ساغر صدیقی کچھ کیفِ سحر ہے نہ مجھے شام کا نشہ - ساغر صدیقی

کچھ کیفِ سحر ہے نہ مجھے شام کا نشہ
ہے میرے لیے بادۃِ بے نام کا نشہ

آنکھوں سے چھلکتے ہوئے عرفاں کے ترانے
زُلفوں سے برستا ہوا الہام کا نشہ

ہر گام لرزتے ہوئے تدبیر کے پیکر
تقدیر کی آنکھوں میں ہے آلام کا نشہ

ہر دل میں تڑپتے ہوئے ارماں کی کہانی
ہر آنکھ میں خونِ دلِ ناکام کا نشہ

پھر ڈوب گیا گیسوئے جاناں کی مہک میں
دو دن تو رہا گردشِ ایّام کا نشہ

ہیں شیشہ و ساغرؔ کے یہاں رنگ انوکھے
ہے ایک یہاں بادۃِ گلفام کا نشہ​
ساغر صدیقی
 
Top