کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک 6 یا 7 سال کی دلہن تھیں؟ ایک پرانی روایت کی حقیقت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
(یہ اقتباس ایک دوسرے تھریڈ میں‌ لکھا گیا تھا۔ افادیت کے کئے یہاںمنتقل کردیا گیا )

کیا عائشہ ایک 6 یا 7 سال کی دلہن تھیں؟ ایک پرانی روایت کی حقیقت
ٹی۔ او ۔ شاہنواز
ٹی ۔او۔ شاہنواز ۔ ، مشی گن اسٹیٹ میں ایک پیشہ ور ڈاکٹر ہیں ۔ ان کا یہ مضمون منارات نامی رسالہ میں مارچ 1999 میں شائع ہوا۔ اسٌ پوسٹ:

http://www.ilaam.net/Articles/Ayesha.html

( مضمون لمبا ہے اور اس میں‌8 دلائل ہیں۔ صرف ایک یہاں درج کر رہا ہوں۔ دوسرے حضرات پسند کریں تو دوسرے دلائل کا ترجمہ بھی یہاں‌درج کرسکتے ہیں۔ فاروق)

حضرت عائشہ کی عمر اور حضرت اسماء کی عمر کی نسبت
بقول عبدالرحمن ابن ابی الذناد۔ حضرت اسماء، حضرت عائشہ سے دس سال بڑی تھیں۔ (سیار العلم النبالہ، الذہابی، جلد 2، ص 289 عربی۔ موسستہ الرسالہ، بیروت، 1992)

بقول ابن کثیر: حضرت اسماء اپنے بہن حضرت عائشہ سے 10 سال بڑی تھیں۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد 8، ص371، دار الفکر العربی الجزاہ، 1933)

بحوالہ ابن کثیر: حضرت اسماء نے اپنے بیٹے کو 73ھ میں مرتے ہوئے دیکھا۔ اور پھر 5 دن، یا 10 دن یا 20 دن یا' کچھ دن' یا 100 دن بعد( دنوں کی تعداد مورخ یا محدث پر منحصر ہے) انکی وفات 100 برس کی عمر میں ہوئی۔ (البدیاہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد 8، ص 372، دار الفکر العربی، الجزاہ، 1933)

بحوالہ ابن حجار الاثقلینی،:حضرت اسماء - 100 سو برس زندہ رہیں اور 73ھ یا 74 ھجری میں وفات پائی۔ (تقریب التہذیب، ابن حجار الاثقلینی، ص 654، عربی۔ باب فی النساء، الحرف الیف، لکھنئو)

تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت اسماء کی وفات - سو برس کی عمر میں 73ھ یا 74 ھ میں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ھجرت کے وقت، 27 یا 28 برس کی تھیں۔ جس کے حساب سے حضرت عائشہ کی عمر ھجرت کے وقت 17 یا 18 سال اور رسول اللہ کے گھر 19 یا 20 سال کی عمر سے رہنا شروع کیا۔

حجار، ابن کثیر، اور عبدالرحمن کی درج روایات کے مطابق، حساب کرنے سے ، حضرت عائشہ کی عمر ، شادی کے وقت 19 یا 20 سال بنتی ہے۔

ہشام بن عروہ حضرت عائشہ کی عمر کا تعین، مختلف روایات میں‌ نکاح کے وقت 6، 7، 9 ، 12 یا 13 سال کرتے ہیں؟

تو یہ بتائیے کہ شادی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر 17 یا 18 یا 19 یا 20 سال ہے؟ یا درست عمر 6، 7، 9 اور 12 سال ہے؟

نتیجہ: ہشام بن عروہ کی روایات کہ حضرت عایشہ کی عمر 6 یا 7 سال تھی اگر درست ہے تو پھر حجار، ابن کثیر اور عبدالرحمن درست نہیں۔ یہ واضح ہے کہ حضرت عائشہ کی نکاح‌کے وقت عمر، روایات میں لکھی کچھ ہیں اور حساب سے کچھ اور بنتی ہیں۔

مندرجہ بالا اقتباس ٹی۔ او ۔ شاہنواز کے مضمون سے لیا گیا۔

میرا نوٹ:
لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ کی گئی ہے یا ہوئی ہے۔ ممکن ہےکہ کتابت کی غلطی کی وجہ سے بھی کسی کتاب میں 19 کی جگہ 9 سال کتابت ہوگیا۔ اور پھر اس کتاب کی تقلید ہوتی رہی۔
 

رضا

معطل
فاروق بھائی یہ بتائیے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وصال فرمایا۔ا‏س وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمرمبارک کتنی تھی؟؟؟
میں نےکہیں پڑھا ہے کہ اس وقت آپ کی عمر 18سال تھی۔
اگر مجھے حوالہ ملا تو ان شاء اللہ ضرور شئیر کروں گا۔
 

damsel

معطل
اگر آپ عنوان کو صحیح کر دین تو مہربانی ہوگی

برائے مہربانی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا لکھیں

شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
قرآن میں کہا گیا ہے کہ بالغ عورتوں سے شادی کرو - تو رسولِ اکرم قرآن کے خلاف کیسے کر سکتے ہیں نعوذباللہ - میرا تو خیال ہے کہ یہی دلیل ہی کافی ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر 18 سال ہوگی - رسولِ اکرم سے شادی کے وقت -
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
بھائی یہ منکرین حدیث کا ایک شبہ ہے اور میرا خیال ہے اب بات اسی طرف جاری ہے
اور میرے پاس جو کتاب ہے " انکار حدیث سے انکار قرآن تک " اس کے صضحۃ 295 پر صرف سولات لکھتا ہوں اور ان کے جوابات بھی موجود ہیں
اس مسئلہ کے متعلق پرویز اور اس کے ہمنواؤ کے شبہے کا تجزیہ حسب ذیل ہے
1 ۔قرآن نے بلوغت کو سن نکاح سے تعبیر کیا ہے قرآن میں ہے کہ جب بچے یتیم رہ جائیں تو تم معاملات کے ذریعے سے انکا امتحان لیلو حتی اذا بلغو ا النکاح ( النساء 4 ) یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔
2 ۔ قرآن نے نکاح معاہدہ قرار دیا ہے اور معاہدہ میں فریقین کی رضامندی اور بالغ ہونا شرط ہے نکاح کی رضا مندی کے لیے پرویز نے یہ دلیل پیش کیا ہے لا یحل لکم ان ترثو النساء کرھا ( النساء 19 ) یہ قطعا جائز نہیں کہ تم عورتون کے زبردستی مالک بن جاؤ ( قرآنی فیصلے ص 134)
3۔ طبی نقطہ نگاہ سے بھی نا بالغ بچی قابل مجامعت نہیں اس سے مجامعت ضر انگیز ہے اور کئی جسمانی عوارض کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے ۔


فی الحال اتنا ہی کافی ہے

لیکن ایک مثال ایک دوسرے کتاب سے " فتنہ انکار حدیث مفتی رشید احمد رحمہ اللہ )
مفسد کون ہے ؟
موجودہ فضا میں جو شخص بھی کسی ایسے ضروری اور اہم مضمون پر قلم اٹھاتا ہے جو خواہشات نفسانیہ کے خلاف ہو یا اس میں کسی ناپاک فتنے کو دبانے کی کوشش کی گئی ہو اور کسی دشمن اسلام کی بد عنوانیوں کی صدائے باز گشت ہو تو بلا امتیاز حق و باطل اسے مفسد و مفتن کہا جاتا ہے قابل غور یہ امر ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چودہ سو سالہ مشہور عالم ادرہ کی رکنیت قبول کریے ۔ اس ادارے کے ارکان سابقہ علم و فراست ، عملی جدوجہد اور اخلاص میں یکتا ہوں جن کی محیر العقول مساعی اور شبانہ روز انتھک تک و دو سے اس ادارہ کا نام چار سو آفاق عالم میں چمکنے لگا ہو اب یہ جدید رکن کہے کہ ادرہ کے سابقہ ارکان سب کے سب جاہل اور قوانین سے نا واقف تھے یا ان میں اخلاص نہیں تھا ۔ یا سب کے سب خائن تھے یا ان میں عملی اقدام نہ تھا وہ سب قوانین جن پر چودہ سو سال تک عمل ہوتا رہا سراسر غلط ہیں میں انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ ادارہ میں قانون وہ جاری ہو جو میں بناؤں اور اس کی فلاح اسی میں ہے جو میں کہوں فکر صائب صرف وہی ہے جو میرے دماغ میں آئے اور نظریہ صرف وہی درست ہے جو میں پیش کرو تو کیا ایسا رکن ادارے کا خیر خواہ ہے یا بد خواہ ؟ اور مصلح ہے یا مفسد ؟ ادارے کے ارکان سابقہ میں اگر کوئی رکن اس جدید روشن خیال کو سمجھائے اور اس کے خرافات کا جواب دے تو کیا اس کے فعل کو فتنہ اور فساد سے تعبیر کیا جائے گا یا کہ امن و اصلاح سے ؟ بعینہ یہی مثال غلام احمد پرویز کی ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لیکر آج تک دین کا مدار دو ہی چیزیں رہی ہیں ۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم انہی دو ستونوں پر دین کی عمارت ٹھری ہوئی ہے ۔ خلفائے راشدین و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تبع تابعین ، ائمہ کرام اور محدثین فقہا صوفیہ اور تمام عالم اسلام کے علما سنت نبویہ کو دین میں حجت مانتے آئے ہیں ۔ مگر غلام احمد پرویز کا خیال ہے کہ اب امت مسلمہ کو قرآن کی وہ تفسیر اور تعبیر قبول کرنی چاہیے جس پر میرے نام کی چھاپ لگی ہوئی ہو ۔ میری تفسیر ، تعبیر ، تشریح کے علاوہ جو کچھ ہے وہ ملاازم ہے ، عجمی سازش ہے ، جہل اور نادانی ہے اب تک قرآن کو ٹھیک طور پر سمجھا کہاں گیا ہے ۔بڑے بڑے علماء حدیث اور فقہ میں الجھے رہے بلکہ قرآن کے خلاف سازشیں کرتے رہے ۔ یہ عجمی سازشیں قتادہ ، حسن ، مجاہد اور عکرمہ جیسے مفسرین کی قرآن میں سند قبول کرتے تھے اور میں نے ان تمام مفسرین کے علی الرغم عبداللہ چکڑالوی ، سرسید احمد خان ، اور اسلم جیراج پوری سے فیض یاب حاصل کیا ہے ۔ لہذا قران کی تفسیر وہ معتبر ہے جو میں کرتا ہوں قرآن کو ان عجمی سازشوں سے نجات دلانے اور مظلومیت سے چھڑانے والو آؤ ، بھاگتے ہوئے آؤ اور میرے ارد گرد جمع ہو جاؤ ۔ پرخچے اڑا دو تفسیرابن کثیر کے پارہ پارہ کردو بیضاوی ، ابن جریر اور راتقان کو ۔ معارف القران پڑھو۔ اللہ کی آیات کا صحیح مفہوم اسی میں مل سکتا ہے ۔
پرویز لکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور احادیث دین میں حجت نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو رواج دے کر جو دین میں حجت ٹھرایا گیا ہے۔ یہ دراصل قرآن کے خلاف ایک عجمی سازش ہے پرویز خاک بدہن گستاخ نے جن نفوس قدسیہ کی طرف عجمی سازش کو منسوب کیا ہے یہ وہ پاک روحیں ہیں جن کو بڑے سے بڑے جابر اور ظالم حاکموں کا ظلم و استبداد کلمہ حق سے روک نہ سکا جنہوں نے کوڑے کھائے ، مصیبتیں جھیلیں ، دار کے تختوں پر لٹکے تیغوں کے سایوں میں اور توپوں کے گرجوں میں اعلائے حق کی خاطر جانیں قربان کر دیں ۔ کوئی خوف انہیں مرعوب نہ کرسکا ، اور نہ ہی کوئی بڑی سے بڑی طمع اور دنیا کا لالچ انہیں رام کر سکا ۔

ٹل نہ سکتے تھے جو میدان میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ تو کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پر بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے​

یہ ایسے نفوس قدسیہ تھے جن کی عبادت پر فرشتوں کو رشک تھا جن کے دامن ملائکہ کے لیے مصلے بن سکتے تھے ۔ جن کی پاکبازی کی قسم کھا جاسکتی ہے جن کے جسم رات بھر بستروں سے علیحدہ رہتے تھے جنہوں نے برسوں عشاء کے وضو سے فجر کی نماز بڑھی اور خشیت الہیہ نے جن کے لیے دنیا کی تمام تر لذتوں کو یکسر بے کیف کر ڈالا تھا ۔ جو شخص خاک بدہن گستاح ان سعید روحوں کو قرآن کے خلاف عجمی سازش کرنے والا کہتا ہے ۔ اگر اس کی تحریروں کی وجہ سے عالم اسلام اور عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت جوش میں آجائے تو فتنہ و فساد کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی ؟

اللہ اکبر کبیرہ
 
کوئی صاحب تکلیف فرمائیں اور مکمل روایات اور ڈاکتڑ شاہنواز کے مکمل مقالے کا ترجمہ فراہم کردیں۔ تو سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم

4738 - [arabic]حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ وَأُدْخِلَتْ عَلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ وَمَكَثَتْ عِنْدَهُ تِسْعًا
[/arabic]

[arabic]4739۔حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ وَبَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ قَالَ هِشَامٌ وَأُنْبِئْتُ أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَهُ تِسْعَ سِنِينَ
[/arabic]( بخاری )
 

رضا

معطل
قرآن میں کہا گیا ہے کہ بالغ عورتوں سے شادی کرو - تو رسولِ اکرم قرآن کے خلاف کیسے کر سکتے ہیں نعوذباللہ - میرا تو خیال ہے کہ یہی دلیل ہی کافی ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر 18 سال ہوگی - رسولِ اکرم سے شادی کے وقت -
لڑکی کی بالغ ہونے کی عمر 9سے 15سال ہے۔
کیا عجب کہ اس دور میں بچیاں 9 سال میں بالغ ہوجاتی ہوں۔
آج کل بھی9 سے 15 سال کی عمر میں ہی بالغ ہوتی ہیں۔بعض شاید 9 سال کی عمر میں‌ ہی بالغ ہوجاتیں ہوں گی۔اس بات کا مشاہدہ لڑکیوں‌کو زیادہ ہوگا۔
بعض بچوں کی صحت اچھی ہوتی ہے وہ 9 سال میں‌بھی 12سال کے لگتے ہیں۔جلد جوان ہوجاتے ہیں۔اور بعض 15سال میں‌بھی 10سال کے لگتے ہیں۔
 

سیفی

محفلین
قرآن میں کہا گیا ہے کہ بالغ عورتوں سے شادی کرو - تو رسولِ اکرم قرآن کے خلاف کیسے کر سکتے ہیں نعوذباللہ - میرا تو خیال ہے کہ یہی دلیل ہی کافی ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر 18 سال ہوگی - رسولِ اکرم سے شادی کے وقت -


وکیپیڈیا کے اس مضموں کے مطابق تو پانچ اور سات سال کا ایک، آتھ سال کی عمر میں ماں بننے کے پانچ واقعات درج ہیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ نابالغ کے ساتھ نکاح ہوا تو غلط بات ہے۔ ہر علاقے میں لڑکیوں اور لڑکوں کے بالغ ہونے کی عمر کا تضاد ایک فطری چیز ہے ۔
 
جناب سے التماس ہے کہ بارہ اور تیرہ سالا بچوں کی طرح، الفاظ سے کھیلنا اور قیاس آرائیاں بند کریں اور ان حقیقتوں کی طرف دیکھیں جن کا تذکرہ محنت کے بعد ڈاکٹر شاہنواز نے کیا ہے۔ لگتا ہے کہ کچھ لوگوں میں سوچنے کی صلاحیت مفقود ہے ، ریسرچ سے عاری ہیں اور تکے بازیوں اور بذلہ سنجی پر گذارہ ہے۔ بچکانہ حرکتیں ہیں یہ۔
 
کیا عجب کہ ۔۔۔ ہوجاتی ہوں۔
۔
بھائی قیاس آرائیوں کی کیا ضرورت ہے جب دوسری کتب سے ان کی عمر بہت واضح ہے۔ کیا ضروری ہے کہ لکھی ہوئی حقیقتوں کو چھوڑ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا عجب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر بھروسہ کیا جائے۔ ھشام بن عروہ کی اس بصرہ، دمشق، شام، عراق سے پھوٹنے والی روایتوں کے علاوہ آپ کسی بھی دوسرے صحابی سے یہی روایت فراہم کرنے کی کوشش کیجئے۔

کیا عجب ہے کہ قرآن کی آیات کے لئے دو دو گواہیاں اور کیا عجب ہے کہ جس روایت کا سرا صرف ایک صحابی سے جو مدینہ سے ہجرت کرکے عراق چلے گئے تھے اور جن کی روایات شام سے برآمد ہوتی رہیں ، ان سے منسوب روایتوں پر اتنا بھروسہ ؟ ۔۔ بھائی سنی سنائی ہی سہی ، کم از کم دو گواہیاں تو ہونی چاہئیے ہیں ؟‌کیا عجب ہے کہ قرآن کے دو اور چار گواہیوں کے اصول ایسے برسر عام توڑے جارہے ہیں؟‌ اور شکایت کرنے والے کو منکر الحدیث کا فتوی۔۔

" کا عجب ہے بھئی" ۔ :)
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جی کچھ اور حوالاجات بھی درج کئے جاتے ہیں اور تقریبا 30 اس کے علاوہ بھی ہیں

[ARABIC]مسلم شريف احاديث
2547۔ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ح و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ وَجَدْتُ فِي كِتَابِي عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسِتِّ سِنِينَ وَبَنَى بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ قَالَتْ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَوُعِكْتُ شَهْرًا فَوَفَى شَعْرِي جُمَيْمَةً فَأَتَتْنِي أُمُّ رُومَانَ وَأَنَا عَلَى أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبِي فَصَرَخَتْ بِي فَأَتَيْتُهَا وَمَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ بِي فَأَخَذَتْ بِيَدِي فَأَوْقَفَتْنِي عَلَى الْبَابِ فَقُلْتُ هَهْ هَهْ حَتَّى ذَهَبَ نَفَسِي فَأَدْخَلَتْنِي بَيْتًا فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقُلْنَ عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ فَغَسَلْنَ رَأْسِي وَأَصْلَحْنَنِي فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى فَأَسْلَمْنَنِي إِلَيْهِ
2548۔ و حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ح و حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ وَبَنَى بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ
2549۔ و حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ وَلُعَبُهَا مَعَهَا وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ

سنن ترمذی
1027۔ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا فَإِنْ صَمَتَتْ فَهُوَ إِذْنُهَا وَإِنْ أَبَتْ فَلَا جَوَازَ عَلَيْهَا يَعْنِي إِذَا أَدْرَكَتْ فَرَدَّتْ
قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَزْوِيجِ الْيَتِيمَةِ فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْيَتِيمَةَ إِذَا زُوِّجَتْ فَالنِّكَاحُ مَوْقُوفٌ حَتَّى تَبْلُغَ فَإِذَا بَلَغَتْ فَلَهَا الْخِيَارُ فِي إِجَازَةِ النِّكَاحِ أَوْ فَسْخِهِ وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ و قَالَ بَعْضُهُمْ لَا يَجُوزُ نِكَاحُ الْيَتِيمَةِ حَتَّى تَبْلُغَ وَلَا يَجُوزُ الْخِيَارُ فِي النِّكَاحِ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ إِذَا بَلَغَتْ الْيَتِيمَةُ تِسْعَ سَنِينَ فَزُوِّجَتْ فَرَضِيَتْ فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ وَلَا خِيَارَ لَهَا إِذَا أَدْرَكَتْ وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ وَقَدْ قَالَتْ عَائِشَةُ إِذَا بَلَغَتْ الْجَارِيَةُ تِسْعَ سِنِينَ فَهِيَ امْرَأَةٌ

سنن النسائي
3325۔ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ عَنْ عَبْدَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتٍّ وَدَخَلَ عَلَيَّ وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ وَكُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ

سنن ابن ماجه
1866۔ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ فَوُعِكْتُ فَتَمَرَّقَ شَعَرِي حَتَّى وَفَى لَهُ جُمَيْمَةٌ فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبَاتٌ لِي فَصَرَخَتْ بِي فَأَتَيْتُهَا وَمَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ فَأَخَذَتْ بِيَدِي فَأَوْقَفَتْنِي عَلَى بَابِ الدَّارِ وَإِنِّي لَأَنْهَجُ حَتَّى سَكَنَ بَعْضُ نَفَسِي ثُمَّ أَخَذَتْ شَيْئًا مِنْ مَاءٍ فَمَسَحَتْ بِهِ عَلَى وَجْهِي وَرَأْسِي ثُمَّ أَدْخَلَتْنِي الدَّارَ فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي بَيْتٍ فَقُلْنَ عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ
مسند احمد
23023۔ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
تَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانِ عَشْرَةَ

25193۔ حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَفَّى خَدِيجَةَ قَبْلَ مَخْرَجِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ بِسَنَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثٍ وَأَنَا بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ جَاءَتْنِي نِسْوَةٌ وَأَنَا أَلْعَبُ فِي أُرْجُوحَةٍ وَأَنَا مُجَمَّمَةٌ فَذَهَبْنَ بِي فَهَيَّأْنَنِي وَصَنَعْنَنِي ثُمَّ أَتَيْنَ بِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَنَى بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ
[/ARABIC]
ہاں ایک لنک بھی ملا ہے اردو میں اس سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے
منکرین حدیث اور ( اماں ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر

اللہ اکبر کبیرا
 

قیصرانی

لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جی کچھ اور حوالاجات بھی درج کئے جاتے ہیں اور تقریبا 30 اس کے علاوہ بھی ہیں

[ARABIC]مسلم شريف احاديث
2547۔ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ح و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ وَجَدْتُ فِي كِتَابِي عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسِتِّ سِنِينَ وَبَنَى بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ قَالَتْ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَوُعِكْتُ شَهْرًا فَوَفَى شَعْرِي جُمَيْمَةً فَأَتَتْنِي أُمُّ رُومَانَ وَأَنَا عَلَى أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبِي فَصَرَخَتْ بِي فَأَتَيْتُهَا وَمَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ بِي فَأَخَذَتْ بِيَدِي فَأَوْقَفَتْنِي عَلَى الْبَابِ فَقُلْتُ هَهْ هَهْ حَتَّى ذَهَبَ نَفَسِي فَأَدْخَلَتْنِي بَيْتًا فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقُلْنَ عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ فَغَسَلْنَ رَأْسِي وَأَصْلَحْنَنِي فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى فَأَسْلَمْنَنِي إِلَيْهِ
2548۔ و حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ح و حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ وَبَنَى بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ
2549۔ و حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ وَلُعَبُهَا مَعَهَا وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ

سنن ترمذی
1027۔ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا فَإِنْ صَمَتَتْ فَهُوَ إِذْنُهَا وَإِنْ أَبَتْ فَلَا جَوَازَ عَلَيْهَا يَعْنِي إِذَا أَدْرَكَتْ فَرَدَّتْ
قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَزْوِيجِ الْيَتِيمَةِ فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْيَتِيمَةَ إِذَا زُوِّجَتْ فَالنِّكَاحُ مَوْقُوفٌ حَتَّى تَبْلُغَ فَإِذَا بَلَغَتْ فَلَهَا الْخِيَارُ فِي إِجَازَةِ النِّكَاحِ أَوْ فَسْخِهِ وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ و قَالَ بَعْضُهُمْ لَا يَجُوزُ نِكَاحُ الْيَتِيمَةِ حَتَّى تَبْلُغَ وَلَا يَجُوزُ الْخِيَارُ فِي النِّكَاحِ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ إِذَا بَلَغَتْ الْيَتِيمَةُ تِسْعَ سَنِينَ فَزُوِّجَتْ فَرَضِيَتْ فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ وَلَا خِيَارَ لَهَا إِذَا أَدْرَكَتْ وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ وَقَدْ قَالَتْ عَائِشَةُ إِذَا بَلَغَتْ الْجَارِيَةُ تِسْعَ سِنِينَ فَهِيَ امْرَأَةٌ

سنن النسائي
3325۔ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ عَنْ عَبْدَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتٍّ وَدَخَلَ عَلَيَّ وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ وَكُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ

سنن ابن ماجه
1866۔ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ فَوُعِكْتُ فَتَمَرَّقَ شَعَرِي حَتَّى وَفَى لَهُ جُمَيْمَةٌ فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبَاتٌ لِي فَصَرَخَتْ بِي فَأَتَيْتُهَا وَمَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ فَأَخَذَتْ بِيَدِي فَأَوْقَفَتْنِي عَلَى بَابِ الدَّارِ وَإِنِّي لَأَنْهَجُ حَتَّى سَكَنَ بَعْضُ نَفَسِي ثُمَّ أَخَذَتْ شَيْئًا مِنْ مَاءٍ فَمَسَحَتْ بِهِ عَلَى وَجْهِي وَرَأْسِي ثُمَّ أَدْخَلَتْنِي الدَّارَ فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي بَيْتٍ فَقُلْنَ عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ
مسند احمد
23023۔ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
تَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانِ عَشْرَةَ

25193۔ حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَفَّى خَدِيجَةَ قَبْلَ مَخْرَجِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ بِسَنَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثٍ وَأَنَا بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ جَاءَتْنِي نِسْوَةٌ وَأَنَا أَلْعَبُ فِي أُرْجُوحَةٍ وَأَنَا مُجَمَّمَةٌ فَذَهَبْنَ بِي فَهَيَّأْنَنِي وَصَنَعْنَنِي ثُمَّ أَتَيْنَ بِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَنَى بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ
[/ARABIC]
ہاں ایک لنک بھی ملا ہے اردو میں اس سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے
منکرین حدیث اور ( اماں ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر

اللہ اکبر کبیرا

کیا ان کا ترجمہ مل سکتا ہے؟
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
ان سب احادیث کا لب لباب یہ ہے کہ (اماں) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نکاح چھ سال کی عمر میں ہوئی تھی اور رخصتی نو سال کی عمر میں
باقی اوپر ایک لنک دیا ہے میرے خیال میں اگر ان کو پڑھ لیا جائے تو احادیث کو سمجھنے میں اسانی ہو جائے گی


اللہ اکبر کبیرا
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جی کچھ اور حوالاجات بھی درج کئے جاتے ہیں اور تقریبا 30 اس کے علاوہ بھی ہیں

[arabic]مسلم شريف احاديث
2547۔ [ARABIC]حَدَّثَنَا------------- عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ[/ARABIC]
2548۔[ARABIC] و حَدَّثَنَا ------------ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ح و حَدَّثَنَا ---------------- عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ[/ARABIC]
2549۔ [ARABIC]و حَدَّثَنَا ------------ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ[/ARABIC]
سنن ترمذی
1027۔ [ARABIC]حَدَّثَنَا -------------------۔عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ[/ARABIC]
سنن النسائي
3325۔[ARABIC] أَخْبَرَنَا---------------- عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ[/ARABIC]

سنن ابن ماجه
1866۔[ARABIC] حَدَّثَنَا---------------------حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ[/ARABIC]
مسند احمد
23023۔[ARABIC] حَدَّثَنَا -------- عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ[/ARABIC]

25193۔ [ARABIC]حَدَّثَنَا -------- عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ[/ARABIC]
َ
[/arabic]

ان احادیث میں آپ نے جو ریسرچ پیش کی اس کا شکریہ واجد صاحب۔ اب یہاں کم از کم تین سیٹ ہیں اسناد کے، اس میں سے ہشام بن عروۃ عراق اور شام ہجرت فرما گئے تھے۔ اس مد میں ان کی اسناد کے علاوہ تین مزید اسناد آپ نے فراہم کیں اس کا شکریہ۔ میں اسناد میں 2549 میں جو فرق ہے کہ جناب عروۃ (ر) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان جناب ابیۃ (ر)‌کا لنک موجود نہیں۔ لیکن اس کو فرق کو فی الحال نظر انداز کرتے ہیں۔

اب اس امر کی رو سے دیکھئے۔ کہ یہ راوی ہی وہ واحد لوگ نہیں ہیں جو اس روایت کو پیش کررہے ہیں۔ کچھ لوگ اور بھی ہیں جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کا حساب رکھا ہو اہے۔
1۔ حضرت اسماء حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بڑی بہن ہیں جس کی یہ روایتیں موجود ہیں
بقول عبدالرحمن ابن ابی الذناد۔ حضرت اسماء، حضرت عائشہ سے دس سال بڑی تھیں۔ (سیار العلم النبالہ، الذہابی، جلد 2، ص 289 عربی۔ موسستہ الرسالہ، بیروت، 1992)
بقول ابن کثیر: حضرت اسماء اپنے بہن حضرت عائشہ سے 10 سال بڑی تھیں۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد 8، ص371، دار الفکر العربی الجزاہ، 1933)

2۔ حضرت اسماء کی عمر کا تعین 100 سال ان حضرات نے کیا ہے اور تاریخ وفات 73 ھجری یا 74 ھجری کیا ہے۔
بحوالہ ابن کثیر: حضرت اسماء نے اپنے بیٹے کو 73ھ میں مرتے ہوئے دیکھا۔ اور پھر 5 دن، یا 10 دن یا 20 دن یا' کچھ دن' یا 100 دن بعد( دنوں کی تعداد مورخ یا محدث پر منحصر ہے) انکی وفات 100 برس کی عمر میں ہوئی۔ (البدیاہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد 8، ص 372، دار الفکر العربی، الجزاہ، 1933)
بحوالہ ابن حجار الاثقلینی،:حضرت اسماء - 100 سو برس زندہ رہیں اور 73ھ یا 74 ھجری میں وفات پائی۔ (تقریب التہذیب، ابن حجار الاثقلینی، ص 654، عربی۔ باب فی النساء، الحرف الیف، لکھنئو)
تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت اسماء کی وفات - سو برس کی عمر میں 73ھ یا 74 ھ میں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ھجرت کے وقت، 27 یا 28 برس کی تھیں۔ جس کے حساب سے حضرت عائشہ کی عمر ھجرت کے وقت 17 یا 18 سال اور رسول اللہ کے گھر 19 یا 20 سال کی عمر سے رہنا شروع کیا۔

حجار، ابن کثیر، اور عبدالرحمن کی درج روایات کے مطابق، حساب کرنے سے ، حضرت عائشہ کی عمر ، شادی کے وقت 19 یا 20 سال بنتی ہے۔

ہشام بن عروہ حضرت عائشہ کی عمر کا تعین، مختلف روایات میں‌ نکاح کے وقت 6، 7، 9 ، 12 یا 13 سال کرتے ہیں؟

ان میں سے ہم روایت کے کس سلسلے کو معاف کریں اور کیوں ؟
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


مزید دیکھتے ہیں کہ حضرت فاطمہ الزہرۃ کی عمر اور حضرت عائشہ کی عمر مختلف اکابریں نے کیا لکھی ہے۔

بقول ابن حجار۔ حجرت فاطمہ کی پیدائش کعبہ کی دوبارہ تعمیر کے وقت ہوئی جبکہ رسول اللہ 35 سال کے تھے اور ھضرت فاطمہ ، ھضرت عائشہ سے 5 سال بڑی تھیں۔ ( الاصحابہ فی تمیزالصحابہ، ابن ھجار الثقلینی، جلد 4، ص، 377، مکتبۃ الریاض، الحدیثہ، الریاض، 1978)

اب اگر اس بیان کو دیکھا جائے تو حضرت عائشہ (ر)‌ جب پیدا ہوئیں تو رسول اللہ (ص) 40 سال کے تھے اور اگر شادی کے وقت رسول اللہ (ص) کی عمر 52 سال تھی تو حضرت عائشہ (ر)‌ 12 سال کی ثابت ہوتی ہیں جو کہ ان روایات میں صرف 9 سال ( تسع)‌درج ہے۔ جو اوپر پیش کی گئی ہیں ۔ اس حساب سے بھی یہ روایت ثابت نہیں ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن طبری : تاریخ الامم والمملوک الطبری ، جلد 4، ص 50، عربی۔ دارالفکر بیروت 1979
1۔حضرت ابوبکر (ر) کی چاروں اولادیں‌ قبل الاسلام پیدا ہوئیں۔
2۔ حضرت عائشہ کی شادی 620 ع میں ہوئی اور رخصتی 624 ع میں ہوئی۔ (9 سال کی عمر کو ذہن میں رکھیں)
3۔ طبری لکھتا ہے کہ حضرت عایشہ 613 ع میں پیدا ہوئیں اور 9 سال کی عمر میں ان کی رخصتی ہوئی۔

4۔ 613 ع قبل الاسلام نہیں ہے۔ وحی کا سلسلہ تو 610 ع میں شروع ہوا تو پھر حضرت ابوبکر (ر) کے سب بچے قبل الاسلام کیسے پیدا ہوئے؟

5۔ اگر حضرت عائشہ (ر) قبل الاسلام یعنی 610 ع سے پہلے پیدا ہوئیں تو رخصتی کے وقت جو کہ 624 میں ہوئی، ان کی عمر 14 سال بنتی ہے۔ یہ 9 سال نہیں بنتی
نتیجہ یا تو طبری کا حساب کچھ خراب تھا۔ اس کے بیانات میں تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں
------------------------------------------------------------------------------
غزوہ احد اور غزوہ بدر سے مثالیں
مسلم کی کتاب الجہاد والسیار سے روایت ہے کہ حضرت عایشہ (ر) سے غزوہ بدر کی روایت ہے کہ :
" جب ہم شجارہ کے مقام پر پہنچے " اس کا مطلب ہے کہ حضرت عایشہ (ر) اس گروپ کے ساتھ ہیں۔
پھر بخاری کی روایت ہے جنگ بدر کے دوران کہ :
حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک دن غزوہ احد کے دوران ، جب لوگ رسول اللہ کے گرد کھڑے نہ رہ سکے تو اس دن میں نے دیکھا کہ عایشہ (ر) اور ام سلیم ، نے اپنے لباس اپنے پیروں سے کچھ اوپر کررکھے تھے۔۔۔۔۔۔ ثابت کرتا ہے کہ حضرت عایشہ احد اور بدر کے غزوات میں شریک تھیں۔

اب بجاری کی اس حدیث کو دیکھئے۔
ابن عمر (ر) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ان کو احد میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جب وہ 14 سال کے تھے لیکن اس روز جب غزوۃ ضندق واقع ہوئی تو میں 15 سال کا تھا، لہذا رسول اللہ نے مجھے شامل ہونے کی اجازت دے دی۔

اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ 15 سال سے چھوٹی عمر کے بچوں کو غزوۃ احد و غزوۃ بدر میں شامل نہیں ہونے دیا گیا تھا اور واپس بھیج دیا گیا تھا۔ لیکن حضرت عایشہ ان غزوات میں موجود تھیں۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان غزوات کے موقعہ پر حضرت عایشہ (ر)‌کی عمر کم از کم 15 سال ضرور تھی۔
-------------------------------------------
بخاری کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عایشہ سے روایت ہے کہ میں ایک نوجوان لڑکی ( عربی میں جاریۃ) تھی جب سور‌ۃ‌ القمر نازل ہوئی۔

یہ سورۃ ہجرت سے 8 سال قبل 614 ع میں نازل ہوئی، اگر 623 ع میں شادی کے وقت حضرت عایشہ (ر) صرف 9 سال کی تھیں‌ تو 614 میں ان کو ایک نو مولود ( جس کے لئے جاریۃ نہیں استعمال ہوتا) ہونا چاہئیے تھا۔ جبکہ اس روایت کے مطابق حضرت عایشہ (ر)‌ ایک نوجوان لڑکی (‌جاریۃ)‌ تھیں ۔ جاریہ کے معانی ایک کھیلنے کودنے کے قابل لڑکی کے ہیں ۔ جو کہ 6 سے 13 سال کی عمر کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جس سے شادی کے وقت عمر کم از کم عمر 15 اور زیادہ سے زیادہ 21 سال بنتی ہے

نتیجہ: اگر اس روایت میں بعد میں ترمیمات ہوئی ہیں تو تمیمات کرنے والے کا حساب بہت کمزور تھا اور وہ ایک ساتھ تمام روایات میں ترمیم نہیں کرسکا۔

----------------------------------------------------
سات سال میں شادی اور نو سال میں نکاح، قرآن کیا کہتا ہے۔
رسول اکرم صلعم اور حضرت ابوبکر صدیق (ر)‌اسلام کی دو بہت بڑی نامی گرامی شخصیتیں کیا قرآن سے باہر جاسکتے ہیں۔ جبکہ اول الذکر تو چلتا پھرتا قرآن ہیں۔ یہ دونوں حضرات کس طرح ایک 7 سال کی ایک ناسمجھ بچی کا نکاح کے لئے راضی ہوگئے؟ جبکہ اس قسم کی دوسری عرب روایات بھی نہیں ملتی ہیں اور جبکہ قرآن واضح طریقے سے کہتا ہے۔

[AYAH]4:5[/AYAH] اور تم بے سمجھوں کو اپنے (یا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنایا ہے۔ ہاں انہیں اس میں سے کھلاتے رہو اور پہناتے رہو اور ان سے بھلائی کی بات کیا کرو

[AYAH]4:6[/AYAH] اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے

شادی ایک بھاری معاہدہ ہے ، قرآن شادی کو ایک بھاری معاہدہ قرار دیتا ہے۔ جو کہ نابالغوں کے درمیان ناممکن ہے۔ 7 سال کی عمر دنیا کے کسی بھی مذہب کے مطابق بالغ ہونے کی عمر نہیں۔ ہمارے رسول صلعم قرآن کے خلاف کیونکر عمل کرسکتے تھے، یہ عقل و قیاس سے بعید ہے۔

یہ بہت واضح ثبوت ہے کہ دشمنان اسلام نے ان روایات میں کہیں تبدیلی کی لیکن دوسری جگہوں پر حساب کرنے سے ان روایات کی تصدیق نہیں ہوتی۔

خاص‌طور پر واجد صاحب کا شکریہ کہ انہوں‌ نے یہ روایات فراہم کیں

والسلام مع اکرام۔
 
غزوہ احد اور غزوہ بدر سے مثالیں
مسلم کی کتاب الجہاد والسیار سے روایت ہے کہ حضرت عایشہ (ر) سے غزوہ بدر کی روایت ہے کہ :



[ARABIC]بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
بَاب غَزْوَةِ بَدْرٍ
3330 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاوَرَ حِينَ بَلَغَهُ إِقْبَالُ أَبِي سُفْيَانَ قَالَ فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ تَكَلَّمَ عُمَرُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقَالَ إِيَّانَا تُرِيدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْكِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا قَالَ فَنَدَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ فَانْطَلَقُوا حَتَّى نَزَلُوا بَدْرًا وَوَرَدَتْ عَلَيْهِمْ رَوَايَا قُرَيْشٍ وَفِيهِمْ غُلَامٌ أَسْوَدُ لِبَنِي الْحَجَّاجِ فَأَخَذُوهُ فَكَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَهُ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ وَأَصْحَابِهِ فَيَقُولُ مَا لِي عِلْمٌ بِأَبِي سُفْيَانَ وَلَكِنْ هَذَا أَبُو جَهْلٍ وَعُتْبَةُ وَشَيْبَةُ وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ فَإِذَا قَالَ ذَلِكَ ضَرَبُوهُ فَقَالَ نَعَمْ أَنَا أُخْبِرُكُمْ هَذَا أَبُو سُفْيَانَ فَإِذَا تَرَكُوهُ فَسَأَلُوهُ فَقَالَ مَا لِي بِأَبِي سُفْيَانَ عِلْمٌ وَلَكِنْ هَذَا أَبُو جَهْلٍ وَعُتْبَةُ وَشَيْبَةُ وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ فِي النَّاسِ فَإِذَا قَالَ هَذَا أَيْضًا ضَرَبُوهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يُصَلِّي فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ انْصَرَفَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَضْرِبُوهُ إِذَا صَدَقَكُمْ وَتَتْرُكُوهُ إِذَا كَذَبَكُمْ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ قَالَ وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ هَاهُنَا هَاهُنَا قَالَ فَمَا مَاطَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
[/ARABIC]
 
ش

شوکت کریم

مہمان
استغفر اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فضول بحث ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلاموں ۔۔۔۔۔۔۔ بندوں۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے یہ کام نہیں کہ اپنے ماں اور باپ کی عمروں کی کرید کرتا پھرے ۔۔۔۔۔ بھائیو پہلے غلامی کے بندگی کے معنی سیکھو اور ان پر بحث کرو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر طبعیت میں‌ ازلی گمراہی اور تاریکی بھری ہوئی ہی ہے تو جو جی چاہے کرو۔۔۔۔

کچھ باتوں پہ بحث نہ ہی کی جائے تو اچھا ہے ۔۔۔ کچھ باتیں من و عن قبول ہی کر لی جائیں تو مفید ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ اور مزا بھی تب ہے کہ کچھ باتیں من وعن مان لی جائیں کہ یہی شان غلامی ہے ۔۔۔ کون ایسے غلام کو پسند کرتا ہے جو آقا کی خانگی زندگی کے بارے میں بحث و مباحثے چلائے۔۔۔۔۔۔ کون ماں اس بیٹے کو پسند کرے گی جو اس کی خانگی زندگی کے بارے میں سر عام بحث چلائے اور ہر کس و ناکس سے رائے مانگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہمارے لئے اتنا کافی نہیں کہ اماں‌ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہماری ماں تھیں۔۔۔۔۔ ہمارے باپ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ تھیں۔۔۔۔۔۔۔ اور جسے کوئی اعتراض ہے تو ہوتا رہے ہمیں کوئی ضرورت نہیں اسکے اعتراض‌ کے جواب میں دلیلیں نکالنے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری سب دوستوں سے گذارش ہو گی کہ اس موضوع پر مزید نہ لکھیں۔۔۔ کہ یہی تو اعتراض کرنے والوں کا مقصد ہے۔۔۔۔۔
 
جزاک اللہ شوکت کریم بھائی
آنکھیں نم اور رخسار تر کر دی میری ماں پر الزمات لگائے جائیں اور بیٹا خاموشششششششششششششششششش

:(:(:(
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top