عدیم ہاشمی کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے - عدیم ہاشمی

غزل- کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یوں ہوا کہ مر گئے -عدیم ہاشمی

غزل
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یوں ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے ، میرے بھی دن گزر گئے

تو بھی کچھ اور اور ہے ، ہم بھی کچھ اور اور ہیں
جانے وہ تو کدھر گیا ، جانے وہ ہم کدھر گئے

راہوں میں ہی ملے تھے ہم راہیں نصیب بن گئیں
تو بھی نہ اپنے گھر گیا ، ہم بھی نہ اپنے گھر گئے

وہ بھی غبارِ خاک تھا ، ہم بھی غبارِ خاک تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ، ہم بھی کہیں بکھر گئے

کوئی کنارِ آبِ جو بیٹھا ہوا ہے سر نگوں
کشتی کدھر چلی گئی ، جانے کدھر بھنور گئے

تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے

وقت ہی کچھ جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں تیرے فراق کے جتنے تھے زخم بھر گئے

بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ، ہم بھی نکھر نکھر گئے

اتنے قریب ہو گئے ، اتنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدیم ڈر گیا ، ہم بھی عدیم ڈر گئے

عدیم ہاشمی​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کٹ ہی گئی جدائی بھی، کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے، میرے بھی دن گزر گئے

تو بھی کچھ اور اور ہے، ہم بھی کچھ اور اور ہیں
جانے وہ تو کدھر گیا، جانے وہ ہم کدھر گئے

وہ بھی غبارِ خواب تھا، ہم بھی غبارِ خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا، ہم بھی کہیں بکھرگئے

تیرے لئے چلے تھے ہم، تیرے لئے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اُٹھے، تونے کہا تو مر گئے

ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے، دریا بپھر بپھر گئے

بارش وصل وہ ہوئی سارا غبار دُھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا، ہم بھی نکھر نکھر گئے


واہ
سبحان اللہ
 
Top