امجد اسلام امجد کہتا ہے دَر پن

ماہی احمد

لائبریرین
کہتا ہے دَر پن
میرے جیسا بن!

تار یکی کی موت!
ایک نحیف کِرن

محنت اپنا مال
وقت ، پریا دَھن

بات نہ کرنے سے
بڑھتی ہے اُلجھن

اپنے دِل جیسا !
کوئی نہیں دشمن

دُنیا۔! لو ٹا دے
میرا اپنا پن

جُھولے جی اُٹّھے
جاگ پڑے جامن

روز وہی قِصّہ!
روز وہی اُلجھن!

صدیاں لُوٹ گئی
پائل کی چَھن چَھن

یہ تو برسے گا
ساون ہے، ساون!

سارے خاک سَمان
تَن اور مَن اور دَھن

اپنوں ہی سے تو
ہوتی ہے اَن بَن

سب سے اچّھا ہے
اپنا گھر آنگن!

پیاس بڑی ہے یا
سونے کا برتن؟

کیا اُفتاد پڑی!
لگتا نہیں مَن

آدم زاد نہیں ،
بستی ہے یا بَن!

کیسا بھی ہو رُوپ!
مٹی ہے مدفن

سَکّے کے دو رُخ
بِرہن اور دُلہن

دھوکہ دیتے ہیں
اُجلے پیرا ہن

راہ میں کِھلتا پُھول
بیوہ کا جوبن

دونوں جُھوٹے ہیں
ساجن اور سَاون

آہٹ کِس کی ہے
تیز ہُوئی دھڑکن

اُتنی خواہش کر
جِتنا ہے دامن

ہم تم دونوں ہیں
دَھرتی اور ساون

عکس بنے کیسے؟
دُھند لا ہے درپن

زیر آب ہُوئے
خوابوں کے مسکن

ٹھر گیا ہے کیوں!
آنکھوں میں ساون !

(ق)
کچّا سونا ہی
بنتا ہے کُندن

اِک دِنِ نکھرے گا
سچّا ہے گر، فن!

کیسے روک سکے!
خُوشبو کو گلشن

امجد میرے ساتھ
اَب تک ہے بچپن
 
Top