چاند بابو

محفلین
لیں جی میں ایک نئے آئیڈیا کے ساتھ یہ پوسٹ کر رہا ہوں امید ہے کہ تمام احباب کو پسند بھی آئے گی اور سب کو اس میں برابر شرکت کرنے کے مواقع بھی ملیں گے۔
جیسے موضوع سے ظاہر ہے اس دھاگے میں سب لوگ مل کر ایک کہانی مکمل کریں گے لیکن شرط یہ ہے کہ ہر شخص ایک دن میں اس دھاگے پر صرف ایک پوسٹ لگائے گا اور اس پوسٹ میں پہلے سے چلتی کہانی کو آگے بڑھانے کے لئے صرف چند فقروں کا اضافہ کرے گا۔ خیال یہ رکھنا پڑے گا کہ کہانی کا ربط نہ ٹوٹنے پائے اور کہانی جس رخ پر جا رہی ہے اس کو اسی رخ پر چلانا ہے ہاں جہاں‌بہتر محسوس کریں کہانی کو تبدیل کرنا ضروری ہے وہاں پر اس کو ایسے انداز سے تبدیل کرنا ہے کہ کہانی پہلے سے احسن طریقے سے آگے بڑھنے لگے۔
اگر آپ کی یہ کہانی اچھی ہوئی تو اس کو بعد میں محفل کی لائیبریری میں‌ بھی منتقل کروایا جا سکتا ہے اور اس کے لکھنے والوں‌میں تمام افراد کا نام بھی شامل ہو سکتا ہے۔


تو جناب پہلی کہانی کا پلاٹ یہ ہے کہ عظیم نامی نوجوان نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے گھر میں‌ بوڑھی ماں اور ایک جوان بہن ہے جس کی شادی بھی کرنا ہے لیکن نوکری نہیں ملتی ہے اور حالات سے گھبرا کر عظیم دولت کمانے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے اور ایک ایسے گروہ کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوتا ہے۔ عظیم بھی اس گروہ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ لیکن آخر میں ہوتا یہ ہے کہ ان غیر قانونی کاموں کی وجہ سے وہ پکڑا جا سکتا ہے اور اس کے گھر میں واحد کمانے والے کے چلے جانے کے بعد سے حالات ابتر ہو جاتے ہیں۔

اب اس کہانی کو ایسے طریقے سے مکمل کریں کہ ایک سبق آموز کہانی کا روپ دھار لے۔




تو جناب شروعات میں کرتا ہوں ان فقرات سے۔



شام کا دھندلکا گہرا ہونے لگا تھا اور وہ سر جھکائے سڑک پر لوگوں کی بھیڑ میں ایسے چلا جا رہا تھا کہ جیسے اس کے گرد کوئی موجود ہی نہ ہو۔ اس کے دماغ میں بار بار یہی خیالات منڈلا رہے تھے کہ کیا نوکری صرف سفارش سے ہی ملتی ہے؟ کیااس ملک میں‌ قابلیت کی کوئی قدر نہیں؟
 

ماوراء

محفلین
بہت خوب چاند بابو۔ مجھے یہ کھیل بہت پسند ہے۔ محفل میں شروع شروع میں بہت کھیلا گیا تھا۔ پھر یہ سلسلہ رک گیا۔ اس کے لیے الگ سے زمرہ بھی موجود ہے۔ "کہانی لکھنے کا کھیل" میں نے اسے یہاں منتقل کر دیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
شام کا دھندلکا گہرا ہونے لگا تھا اور وہ سر جھکائے سڑک پر لوگوں کی بھیڑ میں ایسے چلا جا رہا تھا کہ جیسے اس کے گرد کوئی موجود ہی نہ ہو۔ اس کے دماغ میں بار بار یہی خیالات منڈلا رہے تھے کہ کیا نوکری صرف سفارش سے ہی ملتی ہے؟ کیااس ملک میں‌ قابلیت کی کوئی قدر نہیں؟

حالانکہ اس کے استاد تو کہتے تھے کہ خوب محنت کرو، محنت سے ہی قابلیت حاصل ہو گی اور پھر تمہاری منزل تمہارے قدموں تلے ہو گی۔ لیکن یہ کیا، اس کی محنت کنارے لگتے نظر نہ آتی تھی، اس کی ڈگریاں کاغذ کا ایک بے مصرف ٹکڑا ثابت ہو رہی تھیں۔
 

تعبیر

محفلین
شام کا دھندلکا گہرا ہونے لگا تھا اور وہ سر جھکائے سڑک پر لوگوں کی بھیڑ میں ایسے چلا جا رہا تھا کہ جیسے اس کے گرد کوئی موجود ہی نہ ہو۔ اس کے دماغ میں بار بار یہی خیالات منڈلا رہے تھے کہ کیا نوکری صرف سفارش سے ہی ملتی ہے؟ کیااس ملک میں‌ قابلیت کی کوئی قدر نہیں؟[/COLOR]

حالانکہ اس کے استاد تو کہتے تھے کہ خوب محنت کرو، محنت سے ہی قابلیت حاصل ہو گی اور پھر تمہاری منزل تمہارے قدموں تلے ہو گی۔ لیکن یہ کیا، اس کی محنت کنارے لگتے نظر نہ آتی تھی، اس کی ڈگریاں کاغذ کا ایک بے مصرف ٹکڑا ثابت ہو رہی تھیں۔


اس کے دماغ میں پچھلی ساری زندگی ایک فلم کی طرح چل رہی تھی کہ کس طرح اس نے اتنی مشکلات سے اپنی تعلیم مکمل کی اور کس طرح اس نے گن گن کر یہ دن گزارے تھے کہ بس برے دن اور حالات بس ختم ہونے ہی والے ہیں ۔ایک خوشگوار احساس اسے مایوسی کے اندھیرے میں گم ہونے سےہمیشہ بچا لیتا تھا کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ایک خوشگوار اور بھرپور زندگی اسکی منتظر ہو گی
 
شام کا دھندلکا گہرا ہونے لگا تھا اور وہ سر جھکائے سڑک پر لوگوں کی بھیڑ میں ایسے چلا جا رہا تھا کہ جیسے اس کے گرد کوئی موجود ہی نہ ہو۔ اس کے دماغ میں بار بار یہی خیالات منڈلا رہے تھے کہ کیا نوکری صرف سفارش سے ہی ملتی ہے؟ کیااس ملک میں‌ قابلیت کی کوئی قدر نہیں؟[/color]

حالانکہ اس کے استاد تو کہتے تھے کہ خوب محنت کرو، محنت سے ہی قابلیت حاصل ہو گی اور پھر تمہاری منزل تمہارے قدموں تلے ہو گی۔ لیکن یہ کیا، اس کی محنت کنارے لگتے نظر نہ آتی تھی، اس کی ڈگریاں کاغذ کا ایک بے مصرف ٹکڑا ثابت ہو رہی تھیں۔


اس کے دماغ میں پچھلی ساری زندگی ایک فلم کی طرح چل رہی تھی کہ کس طرح اس نے اتنی مشکلات سے اپنی تعلیم مکمل کی اور کس طرح اس نے گن گن کر یہ دن گزارے تھے کہ بس برے دن اور حالات بس ختم ہونے ہی والے ہیں ۔ایک خوشگوار احساس اسے مایوسی کے اندھیرے میں گم ہونے سےہمیشہ بچا لیتا تھا کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ایک خوشگوار اور بھرپور زندگی اسکی منتظر ہو گی

ابھی وہ اسی سوچوں میں گم تھا کہ اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ لوگوں کے بھیڑ سے نکل کر سڑک کے درمیان میں پھنچ چکا ہے اور جب اسے احساس ہوا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ایک تیز رفتار ٹرک اسے کچل کر گذر چکا تھا۔ The End
 

شمشاد

لائبریرین
عبد المجید صاحب آپ نے کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دی۔ آپ نے غالباً چاند بابو کا دیا ہوا پلاٹ نہیں پڑھا جو کہ پیغام نمبر 1 میں ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس کے دماغ میں پچھلی ساری زندگی ایک فلم کی طرح چل رہی تھی کہ کس طرح اس نے اتنی مشکلات سے اپنی تعلیم مکمل کی اور کس طرح اس نے گن گن کر یہ دن گزارے تھے کہ بس برے دن اور حالات بس ختم ہونے ہی والے ہیں ۔ایک خوشگوار احساس اسے مایوسی کے اندھیرے میں گم ہونے سےہمیشہ بچا لیتا تھا کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ایک خوشگوار اور بھرپور زندگی اسکی منتظر ہو گی

وہ سوچ رہا تھا کہ اپنے مرحوم والد کے دوست مرزا صاحب کے پاس جائے اور انہیں اپنی مشکلات سے آگاہ کرئے۔ مرزا صاحب اچھے خاصے امیر آدمی ہونے کے علاوہ والد مرحوم کے جگری دوست بھی تھے۔ دو عدد فیکٹریوں کے مالک تھے، پورے ملک میں ان کی مصنوعات کی مانگ تھی۔ وہ ضرور مدد کریں گے۔ اور کچھ نہیں تو اپنی کسی ایک فیکڑی میں کوئی چھوٹی موٹی نوکری ہی دے دیں گے۔ انہی سوچوں میں غلطاں چلا جا رہا تھا۔ اسے اس وقت ہوش آیا جب اس نے دیکھا کہ وہ تو مرزا صاحب کے گھر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دفعتًہ اس کی خودداری نے اس کے پاؤں پکڑ لیے اور وہ الٹے پاؤں اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
 

چاند بابو

محفلین
وہ سوچ رہا تھا کہ اپنے مرحوم والد کے دوست مرزا صاحب کے پاس جائے اور انہیں اپنی مشکلات سے آگاہ کرئے۔ مرزا صاحب اچھے خاصے امیر آدمی ہونے کے علاوہ والد مرحوم کے جگری دوست بھی تھے۔ دو عدد فیکٹریوں کے مالک تھے، پورے ملک میں ان کی مصنوعات کی مانگ تھی۔ وہ ضرور مدد کریں گے۔ اور کچھ نہیں تو اپنی کسی ایک فیکڑی میں کوئی چھوٹی موٹی نوکری ہی دے دیں گے۔ انہی سوچوں میں غلطاں چلا جا رہا تھا۔ اسے اس وقت ہوش آیا جب اس نے دیکھا کہ وہ تو مرزا صاحب کے گھر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دفعتًہ اس کی خودداری نے اس کے پاؤں پکڑ لیے اور وہ الٹے پاؤں اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔


گھر پہنچتے پہنچتے شام کا دھندلکا رات کی سیاہی میں تبدیل ہو چکا تھا۔ دروازے پر دستک دینے پراس کی بوڑھی ماں نے دروازہ کھولا اور بیٹے کہ چہرے پر مایوسی کے گہرے سائے دیکھتے ہیں سمجھ گئی کہ آج پھر بات نہیں بنی اور آج پھر اسے ناکام لوٹنا پڑا۔ بڑی آس لگائی تھی ماں نے اپنے بیٹے سے بہت سے سپنے تھے جو اس کے مستقبل کے لئے سوچ رکھے تھے۔ سوچا تھا بڑی دھوم دھام سے بیٹے کی شادی ہو گئی جب سے بیٹے نے پڑھائی مکمل کی تھی تب سے ماں نے دن میں بھی خواب دیکھنے شروع کر رکھے تھے بہت سے گھروں کی بیٹیاں‌ اس نے من ہی من میں اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھا کر دیکھیں لیکن کوئی بھی اس کے بیٹے کے ساتھ جچتی نہ تھی اور اسی بنا پر خود ہی اس نے ان سب کو ریجکٹ کر دیا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی بہن اس کی طرف دوڑی چلی آئی۔بہن کو دیکھ کر ہی عظیم کے چہرے پر دکھ اور محرومی کے تاثرات گہرے ہوتے چلے گئے کتنے دن بیت گئے تھے اس کی بہن نے صرف ایک جوڑے ریشمی کپڑوں کی فرمائش کی تھی اور ایک وہ تھا کہ اس کی اس معصوم خواہش کو پوری کرنے سے قاصر تھا۔ قریب تھا کہ بہن اس کے خالی ہاتھ دیکھ کر اس سے شکوہ کرتی کہ پیچھے کھڑی اس کی ماں نے خفیف اشارے سے اسے باز رہنے کی تلقین کی۔ عمر رسیدہ ماں جانتی تھی کہ اس کا بیٹا پہلے ہی مایوسی کی انتہا پر پہنچ چکا ہے اور بہن کا شکوہ اسے اندر سے توڑ ہی تو ڈالے گا۔بغیر کچھ بہن سے کہے عظیم سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور اپنے چارپائی پر گویا گر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اس کی بہن باورچی خانہ کی طرف دوڑی اور اپنے بھائی کے لیے کھانے کا بندوبست کرنے لگی۔ ماں نے صراحی سے ایک گلاس پانی بھر کر اس کے سرہانے رکھ دیا اور اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔ ماں کی آنکھوں میں کئی سوال تھے جو الفاظ کی صورت اختیار کرنا چاہتے تھے۔۔۔ لبوں پر آنا چاہتے تھے۔۔۔ لیکن ماں کی مامتا بیٹے کی حالت دیکھ کر خاموش رہی۔
 

ظفری

لائبریرین
بھئی ۔۔۔۔ میں اتنی سیریس کہانی میں حصہ نہیں‌ ڈال سکتا ۔ میرا موڈ اس طرف نہیں آرہا ہے ۔ کوئی مزاح کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے ۔ شاید میرے دو بھٹکے ہوئے کبوتر ( محب ، رضوان ) واپس آجائیں ۔ ;)
 
بھئی ۔۔۔۔ میں اتنی سیریس کہانی میں حصہ نہیں‌ ڈال سکتا ۔ میرا موڈ اس طرف نہیں آرہا ہے ۔ کوئی مزاح کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے ۔ شاید میرے دو بھٹکے ہوئے کبوتر ( محب ، رضوان ) واپس آجائیں ۔ ;)
بالکل میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔
 

پپو

محفلین
اس کی بہن باورچی خانہ کی طرف دوڑی اور اپنے بھائی کے لیے کھانے کا بندوبست کرنے لگی۔ ماں نے صراحی سے ایک گلاس پانی بھر کر اس کے سرہانے رکھ دیا اور اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔ ماں کی آنکھوں میں کئی سوال تھے جو الفاظ کی صورت اختیار کرنا چاہتے تھے۔۔۔ لبوں پر آنا چاہتے تھے۔۔۔ لیکن ماں کی مامتا بیٹے کی حالت دیکھ کر خاموش رہی۔
لیکن خاموشی آخر کب تک فرزانہ کا رشتہ دیکھنے دن میں کچھ لوگ آئے تھےلڑکا نیوی میں جاب کرتا ہے اچھا رشتہ ہے اجکل اچھے رشتے کہاں ملتے ہیں لیکن ماں بچاری گھر کے اصل صورت حال سے آگاہ تھی ٹال مٹول سے کام لیتی رہی لڑکی کی شادی بھی ہمارے معاشرے میں کونسا آسان کام ہے لڑکی کی عمر ذرا سی زیادہ ہوجائے تو بڑی مشکل ہو جاتی ہے وہ چاہتی تھی کہ بیٹے سے بات کرے لیکن یہ دیکھ کر چپ رہی بیٹا پہلے ہی پریشان ہے اور زیادہ پریشان ہو جائے گا
ادھر عظیم کے دماغ میں‌ کچھ اور ہی چل رہا تھا وہ آج شاہد خان سے ملا تھا شاہد اور اس کا خاندان چند سال پہلے عظیم کے محلے میں ایک مکان بطور کرایہ دار آئے تھے اور عام سے لوگ تھے پھر دوسال بعد ایک پوش علاقے میں منتقل ہوگئے تھےعظیم کی تھوڑی بہت دوستی شاہد کے ساتھ ہوئی تھی مگر زیادہ دیر چل نہیں سکی کیونکہ شاہد تھوڑا جارحیت پسند لڑکا تھا جبکہ عظیم دھیمے مزاج کا یہی وجہ تھی
 

شمشاد

لائبریرین
ادھر عظیم کے دماغ میں‌ کچھ اور ہی چل رہا تھا وہ آج شاہد خان سے ملا تھا شاہد اور اس کا خاندان چند سال پہلے عظیم کے محلے میں ایک مکان بطور کرایہ دار آئے تھے اور عام سے لوگ تھے پھر دوسال بعد ایک پوش علاقے میں منتقل ہوگئے تھےعظیم کی تھوڑی بہت دوستی شاہد کے ساتھ ہوئی تھی مگر زیادہ دیر چل نہیں سکی کیونکہ شاہد تھوڑا جارحیت پسند لڑکا تھا جبکہ عظیم دھیمے مزاج کا یہی وجہ تھی

آج اس نے سوچا کہ شرافت سے زندہ رہے گا تو دو وقت کی روٹی کھانی مشکل ہو جائے گی۔ گھر کا سارا اثاثہ پہلے تھوڑا تھوڑا کر کے بکتا جا رہا تھا۔ باقی جو کچھ بھی بچا تھا وہ زیادہ سے زیادہ ایک دو ماہ روکھی سوکھی کھا کر چلنے کے قابل تھا، اس کے آگے اسے سوچ سوچ کر ہی ہول اٹھتا تھا۔

پھر یکدم اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس نے کچھ فیصلہ کر لیا ہے۔ اسے جارحیت میں ہی اپنا مستقبل نظر آنے لگا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شاہد سے دوستی بڑھائے گا۔ اس کی جارحیت میں اس کا ساتھ دے گا۔ وہ صبح اٹھ کر پہلا کام یہی کرے گا کہ شاہد سے ملے گا، اس کی ہاں میں ہاں ملائے گا اور اسی کے رنگ میں ڈھلنے کی کوشش کرے گا۔
 

پپو

محفلین
آج اس نے سوچا کہ شرافت سے زندہ رہے گا تو دو وقت کی روٹی کھانی مشکل ہو جائے گی۔ گھر کا سارا اثاثہ پہلے تھوڑا تھوڑا کر کے بکتا جا رہا تھا۔ باقی جو کچھ بھی بچا تھا وہ زیادہ سے زیادہ ایک دو ماہ روکھی سوکھی کھا کر چلنے کے قابل تھا، اس کے آگے اسے سوچ سوچ کر ہی ہول اٹھتا تھا۔

پھر یکدم اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس نے کچھ فیصلہ کر لیا ہے۔ اسے جارحیت میں ہی اپنا مستقبل نظر آنے لگا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شاہد سے دوستی بڑھائے گا۔ اس کی جارحیت میں اس کا ساتھ دے گا۔ وہ صبح اٹھ کر پہلا کام یہی کرے گا کہ شاہد سے ملے گا، اس کی ہاں میں ہاں ملائے گا اور اسی کے رنگ میں ڈھلنے کی کوشش کرے گا۔

اسی کشمکش میں نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی صبح سو کر اُٹھا تو اس کے چہرے پر ایک عزم تھا اور وہ کچھ پرجوش دیکھائی دے رہا تھا ماں اور بہن کو صبح کا سلام کہنے کے بعد عظیم منہ ہاتھ دھونے باتھ روم میں گھس گیا جب تک باہر نکلا بہن نے ناشتہ لگا دیا تھا ناشتہ کرتے ہوئے ماں نے پوچھا کہیں نوکری کی بات بنی اس نے ماں جی سے کہااللہ نے چاہا تو جلد ضرور کچھ نہ کچھ ہو جائے گا ماں نے کل فرزانہ کے آنے والے رشتہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا اگر کہیں سے پیسوں کا بندوبست ہوجائے تو میں یہ رشتہ کبھی ہاتھ سے نہ جانے دوں عظیم نے نوالہ وہیں رکھ دیا ماں پریشان ہوگئی بیٹا ناشتہ تو ٹھیک سے کر لو نہیں ماں بس اتنی ہی بھوک تھی اور اٹھ کر ہاتھ صاف کرنے لگا اتنے میں بہن چائے کا کپ اُٹھائے کچن سے باہر آئی لالہ جی چائے تو پیتے جائیے لاکھ کوشش کے باجود عظیم انکار نہیں کر سکا اور چائے پینے لگا بہن نے کچن میں ماں اور بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو سن لی تھی وہ بھائی کا موڈ بھانپ گئی اور اپنی معصوم باتوں سے عظیم کو اس موضوع سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی اتنے میں چائے ختم ہوگئی عظیم سوچ رہا تھا کتنے اچھے تھے وہ دن جب بچپن میں وہ اور اس کی بہن اسی گھر کے صحن میں گرمیوں کی دوپہر میں ایک دوسرے پر پانی گرایا کرتے تھے اور اکثر اسی بات پر ڈانٹ بھی پڑ جاتی تھی یقین ہی نہیں تھا یہ دن اتنی جلدی گذر جائیں گے اور مسائل کا آسیب اس گھرکو اس طرح آن دبوچے گا
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوچ رہا تھا کتنے اچھے تھے وہ دن جب بچپن میں وہ اور اس کی بہن اسی گھر کے صحن میں گرمیوں کی دوپہر میں ایک دوسرے پر پانی گرایا کرتے تھے اور اکثر اسی بات پر ڈانٹ بھی پڑ جاتی تھی یقین ہی نہیں تھا یہ دن اتنی جلدی گذر جائیں گے اور مسائل کا آسیب اس گھرکو اس طرح آن دبوچے گا۔

کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ خوشی کے دن جلدی گزر جاتے ہیں۔ انہی سوچوں میں غلطاں وہ بس سٹاپ پر آیا۔ تھوڑی دیر میں بس آ گئی۔ وہ بس میں سوار ہوا اور سیٹ کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑانے لگا۔ صبح کا رش بہت حد تک ختم ہو چکا تھا۔ ملازم پیشہ حضرات اور طالبعلم اپنی اپنی منزل کو روانہ ہو چکے تھے۔ ابھی دو تین گھنٹے بسوں اور ویگینوں میں رش کم ہو جاتا تھا۔ اسے کھڑکی کے قریب والی پوری سیٹ خالی ملی۔ اور وہ وہیں بیٹھ گیا۔ شاہد کے گھر پہنچنے میں اسے تقریباً ایک گھنٹہ درکار تھا۔ بس مختلف جگہوں پر رکتی آگے بڑھ رہی تھی۔ ایک سٹاپ پر ایک خوش پوش نوجوان بس میں سوار ہوا اور عظیم کے برابر آ کر بیٹھ گیا۔ خوشبو کا جھونکا عظیم کی ناک سے ٹکرایا۔ اس نے مڑ کر نوجوان کی طرف دیکھا۔ وہ ایک خوش پوش نوجوان تھا۔ سفید قمیض اور کالی پینٹ، بال سلیقے سے بنے ہوئے، بائیں ہاتھ کی کلائی پر قیمتی گھڑی، رے بن کا سیاہ چشمہ اس کے آسودہ حال ہونے کا پتہ دے رہے تھے۔

عظیم نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی، سلام کر کے اس کا نام دریافت کیا۔ جاوید کہتے ہیں مجھے۔ اجنبی نے جواب دیا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرتا ہے۔ اچانک بس سٹاپ کے قریب گاڑی خراب ہو گئی، ٹیکسی کے انتظار میں کافی دیر سے کھڑا تھا، پھر یہ بس آ گئی تو میں اس میں سوار ہو گیا کہ مجھے زیادہ دور نہیں جانا۔ اتنے میں کنڈیکٹر آ گیا۔ جاوید نے جلدی سے اس کے ہاتھ میں پچاس کا نوٹ دے دیا اور دو ٹکٹوں کا کہا، پھر عظیم سے پوچھا کہ آپ کو کہاں جانا ہے۔ عظیم نے بھی جلدی میں اسی سٹاپ کا بتا دیا جہاں جاوید کو اترنا تھا۔
 

چاند بابو

محفلین
عظیم نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی، سلام کر کے اس کا نام دریافت کیا۔ جاوید کہتے ہیں مجھے۔ اجنبی نے جواب دیا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرتا ہے۔ اچانک بس سٹاپ کے قریب گاڑی خراب ہو گئی، ٹیکسی کے انتظار میں کافی دیر سے کھڑا تھا، پھر یہ بس آ گئی تو میں اس میں سوار ہو گیا کہ مجھے زیادہ دور نہیں جانا۔ اتنے میں کنڈیکٹر آ گیا۔ جاوید نے جلدی سے اس کے ہاتھ میں پچاس کا نوٹ دے دیا اور دو ٹکٹوں کا کہا، پھر عظیم سے پوچھا کہ آپ کو کہاں جانا ہے۔ عظیم نے بھی جلدی میں اسی سٹاپ کا بتا دیا جہاں جاوید کو اترنا تھا۔


جاوید نامی اس نوجوان کی شکل و صورت اور رکھ رکھاو سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ کسی امیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے گاڑی کے بارے میں وہ پہلے ہی بتا چکا تھا اب اس کے کرایہ دینے کے انداز سے عظیم کچھ زیادہ ہی متاثر ہو گیا تھا۔ اور اس کے سامنے غیر ارادی طور پر کچھ دبادبا نظر آنے لگا تھا۔ باتوں کا سلسلہ کچھ آگے بڑھانے نوجوان نے خود ہی عظیم سے پوچھ لیا کہ وہ کہاں جا رہا ہے اور کیا کرتا ہے۔جواب میں عظیم نے بتایا کہ وہ اپنے دوست کے گھر جا رہا ہے جس سے اس کی بچپن کی دوستی تھی اور کچھ دن پہلے اتفاق سے ہی دوبارہ ملاقات ہو گئی۔ اوریہ کہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اب نوکری کی تلاش میں ہے۔بس آگے بڑھتی رہی اور سوال جواب ہوتے رہے۔ بات شاہد خان تک جا پہنچی شاہد خان کے نام پر نوجوان کے چہرے پر سناشائی کی جھلک نظر آئی اور اس نے بتایا کہ اس علاقے میں اسکا بھی ایک شاہد خان نامی دوست رہتا ہے جس کا بزنس بھی اس کے بزنس سے ملتا جلتا ہے اور اکثر ان کے درمیان کاروباری رابطے ہوتے رہتے ہیں۔کاروبار سے ہٹ کر بھی ان میں اچھی دوستی ہے۔ عظیم چونکہ شاہد خان کے کاروبار سے ناواقف تھا اس لئے کوئی رائے نہ دے سکا کہ یہ وہی شاہد ہے یا کوئی اور۔۔۔۔۔۔۔
 

پپو

محفلین
اکثر ان کے درمیان کاروباری رابطے ہوتے رہتے ہیں۔کاروبار سے ہٹ کر بھی ان میں اچھی دوستی ہے۔ عظیم چونکہ شاہد خان کے کاروبار سے ناواقف تھا اس لئے کوئی رائے نہ دے سکا کہ یہ وہی شاہد ہے یا کوئی اور۔۔۔۔۔۔۔
عظیم اسی سٹاپ پر اتر تو گیا مگر کیون اس وجہ خود اس کی اپنی سمجھ میں نہیں آئی شائد وہ لاشعوری طور پر جاوید سے بہت زیادہ متاثر ہوچکا تھا ویسے بھی جاوید ایسی ہی شخصیت کا مالک تھا وہ لڑکیوں میں بہت زیادہ مقبول تھا اور دوسرا اس کا رہینے کا ڈھنگ ایسا تھا کہ کوئی بھی اس سے متاثر ہوئے بنا رہ نہیں سکتا تھا جب وہ دونوں بس سے نیچے اترے تو جاوید نے عظیم سے پوچھا ادھر تمہیں کس ملنا ہے عظیم نے جلدی سے بہانا بنایا کہ ادھر میرے ایک جاننے والے ہیں ان کا نام شکور قریشی ہے ہیں میں ان کے پاس جاؤں گا کچھ دن پہلے شکور صاحب سے ملاقات ہوئی تھی انہوں نے کہیں نوکری دلانے کا وعدہ کیا تھا میں اسی سلسلے میں آیا ہوں جاوید کے دل میں نجانے کیا آئی اس نے عظیم سےکہا اگر تھوڑا وقت ہو تو میرے ساتھ آؤ ہم تھوڑی دیر ادھر کسی کے گھر رکیں گے واپسی پر تم شکور صاحب سے مل لینا ہوسکتا تب تک میری دوسری گاڑی ڈرائیور لیکر پہنچ جائے میں تمہیں ڈراپ کر دونگا عظیم پہلے ہی اس کی شخصیت کا گرویدہ ہوچکا تھا ایک انجانی قوت نےاسے جاوید کے ساتھ چلنے پر مجبور کردیا وہ دونوں سامنے کی گلی میں گھس گئے تقریبا دومنٹ چلنے کے بعد جاوید نے ایک گھر کے سامنے رک کال بیل پر ہاتھ رکھ دیا جس گھر کے سامنے وہ رکے وہ باہر ہی سے اندر والوں کی آسودگی کا ثبوت دے رہا تھا کیا عالی شان گھر تھا باہر کی پوری دیوارپر اعلی قسم کے ٹائل لگے ہوئے تھے مین گیٹ بہت ہی خوبصورت تھا کسی کاریگر کی مکمل مہارت اس میں جھلک رہی تھی عظیم مبہوت ہو کر اسے دیکھ رہا تھا اتنے میں ایک باوردی گن مین گیٹ پر نمودار ہو ا جاوید کو دیکھ کر اس نے سیلوٹ کیا اور وہ دونوں گیٹ کے اندر داخل ہوگئے گن مین نے گیٹ بند کردیا اور کہا بی بی جی ڈرائینگ روم میں آپ کا انتظار رہی ہیں جاوید نے ڈرئینگ روم کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا عظیم ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ جاوید نے اسے اندر آنے کو کہا اندر داخل ہوتے ہی سرد ہوا کا جھونکا عظیم کے چہرے سے ٹکرایا اندر کی سجاوٹ قابل دید تھی ایک جوان اور خوبصورت لڑکی نے ان کا استقبال کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

چاند بابو

محفلین
اندر داخل ہوتے ہی سرد ہوا کا جھونکا عظیم کے چہرے سے ٹکرایا اندر کی سجاوٹ قابل دید تھی ایک جوان اور خوبصورت لڑکی نے ان کا استقبال کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ عظیم اور جاوید صوفے پر بیٹھ گئے اور لڑکی ان کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔ جاوید نے عظیم کا تعارف اپنے ایک نئے دوست کی حثیت سے کروایا۔لڑکی کی خوبصورتی میں کوئی ایسی کشش تھی جسے عظیم کوئی نام تو نہ دے سکا لیکن اس کے سراپہ میں کچھ ایسا تھا جس نے پہلی نظر میں عظیم کو اپنی طرف مائل کر لیا۔لڑکی کا تعارف جاوید نے اپنی عزیزہ کی حثیت سے کروایا اور اس کا نام عالیہ بتایا۔ عالیہ نے جاوید سے بات چیت شروع کی اور کہا کہ اب لگتا ہے کہ کام مشکل ہو جائے گا۔اور یہ کہ اسے فون پر کہا تھا کہ اپنا کراچی والا کام ابھی کچھ دن کے لئے روک دیں تاکہ کوئی متبادل انتظام کیا جاسکے۔ عظیم ان کی گفتگو سن رہا تھا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کس کام کے متعلق بات کر رہے ہیں شاید کسی کاروباری نوعیت کے مسئلے پر گفتگو ہو رہی تھی جس کا کوئی سر پیر عظیم کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا اور شاید اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ عظیم کا دھیان گفتگو کی بجائے عالیہ کی طرف زیادہ تھا اور وہ مسلسل کن اکھیوں سے اسے گھور رہا تھا۔ اس بات کو شاید عالیہ نے بھی محسوس کر لیا تھا اسی لئے تو وہ وقفے وقفے سے عظیم کی طرف دیکھتی اور عظیم جلدی سے نظر جھکا لیتا جیسے رنگے ہاتھوں کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔
وہ ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک ملازمہ ٹرالی میں ان کے لئے مشروبات لے آئی عالیہ نے خود گلاس اٹھا کر عظیم کو دیا گلاس پکڑاتے ہوئے عظیم نے محسوس کیا جیسے عالیہ نے اس کے ہاتھ کو ارادی طور پر اپنے ہاتھ سے ٹکرایا تھا۔ لیکن پھر اس نے اپنے اس فرسودہ خیال کو خود ہی جھٹک دیا۔
باتوں کا سلسلہ رک گیا تو دونوں عظیم کی طرف متوجہ ہوئے۔عالیہ نےاس سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتادیا کہ پڑھائی کے بعد اب نوکری کی تلاش میں ہے۔ایک بار پھر عظیم نے محسوس کیا جیسے عالیہ اس میں کافی دلچسپی لے رہی ہے جسے اس نے اس کے اخلاق کے اچھا ہونے کی دلیل کے طور پر قبول کر لیا۔اچانک جاوید کے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی دوسری طرف کسی کو اس نے عالیہ کے گھر آنے کا کہ کر فون بند کر دیا۔
کچھ ہی دیر میں اس کا ڈرائیور گاڑی لے کر عالیہ کے گھر پہنچ گیا جس کی اطلاع گیٹ پر کھڑے گن مین نے انٹرکام پر عالیہ کو دی۔ جاوید اٹھ کھڑا ہوا اور عظیم نے بھی اس کی پیروی کی۔ ڈرائنگ روم سے نکلتے وقت عالیہ نے جاوید سے کہا کہ عظیم نوکری کی تلاش میں ہے کیوں نہ اسے اپنی فرم میں ہی نوکری دے دی جائے اور اس کے ساتھ ہی عظیم کے چہرے کی طرف ایک سوالیہ انداز سے دیکھا لیکن وہ چپ رہا۔ جاوید نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے اگر عظیم راضی ہے تو اسے کیا اعتراز ہو سکتا ہے۔ عالیہ نے اسے ایک کارڈ دیا جس پر اس کا ایڈریس اور فون نمبر درج تھا اور کہا کہ وہ اس سے کل شام کے وقت رابطہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top