کچھ تغافل ان کا، کچھ موسم کی رعنائی گئی

نمرہ

محفلین
کچھ تغافل ان کا، کچھ موسم کی رعنائی گئی
بات اک لمحے کی تھی سو ہو گئی آئی گئی
اہل دنیا کے تقاضے صد ہزار اپنی جگہ
زلف آخر زلف تھی کم کم ہی لہرائی گئی
پہلے میرے چار سو سب کچھ الٹ کر رکھ دیا
پھر تسلی سے مجھے ہر بات سمجھائی گئی
شہر میں ایسا نہ تھا کوئی تو پھر خلعت مری
میری معزولی پہ آخر کس کو پہنائی گئی
روح کا ملتا نہ تھا دنیا کے شہروں سے مزاج
جب کسی کوچے میں جا پہنچی تو ٹھکرائی گئی
جب کسی منزل پہ پہنچے تو یہ اندازہ ہوا
رائگاں اک عمر کی سب آبلہ پائی گئی
اک خمیر اپنا جدا تھا کچھ بہ انداز دگر
ورنہ کیا کیا شے نہ اس دنیا میں اپنائی گئی
زندگی اے زندگی ڈھونڈیں گے تجھ کو کس طرح
کو بہ کو تو اس طرح پیہم جو بکھرائی گئی
حد سے بڑھ کر تھی مری کوتاہ بینی، ورنہ واں
اک جھلک گاہے بہ گاہے صاف دکھلائی گئی
دل میں گھر کرنے کی دنیا تا نہ پھر کوشش کرے
اب کے اس کو جو نکالا تو بہ رسوائی گئی
لے کے بیتابی ستاروں سے بہت سی مستعار
کیا ہی شے تھی جو مرے سینے میں ٹھہرائی گئی
کس کی گنجائش نکلتی ہے ہمارے درمیان
تم جو آئے تو مری صدیوں کی تنہائی گئی
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
کچھ تغافل ان کا، کچھ موسم کی رعنائی گئی
بات اک لمحے کی تھی سو ہو گئی آئی گئی
اہل دنیا کے تقاضے صد ہزار اپنی جگہ
زلف آخر زلف تھی کم کم ہی لہرائی گئی
پہلے میرے چار سو سب کچھ الٹ کر رکھ دیا
پھر تسلی سے مجھے ہر بات سمجھائی گئی
شہر میں ایسا نہ تھا کوئی تو پھر خلعت مری
میری معزولی پہ آخر کس کو پہنائی گئی
روح کا ملتا نہ تھا دنیا کے شہروں سے مزاج
جب کسی کوچے میں جا پہنچی تو ٹھکرائی گئی
جب کسی منزل پہ پہنچے تو یہ اندازہ ہوا
رائگاں اک عمر کی سب آبلہ پائی گئی
اک خمیر اپنا جدا تھا کچھ بہ انداز دگر
ورنہ کیا کیا شے نہ اس دنیا میں اپنائی گئی
زندگی اے زندگی ڈھونڈیں گے تجھ کو کس طرح
کو بہ کو تو اس طرح پیہم جو بکھرائی گئی
حد سے بڑھ کر تھی مری کوتاہ بینی، ورنہ واں
اک جھلک گاہے بہ گاہے صاف دکھلائی گئی
دل میں گھر کرنے کی دنیا تا نہ پھر کوشش کرے
اب کے اس کو جو نکالا تو بہ رسوائی گئی
لے کے بیتابی ستاروں سے بہت سی مستعار
کیا ہی شے تھی جو مرے سینے میں ٹھہرائی گئی
کس کی گنجائش نکلتی ہے ہمارے درمیان
تم جو آئے تو مری صدیوں کی تنہائی گئی

خوب ۔ اچھے اشعار ہیں۔ماشاءاللہ۔
 
کچھ تغافل ان کا، کچھ موسم کی رعنائی گئی
بات اک لمحے کی تھی سو ہو گئی آئی گئی
اہل دنیا کے تقاضے صد ہزار اپنی جگہ
زلف آخر زلف تھی کم کم ہی لہرائی گئی
پہلے میرے چار سو سب کچھ الٹ کر رکھ دیا
پھر تسلی سے مجھے ہر بات سمجھائی گئی
شہر میں ایسا نہ تھا کوئی تو پھر خلعت مری
میری معزولی پہ آخر کس کو پہنائی گئی
روح کا ملتا نہ تھا دنیا کے شہروں سے مزاج
جب کسی کوچے میں جا پہنچی تو ٹھکرائی گئی
جب کسی منزل پہ پہنچے تو یہ اندازہ ہوا
رائگاں اک عمر کی سب آبلہ پائی گئی
اک خمیر اپنا جدا تھا کچھ بہ انداز دگر
ورنہ کیا کیا شے نہ اس دنیا میں اپنائی گئی
زندگی اے زندگی ڈھونڈیں گے تجھ کو کس طرح
کو بہ کو تو اس طرح پیہم جو بکھرائی گئی
حد سے بڑھ کر تھی مری کوتاہ بینی، ورنہ واں
اک جھلک گاہے بہ گاہے صاف دکھلائی گئی
دل میں گھر کرنے کی دنیا تا نہ پھر کوشش کرے
اب کے اس کو جو نکالا تو بہ رسوائی گئی
لے کے بیتابی ستاروں سے بہت سی مستعار
کیا ہی شے تھی جو مرے سینے میں ٹھہرائی گئی
کس کی گنجائش نکلتی ہے ہمارے درمیان
تم جو آئے تو مری صدیوں کی تنہائی گئی
بہت خوب ، نمرہ صاحبہ ! عمدہ غزل ہے . داد حاضر ہے .
 
Top