کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ جہاد کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کررہا ہے !! خورشید ندیم

قیصرانی

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس حوالے سے کوئ شک نہيں ہونا چاہيے کہ خطے ميں ہماری موجودگی علاقوں کو فتح کرنے، ممالک کو تسخير کرنے يا تبائ بربادی اور فساد کے ذريعے اپنے جھنڈے گاڑنے کے ليے نہيں ہے۔ ميں نے پہلے بھی يہ واضح کيا ہے کہ اگر ايسا ہوتا تو اقوام متحدہ سميت 40 سے زائد ممالک بشمول مقامی انتظاميہ اور حکومتيں ہمارا ساتھ نا دے رہی ہوتيں۔

دہشت گردی کے ٹھکانوں کا قلع قمع کرنا اور امريکي شہريوں کی حفاظت کو يقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان دہشت گردوں کی کاروائيوں سے مقامی آباديوں کو بچانا بھی ہمارے اہم ترين مقاصد ہيں۔ يہ دعوی ناقابل فہم اور لغو ہے کہ ہم مقامی آباديوں پر حملے کے درپے ہيں۔ بلکہ اس کے برعکس اگر آپ درجنوں کی تعداد ميں جاری ہمارے ترقياتی پروگرامز، مالی امداد کے پيکج اور تعمير وترقی سے متعلق منصوبوں کے ساتھ ساتھ تعليمی شعبوں ميں ہماری کاوشوں اور ان اقدامات کے نتيجے ميں تعليم حاصل کرنے اور ايک بہتری زندگی کے حصول کے ليے ميسر مواقعوں کا جائزہ ليں تو يہ غلط تاثر زائل ہو جائے گا کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے اور کم سن بچوں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانے کے ليے محض عسکری قوت پر انحصار کر رہے ہيں۔

امريکی اور نيٹو افواج کی جانب سے فوجی کاروائ اور آپريشنز معصوم شہريوں کے خلاف نہيں ہیں۔ يہ مخصوص اور محدود کاروائياں ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف ہيں جنھوں نے کسی بھی قسم کی سياسی مصلحت کا راستہ ازخود بند کر ديا ہے اور اپنے مخصوص سياسی نظام کے قيام کے لیے کھلی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان عناصر نے بارہا اپنے اعمال سے يہ ثابت کيا ہے کہ کمسن بچوں کو خودکش حملہ آور کے طور پر استعمال کرنا اور کسی بھی مذہبی اور سياسی تفريق سے قطع نظر زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کا قتل کرنا ان کی واحد جنگی حکمت عملی ہے۔

آپ کی رائے اور اس غلط تاثر کے برخلاف امريکی حکومت دہشت گردی اور متشدد سوچ کے برخلاف صرف بے دريخ قوت کے استعمال کو ہی واحد قابل عمل حل نہیں سمجھتی ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ايسے بےشمار تعميراتی منصوبے جاری ہيں جو خطے کے عام عوام کے بہتر مستقبل اور سيکورٹی کی صورت حال کے بہتر بنانے کے ليے انتہائ اہميت کے حامل ہیں۔

سڑکوں اور ديگر تعميراتی منصوبے امريکہ اور اس کے اتحاديوں کا اس خطے ميں امن اور استحکام قائم کرنے کی کاوشوں کا اہم ترين جزو ہے۔ يہ تعميراتی منصوبے پاکستان اور افغانستان ميں جاری دہشت گردی کے خلاف مہم کی کاميابی کے ليے کليدی حيثيت رکھتے ہيں کيونکہ نئ سڑکوں، پلوں، عمارات اور دیگر سہوليات سے معاشی صورت حال، نظام حکومت کی فعال بنانے اور عدم تحفظ کی فضا کو ختم کرنے ميں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ يو ايس ايڈ کے تحت بے شمار منصوبوں کے ذريعے تعليم کے جو مواقع ميسر آتے ہيں اس سے اس بات کے امکانات روشن ہو جاتے ہيں کہ وہ مايوس نوجوان جنھيں دہشت گرد تنظيميں استعمال کرتی ہيں وہ تعليم اور حصول روزگار کے ذريعے اپنے خاندانوں کی کفالت کر سکيں۔

ميں نے اکثر اردو فورمز پر يو ايس ايڈ کے تعاون سے جاری پاکستان ميں مختلف منصوبوں کی تفصيلات پيش کی ہيں۔

يہاں ميں افغانستان ميں امريکی حکومت کے تعاون سے جاری چند منصوبوں اور عام عوام پر ان کے اثرات کے حوالے سے کچھ معلومات دے رہا ہوں۔ يہ اعداد وشمار اس بات کا واضح ثبوت ہيں کہ پاکستانی ميڈيا کے کچھ عناصر کی جانب سے ديے جانے والے غلط تاثر کے برعکس، امريکہ خطے ميں تمام مسائل کا واحد حل طاقت کے استعمال کو نہيں سمجھتا۔

جنوب مغرب میں:

چند ماہ قبل ہلمند صوبے میں واقع لشکر گاہ کی کاٹن فیکٹری کو دوبارہ کھولا گیا ہے جس کی وجہ سے کام کرنے والے افغانیوں کے لیئے مذید ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں اور مقامی اقتصادیات میں نئ روح پھونکی جا رہی ہے۔ مرجاہ کے دیہاتی علاقوں، ناد علی، نوا، اور گرنشک کی تحصیلوں کو اب اس جگہ جو کہ اس سال 4000 میٹرک ٹن روئی کو پراسس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تک رسائی حاصل ہے۔ اس فیکٹری کے دوبارہ کھلنے سے 175 ملازمتوں کی بحالی ہوئی ہے اور امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں 225 مذید ملازمیتیں پیدا ہوں گی۔

ہلمند میں صوبائی گورنر گلاب مینگل نے چوتھی افغان کاروباری کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس کے دوران 200 سے ذائد افغان کاروباری مردوں اور عورتوں نے افغان حکومت اور ایساف کی تعمیر نو اور ترقی کی منصوبہ بندیوں کے لیئے مقابلہ کیا۔

لشکر گاہ کے ٹیچر تربیتی کالج میں جو کہ پورے افغانستان میں 42 میں سے ایک ہے اب اساتذہ تربیتی سرٹیفیکٹ پروگرام پیش کرتا ہے جس کے ذریعے یہ افغانیوں کی پیشہ ورانہ اساتذہ کے طور پر تصدیق کرتا ہے۔ یہ وزارت تعلیم کی قوم کے تعلیمی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کی ایک نئی کوشش ہے اور آخر کار تمام اساتذہ تربیتی کالجوں میں اس کا نفاذ ہو گا۔

جنوب میں

قندھار میں، صوبے کے گورنر طوریالی ویسی نے شہر میں قانون کے نفاذ کی عمارتوں اور مذید عملے کی بھرتی کے لیے نئے پروگرام کے لیے ترتیب دینے کی منظوری دی ہے۔ اس پروگرام میں پولیس کے سب 10سٹیشن اور پولیس کی تین افغان قومی کور کی عمارتیں تفتیش کاروں کے لیئے استعمال ہوں گیں۔

صوبہ اروزگان تعلیم کے شعبے میں بشمول 250 نئے سکولوں کے کھلنے اور 1001 سے ذاید اساتذہ اور 425 زیر تربیت اساتذا کی شاندار بڑھت دیکھی جا رہی ہے ۔ 2006 میں اس صوبے میں صرف 36 سکول کام کر رہے تھے۔

شمال میں

صوبہ سمنگم کی تحصیل ایبک میں رہائیشیوں اور افغانستان کی وزارت برائے دیہی تعمیر نو اور ترقی نے مل کر دو درجن سے ذائد ترقیاتی پراجیکٹس حکومت کے قومی اتحاد پروگرام کے زیر نگرانی مکمل کیئے۔ ان منصوبوں میں 125 میل لمبی کچی سڑکوں کی سطح پر پتھر ڈالنے، 14 چھوٹے پلوں کی تعمیر، نکاسی کی 9001 میٹر لمبی نکاسی کی نالیوں کو اینٹوں کے ذریعے پکا کرنا، دو پانی کے ٹینکوں کی تعمیر، چار کنوں کے لیئے کھدائی اور عورتوں کے لیے کڑھائی کی تربیت کے کورس شامل ہیں۔ 3000 سے زاید خاندان ان مختلف منصوبوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔

مزارے شریف اور قندوز شھر میں، نفیس ریشم کے قالین اور کپڑوں کے لیئے ریشمی کیڑوں کے پالنے کا پراجیکٹ نہایت کامیابی سے چل رہا ہے۔ مزارے شریف میں صرف خواتین کے بازار میں 20 دوکانوں کی حال ہی میں مرمت کی گئی ہے۔ دونوں منصوبے عورتوں کے لیئے مستحکم ملازمتوں کے مواقعے مہیا کر رہے ہیں۔

مزارے شریف میں افغان حکومت، افغان متحدہ سیکیوریٹی فورسز، ایساف اورعلاقے کے رہائیشیوں نے علی آباد سکول ڈیویلوپمنٹ پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے۔ اس پراجیکٹ میں دو نئی عمارتوں کی تعمیر جس میں سے ہرعمارت 30 کمروں پر مشتمل ہو گی، 3000 طلباء کے لیئے مذید جگہ فراہم کرے گی۔ یہ سکول تعلیم یافتہ کارکنوں کی ایسی کھیپ مہیا کرے گا جو علاقے کی اقتصادی ترقی میں حصہ لیں گے۔

مشرق میں

22 اکتوبر کو صوبہ وردک کی بہسود تحصیل میں جہاں اب 80000 لوگوں کی خدمت کے لیئے حاضر ہیں اور جہاں تحصیل کی 90 فیصد آبادی کے لیئے چار صحت کے مراکز عوام کے لیئے کھولے گئے ہیں ۔

صوبہ کنر کی تحصیل شیگال میں 116 افغان مردوں نے کنر تعمیراتی مرکز (کے سی سی) سے تعلیم حاصل کی۔ کے سی سی مستری، پینٹ، پلمبنگ، بڑھئی اور بجلی کے کاموں کی تربیت کنر، نورستان، لغمان اور ننگرہار کے نوجوان مردوں کو فراہم کرتے ہیں۔ ماضی میں تعمیراتی کاموں کی بہت بنیادی ملازمیتیں بھی غیر ملکی مزدوروں کے ذریعے کی جاتیں تھیں۔ ایک حالیہ سروے نے یہ ظاہر کیا ہے کہ کے سی سی کے 80 فیصد تعلیم یافتہ اب افغانستان کے مشرقی علاقے میں ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں۔
مغرب میں

ہرات کی یورنیورسٹی اس وقت زعفران کی بہتر کاشت اور اس کو پوست کے بہتر متبادل کے طور پر اگانے کے طریقوں پرتحقیق کر رہی ہے۔ اٹالین صوبائی تعمیر نو کی ٹیم نے 400 کلوگرام کی تازہ زعفران کی جڑوں کا عطیہ یورنیورسٹی کی تحقیق کے لیئے فراہم کیا ہے۔

دارالخلافہ کے علاقے میں

کابل میں بادام باغ فارم پر ہزاروں لوگوں نے دو دنوں پر مشتمل بین الاقوامی زرعی میلے میں حصہ لیا جس کا انعقاد 6 اکتوبر کو ہوا۔ اس میلے میں 136 افغان اور 40 بین الاقوامی دوکانداروں نے شرکت کی جو اپنی زرعی خدمات اور مہنگی بکنے والی فصلوں اور اجناس مثلا" انگور، انار، خشک فروٹ، مغزوں اور خالص پشمینہ اون کی نمائیش کر رہے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
شکر ہے کہ فانٹ تو سدھرا
 

سویدا

محفلین
اب جواب کچھ اس قسم کا ہوگا:
کثیر المنافع حصول کے لیے چھوٹے نقصانات برداشت کرنا پڑتے ہیں
اگر ان دہشت گردوں کو چھوڑدیا جاتا تو وہ معصوم انسانوں کو امریکہ سے زیادہ نقصان پہنچاتے اس اہم منطق کی وجہ سے سویلین یا بچوں کا مارے جانا کوئی معنی نہیں رکھتا
 

Fawad -

محفلین
فواد
امریکہ کی افغانستان میں پھیلائی ہوئی تباہی کے مقابلے میں اس کے گنتی کے اقدامات کی تعریف کرنا بے وقوفی ہوگی
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ امریکہ کی آمد سے قبل افغان کرنسی کا ڈالر سے تبادلے کا ریٹ کیا تھا؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ افغانستان میں کتنے سویلین مارے گئے ؟ کتنے بچے یتیم ہوئے ؟ کتنے گھر تباہ ہوئے؟ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ہر بات کا تجزيہ اس کے درست تناظر ميں کيا جانا چاہيے۔ جب افغانستان ميں زندگی کے زياں پر اظہار خيال کيا جاتا ہے تو يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ اس جنگ کا آغاز ہم نے نہيں کيا تھا۔ يہ جنگ القائدہ اور اس وقت کی افغان حکومت کی جانب سے ہم پر مسلط کی گئ تھی۔ افغانستان ميں ہماری فوجی کاروائ اور خطے ميں ہماری موجودگی کا محرک انتقام کا جذبہ يا کسی کو سبق سکھانا ہرگز نہيں تھا۔ اگر ايسا ہوتا تو ہمیں تمام عالمی برادری اور خطے ميں پاکستان سميت اپنے تمام اتحاديوں سے مسلسل حمايت حاصل نہ ہوتی۔

ہزاروں کی تعداد ميں اپنے فوجی ايک دور دراز ملک ميں بھيجنے اور اس کی معاشی قیمت ادا کرنے ليے ہمارا بنيادی مقصد اور اصل محرک شروع دن سے يہی رہا ہے کہ انسانی جانوں کی حفاظت کو يقينی بنايا جا سکے۔ صرف امريکی زندگياں ہی نہيں بلکہ افغانی اور پاکستانی جانيں بھی جو ہمارے مشترکہ دشمنوں کے ہاتھوں روزانہ کی بنياد پر نقصان اٹھا رہے ہیں۔

جنگ کے منفی اثرات سے کوئ بھی پہلو تہی نہيں کر سکتا۔ ايسی صورت حال کی روک تھام کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہيے۔ ليکن دہشت گردی تو دور جس کے نتيجے ميں بے شمار بے گناہوں کی موت واقع ہوتی ہے، کسی بھی جرم کو بغیر سزا کے درگزر نہيں کيا جا سکتا۔ ايسا کرنا کسی بھی ايسے انسانی معاشرے يا ملک کے بنيادی انسانی اسلوب کی نفی ہے جو اپنے شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ کرنے کا خواہاں ہے۔

ہم درپيش چيلنجز اور متوقع قربانيوں سے پوری طرح واقف ہيں۔ ليکن دہشت گردی کی قوتوں کے سامنے ہتھيار ڈالنے کا آپشن ہمارے پاس نہيں ہے۔ اس کے علاوہ ايسا کرنا دنيا بھر ميں ان لواحقين کے لیے انصاف کی دھجياں کرنے کے مترادف ہو گا جن کے چاہنے والے دہشت گردی کے اس عالمی عفريت کا شکار ہوئے ہيں۔

ستمبر 11 2001 کو امريکی سرزمين پر ہونے والے حملے ہماری افغانستان ميں موجودگی کا سبب بنے۔ عالمی سطح پر يہ طے پا چکا تھا کہ اسامہ بن لادن ہی 911 کے حملوں کے ذمہ دار تھے اور انھيں افغانستان ميں طالبان کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اسامہ بن لادن کو امريکہ کے حوالے کرنے کے لیے کئ ناکام مذاکرات کے بعد امريکہ نے بالآخر افغانستان ميں باقاعدہ حملے کا فيصلہ کيا۔

اس میں کوئ شک نہيں ہے کہ افغانستان ميں ہماری موجودگی کے سبب بے گناہ انسانوں کی جانيں بھی ضائع ہوئ ہیں لیکن ہمارے اسی عمل کے سبب اس سے کہيں زيادہ جانيں محفوظ بھی ہوئ ہیں۔ يہ سوچنا کہ امريکہ پر حملے کے بعد ہم اگر ردعمل نہ دکھاتے تو القائدہ اور ان سے منسلک گروہ اپنے آپ ہی منظر سے ہٹ جاتے، زمينی حقائق سے انکار کے مترادف ہے۔

صدر اوبامہ نے افغانستان ميں اپنے اہداف اور مقاصد ان الفاظ ميں واضح کيے ہیں

"ہم افغانستان کو تمام مسائل سے پاک کامل معاشرہ بنانے کی کوشش نہيں کريں گے۔ ہم جس ہدف کو حاصل کرنا چاہتے ہيں وہ قابل عمل ہے اور اسے آسان الفاظ میں يوں بيان کيا جا سکتا ہے : القائدہ اور ان سے منسلک ساتھيوں کے ليے کوئ ايسا محفوظ ٹھکانہ نہيں ہونا چاہیے جہاں سے وہ ہماری سرزمين اور اتحاديوں کے خلاف حملے کر سکیں۔"

جہاں تک آپ نے افغانستان کی معاشی صورت حال کے حوالے سے سوال کيا ہے تو اس ضمن ميں آئ ايم ايف کا حاليہ تجزيہ پيش ہے جس کے مطابق افغانستان کے عوام کے ليے مستتقبل قريب ميں بہت سے مثبت پہلو ہيں۔

http://dawn.com/2013/02/06/afghan-economy-better-than-expected-says-imf/

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

کاشفی

محفلین
صدر اوبامہ نے افغانستان ميں اپنے اہداف اور مقاصد ان الفاظ ميں واضح کيے ہیں
"ہم افغانستان کو تمام مسائل سے پاک کامل معاشرہ بنانے کی کوشش نہيں کريں گے۔ "
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

بہترین مقصد اور قابلِ تعریف بھی۔ اسی لیئے تو کہتے ہیں کہ۔۔
Long Live America BUT Latin America
ناآٹ USA
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اگر آپ کے غلط دعوے کے مطابق حکومت پاکستان امريکہ کی منظور نظر اور محض ايک کٹھ پتلی کی حيثيت رکھتی ہے تو اس امر کی کيا توجيہہ پيش کی جا سکتی ہے کہ کئ ماہ تک تمام تر کاوشوں کے باوجود امريکہ پاکستان کو نيٹو سپلائ کی بحالی کے ليے قائل نہ کر سکا جس کے منفی اثرات نا صرف يہ کہ افغانستان ميں ہماری کاوشوں پر پڑے بلکہ دونوں ممالک کے مابين اسٹريجک تعلقات بھی شديد تناؤ کا شکار رہے۔

يقينی طور پر حکومت پاکستان قومی سلامتی کے انتہائ اہم فيصلے اور اپنی پاليسياں پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کرتی ہے۔ کسی بھی منتخب جمہوری حکومت کے ليے اہم ترين ذمہ داری اور مقصد اس امر کو يقینی بنانا ہوتا ہے کہ اس کے شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کے استحکام کے ليے اپنی رٹ قائم کرے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی حکومت دہشت گردی کے معاملے ميں ہمارے ساتھ اشتراک عمل اور اتحاد کرنے والی واحد حکومت نہيں ہے۔ يقینی طور پر آپ يہ دعوی نہيں کرسکتے ہيں کہ دنيا کے تمام سرکردہ مسلم ممالک کی حکومتيں اپنے شہريوں کے مفادات کو پس پشت ڈال کر اور سول سوسائٹی ميں مقبول عام رائے کے برخلاف ہمارا ساتھ دے رہی ہيں۔

کسی بھی ملک کی فوج اور حکومتی اداروں کی جانب سے سرکاری فوجی حکمت عملی ميڈيا کے چند پنڈتوں کی جانب سے مخصوص سياسی ايجنڈوں يا واقعات کے حوالے سے ان کی تشريح اور اس کی بنياد پر زمینی حقائق کے ناقص ادراک پر نہیں تشکيل دی جاتی۔ يہ ايک انتہائ غير ذمہ دار اور ناقابل عمل سوچ ہے کہ فوجی حکمت عملی اور مسلح آپريشنز جيسے اہم معاملات جن پر قومی سلامتی، علاقے کے مجموعی استحکام اور عام شہريوں کی حفاظت جيسے اہم امور کا دارومدار ہوتا ہے انھيں مقبوليت کے گراف اور غير مستقل عوامی تاثر کو بنياد بنا کر عملی جامہ پہنايا جائے۔ آخری تجزيے ميں حکومت کی آشيرباد کے ساتھ کسی بھی فوجی کاروائ کا بنيادی مقصد عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنانا اور رياست کی حدود کے اندر حکومتی رٹ قائم کرنا ہوتا ہے۔

کوئ بھی رياست اس بات کی اجازت نہيں دے سکتی کہ مسلح گروہ اور دہشت گرد مقامی آبادی کو دہشت زدہ کر کے اپنے قوانين نافذ کريں اور مذہب سميت کسی بھی بينر کا سہارہ لے کر اپنا نظام حکومت قائم کرنے کی کوشش کريں۔ ايسی خوفناک صورت حال کا عملی مظاہرہ ہم سوات میں ديکھ چکے ہيں جہاں مسلح افراد نے پوری وادی کا کنٹرول سنبھال ليا تھا۔ آپ کو ياد ہو گا کہ اس وقت بھی ميڈيا پر کچھ تجزيہ نگاروں، سياسی ماہرين اور عوامی رائے عامہ کے سروے کے مطابق اس سوچ کا اظہار کيا گيا تھا کہ ان کے مطالبات مان لينے ميں ہی تنازعے کا پرامن حل ممکن ہے۔ ليکن عوامی رائے ميں ڈرامائ تبديلی بھی رونما ہوئ اور انھی ماہرین کو تھوڑے ہی عرصے ميں اپنی رائے پر اس وقت نظرثانی کرنا پڑی جب ان مسلح گروہوں نے ڈسٹرک بنير پر بھی قبضہ کر ليا اور عوامی سطح پر کھلم کھلا اعلان کر ديا کہ وہ اسلام آباد کی طرف بھی بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہيں تا کہ ايک منتخب جمہوری حکومت کو ہٹا کر پورے پاکستان اور اس کی سرحدوں سے آگے بھی اپنا مخصوص نظام نافذ کيا جا سکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

میں آپ کی بات سے کافی حد تک متفق ہوںمگر کلّی متفق نہیں۔ کچھ ہماری اپنی قومی نفسیات اور کچھ آپ حضرات کی غلطیوں کے سبب پاکستانی عوام میں آپ کے متعلق کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، جنھیں دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا پروگرامر ہونے کے ناطے جس کا دن رات امریکی پرگرامرز اور کچھ اور شہریوں سے رابطہ رہتا ہے، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ باالعموم امریکی ایک انسان دوست، با اخلاق اور اپنے کام سے کام رکھنے والی قوم ہے۔ مگر پاکستانی قوم کے دل و دماغ میں آپ کی ماضی کی کچھ بڑی غلطیوں کے سبب غم و غصے کا ایک طوفان موجود ہے۔ اس وجہ سے اب ہر واقعے کو بد اعتمادی کی ایک مخصوص عینک سے ہی دیکھا جاتا ہے۔

مزید براں آپ کی حکومت اپنی داخلہ مجبوریوں اور بعض اوقات سیاسی مصلحتوں کے سبب بسا اوقات ایسے فیصلے کر گزرتی ہے جس سے پاکستانی قوم کو ذہنی اذیت سے گذرنا پڑتا ہے۔ پھر کئی مواقع پر ہماری قومی انا کو بھی ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔ مزید ہر دوسرے روز آپ کے ملک میں کسی نہ کسی پاکستانی کی تذلیل کا واقعہ ہو جاتا ہے۔ جس کی روک تھام کی ضرورت ہے۔ مجھے ماضی میں امریکہ کی ایک سافٹ وئیر کمپنی کی طرف سے ملازمت کی پیشکش ہوئی تھی۔ مگر صرف اس خوف سے کہ کہیں امریکی سفارت خانے اور امگریشن میں میری بے عزتی نہ ہو، میں نے اس ملازمت کی بات چیت میں دلچسپی نہیں لی۔

آپ لوگ مزید غلطیاں نہ کرنے کا عزم کریں۔ سازشی تھیوریاں خود بخود دم توڑ جائیں گی۔ خاص طور پر آپ کو چاہیے کہ ہماری عوام اور فوجیوں کی زندگی کو بھی اپنی عوام اور فوجیوں کی زندگی جتنا مقدس سمجھیں۔

رہا تعلق زیرِ بحث کالم نگار کے آرٹیکل کا، تو اتنا ہی کہوں گا کہ جب نفرت کا سودا آسانی سے بِک رہا ہو گا تو خالیِ الدماغ لکھاری اسے بیچنے کی کوشش تو کریں گےہی۔ سازشی تھیو ری ویسے بھی یہاں بہت آسانی سے بک جاتی ہے۔ آپ کی حکومت کو چاہیے کہ وہ غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں اور مزید غلطیوں سے گریز کریں۔

مجھ ایسے انسانیت کے پجاری اپنے طور پر صرف انسانیت کی خدمت کی خاطر محبتوں کے دیے جلانے کی کوشش کرتے رہیں گے (اگرچہ اس میں ہمیں خود بھی اپنوں کی نفرت کا سا منا کرنا پڑے گا)۔
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد
آپ کے خط کے جواب میں عرض ہے کہ 9-11 کے واقعے میں کوئی افغان ملوث نہ تھا ۔ اسامہ بھی افغان شہریت نہیں رکھتے تھے۔ بالفرض اسامہ 9-11 کے ذمہ دار تھے تو امریکی حکومت ایبٹ آباد طرز کا آپریشن افغانستان میں کرکے قصہ ختم کرتا۔ افغانوں کو کس بات کی سزا دی گئی ؟؟پورا ملک تباہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟؟
مزید یہ کہ 9-11سے امریکی ایوی ایشن ، سی آئی اے اور دیگر خفیہ اداروں کی کارکردگی اور اہلیت پر بہت سے سوال اُٹھے
مگر کسی ادارے کے سربراہ کو اُس کی نااہلی پر برطرف نہیں کیا گیا ؟؟ کیوں؟؟
میں پھر اپنے سوالات دہراتی ہوں
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ امریکہ کی آمد سے قبل افغان کرنسی کا ڈالر سے تبادلے کا ریٹ کیا تھا؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ افغانستان میں کتنے سویلین مارے گئے ؟ کتنے بچے یتیم ہوئے ؟ کتنے گھر تباہ ہوئے؟ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
اب جواب کچھ اس قسم کا ہوگا:
کثیر المنافع حصول کے لیے چھوٹے نقصانات برداشت کرنا پڑتے ہیں
اگر ان دہشت گردوں کو چھوڑدیا جاتا تو وہ معصوم انسانوں کو امریکہ سے زیادہ نقصان پہنچاتے اس اہم منطق کی وجہ سے سویلین یا بچوں کا مارے جانا کوئی معنی نہیں رکھتا
میں نے کچھ ہفتے قبل یہ خبر پڑھی تھی کہ امریکی انتظامیہ نہ صرف دہشت گرد بلکہ ان کے بچوں کو بھی ہلاک کرنے کے لئے قانون سازی اور پالیسی بنا چکی ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
فواد
آپ کے خط کے جواب میں عرض ہے کہ 9-11 کے واقعے میں کوئی افغان ملوث نہ تھا ۔ اسامہ بھی افغان شہریت نہیں رکھتے تھے۔ بالفرض اسامہ 9-11 کے ذمہ دار تھے تو امریکی حکومت ایبٹ آباد طرز کا آپریشن افغانستان میں کرکے قصہ ختم کرتا۔ افغانوں کو کس بات کی سزا دی گئی ؟؟پورا ملک تباہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟؟
مزید یہ کہ 9-11سے امریکی ایوی ایشن ، سی آئی اے اور دیگر خفیہ اداروں کی کارکردگی اور اہلیت پر بہت سے سوال اُٹھے
مگر کسی ادارے کے سربراہ کو اُس کی نااہلی پر برطرف نہیں کیا گیا ؟؟ کیوں؟؟
میں پھر اپنے سوالات دہراتی ہوں
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ امریکہ کی آمد سے قبل افغان کرنسی کا ڈالر سے تبادلے کا ریٹ کیا تھا؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ افغانستان میں کتنے سویلین مارے گئے ؟ کتنے بچے یتیم ہوئے ؟ کتنے گھر تباہ ہوئے؟ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے؟
معذرت کے ساتھ، مگر آپ بھینس کے سامنے بین بجانے کی کوشش کر رہی ہیں :)
 

Fawad -

محفلین
فواد
آپ کے خط کے جواب میں عرض ہے کہ 9-11 کے واقعے میں کوئی افغان ملوث نہ تھا ۔ اسامہ بھی افغان شہریت نہیں رکھتے تھے۔ بالفرض اسامہ 9-11 کے ذمہ دار تھے تو امریکی حکومت ایبٹ آباد طرز کا آپریشن افغانستان میں کرکے قصہ ختم کرتا۔ افغانوں کو کس بات کی سزا دی گئی ؟؟پورا ملک تباہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

عالمی دہشت گردی کے ضمن ميں کی جانے والی کاروائ اور تفتيشی عمل کا مجرم کی شہريت اور مذہب سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

يہ درست ہے کہ 911 کے واقعات ميں ملوث افراد افغان شہری نہيں تھے۔ ليکن يہ بھی ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ جن افراد نے دہشت گردی کے اس واقعے ميں حصہ ليا تھا ان کی تربيت افغانستان ميں موجود القائدہ کے ٹرينيگ کيمپس ميں کی گئ تھی۔ افغانستان کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ اسی وقت کيا گيا تھا جب اس وقت کی طالبان حکومت نے ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کرنے سے انکار کر ديا تھا۔

يہ رائے اور سوچ ناپختہ اور حقائق کی درست ترجمانی نہيں کرتی کہ افغانستان ميں فوجی کاروائ کا واحد مقصد صرف ايک شخص تک رسائ حاصل کرنا تھا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ القائدہ کے روحانی رہنما اور سرکردہ ليڈر کی حيثيت سے اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور اسے کيفرکردار تک پہنچانا، تنظيم کی حتمی شکست اور دنيا بھر ميں اس گروہ کی جاری خونی مہم کو روکنے کے ضمن ميں ايک اہم ترين سنگ ميل تھا۔ ليکن تمام عالمی برادری اور خطے ميں موجود فريقين کا يہ مشترکہ ہدف اور لائحہ عمل رہا ہے کہ نا صرف يہ کہ دہشت گردی کے محفوظ ٹھکانوں کا مستقل خاتمہ يقينی بنايا جائے بلکہ ان عوامل اور اس ماحول کو پنپنے سے بھی روکا جائے جن کی بنياد پر افغانستان ميں دہشت گردی کا بيج بويا گيا۔

اس تناظر ميں افغانستان ميں ہماری فتح کو جانچنے کے ليے ايبٹ آباد آپريشن يا اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہی درست پيمانہ نہيں ہے۔ اس ضمن ميں آپ آج القائدہ کے تنظيمی ڈھانچے پر غور کريں اور اس کا تقابل اس10 برس قبل والی صورت حال سے کريں جب اس گروہ کی جانب سے نا صرف يہ کہ ہماری سرحدوں کے اندر براہراست حملے کيے گئے بلکہ دنيا بھر ميں ايسی مزيد کاروائيوں کے دعوے بھی ريکارڈ پر موجود ہیں۔ گزشتہ ايک دہائ کے دوران القائدہ کی دو تہائ سے زائد ليڈرشپ ہلاک يا گرفتار ہو چکی ہے۔ يہاں تک کہ اس تنظيم کا بڑے سے بڑا حمايتی بھی اس حقيقت کو ماننے پر مجبور ہو گا کہ وہ تنظيم جو ايک وقت عالمی سطح پر تيزی سے پھيلتی ہوئ منظم جماعت کا تاثر ديتی تھی، آج ٹکڑوں اور مختلف چھوٹے چھوٹے گروہوں ميں بٹا جرائم پيشہ افراد کا ايک ايسا نا پختہ ڈھانچہ ہے جو جا بجا مجرمانہ اور دہشت گرد کاروائيوں کے ذريعے اپنی بقا کی لڑائ لڑنے پر مجبور ہے اور عوامی سطح پر اپنے تسلط کو بڑھاوا دينے اور اپنے اثر اور سوچ کو وسعت دينے کے ليے تنظيم کے پاس نا تو کوئ مربوط نظام باقی رہ گيا ہے اور نا ہی وہ اپنے لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنانے کی پوزيشن ميں ہے۔

ويسے يہ کوئ اتنی ناقابل يقين بات نہيں ہے کہ اسامہ بن لادن تک رسائ ميں دس برس کا عرصہ لگ گيا کيونکہ اس نے ايک ايسا مربوط سسٹم تشکيل دے رکھا تھا جس ميں وہ موبائل فون اور انٹرنيٹ کا استعمال يکسر ترک کر چکا تھا۔ تاريخ ميں ايسی کئ مثاليں موجود ہيں جب دنيا بھر ميں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئ برسوں کی تگ ودو کے بعد مطلوبہ شخص تک رسائ حاصل کی تھی۔ اس ضمن ميں آپ کو امريکہ سے "يونا بمبر" کی مثال دی جا سکتی ہے جس کو پکڑنے کے ليے ايف بی آئ کی جانب سے مہنگی ترين تفتيش اور تحقيق کی گئ جو قريب دو دہائيوں تک جاری رہی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد
آپ اپنی نئی کہانی کا جواب اپنے لوگوں کی زبانی ہی پڑھ لیں
http://archive.truthout.org/100108S

Bush Had No Plan to Catch Bin Laden After 9/11​
Monday 29 September 2008​
President Bush before his address to the UN General Assembly in New York. (Photo: AFP / Getty Images)​
Washington - New evidence from former U.S. officials reveals that the George W. Bush administration failed to adopt any plan to block the retreat of Osama bin Laden and other al Qaeda leaders from Afghanistan to Pakistan in the first weeks after 9/11.​
That failure was directly related to the fact that top administration officials gave priority to planning for war with Iraq over military action against al Qaeda in Afghanistan.​
As a result, the United States had far too few troops and strategic airlift capacity in the theatre to cover the large number of possible exit routes through the border area when bin Laden escaped in late 2001.​
Because it had not been directed to plan for that contingency, the U.S. military had to turn down an offer by Pakistani President Pervez Musharraf in late November 2001 to send 60,000 troops to the border passes to intercept them, according to accounts provided by former U.S. officials involved in the issue.​
On Nov. 12, 2001, as Northern Alliance troops were marching on Kabul with little resistance, the CIA had intelligence that bin Laden was headed for a cave complex in the Tora Bora Mountains close to the Pakistani border.​
The war had ended much more quickly than expected only days earlier. CENTCOM commander Tommy Franks, who was responsible for the war in Afghanistan, had no forces in position to block bin Laden's exit.​
Franks asked Lt. Gen. Paul T. Mikolashek, commander of Army Central Command (ARCENT), whether his command could provide a blocking force between al Qaeda and the Pakistani border, according to David W. Lamm, who was then commander of ARCENT Kuwait.​
Lamm, a retired Army colonel, recalled in an interview that there was no way to fulfill the CENTCOM commander's request, because ARCENT had neither the troops nor the strategic lift in Kuwait required to put such a force in place. 'You looked at that request, and you just shook your head,' recalled Lamm, now chief of staff of the Near East South Asia Centre for Strategic Studies at the National Defence University.​
Franks apparently already realised that he would need Pakistani help in blocking the al Qaeda exit from Tora Bora. Secretary of Defence Donald Rumsfeld told a National Security Council meeting that Franks 'wants the [Pakistanis] to close the transit points between Afghanistan and Pakistan to seal what's going in and out', according to the National Security Council meeting transcript in Bob Woodward's book 'Bush at War'.​
Bush responded that they would need to 'press Musharraf to do that'.​
A few days later, Franks made an unannounced trip to Islamabad to ask Musharraf to deploy troops along the Pakistan-Afghan border near Tora Bora.​
A deputy to Franks, Lt. Gen. Mike DeLong, later claimed that Musharraf had refused Franks's request for regular Pakistani troops to be repositioned from the north to the border near the Tora Bora area. DeLong wrote in his 2004 book 'Inside Centcom' that Musharraf had said he 'couldn't do that', because it would spark a 'civil war' with a hostile tribal population.​
But U.S. Ambassador Wendy Chamberlin, who accompanied Franks to the meeting with Musharraf, provided an account of the meeting to this writer that contradicts DeLong's claim.​
Chamberlin, now president of the Middle East Institute in Washington, recalled that the Pakistani president told Franks that CENTCOM had vastly underestimated what was required to block bin Laden exit from Afghanistan. Musharraf said, 'Look you are missing the point: there are 150 valleys through which al Qaeda are going to stream into Pakistan,' according to Chamberlin.​
Although Musharraf admitted that the Pakistani government had never exercised control over the border area, the former diplomat recalled, he said this was 'a good time to begin'. The Pakistani president offered to redeploy 60,000 troops to the area from the border with India but said his army would need airlift assistance from the United States to carry out the redeployment.​
But the Pakistani redeployment never happened, according to Lamm, because it wasn't logistically feasible. Lamm recalled that it would have required an entire aviation brigade, including hundreds of helicopters, and hundreds of support troops to deliver that many combat troops to the border region - far more than was available.​
Lamm said the ARCENT had so few strategic lift resources that it had to use commercial aircraft at one point to move U.S. supplies in and out of Afghanistan.​
Even if the helicopters had been available, however, they could not have operated with high effectiveness in the mountainous Afghanistan-Pakistan border region near the Tora Bora caves, according to Lamm, because of the combination of high altitude and extreme weather.​
Franks did manage to insert 1,200 Marines to Kandahar on Nov. 26 to establish control of the airbase there. They were carried to the base by helicopters from an aircraft carrier that had steamed into the Gulf from the Pacific, according to Lamm.​
The marines patrolled roads in the Kandahar area hoping to intercept al Qaeda officials heading toward Pakistan. But DeLong, now retired from the Army, said in an interview that the Marines would not have been able to undertake the blocking mission at the border. 'It wouldn't have worked - even if we could have gotten them up there,' he said. 'There weren't enough to police 1,500 kilometres of border.'​
U.S. troops probably would also have faced armed resistance from the local tribal population in the border region, according to DeLong. The tribesmen in local villages near the border 'liked bin Laden,' he said 'because he had given them millions of dollars.'​
Had the Bush administration's priority been to capture or kill the al Qaeda leadership, it would have deployed the necessary ground troops and airlift resources in the theatre over a period of months before the offensive in Afghanistan began.​
'You could have moved American troops along the Pakistani border before you went into Afghanistan,' said Lamm. But that would have meant waiting until spring 2002 to take the offensive against the Taliban, according to Lamm.​
The views of Bush's key advisers, however, ruled out any such plan from the start. During the summer of 2001, Rumsfeld had refused to develop contingency plans for military action against al Qaeda in Afghanistan despite a National Security Presidential Directive adopted at the Deputies' Committee level in July and by the Principles on Sep. 4 that called for such planning, according to the 9/11 Commission report.​
Rumsfeld and Deputy Defence Secretary Paul Wolfowitz resisted such planning for Afghanistan because they were hoping that the White House would move quickly on military intervention in Iraq. According to the 9/11 Commission, at four deputies' meetings on Iraq between May 31 and Jul. 26, 2001, Wolfowitz pushed his idea to have U.S. troops seize all the oil fields in southern Iraq.​
Even after Sep. 11, Rumsfeld, Wolfowitz and Vice President Dick Cheney continued to resist any military engagement in Afghanistan, because they were hoping for war against Iraq instead.​
Bush's top secret order of Sep. 17 for war with Afghanistan also directed the Pentagon to begin planning for an invasion of Iraq, according to journalist James Bamford's book 'Pretext for War'.​
Cheney and Rumsfeld pushed for a quick victory in Afghanistan in NSC meetings in October, as recounted by both Woodward and Undersecretary of Defence Douglas Feith. Lost in the eagerness to wrap up the Taliban and get on with the Iraq War was any possibility of preventing bin Laden's escape to Pakistan.​
--------​
 

سویدا

محفلین
فواد
میں پھر اپنے سوالات دہراتی ہوں
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ امریکہ کی آمد سے قبل افغان کرنسی کا ڈالر سے تبادلے کا ریٹ کیا تھا؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ افغانستان میں کتنے سویلین مارے گئے ؟ کتنے بچے یتیم ہوئے ؟ کتنے گھر تباہ ہوئے؟ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے؟
فواد صاحب یہ سوالات اب تک جواب کی تلاش میں ہیں کیا آپ کے پاس اس بارے میں کوئی وضاحت ہے اس سوال پر آپ کی خاموشی کو ہم کیا معنی دیں
 

arifkarim

معطل
سارے امریکہ کے خلاف ہیں لیکن جو امریکہ کے خلاف ہیں یعنی ایران، ہم انکے بھی خلاف ہیں۔ بیوقوفی اور حماقت میں عالمی ریکارڈ!
 

سویدا

محفلین
ایران امریکہ کے مخالف ہے یا نہیں یہ ایک علیحدہ اور مستقل موضوع ہے
باقی یہ امکان اپنی جگہ موجود ہے کہ امریکہ جس طرح جہاد کو اپنے مفاد میں استعمال کررہا ہے تو ایران کیا چیز ہے
 
Top