اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب!
 

مسٹر گرزلی

محفلین
جناب من
ناسمجھی کی مد میں‌ 4:5 اور 4:6 دیکھ لیجئے ۔ پھر کسی عربی ڈکشنری سے نساء‌ کے معانی دیکھ لیجئے۔ اور پھر یہ بھی دیکھئے کہ مختلف عمر کی لڑکیوں کو عربی میں کیا کہتے ہیں۔ آپ کیوں‌ بچوں سے شادی کرنے پر مصر ہیں؟ اور اس کو کیوں‌اچھا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ اتنے سارے درست حوالہ بھی آپ کو ناقابل قبول لگیں تو بندہ کیا کرسکتا ہے۔ آپ خود ریسرچ کیجئے۔ میں‌جو لکھنا تھا لکھ چکا۔ اب اس پر مزید کچھ نہیں‌کہنا چاہتا جب تک کہ اصل کتب موجود نہ ہوں۔

جناب! آپ کو مسئلے کی حقیقت کا ادراک ہی نہیں ہے،مسئلے کو خاک سمجھیں گے۔۔۔۔۔۔۔کم سن کے ساتھ نکاح پر کس نے اصرار کیا ہے؟؟/ اصل بات تو اس کے جواز پر ہے کہ یہ واقعتا جائز ہے یا نہیں؟؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ نے بڑا اچھا نکتہ اٹھایا ہے۔۔۔ شکریہ
کیوں کہ مسلمہ اصول ہے کہ عبادات میں اصل حرمت ہے یعنی کسی دلیل کے بغیر کوئی عبادت یا عبادت کا کوئی رکن ثابت نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔جب کہ غیر عبادات میں اصل اباحت ہے یعنی جب تک کسی چیز کی ممانعت وارد نہ ہو ، تب تک وہ چیز یا کام ممنوع نہیں ہوسکتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معذرت کہ میرا یہاں ایک سوال ہے جو موضوع سے متعلق نہیں۔
اور سوال یہ ہے کہ کیا "مستحب عبادات" میں بھی کوئِی حرمت ہے؟
 

مسٹر گرزلی

محفلین
معذرت کہ میرا یہاں ایک سوال ہے جو موضوع سے متعلق نہیں۔
اور سوال یہ ہے کہ کیا "مستحب عبادات" میں بھی کوئِی حرمت ہے؟

مستحب عبادات اور فرض عبادات میں فرضیت اور غیر فرضیت کا تفاوت ہے۔ "عبادات میں اصل حرمت" والا اصول فرضیت اور غیر فرضیت کے درپے نہیں ہے بل کہ وہ خود ساختہ عبادات اور ارکان عبادت کو متضمن ہے۔اس کی مثال یوں سمجھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقاء خود بھی پڑھی اور دوسروں کو بھی پڑھائی۔ہمارے پاس اب نماز استسقاء پڑھنے کا چونکہ ثبوت موجود ہے لہذا یہ درست ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کوئی آدمی زلزلے کے وقت نماز کو مشروع سمجھ کر نماز زلزلہ ادا کرے تو ہم اسے غلطی پر کہیں گے کیوں کہ اس کا ثبوت موجود نہیں ہے۔
نوٹ: نماز زلزلہ کے وقت پڑھی جائے یا کسی اور وقت۔۔۔۔۔تو یہ ایک جائز کام ہے۔۔۔۔۔۔لیکن جو آدمی نماز کو مشروع سمجھ پڑھتا ہے تو اس کے ذمہ دلیل لازم ہے۔
 
۔۔یہ بات بہت واضح ہے کہ ابن کثیر کے زمانے تک یہ روایت موجود نہیں تھی ورنہ ابن کثیر اتنے آرام سے ایسے حساب نہیں لگاتا۔

جواب: شاید آپ تحریر کو غور سے نہیں پڑھتے یا پھر یہ تجاہل عارفانہ ہے۔میں نے گذشتہ تحریر میں ابن کثیر کے حوالے سے یہ بات ثابت کی ہےکہ انہوں "البدایة" میں چھ اور نوبرس والی بات لکھی ہے۔اگر وہ اس روایت کو جانتے ہی نہ ہوتے تو چھ اور نو برس والی بات حضرت عائشة رضی اللہ عنہا کے ترجمہ میں ذکر نہ کرتے ۔
آپ کی یہ بات بھی تعجب خیز ہے کہ ابن کثیر سے پہلے اس روایت کاکوئی وجود نہیں تھا۔اس کا جواب تیسرے پوائنٹ کے تحت مذکور ہے۔ملاحظہ کیجیے:


مندرجہ بالا نکات میں صرف یہ ایک سوال طلب بات ہے۔ صرف عمر عقد کی لیجئے، ابن کثیر کی تحریر سے سبع اور حساب سے سبع عشر عمر بنتی ہے۔ ابن کثیر نے یہ غلطی کیوں‌کی؟‌ یا یہ غلطی بنائی گئی؟ کیونکہ ابن کثیر کی درج کی ہوئی دوسری روایات سے عمر کچھ اور بنتی ہے۔ کچھ روایات کی کتب میں سبعۃ العشر اور تسعۃ العشر اور کچھ کتب میں سبع العشر اور تسع العشر اور کچھ کتب میں سبع اور تسع کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ میرے پاس 1600 ء کی عرب دنیا کی ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک کتاب موجود ہے اور ان میں کتابت کا یہ مسئلہ موجود ہے۔ لہذا واللہ عالم بالصواب۔ حساب سے کیا عمر بنتی ہے اس کے لئے پورا آرٹیکل نقل کرچکا ہوں۔ اب آپ پر منحصر ہے کہ ان میں سے کس کتاب کو مستند مانتے ہیں ۔ میرا مقصد ان حقائق کو جو ان کتب میں موجود ہیں سامنے لانا ہے۔ کسی کے خیالات تبدیل کرنا نہیں۔

اس آیت میں "کتاب" سے مراد قرآن ہے اور "حکمت" سے مراد حدیث ہے جوکہ قرآن کی وضاحت ہے۔تمام مفسرین نے "حکمت" سے مراد حدیث لی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ہمارے پیارے نبی نے ہمیں جو سکھایا ہے ، اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔
یہ قابل بحث موضوع نہیں ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ کسی بھی قرآن کی وضاحت کو قرآن سے متفق ہونا ضروری ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ اللہ تعالی کنٹریکٹ کے لئے بلوغت کا حکم فرمائیں اور نبی اکرم اس حکم کو ایک طرف رکھ کر یہ نابالغ سے ایک کنٹریکٹ کریں۔ بہت ہی مشکل ہے قرآن کی تشریح قرآن کی مخالفت کرکے دی جائے۔

2۔ لم یحضن کو بدون "حیض" لینے کا کوئی طریقہ ایسا مروج نہیں جیسا آپ نے فرمایا۔ میں اس پر یہی کہوں گا کہ یہ عمر دریافت کرنے کا طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ وضاحت ہے کہ کتنی مرتبہ حیض آنے پر عدت مکمل ہوگی؟۔ اگر آپ کے طریقہ سے عمر دریافت کی جائے تو پھر تو نوزائیدہ بچی سے بھی نکاح جائز ہوجائے گا۔ لاحول ولا قوۃ۔ یہاں‌ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ شوہر کی وفات یا طلاق کے وقت جو 'یحضن' ہیں یا 'لم یحضن ' ہیں دونوں کو حیض کی ایک خاص تعداد کا انتطار کرنا ہوگا۔ اس سے یہ شبہ دور کیا گیا کہ اگر ایک عورت کو شوہر کی وفات کے وقت حیض آرہا ہے ان کو ایک مخصوص مدت کا انتظار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ فعل مضارع نہیں ہے بلکہ ایک فاعل کا ایڈجیکٹو ہے جو کے اسم الفاعل یا اسم من الفعل کی تعریف میں آئے گا۔ جیسے مدرس معلم وغیرہ --- ایسی صورت یہاں نہیں ہے۔ جس طرح ایک ایڈجیکٹو کے موجود ہونے یا غیر موجود ہونے کا اس کے عمل سے حساب لگایا جاتا ہے۔ اس طرح یہاں‌ صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ طلاق کے وقت - وہ جن کو حیض آرہا ہے - اور - وہ جن کو حیض نہیں آرہا ہے - دونوں کے لئے عدت کی مدت ضروری ہے۔ اگر یہ مانا جائے کہ شادی شدہ ہونے کے باوجود وہ ایک ایسی لڑکی ہے جو نابالغ تھی اور اس کو حیض نہیں آیا تھا تو ایسی نابالغہ ایک بچہ ہے اور کسی بھی معاہدہ کی شریک ہوہی نہیں سکتی تھی۔ ایسی نابالغہ سے کوئی کنٹریکٹ اسلامی یا غیر اسلامی دنیا کی کوئی عدالت تسلیم نہیں کرتی ہے۔ ایسا معاہدہ کرنا ایک جرم ہوگا اور ایسے شخص کو بچوں کے ساتھ جنسی جرم کرنے کی مد میں سزاوار قرار دیا جائے گا۔ لہذا اس آیت سے عمر نکالنے کی کوشش بہت ہی فضول ہے۔

بھائی دوست صاحب۔ آپ سے استدعا ہے کہ یا کچھ دیکھ لیجئے آپ کی سمجھ میں بات نہیں آتی بھائی۔ عربی زبان میں بنت آدم کے لئے عمر کے ہر دور کے لئے ایک نام ہے۔ نساء کسی نابالغ عورت کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ جس عمر میں جناب عائشہ (ر) کے نکاح کا تذکرہ کیا جارہا ہے اس عمر کی لڑکی جاریہ کہلاتی ہے۔ جس میں 9 سے 13 سال کی عمر تک مراد لی جاتی ہے۔ نساء ہمیشہ بالغ عورت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ شادی ہوگئی تو عورت بن گئی یہ ہمارے سماجی نظریات ہیں ۔ کیا 40 سال کی باکرہ لڑکی کہلائے گی؟ شاید ہاں اور شاید نہیں۔ یہ کسی علاقہ کی سماجیات پر منحصر ہے۔
 
جناب! آپ کو مسئلے کی حقیقت کا ادراک ہی نہیں ہے،مسئلے کو خاک سمجھیں گے۔۔۔۔۔۔۔کم سن کے ساتھ نکاح پر کس نے اصرار کیا ہے؟؟/ اصل بات تو اس کے جواز پر ہے کہ یہ واقعتا جائز ہے یا نہیں؟؟؟

کسی بھی مسئلے پر بحث کرنے کے لئے صبر درکار ہے۔ استدعا ہے کہ مسئلہ تک بحث‌کیجیئے اور اس پر ہی اپنے نکات پیش کیجئے۔ ایک مکتبہ فکر کو دوسرے مکتبہ فکر کے خیالات قابل قبول نہیں لگتے ہیں۔ میرا ادراک کیا ہے اور کیا نہیں اور آپ کا ادراک کیا ہے اور کیا نہیں ۔ اس بات پر ہم بحث کرسکتے ہیں ۔ اس کے لئے ایک الگ دھاگہ دوستوں نے پہلے سے بنایا ہوا ہے۔ آپ کو میری ذات پر کوئی تنقید کرنی ہے آپ وہاں جا کر کیجئے۔ یہاں صرف اور صرف اس مسئلہ پر صبر کے ساتھ اپنے نکات پیش کیجئے۔ تاکہ ہم اسی مسئلہ پر رہیں۔

جب اللہ تعالی واضح طور پر نابالغ سے نکاح اور معاہدہ سے منع فرماتا ہے۔ جس پر آپ کا اصرار بھی نہیں ہے تو پھر اس بات میں مزید کسی جائز اور ناجائز کا پہلو کس طور نکلتا ہے۔ اس آرٹیکل میں ایک سے زائد حساب پیش کئے گئے ہیں ، جن میں سے کچھ کا تعلق بخاری سے بھی ہے۔ آپ دیکھئے کہ کتب روایات میں درج حساب کو دیکھا جائے تو بھی جنابہ عائشہ (ر) کی عمر نکاح کے وقت کیا بنتی ہے؟ اگر سورۃ قمر کے نزول کا واقعہ ان کو یاد ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم ان کو کم از کم 5 سے سات سال کا نہ تسلیم کریں؟ سورۃ قمر سے عقد النکاح تک کا عرصہ وہی لگ بھگ 10 سال بنتا ہے۔ اگر عقد النکاح پر ان (ر) کی عمر مبارک 7 سال تھی تو جنابہ سورۃ قمر کے نزول کے وقت تو ایک نوزائیدہ بچی بنتی ہیں یا پھر سورۃ قمر کا نزول ان کی پیدایش سے پہلے بنتا ہے۔ تو پھر بخاری کی حدیث کمزور بنتی ہے جس میں جنابہ عائشہ (ر) سورۃ قمر کو اپنے ہوش کا واقعہ بیان فرماتی ہیں۔ مزید یہ کہ جناب ابوبکر (ر) کی تمام اولادیں قبل از نبوت پیدا ہوئی تھیں ۔ لہذا سورۃ قمر کے نزول کے وقت جنابہ عائشہ( ر) کا نوزائیدہ طفل ہونا ممکن نہیں ہے۔

مزید مثالیں ان غزواۃ‌ کی روایات کی لکھ چکا ہوں جن میں ام المومنین ایک جاریہ تھیں اور باکرہ تھیں ، آپ دوبارہ دیکھ لیجئے۔
سوال یہ ہے کہ ان روایات میں کن میں رد بدل کیا گیا ہے؟ وہ جن میں عمر تحریر کی گئی ہے یا وہ جن میں حساب کتاب سے عمر نکالی جاسکتی ہے؟ بہر صورت روایات کا ایک سیٹ غلط قرار پائے گا۔ اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ اصل عمر 7 اور 9 سال ہے تو پھر وہ تمام روایات جو امہات المومنین سے منسوب ہیں اور جن میں حساب کتاب سے عمر 17 اور 19 بنتی ہے وہ تمام کی تمام روایات ضعیف نہیں بلکہ غلط بنیں گی۔ کیوں کہ حساب یا صحیح ہوتا ہے یا غلط۔ اب آپ بتائیے کہ آپ کو کونسی روایات قابل قبول ہیں؟
 

مسٹر گرزلی

محفلین
"میں نہیں ماناتا" کا کوئی علاج نہیں ہے۔۔۔۔۔مذکورہ تمام باتوں کاجواب ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔آپ بھی گذشتہ مراسلات ملاحظہ کیجئے۔
 

باذوق

محفلین
وہ اصل کتاب بھی پیش کردیجئے جس میں یہ حدیث ابن کثیر سے 5 یا 6 صدی پہلے لکھی گئی تھی اور جس پر نبی اکرم اور اللہ تعالی نے ایمان لانے کے لئے بھی کہا تھا۔
اس کا مفصل جواب یہاں دیا جا چکا ہے۔
ایسی کسی کتاب کی غیر موجودگی میں یہ من گھڑت کہانیاں ہی کہلائیں گی ۔
جی ہاں ! منکرینِ حدیث کے نزدیک احادیثِ صحیحہ کا زخیرہ "من گھڑت کہانیاں" ہی کہلاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان سب میں اتنا تضاد ہے۔ اگر چھٹی صدی عیسوی میں ابن کثیر جیسی عزت رکھنے والے کے پاس درست معلومات نہیں تھیں تو آج کا مؤرخ ایسا دعوی کیسے کرتا ہے کہ یہ معلومات درست ہیں؟
اس کا جواب ذیل کے تھریڈ میں پڑھنے کی مہربانی کر لیں:
تاریخ نگاری اور علم حدیث
اگر چھٹی صدی عیسوی میں ابن کثیر جیسی عزت رکھنے والے کے پاس درست معلومات نہیں تھیں ۔۔۔۔
یعنی ۔۔۔۔
اب آپ نے مان لیا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ کے پاس "درست معلومات نہیں تھیں" !
یعنی ۔۔۔۔ آپ نے اس تھریڈ کی سب سے پہلی پوسٹ میں "ابن کثیر" کے حوالوں سے جو استدلال فرمایا اس کو خود آپ اب کالعدم ٹھہراتے ہیں !!
الحمد للہ ! باطل پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اللہ تعالیٰ خود باطل کے قلم سے اس کے بطل کا اقرار کرواتا ہے !!
تو آج کا مؤرخ ایسا دعوی کیسے کرتا ہے کہ یہ معلومات درست ہیں؟
یہی تو ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ آج کے مورخ "ٹی۔ او ۔ شاہنواز" کس بنیاد پر وہ فیصلہ لاگو کر رہے ہیں جس کا اظہار محبی فاروق خان کے قلم سے اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ میں ہوا ہے ؟؟
صغر سنی کے نکاح کے بارے میں‌ قرآن کی کس آیت سے ثبوت ملتا ہے۔ عنایت فرمائیے۔
اسی تھریڈ کی پوسٹ نمبر:24 میں ثبوت دیا جا چکا ہے۔
وہ آیت ، سورہ الطلاق (65) کی آیت نمبر:4 ہے۔ جو کہ یوں ہے :

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ
اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)
( سورة الطلاق : 65 ، آیت : 4 )

اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر کے علاوہ امام ابن جریر طبری اور امام بخاری رحمہم اللہ عنہم نے واضح طور پر فرمایا ہے : یہ آیت نابالغ لڑکی کی شادی کے جواز کو ثابت کرتی ہے !!
ہمارے زمانے کے ایک اور مفسر مولانا مودودی رحمہ اللہ کی تفسیر "تفہیم القرآن" سے بھی ذیل میں ثبوت دیکھ لیجئے گا :

اردو ترجمہ : مولانا مودودی
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمہیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے (شرح:12) اور یہی حکم ان کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو (شرح:13)۔۔۔۔
( سورة الطلاق : 65 ، آیت : 4 )

شرح:13
حیض خواہ کم سنی کی وجہ سے نہ آیا ہو ، یا اس وجہ سے کہ بعض عورتوں کو بہت دیر میں حیض آنا شروع ہوتا ہے ، اور شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی عورت کو عمر بھر نہیں آتا ، بہرحال تمام صورتوں میں ایسی عورت کی عدت وہی ہے جو آئسہ عورت کی عدت ہے ، یعنی طلاق کے وقت سے تین مہینے۔
اس جگہ یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ قرآن مجید کی تصریح کے مطابق عدت کا سوال اس عورت کے معاملہ میں پیدا ہوتا ہے جس سے شوہر خلوت کر چکا ہو ، کیونکہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہے ہی نہیں (بحوالہ : الاحزاب-49)۔ اس لیے ایسی لڑکیوں کی عدت بیان کرنا جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو ، صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف نکاح کر دینا جائز ہے بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے۔
(تفہیم القرآن ، بحوالہ آیت مذکورہ)

دورِ حاضر کی جتنی بھی اردو تفاسیر ہیں ۔۔۔ چاہے وہ کسی بھی طبقے کی ہوں (منکرینِ حدیث کی تفاسیر کو چھوڑ کر) ، ان تمام مفسرین نے ، (راقم الحروف کے ناقص علم کے مطابق) ، سورہ الطلاق کی اس آیت کی وہی تفسیر بیان کی ہے جو درج بالا ہے۔ یعنی اس آیت سے نکاح نابالغان کے جواز کی دلیل پکڑی گئی ہے۔
یاد رہے کہ "نکاح نابالغان" ایک "رخصت" ہے ، حکم نہیں ہے!
اصولی حکم تو یہی ہے کہ : نکاح کی اصل عمر بلوغت ہی ہے !


اور یہ جملہ تو میں نے اپنی پوسٹ نمبر:24 میں پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ :
رخصت بہرحال ایک استثنٰی ہے ، یہ اصولی حکم نہیں بن سکتا۔ مگر شریعت میں رخصت کی اہمیت یقیناً ہے۔ لہذا ہر معاملے میں پہلے ہمیں یہ تمیز کر لینا چاہئے کہ اصولی حکم کیا ہے اور رخصت کیا؟ اور ان دونوں کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
میری تمام قابل احترام دوستوں سے گزارش ہے کہ اب اس موضوع پر مزید پوسٹ‌ نہ کریں۔ اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں، امید کرتا ہوں کہ آپ میری انتظامی ذمہ داریوں سے درگزر کریں گے۔ میرے خیال میں تمام صاحب علم دوست اپنا نکتہ نظر بیان کر چکے ہیں اور اب اس تھریڈ کو مقفل کر دینا مناسب ہوگا۔ جن دوستوں نے بھی اس بحث میں حصہ لیا ہے اور قابل قدر معلومات فراہم کی ہیں میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ تعالی ہم سب کو حق کو حق سمجھنے اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top