کیا آپ بی بی سی کی اس خبر سے متفق ھیں "غزہ"؟ کیا یہ جنگ ھے یا دہشت گردی؟

arifkarim

معطل
دھاگے کا عنوان ہے "کیا آپ بی بی سی کی اس خبر سے متفق ہیں؟ "غزہ" کیا یہ جنگ ہے یا دہشتگردی؟۔۔۔ ۔اب جب یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ متفق ہیں یا نہیں تو لازمی بات ہے کہ سوال پوچھنے والے نے قارئین کو یہ حق دیا ہے کہ وہ متفق یا غیر متفق ہوسکتے ہیں۔۔۔ اب اسکے بعد کیا یہ عجیب نہیں لگتا کہ جو بندہ اس موضوع پر آپ سے متفق نہیں ہے، اسے قادیانی یا مرتد وغیرہ کا طعنہ دیا جائے؟؟؟؟؟؟
یہ شاید دھاگہ اسی لئے کھولا گیا تھا کہ جو متفق نہیں ہوگا اس پر قادیانیت کا الزام لگا کر یہاں تماشہ کیا جائے گا!

ذاتی دفاع کے نام پر اٹھے ہاتھ کو کیا نام دیا جائے ؟ جنگ کہ دہشت گردی ؟
ہم پاکستانی اٹھتے بیٹھتے فلسطین کی آزادی کے نعرے لگاتے فلسطینی عوام کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔
اور فلسطینی پاکستان کی بجائے " کسی اور " کے گن گاتے ہیں ۔
ابتک کا بہترین کمنٹ! بہت خوب! پاکستانی بیچارے ابھی تک اپنے’’ بردر‘‘ کشمیر کو تو بھارتی تسلط سے آزاد کرا نہیں پائے۔ وہ تو پھر صیہونی ریاست ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نایاب بھائی، جو عام لوگ (مسلم کی قید نہیں) فلسطین کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں کم سے کم ان کے خلوص میں تو آپ کو شک نہیں کرنا چاہیے۔ نہ ہی اظہارِ یکجہتی کرنے والوں کی یوں حوصلہ شکنی زیب دیتی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
محترم قیصرانی بھائی یہاں تو حماس اور اسرائیلی فوج کی بات ھی نہیں ھو رھی تھی اصل بات یہ تھی کہ یہ جنگ ھے یا نہیں اور تصاویر سے یہ بات وا‌ضع ھوتی تھی جو ھم خبر کے ساتھ لگائی تھی کہ وہاں بچوں کو مارا جا رھا ھے۔آپ حماس کو دہشت گرد کہہ رھے ھیں غلط کہہ رھے ھیں یا کچھ اور مجھے اس کا اندازہ تو نہیں ھو رہا لیکن میں یہ واضع کرنا چاھوں گا کہ ھم نے کب یہ کہا کہ حماس کے مجاہدین کو مت مارو وہ تو ایک جنگ کا حصہ ھے کہ یا تو ایک مرتہ ھے یا دوسرا یہاں بات کا مقصد یہ تھا کہ جو بچے مر رھے ھیں ان کا کیا قصور ھے انہوں نے کتنے راکٹ فائر کئے اسرائیل پر؟
رھی بات ایجنٹوں کی تو انہوں نے خوبصورتی سے بحث کا رخ ھی بدل دیا ھے۔اور یہی پر میں "ان صاحب" سے بھی جو مجھے مسلمان لکھ کر مخاطب کر رھے ھیں پیغام دینا چاہوں گا کہ مجھے آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دینا۔اور نہ مجھے آپ کا سمجھانے کی ضرورت ھے۔کہ آپ کے دل میں تو انسانی جذبات ھی نہیں اسلام تو دور کی بات ھے !
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ سب سے پہلے فلسطینیوں نے ہی اس جنگ میں شہریوں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر حملوں کو جائز قرار دیا تھا اور حملے بھی کئے تھے :) اسرائیل کے ربیوں نے تو کچھ سال قبل ہی بچوں کی ہلاکت کو قابل قبول قرار دیا ہے :)
 

arifkarim

معطل
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ سب سے پہلے فلسطینیوں نے ہی اس جنگ میں شہریوں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر حملوں کو جائز قرار دیا تھا اور حملے بھی کئے تھے :) اسرائیل کے ربیوں نے تو کچھ سال قبل ہی بچوں کی ہلاکت کو قابل قبول قرار دیا ہے :)
صیہونیوں کے مطابق بچوں کا قتل فرعون اور حضرت موسیٰؑ کے واقعہ کی بنا پر جائز ہے جب فرعون نے حکم دیا کہ قدیم اسرائیلیوں کے تمام نئے پیدا ہونے والے لڑکے قتل کر دئے جائیں کیونکہ اسکے نجومیوں نے حضرت موسیٰؑ کی پیدائش کی پیشگوئی کردی تھی جس نے بعد میں ’’بڑے ہوکر‘‘ فرعون کے تخت کا خاتمہ کرنا تھا! یعنی جنگجو اس کہانی سے یہ مطلب نکالتے ہیں کہ کم سن بے گناہ بچوں کا قتل جنگ میں اسلئے جائز ہے کہ ہو سکتا ہے وہ بڑے ہو کر دہشت گرد بن جائیں اور صیہونی ریاست کیلئے مسئلہ پیدا کریں؟حماس کے دہشت گرد کی تخلیق بچپن سے ہی شروع ہو جاتی ہے:
 

قیصرانی

لائبریرین
ع
صیہونیوں کے مطابق بچوں کا قتل فرعون اور حضرت موسیٰؑ کے واقعہ کی بنا پر جائز ہے جب فرعون نے حکم دیا کہ قدیم اسرائیلیوں کے تمام نئے پیدا ہونے والے لڑکے قتل کر دئے جائیں کیونکہ اسکے نجومیوں نے حضرت موسیٰؑ کی پیدائش کی پیشگوئی کردی تھی جس نے بعد میں ’’بڑے ہوکر‘‘ فرعون کے تخت کا خاتمہ کرنا تھا! یعنی جنگجو اس کہانی سے یہ مطلب نکالتے ہیں کہ کم سن بے گناہ بچوں کا قتل جنگ میں اسلئے جائز ہے کہ ہو سکتا ہے وہ بڑے ہو کر دہشت گرد بن جائیں اور صیہونی ریاست کیلئے مسئلہ پیدا کریں؟حماس کے دہشت گرد کی تخلیق بچپن سے ہی شروع ہو جاتی ہے:
arifkarim آپ یہودی اور صیہونی کے فرق کو مدنظر رکھیں۔ آپ دونوں کو مکس کر رہے ہیں
 

علی خان

محفلین


جناب یہ رہا 1946 اور 2010 کے درمیان اسرائیل نے جو کچھ کیا ہے۔ ان فلسطینوں کے ساتھ اسکی ایک تصویری جھلک۔
اب اسکو کو دیکھ کر آپ خود سے انداہ کر لیں کہ کون صحیح ہے۔ یہ دوغلے ایجنٹ یا ہم ۔

اب یہ مت کہنا کہ یہ زمین تو یہودیوں نے خریدی ہے۔ میری ایک بات سُن لیں۔ جب کوئی ظالم اور بدکردار شخص آپکے گلی میں آکر بسنے لگتا ہے۔ اور اُسکے روز کے مسئلوں سے آپ تنگ آجائیں۔ تو پھرآپکے پاس 2 آپشن ہوتے ہیں۔ کہ یا تو اپنے آپ کو اُس جیسا کرلوں۔ یا پھر وہ جگہ چھوڑ دوں۔ بس یہی کچھ وہاں پر بھی ہوا ہے۔ اُن لوگوں نے وہ جگہ چھوڑ دی۔ کیونکہ اُنکی طرح وہ بن نہیں سکتے تھے۔ یہودیوں کے ساتھ اُنکی حکومت کی مکمل پُشت پناہی تھی اور فلسطینی نہ خود کچھ کر سکتے تھے اور نہ ہی حکومت نے اُنکی داد رسی کی۔

اور باقی یہ قصہ 2 ممالک کا ہے۔ اور یہ تو اپکو پتہ ہوگا ہی۔ کہ آیا ایک ملک کا شہری کسے دوسرے ملک میں جائداد کی خرید و فروحت کر سکتا ہے یا نہیں۔ اور اگر کر سکتا ہے۔ تو وہ کن اُصولوں پرکر سکتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اب یہاں پہنچ کر مجھے حماس اور طالبان میں کافی مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ آ بیل مجھے مار کے مصداق اگر حماس نے 10،000 راکٹ بھی پھینک دیئے اور اس سے دس یا پندرہ اسرائیلی شہری مارے گئے تو اس سے حماس کو یا فلسطینی مقصد کو کیا فائدہ ہوا؟ بدلے میں جب حماس کے بہانے مار فلسطینیوں کو پڑتی ہے تو سارے شور مچا دیتے ہیں۔ بھائی میرے، آپ کمزور ہو، آپ کے پاس طاقت نہیں، پیسہ نہیں، ہتھیار نہیں، کیوں اگلے کو "گالی" نکالنے چل پڑتے ہو جب کہ جانتے بھی ہو اگلوں نے اس کا بدلہ آپ کے بے گناہ گھر والوں کی "چھترول" کر کے اتارنا ہے؟ کیا یہ عقلمندی ہے؟ ایمان ہے؟ جذبہ شہادت ہے؟ یا محض حماقت ہے؟ اگر حماقت ہے تو بھی حماس والے شہری آبادیوں میں کیوں چھپ جاتے ہیں؟ سامنے آ کر سینہ تان کر شہادت کے لئے کیوں نہیں تیار ہو جاتے؟ آپ بھی وہی کرتے ہو جو دوسرے کرتے ہیں یعنی بے گناہ شہریوں کو ڈھال بنا کر حملے کرنا؟

فلسطین اور اسرائیل کی جب بات ہو تو میں فلسطین کی حمایت کروں گا لیکن جب معاملہ حماس اور اسرائیل کا ہو اور اس طرح کی حماقت ہو اور اس کے بعد مار پڑے تو میں یا تو غیر جانبدار رہوں یا پھر حماس کو غلط کہوں گا۔ آپ اپنی رائے میں آزاد ہیں :)
اس پوسٹ سے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار کرنا چاہ رہا ہوں کہ حماس نے اس بار راکٹ حملے شروع نہیں کئے بلکہ یہ حملے انہوں نے اپنے رہنما احمد الجباری پر اسرائیلی حملے اور ہلاکت کے خلاف احتجاجاً شروع کئے ہیں۔ مندرجہ بالا اقتباس والی پوسٹ لکھتے ہوئے یہ اہم پہلو میری نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا
 

قیصرانی

لائبریرین
لو کر لو گل

بنگلہ دیشی عدالت نے مسلمان اور ہندو بیویوں میں شوہر کی میت کا جھگڑا نمٹا دیا

ڈھاکہ (اے ایف پی) بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے ہندو مسلم دو بیویوں کے درمیان اپنے شوہر کی میت کا تنازع یہ کہہ کر نمٹا دیا ہے کہ میت میڈیکل ریسرچ کے لیے کسی کالج کے حوالے کر دی جائے۔

38 سالہ کالج پروفیسر چندن کمار جسے شہزاد حسین چندن بھی کہا جاتا تھا کو 2009ء میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔ قتل کا معمہ تو ابھی حل نہیں ہوا تاہم اس کی بیویوں میں میت کا تنازع کھڑا ہو گیا۔ مسلمان بیوی اکلیمہ اختر پلوئی جو مقتول کی شاگرد بھی تھی کا کہنا تھا کہ مقتول مسلمان تھا کیونکہ اس نے اسلام قبول کر کے اس سے شادی کی تھی، اور یہ کہ وہ اس کی مسلمان طریقے سے تدفین کرے گی۔ اس کی ہندو بیوی تی ٹھی چکرا باتی کا کہنا تھا کہ مقتول برہمن ذات کا ہندو تھا، اکلیمہ جعلی بیوی بن کر جائیداد ہتھیانا چاہتی ہے۔

اتنا عرصہ نعش میڈیکل کالج کے مردہ خانے میں پڑی رہی۔ بالآخر عدالت نے منگل کو یہ فیصلہ سنا دیا۔
یہ پاکستان میں کسی اخبار میں شائع ہوئی ہے یا کسی غیر ملکی اخبار میں؟ اچھا خاصا تماشا ہے یہ بھی ان لوگوں کا :(
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی، جو عام لوگ (مسلم کی قید نہیں) فلسطین کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں کم سے کم ان کے خلوص میں تو آپ کو شک نہیں کرنا چاہیے۔ نہ ہی اظہارِ یکجہتی کرنے والوں کی یوں حوصلہ شکنی زیب دیتی ہے۔
میرے محترم بھائی میں نے فلسطین کی آزادی کی حمایت کے سلسلے میں کسی کے بھی خلوص میں شک نہیں کیا ۔
میں نے تو کھلے طور لکھا ہے کہ
ذاتی دفاع کے نام پر اٹھے ہاتھ کو کیا نام دیا جائے ؟ جنگ کہ دہشت گردی ؟
ہم پاکستانی اٹھتے بیٹھتے فلسطین کی آزادی کے نعرے لگاتے فلسطینی عوام کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔
اور فلسطینی پاکستان کی بجائے " کسی اور " کے گن گاتے ہیں ۔
میرے محترم بھائی 1973 سے لیکر 1991 تک فلسطین کی آزادی کے لیئے چلنے والی تحریکوں میں بے حساب رلا ہوں ۔ ڈنڈے لاٹھیاں بھی کھائیں ۔ آنسوگیس سے آنکھیں بھی سینکی ۔ دو چار بار حوالات بھی دیکھی ۔ 1991 سے لیکر آج 2012 تک سعودی عرب میں رزق تلاش کرتے جتنا بھی " فلسطینی " اردنی " لوگوں سے واسطہ پڑا ہے ۔ معدودے چند کے علاوہ سب کو پاکستان مخالف ہی پایا ۔ ان کی نسبت " مصری اور لبنانی " پھر بھی پاکستان بارے کچھ اچھے خیالات رکھتے ہیں ۔ فلسطینیوں کا عام خیال ہے کہ پاکستان نے مسلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جا کر فلسطین کے مسلے کو کمزور کیا ۔

 

arifkarim

معطل
اس پوسٹ سے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار کرنا چاہ رہا ہوں کہ حماس نے اس بار راکٹ حملے شروع نہیں کئے بلکہ یہ حملے انہوں نے اپنے رہنما احمد الجباری پر اسرائیلی حملے اور ہلاکت کے خلاف احتجاجاً شروع کئے ہیں۔ مندرجہ بالا اقتباس والی پوسٹ لکھتے ہوئے یہ اہم پہلو میری نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا
صیہونی ریاست پر پچھلے دس سال سے مسلسل راکٹ حملے ہو رہے ہیں۔ تاریخ درست کیجئے۔
 
فلسطین کی ریاست ایک مقبوضہ علاقہ ہے اور اس پر زبردستی قبضہ کرنے والے یہودی جارح ہیں اور جارحیت کرنے والے اپنے کسی بھی متشدد اقدام کو سیلف ڈیفنس کا جواز پیش نہیں کرسکتے کیونکہ بائی ڈیفی نیشن یہ سیلف ڈیفنس نہیں بنتی۔۔
 

arifkarim

معطل
جناب یہ رہا 1946 اور 2010 کے درمیان اسرائیل نے جو کچھ کیا ہے۔ ان فلسطینوں کے ساتھ اسکی ایک تصویری جھلک۔
۔
فلسطینیوں کو ایک نہیں بیسیوں بار قدرت نے یہ موقع دیا کہ وہ اپنی ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کر لیں لیکن انکی صرف ایک زد نے ہمیشہ ناکام کیا، یعنی صیہونیوں کی اس خطے میں موجودگی۔ فلسطینی یہ چاہتے تھے کہ یہاں ایک بھی صیہونی نہ رہے حالانکہ اس سے قبل ہمیشہ سے یہاں یہودی موجود رہے ہیں۔ خیر جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
1937 میں انکو 1948 سے کہیں زیادہ زمین اپنے وطن کیلئے برطانیہ نے دی، لیکن فلسطینیوں نے انکار کر دیا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Peel_Commission

1948 میں اقوام متحدہ نے 46 فیصد زمین فلسطینیوں کو دی، لیکن انہوں نے اسکا بھی انکار کر دیا:
http://en.wikipedia.org/wiki/United_Nations_Partition_Plan_for_Palestine

1948 - 1967 میں ہمسایہ ملک اردن اور مصر نے فلسطینیوں کی الگ ریاست کے قیام کی کوشش کی لیکن یہ کوششیں بھی ناکام ہو گئی:
http://en.wikipedia.org/wiki/All-Palestine_Government

1967 - 1994 تک سارا فلسطین صیہونیوں کی مکمل گرفت میں رہا۔ 1994 کو PLO اور صیہونیوں کے درمیان امن معاہدہ عمل میں آیا اور یوں صیہونی ریاست نے مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی سے اپنی آبادیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہاں ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ اس معاہدہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کیمپ ڈیوڈ میں سنہ 2000 کو عرفات اور صیہونی لیڈران کے درمیان میٹنگ ہوئی جہاں صدر کلنٹن بھی موجود تھا۔ یہ آخری موقع تھا کہ صیہونی اپنی ایک آزاد اور خود مختار ریاست امریکہ کے توسط سے قائم کر لیتے کیونکہ اسوقت صیہونیوں پر بھی امریکیوں کی طرف سے بہت دباؤ تھا کہ عرفات کی شرائط وہ تسلیم کریں۔ یہاں تک انہوں نے 92 فیصد مغربی کنارہ اور 100 فیصد غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا کا وعدہ بھی کر لیا۔ لیکن ان سب کے باوجود فلسطینی اپنے ندیدہ پن سے باز نہیں آئے اور یہ آخری موقع بھی گنوا دیا:
http://en.wikipedia.org/wiki/2000_Camp_David_Summit
 
Top