کُفریہ کلمات (میری کرسمس)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ساجدتاج

محفلین
1636085bpx2t2h4k2.gif


14-3.png


کُفریہ کلمات (میری کرسمس)

14-3.png






جس کو بولنے سے ہم دینِ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں‌


ان سے بچیں خاص کر کر اس لفظ‌ کو کہنے سے اور وِش کرنے سے روکیں “میری کرسمس“ نعوذباللہ اس کا مطلب ہے کہ “اللہ نے بیٹا جنا “

یہ شرک ہے اس بچیں اور اپنے مسلمان بہن بھائیوں‌ اور دوستوں کو اس شرک والی لعنت سے بچائیں۔ عام روٹین میں اگر آپ دیکھیں تو لوگ ہنسی خوشی ، مذاق میں یا طنزیہ طور پر یہ الفاظ دوسروں کو کہتے رہتے ہیں جن میں آپ کے دوست ، دُشمن ، رشتے دار ، گھر والے ، سب ہی آجاتے ہیں ۔ اُس وقت ہم ایسے الفاظ منہ سے نکال کر دوسروں کو ہنسا رہے ہوتے ہیں لیکن ایک بات کلیئر کر دوں کہ مذاق ہی مذاق میں وہ کُفر کر رہے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھرا رہے ہوتے ہیں۔
میں حیران ہوں آج کل کی جنریشن کو دیکھ کر وہ کس طرح اس دن کو منا رہے ہیں جو لوگ دین کو نہیں سمجھتے ہیں یا جنہیں اللہ تعالی کا خوف نہیں یا جنہیں صرف دُنیا اچھی لگتی ہے یا جنہیں اللہ تعالی سے زیادہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ پیرو فقیروں کی بات پر یقین ہے میں ایسے لوگوں کی بات نہیں کرتا جو گمراہ ہو چکے ہیں۔ میں اُن لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو سب جانتے ہوئے بھی غلطیاں کرتے ہیں۔ اللہ تعالی سب کچھ معاف کر سکتا ہے مگر شرک نہیں ، شرک کا مطلب یہی ہے کہ آپ اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو بھی خُدا مانتے ہیں نعوذباللہ ، یا لوگ اس بات کا یقین کر لیتے ہیں کہ اُن کے پیر فقیر اُن کی مدد کو آجائیں گے اور اُن کو مشکل سے نکال دیں گے یاد رہے ایسے لوگوں کی معافی کبھی نہیں‌‌ ہو گی اور ایسے لوگ بغیر حساب کے پہی جہنم کی آگ میں جھونک دیئے جائیں گے۔



"“میری کرسمس“ کا وِش کرنا انسان کو دین سے ہٹا دیتا ہے جس چیز کا پتہ ہو کہ غلط ہے تو اُس کام کو پھر بھی کیا جائے تو وہ غلطی نہیں بلکہ گناہ بن جاتی ہے۔


سورہ اخلاص میں اللہ تعالی فرماتا ہے!

آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالی ایک ہی ہے (آیت نمبر1)

اللہ تعالی بے نیاز ہے (آیت نمبر2)

نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا (آیت نمبر3)

اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے (آیت نمبر4)
اگر ہمیں اس کتاب کو پڑھ کر بھی عقل نہیں‌ آتی تو ہم کبھی بھی راہِ راست پر نہیں آسکتے۔ انسان صرف بات سمجھا سکتا ہے ہدایت دے نہیں‌سکتا کیونکہ ہدایت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ “اور آپ سب کہہ دیجیئے کہ آپ صرف حکم پہچانے والے ہیں ہدایت دینے والے نہیں‌۔ ہدایت دینے والا میں ہوں‌ جس کو چاہوں ہدایت دوں اور جس کو چاہوں گمراہ کر دوں" (القرآن)


"نوٹ: شرک مذاق ، ہنسی ، طنزیہ یا غصے میں‌کیا جائے یا جان بوجھ کر کیا جائے شرک شرک ہوتا ہے اور اس کی معافی انسان کو کبھی نہیں‌ ملے گی ایسے لوگ بغیر حساب کے جہنم میں داخل کر دیئے جائیں‌ گے۔ خود ، اپنے دوستوں‌ کو ، رشتے داروں کو ، ماں باپ ، بہن بھائیوں کو اس شرک جیسی لعنت سے دور رکھیں۔​
تحریر : ساجد تاج
1636085bpx2t2h4k2.gif
][/CENTER]
 

ساجد

محفلین
:):):)
ہر عید پر مجھے میرے غیر مسلم دوستوں کی طرف سے عید مبارک کے درجنوں پیغامات موصول ہوتے ہیں۔ آپ کی تحریر پڑھنے کے بعد میں ان سے حسد کرنے لگا ہوں کہ وہ صرف دو الفاظ بول کر ہمارے دین میں شامل ہو گئے وہ ہمیں مسلم سمجھ کر یہ کام کرتے رہے اور ہم،،،،،،،،،،،،،،،،،کسی کو کرسمس کی مبارک دے کر پہلے ہی سے کافر ہو چکے تھے۔:D
عجیب مخمصہ ہے۔​
گو واں نہیں،پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں​
کعبہ سے ان بُتوں کو بھی نسبت ہے دُور کی​
-​
گرمی سہی کلام میں، لیکن نہ اس قدر​
کی جس سے بات، اُس نے شکایت ضرور کی​
 

یوسف-2

محفلین
کرسمس سمیت غیر مسلموں کے جملہ مذہبی تہواروں میں مسلمانوں کی شرکت بلا شبہ غلط ہے۔ مسلمانوں کے تہواروں میں کفار کی شرکت سے ان کے ”دین و ایمان“ پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن مسلمان اگر کفار و مشرکین کے تہواروں میں شرکت کریں تو بلا شبہ یہ ایک بندہ مومن کے ایمان کی کمزوری ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے بوجود فتویٰ دیتے وقر حقائق کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ ”میری کرسمس“ کا وہ مطلب ہرگز نہیں ہے، جو اس مضمون میں بیان ہوا ہے۔ گو کہ بہت سے علماء نے ”میری کرسمس“ کہنے کی ممانعت کی ہے۔ اور اسے پسند نہیں کیاہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
"میری" کے معنی ہیں خوش ہونا- اور کرسمس کا مطلب ہے "عیسیٰ(ع) کی پیدائش کا دن"۔ اس پورے جملے کا مطلب ہوا عیسیٰ(ع) کی پیدائش کا دن آپ کو مبارک ہو۔
 

یوسف-2

محفلین
شیخ عبد العزیز بن بازؒ
کسی مسلمان مرد یا عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ نصاریٰ یا یہود یا دیگر کفار کے ساتھ ان کے تہواروں میں شرکت کریں۔۔۔
نہ ان کے تہواروں میں شرکت جائز ہے اور نہ ان کے منانے والوں کے ساتھ اس معاملہ میں کوئی تعاون۔ کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز میں حصہ لینا جائز نہیں، نہ چائے نہ کافی اور کسی برتن کی حد تک تعاون۔
http://www.saaid.net/mktarat/aayadalkoffar/30.htm
 

یوسف-2

محفلین
شیخ محمد بن عثیمینؒ
کفار کو اُن کی عید کرسمس یا ان کے دیگر شعائرِ دینی پر مبارکباد دینا بالاتفاق حرام ہے جیسا کہ ابن قیم نے اپنی کتاب احکام اہل الذمہ میں اس پر اتفاق نقل کیا ہے۔
اگر وہ ہمیں اپنے تہواروں پر مبارکباد دیں تو بھی ہم ان کو جواباً مبارکباد نہیں دیں گے کیونکہ یہ ہماری عیدیں نہیں ہیں اور کیونکہ یہ ایسی عیدیں ہیں جن پر اللہ راضی نہیں ہے، اور خود ان کے دین میں یہ من گھڑت عیدیں ہیں۔
مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ ان مواقع پر کفار کی مشابہت میں تقریبات کریں، یا تحفہ تحائف دیں، یا مٹھائی یا کھانے کھلائیں، یا تعطیل عام کریں۔ کیونکہ نبی ا نے فرمایا ہے: جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے۔
جو شخص ان میں سے کسی بھی فعل کا ارتکاب کرے تو وہ گناہگار ہے، خواہ یہ کام اس نے لحاظ ملاحظہ میں کیا ہو، یا پذیرائی پانے کے لیے، یا کسی کی شرم میں ایسا کر لیا ہو یا کوئی بھی سبب ہو؛ کیونکہ یہ اللہ کے دین میں مداہنت ہے اور کفار کے نفوس کو تقویت دینے اور ان کو اپنے دین پر فخر کا ایک موقع فراہم کا سبب۔
http://www.saaid.net/mktarat/aayadalkoffar/18.htm
 

یوسف-2

محفلین
شیخ عبد اللہ بن جبرینؒ
کرسمس یا نوروز یا مہرجان وغیرہ ایسے ان خانہ ساز تہواروں کو منانا جائز نہیں۔
عیسائی مشرکوں نے اپنے اس تہوار پر جو کھانا تیار کیا ہو اس کا کھانا حرام ہے۔ وہ اپنی اس تقریب میں بلائیں تو اس پر جانا حرام ہے۔ کیونکہ ان کی یہ دعوت قبول کرنا ان کی حوصلہ افزائی میں آتا ہے اور یہ ان کی ان مذہبی خانہ سازیوں کو ایک طرح کا سرٹیفکیٹ دینا ہے۔ جس سے جاہل فریب کھاتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھنے لگتے ہیں کہ وہ لوگ کوئی ایسا غلط کام نہیں کر رہے۔
http://www.saaid.net/mktarat/aayadalkoffar/21.htm
 

یوسف-2

محفلین
مفتی محمد ابراہیمؒ
(سعودی وزیر تجارت کو لکھے گئے ایک مراسلے میں۔ جوکہ ان کے فتاویٰ ج۳ ص ۱۰۵ پر درج ہے)
ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ سال کچھ تاجروں نے ایسے تحائف درآمد کیے ہیں جو نصرانیوں کی عید کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں؛ جن میں کرسمس ٹری بھی شامل تھے۔ اور یہ کہ ہمارے بعض باشندے یہ تحائف خرید خرید کر غیر ملکی عیسائیوں کو ان کی عید پر پیش کرتے رہے ہیں۔
یہ ایک منکر چیز ہے اور ان کے لیے ہرگز روا نہیں تھی۔ ہمارا نہیں خیال کہ آپ اس چیز کی حرمت سے ناواقف ہیں یا اہل علم کے اُس متفق علیہ فتویٰ سے لاعلم ہیں جس کی رو سے کفار و مشرکین و اہل کتاب کے تہواروں میں شرکت حرام ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ آپ اس پر نظر رکھیں گے کہ ملک میں یہ کرسمس تحائف یا اس کے حکم میں جو دیگر چیزیں آتی ہیں اور جوکہ کفار کی عید کے ساتھ مختص ہیں، ملک میں درآمد نہ کی جائیں۔
حكم تهنئة الكفار بأعيادهم ) فتاوى هامة . - ملتقى أهل الحديث
 

یوسف-2

محفلین
شیخ سفر الحوالی
کفار کے تہواروں میں شمولیت کرنا یا اس پر تہنیت دینا، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ یہ خاص اُن کے تہوار ہیں۔۔۔ ان چار صورتوں سے باہر نہیں:
۱۔ محض ایک سماجی لحاظ ملاحظہ ہو؛ ان تہواروں کی تعظیم مقصود نہ ہو اور نہ یہ اعتقاد ہو کہ وہ لوگ کسی صحیح عقیدہ پر ہیں۔ خالی مبارکباد دینے والے شخص پر ایسی صورت کے صادق آنے کا امکان زیادہ ہے بہ نسبت ایسے شخص کے جو پہنچ کر اُن کی تقریب میں شریک ہوتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔ کیونکہ اس سے اُن کے ایک باطل میں آدمی کی شرکت بہرحال ہو گئی ہے۔ نیز یہ ان کے شعائر کی تعظیم کا ایک ذریعہ بنتا ہے اور ان کے دین کو ایک طرح کی سندِ صحت عطا کرنا۔ سلف کی کثیر تعداد نے آیت
وَالَّذِیْنَ لا یَشْہَدُوْنَ الزُوْرَ (الفرقان: 72) کی تفسیر میں اس سے مراد ’’مشرکین کی عیدوں میں موجودگی دکھانا‘‘
ہی مراد لیا ہے۔ نیز نبی ﷺ کا فرمان: إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً (حدیث صحیحین) نہایت واضح دلیل ہے کہ عیدوں اور تہواروں کے معاملہ میں ہر قوم کا اختصاص ہے۔
۲۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس شرکت میں کسی ہوس کو دخل ہو، مثلاً یہ کہ وہاں شراب یا رقص یا عورتوں کا ہجوم دیکھنے کو ملے گا، وغیرہ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرمت میں پہلے والی صورت سے زیادہ سنگین ہے۔
۳۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اس شرکت سے آدمی کا مقصد تقربِ خداوندی ہو، مثلاً یہ کہ عیسیٰ عليہ السلام اللہ کے ایک برگزیدہ رسول تھے لہٰذا میں تو عیسیٰ عليہ السلام کے میلاد میں شرکت کر رہا ہوں؛ جیساکہ بعض لوگ رسول اللہ ﷺ کا میلاد مناتے ہیں۔ اس کا حکم: یہ بدعتِ ضلالت ہوگی۔ یہ اپنی سنگینی میں میلاد منانے سے کہیں بڑھ کر ہے؛ کیونکہ یہ جس تقریب میں شرکت کرتا یا اس کی مبارکباد دیتا ہے اُس کے منانے والے (معاذ اللہ) ’خدا کے بیٹے‘ کی پیدائش کا جشن منا رہے ہیں۔
۴۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ آدمی اُن کے دین کو ہی سرے سے قابل اعتراض نہ جانتا ہو؛ آدمی ان کے شعائر سے ہی راضی ہو اور ان کی عبادت کو ہی درست سمجھتا ہو؛ جیسا کہ ماضی میں یہ نظریہ یوں بیان کیا جاتا تھا کہ ’سب ایک ہی معبود کو پوجتے ہیں بس راستے جدا جدا ہیں‘۔ اور جیسا کہ آج اس نظریہ کو ’وحدتِ ادیان‘ اور ’اخوتِ مذاہب‘ ایسے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جوکہ درحقیقت فری میسن کے دیے ہوئے نعرے ہیں۔۔۔ تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ کفر ہے جوکہ آدمی کو ملت سے خارج کر دیتا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:
’’ وَمَن یَبْتَغِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ‘‘ (آل عمران: 85) ’’اِس اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ ہوگا اور آخرت میں وہ گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا‘‘۔
http://www.saaid.net/mktarat/aayadalkoffar/17.htm
 

ساجدتاج

محفلین
"میری" کے معنی ہیں خوش ہونا- اور کرسمس
کا مطلب ہے "عیسیٰ(ع) کی پیدائش کا دن"۔ اس پورے جملے کا مطلب ہوا عیسیٰ(ع) کی پیدائش کا دن آپ کو مبارک ہو۔

جزاک اللہ خیرا بھائی
ابھی میں یہی الفاظ لکھنے والا تھا مگرآپ نے لکھ دیئے۔لیکن اب مجھے سے جو سوال کیئے گئے ہیں ان کا جواب بھی ڈیٹیل میں دے دوں بھائیوں کو۔

مجھ سے پوچھا گیا کہ میری کرسمس کا مطلب کیا ہے؟
اس کا مطلب تو بھائی میری تحریر کے شروع کے جو الفاظ ہیں کہ "میری کرسمس" کا مطلب اللہ تعالی نے بیٹا نعوذ باللہ۔ واقعی اس کا مطلب یہ نہیں بنتا لیکن آپ نے اس لفظ کی گہرائی کو سمجھا ہی نہیں۔
میری کرسمس کا مطلب اصل میں یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کی پیدائش کا دن یعنی کہ عیسائیوں کے لیے خوشی کا دن۔ جس دن عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے اُسی دن یہ لوگ اپنی عید مناتےہیں کبھی یہ سوچا ہے ہم نے کہ ان کا عقیدہ ہے کیا ؟
عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہےکہ عیسی علیہ السلام نعوذ باللہ نعوذباللہ اللہ تعالی کے بیٹے ہیں جس دن عیسائی لوگ عیسی علیہ السلام کی خوشی کا دن مناتے ہیں مطلب اُس دن یہ بھی مانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس دن بیٹا جنا تھا۔ نعوذ باللہ نعوذ باللہ۔

تو جب ہم کسی کو اس تہوار کی مبارکباد دیتے ہیں یا اُنکی خوشی میں شریک ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اس چیز پر ایگری ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بیٹا جنا اور عیسی علیہ السلام اللہ تعالے بیٹے ہیں۔


" قرآن نے ہمیں جگہ جگہ شرک سے ڈرایا ہے اور شرک کی جتنی اقسام ہو سکتی ہیں، ان کی ہر ممکن وضاحت کر کے اس کے قریب پھٹکنے سے بھی منع کر دیا ہے۔ شرک تو دور کی بات وہ تمام ذرائع جو شرک تک لے جانے کا موجب بن سکتے ہیں، ان ذرائع کو بھی ممنوع قرار دیا ہے۔ جس بات کو میرے بھائی بہت ہلکے پھلکے انداز میں‌لے کر فتویٰ‌عائد کر رہے ہیں‌کہ کرسمس کی مبارکباد دینے میں‌کچھ حرج نہیں۔ انہیں یا تو شرک کی قباحت و شناعت سے واقفیت نہیں، اور یا پھر وہ شریعت کا مزاج پہچاننے سے قاصر ہیں۔ لاریب، مسلمان حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کا بندہ اور اس کا نبی ہی تسلیم کرتے ہیں، لیکن جب آپ ایک کرسچن کو اس کے غلیظ ترین عقیدہ پر تنبیہ کرنے کے بجائے اس کی خوشیوں کو بانٹنا چاہتے ہیں، تو یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مرادف ہے۔ قرآن میں‌اللہ تعالیٰ‌ارشاد فرماتے ہیں:"

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَ۔ٰنُ وَلَدًا ﴿٨٨﴾ لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ﴿٨٩﴾ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ﴿٩٠﴾ أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَ۔ٰنِ وَلَدًا ﴿٩١﴾ وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَ۔ٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ﴿٩٢﴾
""وہ کہتے ہیں رحمن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے سخت بیہودہ بات ہے جو تم گھڑ لائے ہو قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں اس بات پر کہ لوگوں نے رحمن کے لئے اولاد ہونے کا دعوی کیا ہے۔""(سورہ مریم ،آیت نمبر 88تا91)
(بشکریہ شاکر بھائی کتاب و سنت ڈاٹ کام)

اگر ہم اب بھی مزید تبصرہ کریں تو میرے لیے بہت حیرت کی بات ہو گی۔ قرآن کی آیت پڑھ کر ہمارے ذہن میں ایک بات آتی ہے واقعی جب ہم عیسائیوں کو مبارکباد دیتے ہیں تو ساتھ ساتھ اس چیز پر بھی ایگری ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بیٹا جنا۔ عیسائی خوشیاں اس دن اس لیے مناتے ہیں کیونکہ اُس دن عیسی السلام پیدا ہوئے اور اُن کا عقیدہ کہ اللہ تعالی نے اُس دن بیٹا جنا۔

اللہ تعالی ہمیں صحیح سکیھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

ساجدتاج

محفلین
شیخ سفر الحوالی​
کفار کے تہواروں میں شمولیت کرنا یا اس پر تہنیت دینا، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ یہ خاص اُن کے تہوار ہیں۔۔۔ ان چار صورتوں سے باہر نہیں:​
۱۔ محض ایک سماجی لحاظ ملاحظہ ہو؛ ان تہواروں کی تعظیم مقصود نہ ہو اور نہ یہ اعتقاد ہو کہ وہ لوگ کسی صحیح عقیدہ پر ہیں۔ خالی مبارکباد دینے والے شخص پر ایسی صورت کے صادق آنے کا امکان زیادہ ہے بہ نسبت ایسے شخص کے جو پہنچ کر اُن کی تقریب میں شریک ہوتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔ کیونکہ اس سے اُن کے ایک باطل میں آدمی کی شرکت بہرحال ہو گئی ہے۔ نیز یہ ان کے شعائر کی تعظیم کا ایک ذریعہ بنتا ہے اور ان کے دین کو ایک طرح کی سندِ صحت عطا کرنا۔ سلف کی کثیر تعداد نے آیت​
وَالَّذِیْنَ لا یَشْہَدُوْنَ الزُوْرَ (الفرقان: 72) کی تفسیر میں اس سے مراد ’’مشرکین کی عیدوں میں موجودگی دکھانا‘‘​
ہی مراد لیا ہے۔ نیز نبی ﷺ کا فرمان: إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً (حدیث صحیحین) نہایت واضح دلیل ہے کہ عیدوں اور تہواروں کے معاملہ میں ہر قوم کا اختصاص ہے۔​
۲۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس شرکت میں کسی ہوس کو دخل ہو، مثلاً یہ کہ وہاں شراب یا رقص یا عورتوں کا ہجوم دیکھنے کو ملے گا، وغیرہ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرمت میں پہلے والی صورت سے زیادہ سنگین ہے۔​
۳۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اس شرکت سے آدمی کا مقصد تقربِ خداوندی ہو، مثلاً یہ کہ عیسیٰ عليہ السلام اللہ کے ایک برگزیدہ رسول تھے لہٰذا میں تو عیسیٰ عليہ السلام کے میلاد میں شرکت کر رہا ہوں؛ جیساکہ بعض لوگ رسول اللہ ﷺ کا میلاد مناتے ہیں۔ اس کا حکم: یہ بدعتِ ضلالت ہوگی۔ یہ اپنی سنگینی میں میلاد منانے سے کہیں بڑھ کر ہے؛ کیونکہ یہ جس تقریب میں شرکت کرتا یا اس کی مبارکباد دیتا ہے اُس کے منانے والے (معاذ اللہ) ’خدا کے بیٹے‘ کی پیدائش کا جشن منا رہے ہیں۔​
۴۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ آدمی اُن کے دین کو ہی سرے سے قابل اعتراض نہ جانتا ہو؛ آدمی ان کے شعائر سے ہی راضی ہو اور ان کی عبادت کو ہی درست سمجھتا ہو؛ جیسا کہ ماضی میں یہ نظریہ یوں بیان کیا جاتا تھا کہ ’سب ایک ہی معبود کو پوجتے ہیں بس راستے جدا جدا ہیں‘۔ اور جیسا کہ آج اس نظریہ کو ’وحدتِ ادیان‘ اور ’اخوتِ مذاہب‘ ایسے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جوکہ درحقیقت فری میسن کے دیے ہوئے نعرے ہیں۔۔۔ تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ کفر ہے جوکہ آدمی کو ملت سے خارج کر دیتا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:​
’’ وَمَن یَبْتَغِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ‘‘ (آل عمران: 85) ’’اِس اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ ہوگا اور آخرت میں وہ گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا‘‘۔​

جزاک اللہ خیرا بہت اچھی بات شیئر کی اور دلیل کے ساتھ بھی ۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ آپ اسی ٹوپک پر ایک بار پہلے بھی بات ہو چُکی ہے
 

سید ذیشان

محفلین
جزاک اللہ خیرا بھائی
ا
میری کرسمس کا مطلب اصل میں یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کی پیدائش کا دن یعنی کہ عیسائیوں کے لیے خوشی کا دن۔ جس دن عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے اُسی دن یہ لوگ اپنی عید مناتےہیں کبھی یہ سوچا ہے ہم نے کہ ان کا عقیدہ ہے کیا ؟
جس دن عیسیٰ(ع) پیدا ہوئے وہ دن مسلمانوں کے لئے بھی اتنی ہی خوشی کا ہے جتنا کہ عیسائیوں کے لئے۔
ساری بات نیت پر آ جاتی ہے۔ اگر آپ کی نیت یہ ہے کہ آپ عیسائیوں کے عقیدے سے متفق ہیں اور اس لئے ان کو وش کر رہے ہیں (جو کہ مسلمان کی نیت نہیں ہو سکتی) تو یہ الگ بات ہے لیکن اگر آپ کی نیت یہ ہے کہ انسان ہونے کے ناطے آپ دوسرے انسان سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں (اور حضور(ص) کو اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا)۔ اور یہ ہر اس شخص کی نیت ہوتی ہے جو کہ وش کرتا ہے۔ اس میں شرک وغیرہ کو گھسانا کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔

PS اپریل میں کرسمس کی گفتگو کہاں سے آ گئی؟
 

ساجدتاج

محفلین
جس دن عیسیٰ(ع) پیدا ہوئے وہ دن مسلمانوں کے لئے بھی اتنی ہی خوشی کا ہے جتنا کہ عیسائیوں کے لئے۔
ساری بات نیت پر آ جاتی ہے۔ اگر آپ کی نیت یہ ہے کہ آپ عیسائیوں کے عقیدے سے متفق ہیں اور اس لئے ان کو وش کر رہے ہیں (جو کہ مسلمان کی نیت نہیں ہو سکتی) تو یہ الگ بات ہے لیکن اگر آپ کی نیت یہ ہے کہ انسان ہونے کے ناطے آپ دوسرے انسان سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں (اور حضور(ص) کو اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا)۔ اور یہ ہر اس شخص کی نیت ہوتی ہے جو کہ وش کرتا ہے۔ اس میں شرک وغیرہ کو گھسانا کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔

PS اپریل میں کرسمس کی گفتگو کہاں سے آ گئی؟

جی بھائی مسلمانوں کے لیے بھی خوشی کا دن ہے۔ تو بھائی پھر ہمیں ہر پیغمبر کی پیدائش کا دن خوشی سے منانا چاہیے صرف عیسی علیہ السلام کا ہی کیوں؟
بھائی دوسرے انسان سے خوش اخلاقی سے پیش آنے کا کیا مطلب ہے ؟ کہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ اُن کے تہواروں کو منایا جائے کیونکہ ہمیں خوش اخلاقی کی نصیحت کی گئی ہے۔ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آتے تھے یہاں تک کہ دُشمنوں کے ساتھ لیکن کبھی اُن کے تہواروں میں شریک ہوئے یا اُن کی مجلسوں پر گئے ؟
بھائی حیرت ہوئی آپ کی بات پڑھ کر یہ والی "اور یہ ہر اس شخص کی نیت ہوتی ہے جو کہ وش کرتا ہے۔ اس میں شرک وغیرہ کو گھسانا کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔"
آپ نے یہ لائن غور سے نہیں پڑھیں
" قرآن نے ہمیں جگہ جگہ شرک سے ڈرایا ہے اور شرک کی جتنی اقسام ہو سکتی ہیں، ان کی ہر ممکن وضاحت کر کے اس کے قریب پھٹکنے سے بھی منع کر دیا ہے۔ شرک تو دور کی بات وہ تمام ذرائع جو شرک تک لے جانے کا موجب بن سکتے ہیں، ان ذرائع کو بھی ممنوع قرار دیا ہے۔ جس بات کو میرے بھائی بہت ہلکے پھلکے انداز میں‌لے کر فتویٰ‌عائد کر رہے ہیں‌کہ کرسمس کی مبارکباد دینے میں‌کچھ حرج نہیں۔ انہیں یا تو شرک کی قباحت و شناعت سے واقفیت نہیں، اور یا پھر وہ شریعت کا مزاج پہچاننے سے قاصر ہیں۔ لاریب، مسلمان حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کا بندہ اور اس کا نبی ہی تسلیم کرتے ہیں، لیکن جب آپ ایک کرسچن کو اس کے ۔۔۔۔۔۔۔ عقیدہ پر تنبیہ کرنے کے بجائے اس کی خوشیوں کو بانٹنا چاہتے ہیں، تو یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مرادف ہے"

(نامناسب الفاظ حذف کیے۔ منتظم)
 

سید ذیشان

محفلین
جی بھائی مسلمانوں کے لیے بھی خوشی کا دن ہے۔ تو بھائی پھر ہمیں ہر پیغمبر کی پیدائش کا دن خوشی سے منانا چاہیے صرف عیسی علیہ السلام کا ہی کیوں؟
بھائی دوسرے انسان سے خوش اخلاقی سے پیش آنے کا کیا مطلب ہے ؟ کہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ اُن کے تہواروں کو منایا جائے کیونکہ ہمیں خوش اخلاقی کی نصیحت کی گئی ہے۔ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آتے تھے یہاں تک کہ دُشمنوں کے ساتھ لیکن کبھی اُن کے تہواروں میں شریک ہوئے یا اُن کی مجلسوں پر گئے ؟
کسی کو وش کرنے میں اور تہوار میں جانے میں ذمین آسمان کا فرق ہے۔ اور یہ عیسائی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مسلمان عیسیٰ(ع) کو خدا کا بیٹا نہیں سمجھتے۔ اور اللہ کو بھی معلوم ہے آپ کس نیت سے وش کر رہے ہیں۔
بھائی حیرت ہوئی آپ کی بات پڑھ کر یہ والی "اور یہ ہر اس شخص کی نیت ہوتی ہے جو کہ وش کرتا ہے۔ اس میں شرک وغیرہ کو گھسانا کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔"
آپ نے یہ لائن غور سے نہیں پڑھیں
" قرآن نے ہمیں جگہ جگہ شرک سے ڈرایا ہے اور شرک کی جتنی اقسام ہو سکتی ہیں، ان کی ہر ممکن وضاحت کر کے اس کے قریب پھٹکنے سے بھی منع کر دیا ہے۔ شرک تو دور کی بات وہ تمام ذرائع جو شرک تک لے جانے کا موجب بن سکتے ہیں، ان ذرائع کو بھی ممنوع قرار دیا ہے۔ جس بات کو میرے بھائی بہت ہلکے پھلکے انداز میں‌لے کر فتویٰ‌عائد کر رہے ہیں‌کہ کرسمس کی مبارکباد دینے میں‌کچھ حرج نہیں۔ انہیں یا تو شرک کی قباحت و شناعت سے واقفیت نہیں، اور یا پھر وہ شریعت کا مزاج پہچاننے سے قاصر ہیں۔ لاریب، مسلمان حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کا بندہ اور اس کا نبی ہی تسلیم کرتے ہیں، لیکن جب آپ ایک کرسچن کو اس کے غلیظ ترین عقیدہ پر تنبیہ کرنے کے بجائے اس کی خوشیوں کو بانٹنا چاہتے ہیں، تو یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مرادف ہے"
شرک کی اقسام کا میری کرسمس کہنے سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ ان کا آپس میں تعلق جوڑنا خیلات کے منفی اور غیر عقلی استعمال کی دلیل ہے۔
 
ان كى ولادت كى يہ تاريخ مستند ہے ؟ :?:
حضور صلى الله عليہ وسلم نے جزيرة العرب كے نصارى كو كتنى بار يہ مبارك باد دى ؟
حسن اخلاق كے ليے يہ ضرورى ہے؟
خود سوچيے ۔:!:
جس دن عیسیٰ(ع) پیدا ہوئے وہ دن مسلمانوں کے لئے بھی اتنی ہی خوشی کا ہے جتنا کہ عیسائیوں کے لئے۔
ساری بات نیت پر آ جاتی ہے۔ اگر آپ کی نیت یہ ہے کہ آپ عیسائیوں کے عقیدے سے متفق ہیں اور اس لئے ان کو وش کر رہے ہیں (جو کہ مسلمان کی نیت نہیں ہو سکتی) تو یہ الگ بات ہے لیکن اگر آپ کی نیت یہ ہے کہ انسان ہونے کے ناطے آپ دوسرے انسان سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں (اور حضور(ص) کو اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا)۔ اور یہ ہر اس شخص کی نیت ہوتی ہے جو کہ وش کرتا ہے۔ اس میں شرک وغیرہ کو گھسانا کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔

PS اپریل میں کرسمس کی گفتگو کہاں سے آ گئی؟
 

شمشاد

لائبریرین
فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ ﴿٢١ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ ﴿٢٢ إِلَّا مَن تَوَلَّىٰ وَكَفَرَ ﴿٢٣ فَيُعَذِّبُهُ اللَّ۔هُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ ﴿٢٤ إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ ﴿٢٥ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُم ﴿٢٦﴾ (سورۃ الغاشیہ)

یہاں تک ہی رہیے گا۔ کہ اللہ تعالٰی کا بھی یہی حکم ہے۔
آگے پڑھنے اور سُننے والوں کو اپنی صوابدید پر چھوڑ دیجیے۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
1636085bpx2t2h4k2.gif
14-3.png
کُفریہ کلمات (میری کرسمس)
14-3.png
جس کو بولنے سے ہم دینِ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں‌​
ان سے بچیں خاص کر کر اس لفظ‌ کو کہنے سے اور وِش کرنے سے روکیں “میری کرسمس“ نعوذباللہ اس کا مطلب ہے کہ “اللہ نے بیٹا جنا “
یہ شرک ہے اس بچیں اور اپنے مسلمان بہن بھائیوں‌ اور دوستوں کو اس شرک والی لعنت سے بچائیں۔ عام روٹین میں اگر آپ دیکھیں تو لوگ ہنسی خوشی ، مذاق میں یا طنزیہ طور پر یہ الفاظ دوسروں کو کہتے رہتے ہیں جن میں آپ کے دوست ، دُشمن ، رشتے دار ، گھر والے ، سب ہی آجاتے ہیں ۔ اُس وقت ہم ایسے الفاظ منہ سے نکال کر دوسروں کو ہنسا رہے ہوتے ہیں لیکن ایک بات کلیئر کر دوں کہ مذاق ہی مذاق میں وہ کُفر کر رہے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھرا رہے ہوتے ہیں۔​
میں حیران ہوں آج کل کی جنریشن کو دیکھ کر وہ کس طرح اس دن کو منا رہے ہیں جو لوگ دین کو نہیں سمجھتے ہیں یا جنہیں اللہ تعالی کا خوف نہیں یا جنہیں صرف دُنیا اچھی لگتی ہے یا جنہیں اللہ تعالی سے زیادہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ پیرو فقیروں کی بات پر یقین ہے میں ایسے لوگوں کی بات نہیں کرتا جو گمراہ ہو چکے ہیں۔ میں اُن لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو سب جانتے ہوئے بھی غلطیاں کرتے ہیں۔ اللہ تعالی سب کچھ معاف کر سکتا ہے مگر شرک نہیں ، شرک کا مطلب یہی ہے کہ آپ اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو بھی خُدا مانتے ہیں نعوذباللہ ، یا لوگ اس بات کا یقین کر لیتے ہیں کہ اُن کے پیر فقیر اُن کی مدد کو آجائیں گے اور اُن کو مشکل سے نکال دیں گے یاد رہے ایسے لوگوں کی معافی کبھی نہیں‌‌ ہو گی اور ایسے لوگ بغیر حساب کے پہی جہنم کی آگ میں جھونک دیئے جائیں گے۔
"“میری کرسمس“ کا وِش کرنا انسان کو دین سے ہٹا دیتا ہے جس چیز کا پتہ ہو کہ غلط ہے تو اُس کام کو پھر بھی کیا جائے تو وہ غلطی نہیں بلکہ گناہ بن جاتی ہے۔​
سورہ اخلاص میں اللہ تعالی فرماتا ہے!
آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالی ایک ہی ہے (آیت نمبر1)
اللہ تعالی بے نیاز ہے (آیت نمبر2)
نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا (آیت نمبر3)
اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے (آیت نمبر4)
اگر ہمیں اس کتاب کو پڑھ کر بھی عقل نہیں‌ آتی تو ہم کبھی بھی راہِ راست پر نہیں آسکتے۔ انسان صرف بات سمجھا سکتا ہے ہدایت دے نہیں‌سکتا کیونکہ ہدایت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ “اور آپ سب کہہ دیجیئے کہ آپ صرف حکم پہچانے والے ہیں ہدایت دینے والے نہیں‌۔ ہدایت دینے والا میں ہوں‌ جس کو چاہوں ہدایت دوں اور جس کو چاہوں گمراہ کر دوں" (القرآن)​
"نوٹ: شرک مذاق ، ہنسی ، طنزیہ یا غصے میں‌کیا جائے یا جان بوجھ کر کیا جائے شرک شرک ہوتا ہے اور اس کی معافی انسان کو کبھی نہیں‌ ملے گی ایسے لوگ بغیر حساب کے جہنم میں داخل کر دیئے جائیں‌ گے۔ خود ، اپنے دوستوں‌ کو ، رشتے داروں کو ، ماں باپ ، بہن بھائیوں کو اس شرک جیسی لعنت سے دور رکھیں۔​
تحریر : ساجد تاج
1636085bpx2t2h4k2.gif
][/CENTER]
آپ کی سب باتوں سے اتفاق ہے لیکن سرخ کئے ہوئے جملے ہضم نہیں ہو رہے کیا ان کی وضاحت کرنا پسند کریں گے۔ کیا آپ کسی خاص مسلک کی نمائندگی نہیں کر رہے ؟ شرک کے نام پر اپنے کسی خاص مسلک کا پرچار تو مقصود نہیں۔ ورنہ بات کرسمس سے چلا کر پیروں فقیروں پر لے جانے کی منطق کیا ہے؟؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top