فارسی شاعری کہ چوب و تار و صدائے تنن تنن ہمہ اُوست - غزل شاہ نیاز احمد مع ترجمہ

محمد وارث

لائبریرین
شاہ نیاز احمد بریلوی (رح) سلسلہٴ چشتیہ نظامیہ کے ایک نامور صوفی تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اردو اور فارسی کے بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ اور دہلی میں نامور اردو شاعر اور مسلم الثبوت استاذ، مصحفی کے استاذ تھے جیسا کہ مصحفی نے خود اپنی کتاب "ریاض الفصحاء" میں ذکر کیا ہے۔ انہی شاہ نیاز کی ایک خوبصورت فارسی غزل آپ دوستوں کی خدمت میں پیش کررہا ہوں جو کہ صوفیا کے مشہور و معروف نظامِ فکر "ہمہ اوست" کی نمائندگی کرتی ہے اور جس کی بازگشت عراقی اور رومی سے لیکر متاخرین تک کے تمام صوفی شعراء کے کلام میں دیکھی جا سکتی ہے۔

شاہ نیاز کی یہ غزل، پروفیسر خلیق احمد نظامی نے اپنی مشہور کتاب "تاریخِ مشائخِ چشت" میں درج کی ہے۔ شاہ صاحب کی شاعری اور مصحفی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔۔

"جب مصحفی لکھنؤ چلے گئے اور ان کے شاعرانہ کمالات کا شہرہ شاہ صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے کانوں تک پہنچا تو اپنی ایک غزل مصحفی کو لکھ کر بھیجی۔"

نظامی صاحب نے یہ غزل بغیر اردو ترجمے کے درج کی ہے سو ترجمہ لکھ رہا ہوں اور کسی کمی بیشی کیلیے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔

کسیکہ سرّ ِ نہاں است۔۔۔۔۔۔۔۔ہمہ اُوست
عروسِ خلوت و ہم شمعِ انجمن ہمہ اُوست

افسوس کہ یہ خوبصورت مطلع، مصرعِ اولیٰ کے ایک یا دو الفاظ نہ ہونے کی وجہ سے نامکمل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پروفیسر نظامی صاحب کو بھی یہ مصرع مکمل نہ ملا ہو یا پھر ناشر کی کارستانی بھی ہو سکتی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ شاہ نیاز کا دیوان شائع ہو چکا ہے لہذا دوستوں سے گذارش ہے کہ اگر کسی کے پاس شاہ نیاز کا دیوان ہو اور اس میں یہ غزل ہو تو مکمل مصرع عطا فرما کر مشکور ہوں۔ دوسرے مصرعے کا مطلب کچھ یوں ہے کہ تنہائی کی رونق اور سرخوشی بھی وہی ہے اور شمعِ انجمن بھی وہی ہے۔

ز مصحفِ رُخِ خوباں ہمیں موذِ رقم
کہ خط و خال و رُخ و زلفِ پُر شکن ہمہ اُوست

رُخِ خوباں کے مصحف پر یہی رقم ہے کہ خط و خال اور رخ اور زلفِ پُر شکن سبھی کچھ وہی ہے۔ موذ لفظ باوجود تلاش کے کسی لغت میں نہیں ملا، اسکا مطلب کسی دوست کے علم میں ہو تو مطلع فرما کر مشکور ہوں۔

نظر بہ عیب مکن در ظہورِ باغِ وجود
کہ طوطیانِ چمن و زاغ و ہم زغن ہمہ اُوست

اس وجود کے گلستان کے ظاہر پر عیب کی نظر مت ڈال کہ طوطیان چمن بھی وہی ہے اور زاغ و زغن بھی وہی ہے۔

از سرّ ِ عشق چو واقف شوی، یقیں دانی
کہ قیس و لیلیٰ و شیریں و کوہ کن ہمہ اُوست

جب تُو عشق کے اسرار سے واقف ہو جائے تو یقین کر لے کہ قیس بھی وہی ہے اورو لیلیٰ بھی، شیریں بھی وہی ہے اور فرہاد بھی۔

شنیدہ ام بہ صنم خانہ از زبانِ صنم
صنم پرست و صنم گر و صنم شکن ہمہ اُوست

میں نے صنم خانے میں صنم کی زبان سے سنا ہے کہ صنم پرست بھی وہی ہے اور صنم گر بھی وہی ہےا ور صنم شکن بھی وہی ہے۔

رساند مطربِ خوش گو ہمیں ندا در گوش
کہ چوب و تار و صدائے تنن تنن ہمہ اُوست

مطربِ خوش گو کی یہی آواز ہمارے کانوں تک پہنچی ہے کہ (ساز کی ) چوب بھی وہی ہے اور تار بھی اور صدائے تنن تنن بھی وہی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کسی دوست کے پاس شاہ نیاز بریلوی رح کا دیوان ہو تو براہِ کرم اس غزل کا مطلع مکمل عطا فرما دیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
میں پوری غزل پوسٹ کر رہا ہوں: (پاکستانی فارسی املاء میں)

کسے کہ سرِّ نہانست در عَلَن ہمہ اوست
عروسِ خلوت و ہم شمعِ انجمن ہمہ اوست
بمصحفِ رخِ خوباں ہمیں نمود رقم
کہ خط و خال و رخ و زلفِ پرشکن ہمہ اوست
زِ سرِّ عشق چو واقف شوی یقیں دانی
کہ قیس و لیلیٰ و شیرین و کوہکن ہمہ اوست
نظر بعیب مکن در طیورِ باغِ وجود
کہ طوطیانِ چمن زاغ و ہم زغن ہمہ اوست
ہمیں صداے بگوشم رساند بادِ صبا
کہ لالہ و گل و نسرین و نسترن ہمہ اوست
شنیدہ ام بہ صنم خانہ از زبانِ صنم
صنم پرست و صنم ہم صنم شکن ہمہ اوست
زِ سازِ مطربِ پرسوز ایں رسید بگوش
کہ چوب و تار و صدائے تنن تنن ہمہ اوست
شنیدِ من ہمہ صدقست و دیدِ من ہمہ حق
کہ گوشِ من ہمہ او ہست و چشمِ من ہمہ اوست
چناں زِ خویش بروں رفتم و دروں گشتم
کہ دید دیدۂ جانم بجان و تن ہمہ اوست
اگر تو دفترِ اسلام و کفر پارہ کنی
یقیں شود بہ تو کیں شیخ و برہمن ہمہ اوست
اگر زِ قیدِ تعیّن بروں شوی چو نیاز
نظر کنی کہ دریں زیرِ پیرہن ہمہ اوست
نیاز نیست کہ میگوید ایں کلام ایں دم
قسم بحق کہ دریں وقت در سخن ہمہ اوست
(حضرت شاہ نیاز بریلوی)
 
کسی دوست کے پاس شاہ نیاز بریلوی رح کا دیوان ہو تو براہِ کرم اس غزل کا مطلع مکمل عطا فرما دیں۔
میرے پاس انکے اردو اور فارسی کلام پر مشتمل دیوان موجود۔۔۔۔تھا۔ افسوس کہ اب وہ پاکستان میں ہے اور میں پاکستان سے باہر :)
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے پاس انکے اردو اور فارسی کلام پر مشتمل دیوان موجود۔۔۔ ۔تھا۔ افسوس کہ اب وہ پاکستان میں ہے اور میں پاکستان سے باہر :)

شکریہ غزنوی صاحب، اپنے حسان صاحب نے یہ دیوان اپ لوڈ کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن میں یقیناً کتابی شکل میں بھی حاصل کرنا چاہونگا۔ اگر کبھی ناشرین وغیرہ کا علم ہو سکے تو اس خاکسار کو یاد رکھیے وقت چاہے جتنا لگ جائے، اب اسی غزل کا مطلع اور مکمل غزل قریب ایک سال کے بعد حاصل ہوئے ہیں :)
 

محمد وارث

لائبریرین
Top