کیا بچوں ہاسٹل بھیجا جانا چاہیے؟

بہت بہت شکریہ اصلاحی بھائی ۔۔۔ لیکن میں ابھی ابھی یہی دھاگہ دیکھ رہاتھا۔ خاصی سیر حاصل گفتگو ہوچکی ہے۔ ذاتی طور پر میں بھی میٹرک تک بلکہ انٹر تک ہاسٹل کے سخت خلاف ہوں۔ صرف ضرورت پڑنے پر ہی پیشہ ورانہ تعلیم کے لئے ہی ہاسٹل کا قائل ہوں۔ اور میرے خیال سے اگر دینی ادارے بھی صبح سے شام تک بچوں کو تعلیم دیں اور رات کو بچے اپنے اپنے گھر جاسکیں تو اس سے عمومی طور پر نہ صرف یہ کہ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت ہو سکےگی بلکہ دینی اداروں پر مالی بوجھ بھی کم سے کم پڑے گا۔ اور وہ اپنے مالی وسائل کو رہائش و خوراک کی بجائے خالص تعلیمی مد میں خرچ کر سکیں گے ۔ اور شاید پھر وہ اپنے اساتذہ کو ہینڈ سم تنخواہ بھی دے سکیں۔ اس وقت اقامتی دینی اداروں میں عام اساتذہ کا مشاہرہ ناقابل بیان حد تک اتنا کم ہے۔ (الا ماشاء اللہ)

صرف آپ کے یہاں نہیں ہمارے یہاں بھی یہی حال ہے۔
 
تو اب بول دیجئے نا ۔دلیلوں کی بنیاد پر بہت کم لوگوں نے بات کی ہے ۔استاذ محترممحمد یعقوب آسیتفصیل سے لکھ رہے ہیں ۔اور کئی اہل علم @پردیسی،@فلک شیر،@نیرنگ خیال وغیرہ نے تفصیل سے لکھنے کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔استاذ محترم آسی صاحب کی تو دو قسطیں موصول بھی ہو چکی ہیں ۔انشائ اللہ ان حضرات کی گفتگو سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملے گا ۔بہت سے گوشے وا ہونگے اور ہم کسی نتیجہ تک پہونچ سکیں گے ۔آپ کے تفصیلی جواب کا بھی انتظار رہے گا ۔
جنابپردیسیصاحب
جنابفلک شیرصاحب
جنابنیرنگ خیالصاحب
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
علم نفسیات کے ماہرین بچوں کےاِنفرادی اِمتیازات پر درجنوں کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
ہر بچے کی اپنی شناخت ہوتی ہے، اپنی طبیعت،اپنی پسند ناپسند، اس کا اپنا مزاج،
گویا ہر بچہ دوسرے کسی بھی بچے سے قطعی مختلف اورانفرادی شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔
معلوم ہوا سارے بچے یکساں نہیں ہوتے، تمام بچوں کی نہ ایک ہی طریقے سےتربیت کی جاسکتی ہے اور نہ پرورش۔
بچوں کی طبیعت،پسند ناپسند،مزاج اور معیار کو ان کے اپنے والدین سے بہتر دُنیاکا دوسرا کوئی فرد نہیں سمجھ سکتا۔
کسی بھی اعلی تربیت یافتہ تربیت کار کی بہ نسبت والدین ہی اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔
ہندوستان کی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو جونیئر یا سینیئرکنڈر گارٹن(کے۔جی۔)
میں داخل کرنے کے معاملہ میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین چار سال کی عمر تو بچوں کے کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے۔
تو صاحب جب انڈیا کی سپریم کورٹ تین چار سال کے بچوں کو اسکول بھیجنے ہی کے خلاف ہے تو پھر انہیں ہاسٹل یا اقامت گاہ بھیجنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
رہا سوال پانچ سال سے زائد عمر کے بچوں کا تو ہمارے خیال میں ان کی یہ عمر دادا دادی کی شفقت و محبت والدین کے تحفظ،چھوٹے بھائی بہنوں اور گلی محلہ کے
دوستوں کے ساتھ مل کر گھراور گلی محلہ نیز گائوں یا شہر کےماحول سے کما حقہ متعارف ہونے کی متقاضی ہوتی ہے۔ ہاسٹل یا اقامت گاہ بھیج کر انہیں کنویں کا
مینڈک بنانے کی متقاضی نہیں ہوتی۔لہذا ہماری رائے میں بارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو کسی بھی صورت میں ہاسٹل یا اقامت گاہ میں نہیں بھیجنا چاہیے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
قابل احترام
عبدالحسیب، عندلیب،محمد علم اللہ اصلاحی، یوسف-2اور ام نور العین
پسندیدگی کے لیے آپ تمام کا شکریہ
 

فلک شیر

محفلین
اس ضمن میں تفصیلی مضمون لکھنے کی ضرورت ہے........
بہرحال جستہ جستہ عرض کرتا رہوں گا...
انشاءاللہ......
پہلی بات تو یہ ہے کہ ِ ہمیں یہ تقسیم کر لینا چاہیے کہ جس کو ہم ہاسٹل کہہ رہے ہیں، وہ کس قسم کا ہاسٹل ہے.......کیونکہ میرے محدود علم کے مطابق ہمارے ملک ہی میں تین سے چار قسم کے ہاسٹل والے سکول پائے جاتے ہیں........وہ فیس سٹرکچر، سہولیات، نظریات،مقاصد ِ تعلیم اور تربیتی اسالیب کے حوالے سے ایک دوسرے سے کہیں تو بُعد المشرقین رکھتے ہیں اور کہیں کہیں نیم موافقت بھی پائی جاتی ہے...........
تو اِن سب کو ہم ایک لاٹھی سے تو ہانک نہیں سکتے...........
کوشش کروں گا کہ باری باری ا ن مختلف النوع اداروں کے حوالہ سے طلباء کے وہاں قیام پہ کچھ عرض کر سکوں..........
امید ہے تھوڑی سی سُستی کو گوارا کیا جائے گا........ :):)
 
اس ضمن میں تفصیلی مضمون لکھنے کی ضرورت ہے........
بہرحال جستہ جستہ عرض کرتا رہوں گا...
انشاءاللہ......
پہلی بات تو یہ ہے کہ ِ ہمیں یہ تقسیم کر لینا چاہیے کہ جس کو ہم ہاسٹل کہہ رہے ہیں، وہ کس قسم کا ہاسٹل ہے.......کیونکہ میرے محدود علم کے مطابق ہمارے ملک ہی میں تین سے چار قسم کے ہاسٹل والے سکول پائے جاتے ہیں........وہ فیس سٹرکچر، سہولیات، نظریات،مقاصد ِ تعلیم اور تربیتی اسالیب کے حوالے سے ایک دوسرے سے کہیں تو بُعد المشرقین رکھتے ہیں اور کہیں کہیں نیم موافقت بھی پائی جاتی ہے...........
تو اِن سب کو ہم ایک لاٹھی سے تو ہانک نہیں سکتے...........
کوشش کروں گا کہ باری باری ا ن مختلف النوع اداروں کے حوالہ سے طلباء کے وہاں قیام پہ کچھ عرض کر سکوں..........
امید ہے تھوڑی سی سُستی کو گوارا کیا جائے گا........ :):)

گوارہ تو کر ہی لیں گے بھائی جان لیکن زیادہ دیر نا ہوتو بہتر ہے ۔
 
اس ضمن میں تفصیلی مضمون لکھنے کی ضرورت ہے........
بہرحال جستہ جستہ عرض کرتا رہوں گا...
انشاءاللہ......
پہلی بات تو یہ ہے کہ ِ ہمیں یہ تقسیم کر لینا چاہیے کہ جس کو ہم ہاسٹل کہہ رہے ہیں، وہ کس قسم کا ہاسٹل ہے.......کیونکہ میرے محدود علم کے مطابق ہمارے ملک ہی میں تین سے چار قسم کے ہاسٹل والے سکول پائے جاتے ہیں........وہ فیس سٹرکچر، سہولیات، نظریات،مقاصد ِ تعلیم اور تربیتی اسالیب کے حوالے سے ایک دوسرے سے کہیں تو بُعد المشرقین رکھتے ہیں اور کہیں کہیں نیم موافقت بھی پائی جاتی ہے...........
تو اِن سب کو ہم ایک لاٹھی سے تو ہانک نہیں سکتے...........
کوشش کروں گا کہ باری باری ا ن مختلف النوع اداروں کے حوالہ سے طلباء کے وہاں قیام پہ کچھ عرض کر سکوں..........
امید ہے تھوڑی سی سُستی کو گوارا کیا جائے گا........ :):)
بھائی جان آپ نے کہا تھا تفصیل سے اس پر کچھ عرض کروں گا اور بھول گئے ۔
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
فن لینڈ کے حوالے سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہاں بورڈنگ سکول کا تصور انتہائی نایاب ہے۔ عام طور پر پرائمری سکول، جو کہ نو سال کی تعلیم پر مشتمل ہے، تک بچے اپنے گھر میں رہتے ہیں اور گھر کے آس پاس ہی سکول میں انہیں داخلہ ملتا ہے۔ اگر گھر کے پاس سکول نہیں تو بھی حکومت کی طرف سے لوکل گورنمنٹ کی طرف سے ٹیکسی یا بس کا انتظام ہوگا۔ اگر بچے کسی دور دراز کے جزیرے پر موجود ہیں جہاں نزدیک کوئی سکول نہیں تو وہاں انٹرنیٹ اور ٹی وی وغیرہ کی مدد سے اور جز وقت ٹیچر کی مدد سے ان کی تعلیم جاری رکھی جائے گی تاکہ بچے گھر سے دور نہ ہوں
نو سال کی تعلیم کے بعد پروفیشنل تعلیم کا آغاز ہوتا ہے یا بچے کالج اور یونیورسٹی کا رخ کرتے ہیں۔ اس وقت غالب اکثریت ہاسٹل ہی میں رہائش رکھتی ہے اور چونکہ میرا اپنا کالج جہاں میں کام کرتا ہوں، اقامتی تعلیمی ادارہ ہے، یہاں اور دیگر تمام اقامتی ادارے میں بچوں کا یا طلباء کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت تک بچے پندرہ سے سترہ سال کی عمر تک پہنچ چکے ہوتے ہیں اور گھر سے دوری ان کی تربیت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی
 
فن لینڈ کے حوالے سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہاں بورڈنگ سکول کا تصور انتہائی نایاب ہے۔ عام طور پر پرائمری سکول، جو کہ نو سال کی تعلیم پر مشتمل ہے، تک بچے اپنے گھر میں رہتے ہیں اور گھر کے آس پاس ہی سکول میں انہیں داخلہ ملتا ہے۔ اگر گھر کے پاس سکول نہیں تو بھی حکومت کی طرف سے لوکل گورنمنٹ کی طرف سے ٹیکسی یا بس کا انتظام ہوگا۔ اگر بچے کسی دور دراز کے جزیرے پر موجود ہیں جہاں نزدیک کوئی سکول نہیں تو وہاں انٹرنیٹ اور ٹی وی وغیرہ کی مدد سے اور جز وقت ٹیچر کی مدد سے ان کی تعلیم جاری رکھی جائے گی تاکہ بچے گھر سے دور نہ ہوں
نو سال کی تعلیم کے بعد پروفیشنل تعلیم کا آغاز ہوتا ہے یا بچے کالج اور یونیورسٹی کا رخ کرتے ہیں۔ اس وقت غالب اکثریت ہاسٹل ہی میں رہائش رکھتی ہے اور چونکہ میرا اپنا کالج جہاں میں کام کرتا ہوں، اقامتی تعلیمی ادارہ ہے، یہاں اور دیگر تمام اقامتی ادارے میں بچوں کا یا طلباء کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت تک بچے پندرہ سے سترہ سال کی عمر تک پہنچ چکے ہوتے ہیں اور گھر سے دوری ان کی تربیت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی

بہت معلوماتی بات بتائی بھائی جان آپ نے بے حد شکریہ ۔
 

x boy

محفلین
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
اگر ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تو بھیجئے وہ بھی ایسے ہاسٹل جہاں دین اور عزت برقرار رہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جہاں تک میرا خیال ہے، بچے والدین کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ آپ سے سنبھالے نہیں جاتے تو ان کو سنبھالنا سیکھئے ۔ یہ کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں کہ انہیں خود سے دور کرکے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی جائے ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ والدین کو پتہ بھی نہیں ہوتا وہاں ہو کیا رہا ہے اور بچوں کے اذہان پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان کے ساتھ خدانخواستہ کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے جو وہ آپ کو زندگی بھر نہ بتائیں تو اس کا مداوا کرنے والا کون ہوگا؟ پطرس بخاری کا ایک مضمون ہے "ہاسٹل میں پڑنا" (لفظ پڑھنا کو جان بوجھ کر مرحوم نے غلط لکھا ہے)، بظاہر تو یہ مزاحیہ تحریر ہے لیکن صاف پتہ چلتا ہے کہ موصوف اس بات کے خلاف ہیں اور مزاحیہ تحریر کے ذریعے انہوں نے دراصل اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ اپنی اولاد کو ہاسٹل کے حوالے کرنا کس قدر احمقانہ اقدام ہے ۔۔۔ اللہ موجودہ دور کے والدین کو ہدایت عطا فرمائے (آمین)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں یہ لکھنا بھول گیا کہ مرحوم پطرس بخاری کی وہ تحریر کالج کے طلبا کے بارے میں ہے جو اچھے خاصے بالغ ہوتے ہیں، اگر بالغ لوگوں کے بارے میں یہ رائے ہے تو سوچئے کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں، انہیں ہاسٹل بھیجنا کیسے جائز ہوا؟
 

عثمان

محفلین
بھئی کس عمر کے بچوں تک کی بات ہو رہی ہے ؟ کتنا عرصہ ہوسٹل میں ٹھہرانے کی بات ہے ؟
معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تمام موضوع کومحض ایک مختصر پہلو سے دیکھا جا رہا ہے۔
اگر تو معاملہ کالج کے طلبہ کا ہے ، تو ہاسٹل میں ٹھہرنا انتہائی احسن ہے۔ تعلیمی ادارے کی قربت میں ، دوسرے ساتھی طلبہ کے ساتھ جو علمی اور تحقیقی ماحول میسر آتا ہے اس کا اپنے گھر کے بیڈ روم سے موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔
پھر اگر کچھ وقت پیشہ ورانہ زندگی میں کچھ عرصہ ہوسٹل میں گزرے تو اس کے ثمرات بھی منفرد ہیں کہ وہ قیام آپ کی پیشہ ورانہ زندگی اور تربیت کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ میں خود ملٹری ہوسٹلز میں زیر تربیت رہا ہوں۔
اگر سکول جانے والے طلبہ کچھ محدود عرصہ ہوسٹل میں گذارتے ہیں۔ تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں۔ بلکہ بچوں میں اعتماد ، نظم ضبط اور خود انحصاری جیسی خوبیاں جنم لیتی ہیں۔
ہاں اگر کم سن بچہ کئی کئی سال ہوسٹل میں گذارتا ہے تو اس کے مضمرات غور طلب ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top