پپو

محفلین
چہرے کی طرف ایک سوالیہ انداز سے دیکھا لیکن وہ چپ رہا۔ جاوید نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے اگر عظیم راضی ہے تو اسے کیا اعتراز ہو سکتا ہے۔ عالیہ نے اسے ایک کارڈ دیا جس پر اس کا ایڈریس اور فون نمبر درج تھا اور کہا کہ وہ اس سے کل شام کے وقت رابطہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں وہاں سے نکلے تو جاوید نے ڈرائیورسے کہا کہ وہ چلا جائے اور دوسری گاڑی گیراج میں لے جائے اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور اگلی سیٹ کا دروازہ عظیم کے لئے کھول دیا عظیم کو یہ سب خواب سا لگ رہا تھا جاوید نے گاڑی سٹارٹ کرکے آگے بڑھادی اے سی آن کرتے ہی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بدن سے اٹکلیاں کرنے لگے جاوید نے ہلکا سا میوزک آن کردیا اور جاوید کو ایسے لگنے لگا جیسے وہ اس دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہو
اچانک جاوید نے پوچھا عظیم تم کسی شکور صاحب سے ملنے کا کہہ رہے تھے تو عظیم کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے بھاری آواز کے ساتھ کہا جاوید صاحب سچ تویہ ہے میں نے کسی شکور سے نہیں ملنا تھا میں تو گھر سے روز کسی نہ کسی شکور کی تلاش میں نکلتا ہوں اور شام تک ایسا کوئی شکور نہیں ملتا جس کا میں مشکور ہو سکوں نوکری کی تلاش میں ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور پھر وہاں سے تیسرے دفتر اور آخر کا ر تھک ہار کر گھر واپس ہو جاتا ہوں لیکن نوکری کہیں نہیں ملتی نہ کوئی سفارش ہے نہ رشوت دینے کے لئے پیسے اور نہ کوئی سیاسی تعلقات ہیں جن کے بل بوتے پر مجھے کوئی ملازمت دے میں پتہ نہیں کیوں اس سٹاپ پر آپ کے ساتھ اتر گیا ورنہ میرا ادھر کوئی جاننے والا نہیں ہے بلکہ اب تو جاننے والے بھی لا تعلق ہو چکے ہیں اگر اسی طرح کچھ دن اور چلتا رہا تو ہو سکتا ہے میں کسی ریل گاڑی کے سامنے کود جاؤں یا پنکھے کے ساتھ جھول جاؤں روز خالی ہاتھ گھر جانا اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا جاوید نے جلدی سے عظیم کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا نہیں یار یہ تم کیا کہہ رہے میرے ہوتے ہوئے تمہیں‌ ایسا سوچنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے ایسا ہمدردی کا لفظ عظیم کے لئے اسقدر بوجھ ثابت ہو ا کہ ایک مدت سے رکا ہوا آنسوؤں کا سیلاب آنکھوں میں‌ امڈ آیا اور عظیم نے پھوٹ پھوٹ رونا شروع کر دیا جاوید نے جلدی سے گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کی اور عظیم کو گلے سے لگا لیا جب دل کی بھڑاس آنسو کے رستے نکل گئی تو جاوید نے عظیم کے بالوں میں بڑے پیار سے ہاتھ پھیرنا شروع کیا ہاتھوں کے لمس سے عظیم کو عجیب اطمینان کا احساس ہوا جاوید نے ڈش بورڈ پر رکھے ٹشوپیپرز کے ڈبے سے ٹشو نکال کر عظیم کے آنسو خشک کیے اور بڑی پر عزم آواز میں کہا عظیم بھائی آج کے بعد میں تمہاری آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دونگا بلکہ یہ آنسو اب ان کی آنکھوں سے بہیں گے جو اس نظام میں خرابیاں کرکے خود بڑے مزے کی زندگی بسر کر رہے ہیں
اس کے بعد جاوید نے عظیم کو بڑے شاندار ہوٹل میں کھانا کھلایا اور کل شام میڈیم عالیہ سے ملنے کی تقید کی اور کہا کہ میں خود میڈیم سے فون پر بات کرکے اسے ساری حقیقت آگاہ کر دونگا تم یہ سمجھو تمہاری نوکری پکی اور عظیم کو چھوڑنے اس کے گھر کی طرف گاڑی کا رخ کر لیا حالانکہ عظیم بضد تھا کہ وہ وین میں چلا جائے گا لیکن جاوید نے اس کی ایک نہ سنی اور گاڑی کو عظیم کے بتائے ہوئے راستے کی طرف بڑھا دیا عظیم کا گھر ایک پوش علاقے سے ملحقہ آبادی میں تھا عظیم اپنے گھر کی بدحالی ابھی جاوید پر واضح نہیں کرنا چاہتا تھا مگر وہ جاوید کی بات کے آگے بے بس ہو گیا گاڑی کے گلی میں مڑتے ہی عظیم کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی سارے محلے والے عظیم کو اتنی شاندار گاڑی میں دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال جواب کرنے لگے عظیم کے کہنے پر جاوید نے گاڑی کو ایک گھر کے سامنے روک دیا اور جلدی سے دو ہزار روپے نکال کر عظیم کی سامنے والی جیب میں ٹھونس دیئے اور اشارے سے چپ رہنے کا کہا عظیم نے کہا جاوید بھائی لیکن جاوید نے عظیم کا منہ ہاتھ رکھ کر بند کر دیا اور کہا یہ قرض ہے جب پہلی تنخواہ ملے تو لوٹا دینا اتنی دیر میں گاڑی رکنے کی آواز سن کر فرزانہ دروازہ کھول چکی تھی فرزانہ کی پہلی نظر جاوید پر پڑی اور جاوید نے بھی اسی وقت مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا شائد وہ کچھ دیر اور وہ اسی مست نظارے میں کھویا رہتا لیکن عظیم کی آوا ز نے اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا جاوید بھائی آئیں چائے پی کر جائیں نین نہیں جاوید نے معذرت کی اور کہا ابھی مجھے ایک دو ضروری کام نپٹانے ہیں پھر کبھی سہی اور کن آکھیوں سے دروازے کی طرف دیکھا مگر فرزانہ تب تک دروازے سے ہٹ گئی تھی عظیم کے اترنے کے بعد جاوید نے گاڑی آگے بڑھا دی اور وہ ابھی تک فرزانہ ہی کے بارے میں سوچ رہا تھا فرازنہ کا حسن جاوید کے دل میں گھر کرگیا شائد اس کے چہرے کی معصومیت تھی یا اس کا قدرتی حسن تھا جو کبھی بھی بناؤ سنگار کی مشق سے نہیں گزرا تھا کچھ تھا جو ابھی جاوید کی سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا حالانکہ جاوید کی زندگی جس ڈگر پر تھی اس میں لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں تھی مگر وہ سب کچھ مصنوعی تھا جاوید نے کبھی اسطرح سے نہیں سوچا تھا گاڑی پوری رفتار سے چلی جارہی تھی اس سے بھی تیز رفتاری سے جاوید کے دماغ میں فرزانہ گھوم رہی تھی
گھر میں داخل ہوتے ہی ماں اور بہن نے خوشی اورخوف کے ملے جلے تاثرات سے عظیم کا استقبال کیا اور پوچھا آج اتنی جلدی گھر لوٹ آئے ۔کیونکہ جب سے عظیم نے نوکری کی تلاش شروع کی تھی اسے گھر آتے آتے رات ہو جاتی تھی فرزانہ نے بھی محتاط انداز میں جاوید کے بارے میں پوچھا فرزانہ کے دل میں جاوید کے دیکھنے کا انداز چھب سا گیا تھا تاہم وہ جس کلاس کی لڑکی تھی اس میں ایسی کسی بات کی گنجائش نہیں تھی اس کلاس کی لڑکیاں شہزادوں کے خواب تو دیکھ سکتی تھیں مگر وہ پورے کبھی نہیں ہو سکتے تھے عظیم نے ماں کو اپنی ہونے والی جاب کے متعلق مبہم سے انداز میں بتانا شروع کیا کیونکہ زیادہ تو وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اس لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

چاند بابو

محفلین
عظیم نے ماں کو اپنی ہونے والی جاب کے متعلق مبہم سے انداز میں بتانا شروع کیا کیونکہ زیادہ تو وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اس لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظیم نے ماں کو یہ بتا کر دلاسہ دیا کہ آج صرف نوکری کی بات پکی ہوئی ہے کل سے نوکری پر جائے گا تو پھر یہ بھی پتا چل جائے گا کہ کام کی نوعیت کیا ہے اور فی الحال وہ صرف یہی جانتا ہے۔ انہی باتوں کے دوران بہن کھانا گرم کر چکی تھی عظیم نے انہیں بتایا کہ وہ کھانا کھا چکا ہے ماں اور بہن کھانا کھانے لگیں تو اچانک کسی خیال کے تحت عظیم اٹھ کھڑا ہوا۔ ماں کو بتایا کہ وہ ابھی کچھ دیر میں واپس آتا ہے۔
عظیم کا رخ بازار کی طرف تھا اور اس کے دل اس خیال سے بھر آیا تھا کہ آج کتنے عرصے بعد وہ اس قابل ہوا ہے کہ اپنی بہن کی خواہش کو پورا کر سکے وہ اپنی بہن کو سرپرائز دینا چاہتا تھا اسی لئے وہ ماں کو بھی بغیر کچھ بتائے بازار آگیا تھا۔ جاوید کے دیئے پیسوں میں سے اس نے بہن کے لئے ایک سستا لیکن خوبصورت سا سرخ رنگ کاریشمی سوٹ لیا اور ماں کے لئے ایک ڈوپٹہ لیا۔
بازار سے واپسی سارے رستے اس کے ذہن میں جاوید اور عالیہ کے خیالات ہی منڈلاتے رہے، اس کی تعلیم کے بعد سے نوکری کی تلاش تک جو وقت گزرا تھا اس عرصے میں اس کا اعتماد اس بات سے بالکل اٹھ گیا تھا کہ دنیا میں اچھے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتےہیں۔لیکن آج اس کو اپنے ان خیالات سے شرمندگی محسوس رہی تھی۔ اور سچ بھی یہی تھا اسے پورا یقین تھا کہ اگر یہ لوگ بھی اسے نوکری نہ دیں تو اس کے گھر کے حالات جو پہلے ہی ڈگمگا رہے ہیں بالکل ہی دگرگوں ہو جائیں گے۔لیکن دوسری طرف ممنوئیت کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں یہ ڈر بھی تھا کہ کیا میں ان کی تواقعات پر پورا بھی اتر سکوں گا اگر میرا کام ان لوگوں کو پسند نہ آیا یا میں ان کے ساتھ بہتر تریقے سے کام نہ کر سکا تو کیا ہو گا۔ پھر اس نے ان خیالات کو سختی سے رد کر دیا اور اپنے دل میں عزم کر لیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے چاہے کام کی نوعیت کچھ بھی ہو کام کتنا بھی سخت کیوں نہ ہو میں ان کی تواقعات سے بڑھ کر کام کروں گا اور ثابت کروں گا کہ ان کا انتخاب ہرگز بھی غلط نہیں تھا۔
انہی سوچوں میں غلطاں وہ گھر میں داخل ہوا اور چپکے سے بہن کے کمرے میں داخل ہوا۔فرزانہ دوسری طرف منہ کیئے کرسی پر بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی چپکے سے عظیم نے اس کا سوٹ اس کی گود میں پھینک دیا فرزانہ چونک سی گئی لیکن جب اس کی نظر پہلے بھائی اور پھر گود میں پڑے سوٹ پر پڑی تو اس کی خوشی دیدنی تھی سوٹ پانے کی خوشی میں بھائی کو نظر انداز کرتی جلدی سے رسوئی کی طرف بڑھی جہاں ماں کھانے کے برتن صاف کرنے کے بعد ان کو ایک ترتیب میں لگا رہی تھی۔ ماں۔ ماں دیکھو بھائی میرے لئے کیا لے کر آیا ہے ماں نے اس کی طرف دیکھا سوٹ کو دیکھا اتنے میں عظیم بھی بہن کے پیچھے پہنچ گیا ماں نے لاڈ سے فرزانہ کو ڈانٹا کہ پہلے بھائی کا شکریہ تو ادا کرو تو فرزانہ شکریہ، شکریہ بھائی کہتی عظیم سے لپٹ گئی۔ ماں کے لئے لیا ڈوپٹہ اس نے ماں کو دیا اور خود دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ شاید اس نے آج بہت عرصے بعد پہلی مرتبہ اپنی بہن کو اتنا خوش دیکھا تھا اور جب ہی تو وہ اسے بہت پیاری لگ رہی تھی بالکل گڑیا جیسی۔
آج اس نے محسوس کیا کہ بہن کی عمر اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس کی شادی کے بارے میں سوچنا چاہئے اور اگر ماں اس کے رشتے کے بارے میں سوچ رہی ہے تو درست ہی سوچ رہی ہے کچھ دیر بعد ماں بھی اس کے پاس آ بیٹھی تب اس نے ماں سے کہا کہ دعا کرنا ماں نوکری اچھی ہو اور اس کی نوکری کے بعد وہ پہلا کام فرزانہ کی شادی کا ہی کریں گے۔اس نے پوچھا کہ وہ کل جس رشتے کے بارے میں بات کر رہی تھی اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرے اور کوشش کرے کہ اگر وہ لوگ اچھے ہیں تو کچھ عرصہ انتظار کر سکیں تو ان سے ہی بات چیت شروع کی جائے۔ماں نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے ڈھیروں دعائیں دیں اور کہا کہ پہلے وہ اپنی نوکری پکی کر لے پھر اس کا ارادہ ہے کہ دونوں بہن بھائی کی ایک ساتھ شادیاں کر کے وہ اپنے فرض سے فارغ ہے جائے ویسے بھی اب اس بوڑھی جان سے مزید کام نہیں ہوتا اس لئے فرزانہ کے اپنے گھر جانے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے گھر کی مالکن بھی بہو کی صورت میں گھر آ جائے۔۔۔۔۔
 

پپو

محفلین
اب اس بوڑھی جان سے مزید کام نہیں ہوتا اس لئے فرزانہ کے اپنے گھر جانے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے گھر کی مالکن بھی بہو کی صورت میں گھر آ جائے۔
لیکن عظیم اب کچھ اور ہی منصوبے بنا چکا تھا وہ اپنے ارادوں کو کسی کے ساتھ شئیر نہیں کرتا تھا وہ سوچتا تھا اب اسے بہت آگے جانا ہے یہ شادی وادی کے چکر میں پھنس کے انسان کے ارادے کمزور پڑ جاتے ہیں شادی ایسا بندھن ہے جس میں انسان ایک دفعہ بندھ جائے تو پھر مجبوریاں اس کے پاؤں جکڑ لیتی ہیں اور اس کی زندگی کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے لیکن عظیم اب پختہ ارادہ کرچکا تھا کہ جب تک وہ کوئی مقام حاصل نہیں کر لیتا تب تک وہ اس شادی کے بندھن سے آزاد رہے گا
اگلے دن وہ حسب معمول سوکر اُٹھا تو اس کے چہرے پر قدرے اطمعنان تھا کہ اسے آج پھر سڑکوں اور دفاتروں کی خاک نہیں چھاننا پڑے گی وہ دیر تک ماں اور بہن سے گپ شپ کرتا رہا ناشتہ بھی اس نے دیر سے کیا اور پھراپنے کمرے کی الماری سے ڈائری نکال کر اس کے ورق الٹنا شروع کیے اس ڈائری میں وہ وقتافوقتا کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا تھا اس کی زندگی کا ہر لمحہ جو اس کے لیے خوشی یا غم لیکرآیا ہو اس ڈائری میں درج تھا ایک صفحہ پر اس کی آنکھیں جم گئیں یہ تحریر اس نے اپنے والد کی وفات کے بعد لکھی تھی اس کی آنکھوں میں نمی سی تیرنے لگی اسے اپنے والد کی بیماری اور اس کے بعد ان کی وفات تک کی ساری باتیں ایک ایک کرکے یاد آتی گئیں عظیم کے والد محکہ تعلیم میں کلرک بھرتی ہوئے تھے ساری زندگی ایمانداری کے سنہری اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نوکری کی یہی وجہ تھی کہ وہ ریٹائرمنٹ تک کلرک ہی رہے جب تک نوکری تھی گھر کا گزارہ جیسے تیسے چل رہا تھا عظیم کی ماں نہائت صابر عورت تھی اس نے بھی کبھی بے جا خرچ نہیں کیا اور کبھی اپنی خواہسشات کو اپنے وسائل سے نہیں بڑھایا بلکہ عظیم کے والد کی تنخواہ کا ایک ایک پیسہ بہت سوچ سمجھ کر خرچ کیا یہی وجہ تھی کہ وہ اتنے پیسے پس انداز کرسکی جس سے ان کو گھر جیسی نعمت میسر آگئی ویسے بھی ماضی قریب تک لوگ سادہ طرززندگی اپنائے ہوئے تھے لیکن پچھلی دودہائیوں سے ٹیلی وثرن وی سی آر ڈش اور اب کیبل اور موبائل فونوں نے نئی نسل کے اندر جانے کیا پھونک دیا ہے ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں لگا ہو ا ہے اور عام گھروں کی لڑکیاں اور لڑکے مغرب کے آسیب میں بری طرح جکڑے جارہے ہیں شرم و حیا کی بات کرنے والے کو لوگ پس ماندہ سمجھتے ہیں ۔
جب عظیم کے والد ریٹائر ہوئے تو ان کو ریٹائر منٹ پر ایک معقول رقم ملی تھی اس میں سے کچھ پیسے تو فرزانہ اور عظیم کے تعلیمی اخراجات پر خرچ ہوگئی کیونکہ اس وقت فرزانہ بی اے فائنل ائر میں تھی اور عظیم فائن آرٹ کے فائنل ائر میں تھا اسی دوران عظیم کے والد کو دل کی بیماری نے آن گھیرا تو دوا دارو پر بہت زیادہ اخراجات ہونے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ابو ثمامہ

محفلین
شام کا دھندلکا گہرا ہونے لگا تھا اور وہ سر جھکائے سڑک پر لوگوں کی بھیڑ میں ایسے چلا جا رہا تھا کہ جیسے اس کے گرد کوئی موجود ہی نہ ہو۔ اس کے دماغ میں بار بار یہی خیالات منڈلا رہے تھے کہ کیا نوکری صرف سفارش سے ہی ملتی ہے؟ کیااس ملک میں‌ قابلیت کی کوئی قدر نہیں؟[/color]

حالانکہ اس کے استاد تو کہتے تھے کہ خوب محنت کرو، محنت سے ہی قابلیت حاصل ہو گی اور پھر تمہاری منزل تمہارے قدموں تلے ہو گی۔ لیکن یہ کیا، اس کی محنت کنارے لگتے نظر نہ آتی تھی، اس کی ڈگریاں کاغذ کا ایک بے مصرف ٹکڑا ثابت ہو رہی تھیں۔


اس کے دماغ میں پچھلی ساری زندگی ایک فلم کی طرح چل رہی تھی کہ کس طرح اس نے اتنی مشکلات سے اپنی تعلیم مکمل کی اور کس طرح اس نے گن گن کر یہ دن گزارے تھے کہ بس برے دن اور حالات بس ختم ہونے ہی والے ہیں ۔ایک خوشگوار احساس اسے مایوسی کے اندھیرے میں گم ہونے سےہمیشہ بچا لیتا تھا کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ایک خوشگوار اور بھرپور زندگی اسکی منتظر ہو گی

ابھی وہ اسی سوچوں میں گم تھا کہ اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ لوگوں کے بھیڑ سے نکل کر سڑک کے درمیان میں پھنچ چکا ہے اور جب اسے احساس ہوا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ایک تیز رفتار ٹرک اسے کچل کر گذر چکا تھا۔ The End
اللہ تعالی آپ کو خوش رکھے، The End پڑھ کے بے اختیار ہنسی چھوٹ گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ز
 

ثناءعامر

محفلین
اور آہستہ آہستہ سارے جمع پیسے ختم ہوگئے تهے اب تو صرف پینشن ہی تهی جس سے تهوڑا بہت گزارا ہورہا تها اور والد کی شدید خواہش تهی کہ عظیم پڑھ لکھ کر کچھ بن جائے لیکن افسوس پینشن کی آئی رقم میں سے آدها خرچہ دوائیوں کا تها اور باقی رقم سے یا تو گهر کا خرچ چلے یا دونوں بہن بهائیوں کی پڑهائی کا خرچہ ہو۔عظیم نے کوشش بهی کی کہ وه کوئی ٹیوشن وغیره پڑها کر گهر کے خرچ اٹهاکر کچھ بوجھ اپنے کندهوں پر اٹها لے لیکن والد نے اسے سختی سے منع کردیا کہ
میرے ہوتے ہوئے مجهے گواره نہیں ہے کہ تم نوکری کرو جب تک تمہاری تعلیم مکمل نہیں ہوجاتی اس وقت تک تم نوکری کا سوچنا بهی مت۔
 

عمار نقوی

محفلین
اور آہستہ آہستہ سارے جمع پیسے ختم ہوگئے تهے اب تو صرف پینشن ہی تهی جس سے تهوڑا بہت گزارا ہورہا تها اور والد کی شدید خواہش تهی کہ عظیم پڑھ لکھ کر کچھ بن جائے لیکن افسوس پینشن کی آئی رقم میں سے آدها خرچہ دوائیوں کا تها اور باقی رقم سے یا تو گهر کا خرچ چلے یا دونوں بہن بهائیوں کی پڑهائی کا خرچہ ہو۔عظیم نے کوشش بهی کی کہ وه کوئی ٹیوشن وغیره پڑها کر گهر کے خرچ اٹهاکر کچھ بوجھ اپنے کندهوں پر اٹها لے لیکن والد نے اسے سختی سے منع کردیا کہ
میرے ہوتے ہوئے مجهے گواره نہیں ہے کہ تم نوکری کرو جب تک تمہاری تعلیم مکمل نہیں ہوجاتی اس وقت تک تم نوکری کا سوچنا بهی مت۔
شمشاد صاحب کہانی تکمیل کے لئے آپ کی منتظر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم کے لیے اب کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ گھر والوں سے چُھپ کر کوئی جُزوقتی ملازمت کر لے اور کم از کم اپنا خرچہ ہی اُٹھا لے۔
اس کے لیے اپنے دوست احباب کو کوئی جُزوقتی ملازمت تلاش کرنے کو کہا۔
 

سیما علی

لائبریرین
عظیم کے لیے اب کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ گھر والوں سے چُھپ کر کوئی جُزوقتی ملازمت کر لے اور کم از کم اپنا خرچہ ہی اُٹھا لے۔
اس کے لیے اپنے دوست احباب کو کوئی جُزوقتی ملازمت تلاش کرنے کو کہا۔
بھیا نئی کہانی شروع کریں۔۔۔۔
 
Top